ٹیگ کے محفوظات: آنا

کس کو ہے اختیار جتانا پڑا مجھے

موضوعِ جبر بحث میں لانا پڑا مجھے
کس کو ہے اختیار جتانا پڑا مجھے
باغِ عدم کو چھوڑ کے دشتِ وجود میں
آتا کبھی نہیں مگر آنا پڑا مجھے
اِس درجہ روشنی سے عداوت بڑھی یہاں
"جلتا ہُوا چراغ بجھانا پڑا مجھے”
عالم وہ ایک ہُو کا کہ موت آ کے لَوٹ جائے
مرنے سے پہلے شور مچانا پڑا مجھے
ضامنؔ! وہ فردِ جرم تھی یا فردِ جبر تھی
خاموش ہو کے سر کو جھکانا پڑا مجھے
ضامن جعفری

جیدھر ہو وہ مہ نکلا اس راہ نہ ہم کو جانا تھا

دیوان پنجم غزل 1566
عشق کیے پچھتائے ہم تو دل نہ کسو سے لگانا تھا
جیدھر ہو وہ مہ نکلا اس راہ نہ ہم کو جانا تھا
غیریت کی اس کی شکایت یار عبث اب کرتے ہیں
طور اس شوخ ستم پیشہ کا طفلی سے بیگانہ تھا
بزم عیش کی شب کا یاں دن ہوتے ہی یہ رنگ ہوا
شمع کی جاگہ دود تنک تھا خاکستر پروانہ تھا
دخل مروت عشق میں تھا تو دروازے سے تھوڑی دور
ہمرہ نعش عاشق کے اس ظالم کو بھی آنا تھا
طرفہ خیال کیا کرتا تھا عشق و جنوں میں روز و شب
روتے روتے ہنسنے لگا یہ میر عجب دیوانہ تھا
میر تقی میر

مرنا عاشق کا بہانہ ہو گیا

دیوان پنجم غزل 1559
بات کہتے جی کا جانا ہو گیا
مرنا عاشق کا بہانہ ہو گیا
جاے بودن تو نہ تھی دنیاے دوں
اتفاقاً اپنا آنا ہو گیا
ماہ اس کو کہہ کے سارے شہر میں
مجھ کو مشکل منھ دکھانا ہو گیا
کر رکھا تعویذ طفلی میں جسے
اب سو وہ لڑکا سیانا ہو گیا
اس بلا سے آہ میں غافل رہا
یک بہ یک دل کا لگانا ہو گیا
کنج لب سے یار کے اچٹا نہ ٹک
الغرض دل کا ٹھکانا ہو گیا
رفتہ رفتہ اس پری کے عشق میں
میر سا دانا دوانہ ہو گیا
میر تقی میر

حال اگر ہے ایسا ہی تو جی سے جانا جانا ہے

دیوان چہارم غزل 1523
دل کی بات کہی نہیں جاتی چپکے رہنا ٹھانا ہے
حال اگر ہے ایسا ہی تو جی سے جانا جانا ہے
اس کی نگاہ تیز ہے میرے دوش و بر پر ان روزوں
یعنی دل پہلو میں میرے تیرستم کا نشانہ ہے
دل جو رہے تو پائوں کو بھی دامن میں ہم کھینچ رکھیں
صبح سے لے کر سانجھ تلک اودھر ہی جانا آنا ہے
سرخ کبھو آنسو ہیں ہوتے زرد کبھو ہے منھ میرا
کیا کیا رنگ محبت کے ہیں یہ بھی ایک زمانہ ہے
اس نومیدی بے غایت پر کس مقدار کڑھا کریے
دو دم جیتے رہنا ہے تو قیامت تک مر جانا ہے
فرصت کم ہے یاں رہنے کی بات نہیں کچھ کہنے کی
آنکھیں کھول کے کان جو کھولو بزم جہاں افسانہ ہے
فائدہ ہو گا کیا مترتب ناصح ہرزہ درائی سے
کس کی نصیحت کون سنے ہے عاشق تو دیوانہ ہے
تیغ تلے ہی اس کے کیوں نہ گردن ڈال کے جا بیٹھیں
سر تو آخرکار ہمیں بھی خاک کی اور جھکانا ہے
آنکھوں کی یہ مردم داری دل کو کسو دلبر سے ہے
طرزنگہ طراری ساری میر تمھیں پہچانا ہے
میر تقی میر

جوش غم سے جی جو بولایا سو دیوانہ ہوا

دیوان سوم غزل 1093
دل عجب چرچے کی جاگہ تھی سو ویرانہ ہوا
جوش غم سے جی جو بولایا سو دیوانہ ہوا
بزم عشرت پر جہاں کی گوش وا کر جاے چشم
آج یاں دیکھا گیا جو کچھ کل افسانہ ہوا
دیر میں جو میں گدایانہ گیا اودھر کہا
شاہ جی کہیے کدھر سے آپ کا آنا ہوا
کیا کہیں حسرت لیے جیسے جہاں سے کوئی جائے
یار کے کوچے سے اپنا اس طرح جانا ہوا
میر تیر ان جورکیشوں کے جو کھائے بے شمار
چھاتی اب چھلنی ہے میری ہے جگر چھانا ہوا
میر تقی میر

