ٹیگ کے محفوظات: آگہی

بولتا کوئی کچھ بھی نہیں ہے مگر، ایک زنجیرِ در، خامشی اور میں

جاگتے ہیں تری یاد میں رات بھر، ایک سنسان گھر، چاندنی اور میں
بولتا کوئی کچھ بھی نہیں ہے مگر، ایک زنجیرِ در، خامشی اور میں
اک اذیّت میں رہتے ہوئے مستقل، ایک لمحے کو غافل نہیں ذہن و دل
کچھ سوالات ہیں ان کے پیشِ نظر، انتہا کی خبر، آگہی اور میں
تیری نسبت سے اب یاد کچھ بھی نہیں، اُس تعلق کی روداد کچھ بھی نہیں
اب جو سوچوں تو بس یاد ہے اس قدر، ایک پہلی نظر، تشنگی اور میں
کس مسافت میں ہوں دیکھ میرے خدا، ایسی حالت میں تُو میری ہمت بندھا
یہ کڑی رہ گزر، رئگانی کا ڈر،مضمحل بال و پر، بے بسی اور میں
اُس کو پانے کی اب جستجو بھی نہیں، جستجو کیا کریں آرزو بھی نہیں
شوقِ آوارگی بول جائیں کدھر، ہو گئے در بہ در، زندگی اور میں
لمحہ لمحہ اجڑتا ہوا شہرِ جاں، لحظہ لحظہ ہوئے جا رہے ہیں دھواں
پھول پتّے شجر، منتظر چشمِ تر، رات کا یہ پہر، روشنی اور میں
گفتگو کا بہانہ بھی کم رہ گیا، رشتۂ لفظ و معنی بھی کم رہ گیا
ہے یقینا کسی کی دعا کا اثر، آج زندہ ہیں گر، شاعری اور میں
عرفان ستار

وہاں بھی پُرسِشِ اَفکار و آگَہی ہو گی

عقوبَتوں میں وہاں بھی نہ کچھ کمی ہو گی
وہاں بھی پُرسِشِ اَفکار و آگَہی ہو گی
عقیدَتوں کا سَفَر ہو گا اِختتام پِذیر
خیال و خواب کی دُنیا بِکھَر رَہی ہو گی
فرشتے حکمِ مشیّت سُنا رہے ہوں گے
اُدھَر حقائق اِدھَر خُوش عقیدَگی ہو گی
کھُلے گا حَشر میں سب کی عقیدَتوں کا بھَرَم
ہجومِ یاس میں ہر سمت خامشی ہو گی
نہ جانے حَشر میں اِنصاف کِس طَرَح ہو گا
اَگر وہاں بھی یہاں سی کَہا سُنی ہو گی
حجابِ حُسن ہی ہو گا نہ عشق کا اِصرار
وہاں ہر ایک کو اپنی پَڑی ہوئی ہو گی
سُنا ہے ہم سے محبّت کسی کو تھی ضامنؔ
زبانِ خلق اَگر ہے تو پھر رہی ہو گی
ضامن جعفری

کچھ اختیار کے کچھ بے بَسی کے قصّے ہیں

سزا جزا کے ہیں یا بَندَگی کے قصّے ہیں
کچھ اختیار کے کچھ بے بَسی کے قصّے ہیں
طِلِسم خانہِ تخلیق اَزَل سے تا بہ اَبَد
سب، عشقِ ذات کے اَور آزَری کے قصّے ہیں
یہ جَبرِ باد یہ ذَرّوَں کی دَشت پیمائی
یہ سب مری تری آوارَگی کے قصّے ہیں
مآلِ گُل کی و پژمردگیِ گُل کی قَسَم
سکوتِ غنچہ میں لب بستگی کے قصّے ہیں
کتابِ عشق میں بابِ اَنا نہیں کوئی
دلوں پہ زخم لبوں پر ہنسی کے قصّے ہیں
سکونِ جہل کو دیکھا تَو یہ ہُوا معلوم
کہ سنگ و خشت فقط آگَہی کے قصّے ہیں
دُکھی دِلَوں کی سُنیِں جب حکایتیں ضامنؔ
مجھے لگا یہ مری زِندَگی کے قصّے ہیں
ضامن جعفری

