ٹیگ کے محفوظات: آنسو

اک نئی آس کا پہلو نکلا

یاس میں جب کبھی آنسو نکلا
اک نئی آس کا پہلو نکلا
لے اُڑی سبزۂ خود رو کی مہک
پھر تری یاد کا پہلو نکلا
میٹھی بولی میں پپیہے بولے
گنگناتا ہوا جب تو نکلا
آئیں ساون کی اندھیری راتیں
کہیں تارا کہیں جگنو نکلا
نئے مضمون سجھاتی ہے صبا
کیا ادھر سے وہ سمن بو نکلا
پاؤں چلنے لگی جلتی ہوئی ریت
دشت سے جب کوئی آہو نکلا
کئی دن رات سفر میں گزرے
آج تو چاند لبِ جو نکلا
طاقِ میخانہ میں چاہی تھی اماں
وہ بھی تیرا خمِ ابرو نکلا
اہلِ دل سیرِ چمن سے بھی گئے
عکسِ گل سایۂ گیسو نکلا
واقعہ یہ ہے کہ بدنام ہوئے
بات اتنی تھی کہ آنسو نکلا
ناصر کاظمی

کِس کو ڈھونڈ رہا ہے تو

ویرانوں میں اے جگنو
کِس کو ڈھونڈ رہا ہے تو
اُن بے معنی باتوں کے
اب کیا کیا نکلے پہلو
خون جلایا ساری رات
پائے مٹھی بھر آنسو
کتنی تازہ ہے اب تک
بیتے لمحوں کی خوشبو
مدت میں جا کر پایا
تیری یادوں پر قابو
باصرِؔ اتنے غموں کے ساتھ
کیسے خوش رہتا ہے تو
باصر کاظمی

برات عاشقاں بر شاخ آہو

دیوان ششم غزل 1866
لکھے ہے کچھ تو کج کر چشم و ابرو
برات عاشقاں بر شاخ آہو
گیا وہ ساتھ سوتے لے کے کروٹ
لگا بستر سے پھر اپنا نہ پہلو
اڑے ہے خاک سی سارے چمن میں
پھرا ہے آہ کس کا واں سے گل رو
جدھر پھرتے تھے چنتے پھول ہنستے
ادھر ٹپکے ہیں اب تک میرے آنسو
جدا ہوتے ہی گل خنداں ہوا میر
کیا تھا اس کا گل تکیہ جو بازو
میر تقی میر

لے گئے پیش فلک اس مہ کا ایسا رو کہاں

دیوان دوم غزل 888
گر کوئی اعمیٰ کہے کچھ پر کہاں وہ تو کہاں
لے گئے پیش فلک اس مہ کا ایسا رو کہاں
گل کو کیا نسبت ہے تجھ سے میں نہ مانوں زینہار
رنگ اگر بالفرض تیرا سا ہوا یہ بو کہاں
عشق لاتا ہے بروے کار مجنوں سا کبھو
بید بہتیرے کھڑے ہیں وے پریشاں مو کہاں
دیکھیاں کجیاں کمانوں کی بھی خم محراب کے
پر دلوں کو کھینچتے ہیں جیسے وے ابرو کہاں
سنبل آپھی آپ پیچ و تاب یوں کھایا کرے
یار کی سی زلف کے وے حلقہ حلقہ مو کہاں
آگے یہ آنکھیں گلے کی ہار ہی رہتی تھیں روز
اب جگر میں خوں نہیں وے سہرے سے آنسو کہاں
میر سچ کہتا تھا جنت ہو نصیب اس کے تئیں
حور کا چہرہ کہاں اس کا رخ نیکو کہاں
میر تقی میر

لفظ کے در پر جب آئے ہم سادھو چلتے چلتے

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 523
رک گئے پیر فرید اور وارث باہو چلتے چلتے
لفظ کے در پر جب آئے ہم سادھو چلتے چلتے
یاد تھکن ہے ایک سڑک کی، یاد ہے دکھ کا رستہ
بیٹھ گیا تھا میرے کاندھوں پر تُو چلتے چلتے
تیرا میرا نام بھی شاید لافانی کر جائے
برگد کے مضبوط تنے پر چاقو چلتے چلتے
وار قیامت خیز ہوئے دو دھاری تلواروں کے
رخساروں کو چیر گئے ہیں آنسو چلتے چلتے
ایک محل کے بند کواڑوں سے منصور نکل کر
میرے صحن تلک آئی ہے خوشبو چلتے چلتے
منصور آفاق

نگر زنبیلِ ظلمت رُو میں محو استراحت ہیں

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 360
طلسمِ مرگ کے جادومیں محوِ استراحت ہیں
نگر زنبیلِ ظلمت رُو میں محو استراحت ہیں
شبیں چنگاریوں کے بستروں میں خواب بنتی ہیں
اندھیرے راکھ کے پہلو میں محوِ استراحت ہیں
خموشی کا بدن ہے چادرِ باردو کے نیچے
کراہیں درد کے تالو میں محوِ استراحت ہیں
پہن کر سرسراہٹ موت کی ، پاگل ہوا چپ ہے
فضائیں خون کی خوشبو میں محوِ استراحت ہیں
کہیں سویا ہواہے زخم کے تلچھٹ میں پچھلا چاند
ستارے آخری آنسو میں محوِ استراحت ہیں
ابھی ہو گا شعاعوں کے لہو سے آئینہ خانہ
ابھی شیرِ خدا دارو میں محوِ استراحت ہیں
ابھی ابھریں گے بامِ صبحِ مشرق پر ابھی منصور
مرے سورج ابھی جگنو میں محو استراحت ہیں
منصور آفاق

