صد حیف رہے خواب و خیالات کی حد تک
سارے مرے منصوبے تھے اک بات کی حد تک
یہ شہر تمہارا مری بستی کے مقابل
اچھا ہے مگر صِرف عمارات کی حد تک
کر سکتے تماشا تو زمانے کو دکھاتے
لفظوں کے کمالات کرامات کی حد تک
آوارہ خرامی کی بھلا اب کسے فرصت
ہوتی ہے ملاقات ملاقات کی حد تک
خوشیوں میں تو کرتا ہوں شریک اوروں کو لیکن
رہتے ہیں مرے رنج مری ذات کی حد تک
ہوتے ہیں عموماَ یہ مِری دھُوپ کے دشمن
بادل مجھے خوش آتے ہیں برسات کی حد تک
دن دوگنی شب چوگنی کی ہم نے ترقی
کچھ راہنماؤں کے بیانات کی حد تک
افسوس کہ صاحب نے کیا اُن پہ بھروسہ
تھی جن کی وفاداری مراعات کی حد تک
اب حِکمتِ قرآن شب و روز میں اپنے
باقی ہے فقط قرأتِ آیات کی حد تک
ہر گام پہ تھا راہنما دین جو اپنا
محدود ہُوا صِرف عبادات کی حد تک
ڈرتا ہوں میں واعظ سے کہ اقبالؔ نہیں ہوں
شکوہ مرا ہوتا ہے مناجات کی حد تک
ہر چند مہذب کوئی ہم سا نہیں باصرؔ
بہکیں تو چلے جائیں خرافات کی حد تک
باصر کاظمی