ٹیگ کے محفوظات: آیات

سارے مرے منصوبے تھے اک بات کی حد تک

صد حیف رہے خواب و خیالات کی حد تک
سارے مرے منصوبے تھے اک بات کی حد تک
یہ شہر تمہارا مری بستی کے مقابل
اچھا ہے مگر صِرف عمارات کی حد تک
کر سکتے تماشا تو زمانے کو دکھاتے
لفظوں کے کمالات کرامات کی حد تک
آوارہ خرامی کی بھلا اب کسے فرصت
ہوتی ہے ملاقات ملاقات کی حد تک
خوشیوں میں تو کرتا ہوں شریک اوروں کو لیکن
رہتے ہیں مرے رنج مری ذات کی حد تک
ہوتے ہیں عموماَ یہ مِری دھُوپ کے دشمن
بادل مجھے خوش آتے ہیں برسات کی حد تک
دن دوگنی شب چوگنی کی ہم نے ترقی
کچھ راہنماؤں کے بیانات کی حد تک
افسوس کہ صاحب نے کیا اُن پہ بھروسہ
تھی جن کی وفاداری مراعات کی حد تک
اب حِکمتِ قرآن شب و روز میں اپنے
باقی ہے فقط قرأتِ آیات کی حد تک
ہر گام پہ تھا راہنما دین جو اپنا
محدود ہُوا صِرف عبادات کی حد تک
ڈرتا ہوں میں واعظ سے کہ اقبالؔ نہیں ہوں
شکوہ مرا ہوتا ہے مناجات کی حد تک
ہر چند مہذب کوئی ہم سا نہیں باصرؔ
بہکیں تو چلے جائیں خرافات کی حد تک
باصر کاظمی

چلتی ہے کتنے پہر کسی ذات کی گھڑی

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 460
کچھ کہہ رہی ہے مجھ سے ترے ہاتھ کی گھڑی
چلتی ہے کتنے پہر کسی ذات کی گھڑی
لیکن میں روک سکتانہیں رات کی گھڑی
دیوار پر لگادی ہے اوقات کی گھڑی
باہر سے لوٹ جائے وہ مہتاب کی کرن
اب ختم ہوچکی ہے ملاقات کی گھڑی
اچھی ہیں یار کی متلون مزاجیاں
ممکن ہے پھر وہ آئے مدارات کی گھڑی
بہتا ہے میرے سینے میں اک چشمۂ دعا
ٹھہری ہوئی ہے مجھ میں مناجات کی گھڑی
یہ اور بات دیکھ کے پہچانتے نہیں
آتی ہے روز، روزِ مکافات کی گھڑی
دیکھو ازل نژاد ہے چلتی ہوئی ہوا
سمجھو ابد خرام ہے آیات کی گھڑی
اب ختم ہورہی ہے مشقت نصیب کی
چلنے پہ آگئی ہے حوالات کی گھڑی
گھڑیال مسجدوں کے بتاتے ہیں اور وقت
کچھ اور کہہ رہی ہے سماوات کی گھڑی
اعمال دیکھ کر مرے آقائے لوح نے
امت سے چھین لی ہے فتوحات کی گھڑی
منصور بہہ رہا ہے مرے وقت سے لہو
چلتی سدا ہے زخم میں حالات کی گھڑی
منصور آفاق

بس بدلتے نمازوں کے اوقات ہیں

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 358
وقت ساکت ہے ،جامد یہ حالات ہیں
بس بدلتے نمازوں کے اوقات ہیں
میری رائے پہ اے زندگی رحم کر
تیرے بارے میں اچھے خیالات ہیں
دے رہاہے مرا چہرہ سب کے جواب
تیری آنکھوں میں جتنے سوالات ہیں
پاؤں آگے بڑھا ، دار پر وار کر
موت کے کھیل میں ہم ترے ساتھ ہیں
گھاس کھاتے رہو بم بناتے رہو
اپنی باقی ابھی کچھ فتوحات ہیں
تیری زلفوں کی کرنیں تلاوت کریں
تیرے چہرے کی آنکھوں میں آیات ہیں
آتے جاتے ہیں اکثرشبِ تار میں
یہ ستارے تو اپنے مضافات ہیں
غم ہے تنہائی ہے ، ہجر ہے رات ہے
ہم پہ منصور کیا کیا عنایات ہیں
منصور آفاق