مجھ کو محسوس کرودوستو خوشبو کی طرح

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 149
میرا اعجاز نہیں رنگ کے جادو کی طرح
مجھ کو محسوس کرودوستو خوشبو کی طرح
ذکر آیا جو کہیں بزمِ سخن میں میرا
چشمِ جاناں سے نکل آیا میں آنسو کی طرح
اچھے موسم کی دعا مانگی تو موجود تھا میں
خشک آنکھوں میں کہیں رنج کے پہلو کی طرح
دل نہ تھا دامنِ گل پوش میں آخر میں بھی
اڑ گیا پیڑ سے اک روز پکھیرو کی طرح
اس کی دہلیزسے طالب کو دعا بھی نہ ملی
سر پٹختا ہی رہاموجِ لبِ جو کی طرح
میرے سینے سے نکلتی ہیں الوہی کرنیں
جسم میں گونجتی ہے ایک صدا ہو کی طرح
پھر ہرے ہو گئے اس دل میں تری یاد کے زخم
پھر چلی سرد ہوا میگھ کے دارو کی طرح
قتل کرتا ہے تو آداب بجا لاتا ہے
یار ظالم نہیں چنگیز و ہلاکو کی طرح
پھر سنائی دی انا الحق کی صدا پتوں سے
لگ رہی ہے مجھے آوازِ صبا ہو کی طرح
کشمکش ایک حریفانہ سی اُس میں بھی ہے
کشمکش مجھ میں بھی تفریقِ من و تُو کی طرح
شہر میں ہوتا تو پھر پوچھتے عاشق کا مزاج
دشت میں قیس چہکتا پھرے آہو کی طرح
اس کی آسودہ نفاست پہ ہے قربان فرانس
کیسی کمخواب سی نازک سی ہے اردو کی طرح
یہ شہادت کا عمل ہے کہ قلم کے وارث
مر کے بھی مرتے نہیں وارث و باہو کی طرح
وقت، سچائی ،خدا ساتھ تینوں میرے
میں ہوں منصور مشیت کے ترازو کی طرح
منصور آفاق

فلک پر اس کا ملبہ گر پڑا تھا

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 88
زمیں پلٹی تو الٹا گر پڑا تھا
فلک پر اس کا ملبہ گر پڑا تھا
میں بھر لایا ہوں مشکیزہ دکھوں سے
کنویں کی تہہ میں صحرا گر پڑا تھا
سُکھانا چاہتا تھا خواب لیکن
ٹشو پیپر پہ آنسو گر پڑا تھا
مری رفتار کی وحشت سے ڈر کر
کسی کھائی میں رستہ گر پڑا تھا
کھلی تھی اک ذرا بس چونچ اس کی
کہیں چاول کا دانہ گر پڑا تھا
مرے کردار کی آنکھیں کھلی تھیں
اور اس کے بعد پردہ گر پڑا تھا
مری سچائی میں دہشت بڑی تھی
کہیں چہرے سے چہرہ گر پڑا تھا
بس اک موجِ سبک سر کی نمو سے
ندی میں پھر کنارہ گر پڑا تھا
مرے چاروں طرف بس کرچیاں تھیں
نظر سے اک کھلونا گر پڑا تھا
اٹھا کر ہی گیا تھا اپنی چیزیں
بس اس کے بعد کمرہ گر پڑا تھا
نظر منصور گولی بن گئی تھی
ہوا میں ہی پرندہ گر پڑا تھا
منصور آفاق

ملک اردو میں پڑ گیا ہو گا

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 72
سین ستو میں پڑ گیا ہو گا
ملک اردو میں پڑ گیا ہو گا
گر پڑا ہے افق کے شعلوں میں
دل پکھیرو میں پڑ گیا ہو گا
بے خیالی میں چھو گئے تھے لب
نیل بازو میں پڑ گیا ہو گا
اس طرف جھک گئی ہے سب دنیا
کچھ ترازو میں پڑ گیا ہو گا
ایک گجرے کے ٹوٹ جانے سے
داغ خوشبو میں پڑ گیا ہو گا
ایسا لگتا ہے عمر کا دریا
ایک آنسو میں پڑ گیا ہو گا
کتنی مشکل سے روکی ہے گالی
چھالا تالو میں پڑ گیا ہو گا
ہجر کی رات شور تھا کوئی
درد پہلو میں پڑ گیا ہو گا
شام سے جا گرا تھا کچھ باہر
نور جگنو میں پڑ گیا ہو گا
ہاتھ چھلکا نہیں یونہی منصور
چاند دارو میں پڑ گیا ہو گا
منصور آفاق