جس کا ڈر تھا یہ وہ گھڑی ہے میاں

دل لگی، دل کو لگ گئی ہے میاں
جس کا ڈر تھا یہ وہ گھڑی ہے میاں
لوگ کیوں اِس قَدَر سکون سے ہیں ؟
بے حِسی ہے کہ بے رُخی ہے میاں؟
آ رہی ہے تپش مِرے دِل تَک
کیا کہیِں آگ لگ گئی ہے میاں ؟
ہنس رہے ہیں تمام دیوانے
جانے غفلت کہ آگَہی ہے میاں
حادثے نقش ہونا چاہتے ہیں
میری دہلیز دیکھ لی ہے میاں
ڈھونڈتا پھِر رہا ہے دشمن کو
جبکہ دشمن خود آدمی ہے میاں
ضامنؔ! اَللہ دے شفا تُم کو
تُم کو تَو کَربِ آگہی ہے میاں
سہل ہوتا تَو کہہ چکے ہوتے
جیسی بھی ہے گذر رہی ہے میاں
گُل کبھی ہو گیا تھا ایک چراغ
آج تک اُس کی روشنی ہے میاں
اِس مَرَض کا علاج کیسے ہو؟
ہر طرف ایک اَبتَری ہے میاں !
کوچہِ حُسن تَو نہیں یہ جگہ
دیکھی بھالی سی لگ رہی ہے میاں
کوئی پہچان جائے گا ضامنؔ
چُپ رہو یہ وہی گَلی ہے میاں
ضامن جعفری

یہ ندی بعد مدت کچھ بہی تو

کہانی آنسوؤں نے کچھ کہی تو
یہ ندی بعد مدت کچھ بہی تو
کہا ہم نے کہ ہو تم بے مروت
کہا ہم بے مروت ہی سہی تو
تری ہی نذر کرنے کو ہے یہ جاں
اگر اغیار سے کچھ بچ رہی تو
ہمیں محفوظ کر رکھا ہے جس نے
یہی دیوار جب سر پر ڈہی تو
تمہاری بات سے میں متفق ہوں
ابھی میں کہہ رہا تھا کچھ یہی تو
جہالت ہی سے بچ جاؤ تو جانیں
بہت مشکل ہے باصرِؔ آگہی تو
باصر کاظمی

بولتا کوئی کچھ بھی نہیں ہے مگر، ایک زنجیرِ در، خامشی اور میں

عرفان ستار ۔ غزل نمبر 37
جاگتے ہیں تری یاد میں رات بھر، ایک سنسان گھر، چاندنی اور میں
بولتا کوئی کچھ بھی نہیں ہے مگر، ایک زنجیرِ در، خامشی اور میں
اک اذیّت میں رہتے ہوئے مستقل، ایک لمحے کو غافل نہیں ذہن و دل
کچھ سوالات ہیں ان کے پیشِ نظر، انتہا کی خبر، آگہی اور میں
تیری نسبت سے اب یاد کچھ بھی نہیں، اُس تعلق کی روداد کچھ بھی نہیں
اب جو سوچوں تو بس یاد ہے اس قدر، ایک پہلی نظر، تشنگی اور میں
کس مسافت میں ہوں دیکھ میرے خدا، ایسی حالت میں تُو میری ہمت بندھا
یہ کڑی رہ گزر، رئگانی کا ڈر،مضمحل بال و پر، بے بسی اور میں
اُس کو پانے کی اب جستجو بھی نہیں، جستجو کیا کریں آرزو بھی نہیں
شوقِ آوارگی بول جائیں کدھر، ہو گئے در بہ در، زندگی اور میں
لمحہ لمحہ اجڑتا ہوا شہرِ جاں، لحظہ لحظہ ہوئے جا رہے ہیں دھواں
پھول پتّے شجر، منتظر چشمِ تر، رات کا یہ پہر، روشنی اور میں
گفتگو کا بہانہ بھی کم رہ گیا، رشتۂ لفظ و معنی بھی کم رہ گیا
ہے یقینا کسی کی دعا کا اثر، آج زندہ ہیں گر، شاعری اور میں
عرفان ستار