ہر زماں ملتے تھے باہم سو زمانہ ہو گیا

دیوان سوم غزل 1077
ہجر کی اک آن میں دل کا ٹھکانا ہو گیا
ہر زماں ملتے تھے باہم سو زمانہ ہو گیا
واں تعلل ہی تجھے کرتے گئے شام و سحر
یاں ترے مشتاق کا مرنا بہانہ ہو گیا
شیب میں بھی ہے لباس جسم کا ظاہر قماش
پر اسے اب چھوڑیے جامہ پرانا ہو گیا
کہنے تو کہہ بیٹھے مہ بہتر ہے روے یار سے
شہر میں پھر ہم کو مشکل منھ دکھانا ہو گیا
صد سخن آئے تھے لب تک پر نہ کہنے پائے ایک
ناگہاں اس کی گلی سے اپنا جانا ہو گیا
رہنے کے قابل تو ہرگز تھی نہ یہ عبرت سرائے
اتفاقاً اس طرف اپنا بھی آنا ہو گیا
سینکڑوں افسوں دنوں کو پڑھتے تھے تس پر بھی میر
بیٹھنا راتوں کو باہم اب فسانہ ہو گیا
میر تقی میر

ٹک رنجہ قدم کر کر مجھ تک اسے آنا تھا

دیوان سوم غزل 1071
سہل ایسا نہ تھا آخر جی سے مرا جانا تھا
ٹک رنجہ قدم کر کر مجھ تک اسے آنا تھا
کیا مو کی پریشانی کیا پردے میں پنہانی
منھ یار کو ہر صورت عاشق سے چھپانا تھا
لذت سے نہ تھا خالی جانا تہ تیغ اس کی
اے صید حرم تجھ کو اک زخم تو کھانا تھا
کیا صورتیں بگڑی ہیں مشتاقوں کی ہجراں میں
اس چہرے کو اے خالق ایسا نہ بنانا تھا
مت سہل ہمیں سمجھو پہنچے تھے بہم تب ہم
برسوں تئیں گردوں نے جب خاک کو چھانا تھا
کیا ظلم کیا بے جا مارا جیوں سے ان نے
کچھ ٹھور بھی تھی اس کی کچھ اس کا ٹھکانا تھا
اے شور قیامت اب وعدے سے قیامت ہے
خوابیدہ مرے خوں کو ظالم نہ جگانا تھا
ہو باغ و بہار آیا گل پھول کہیں پایا
جلوہ اسے یاں اپنا صدرنگ دکھانا تھا
کہتے نہ تھے ہم واں سے پھر آچکے جیتے تم
میر اس گلی میں تم کو زنہار نہ جانا تھا
میر تقی میر

آگ لینے مگر آئے تھے یہ آنا کیا تھا

دیوان دوم غزل 709
گرم مجھ سوختہ کے پاس سے جانا کیا تھا
آگ لینے مگر آئے تھے یہ آنا کیا تھا
برسوں یک بوسۂ لب مانگتے جاتے ہیں ہمیں
رات آتے ہی کہا تم نے جو مانا کیا تھا
دیکھنے آئے دم نزع لیے منھ پہ نقاب
آخری وقت مرے منھ کا چھپانا کیا تھا
جب نہ تب مرنے کو تیار رہے عشق میں ہم
جی کے تیں اپنے کبھو ہم نے نہ جانا کیا تھا
مدعی ہوتے ہیں اک آن میں اب تو دلدار
مہر جب رسم تھی یارب وہ زمانہ کیا تھا
عزت و عشق کہاں جمع ہوئے اے ہمدم
ننگ خواری تھا اگر دل کا لگانا کیا تھا
گر خط سبز سے اس کے نہ تمھیں تھی کچھ لاگ
پھر بھلا میر جی یہ زہر کا کھانا کیا تھا
میر تقی میر

یہ دیئے بے فائدہ یہ آئینہ خانہ غلط

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 200
آنسوئوں کے عکس دیواروں پہ بکھرانا غلط
یہ دیئے بے فائدہ یہ آئینہ خانہ غلط
وہ پرندوں کے پروں سے نرم، بادل سے لطیف
یہ چراغِ طور کے جلووں سے سنولانا غلط
جاگ پڑتے ہیں دریچے اور بھی کچھ چاپ سے
اس گلی میں رات کے پچھلے پہر جانا غلط
درد کے آتش فشاں تھم، کانپتی ہیں دھڑکنیں
یہ مسلسل دل کے کہساروں کا پگھلانا غلط
کون واشنگٹن کو دے گا ایک شاعر کا پیام
قیدیوں کو بے وجہ پنجروں میں تڑپانا غلط
ان دنوں غم ہائے جاناں سے مجھے فرصت نہیں
اے غمِ دوراں ترا فی الحال افسانہ غلط
ایک دل اور ہر قدم پر لاکھ پیمانِ وفا
اپنے ماتھے کو ہر اک پتھر سے ٹکرانا غلط
ایک تجریدی تصور ہے یہ ساری کائنات
ایسے الجھے مسئلے بے کار۔ سلجھانا غلط
وقت کا صدیوں پرانا فلسفہ بالکل درست
یہ لب و عارض غلط، یہ جام و پیمانہ غلط
کیا بگڑتا اوڑھ لیتا جو کسی تتلی کی شال
شاخ پر کھلنے سے پہلے پھول مرجھانا غلط
کچھ بھروسہ ہی نہیں کالے سمندر پر مجھے
چاند کا بہتی ہوئی کشتی میں کاشانہ غلط
زندگی کیا ہے۔ ٹریفک کا مسلسل اژدہام
اس سڑک پر سست رفتاری کا جرمانہ غلط
جس کے ہونے اور نہ ہونے کی کہانی ایک ہے
اُس طلسماتی فضا سے دل کو بہلانا غلط
منہ اندھیرے چن کے باغیچے سے کچھ نرگس کے پھول
یار بے پروا کے دروازے پہ دھر آنا غلط
پھر کسی بے فیض سے کر لی توقع فیض کی
پھر کسی کو ایسا لگتا ہے کہ پہچانا غلط
زندگی جس کے لیے میں نے لگا دی داؤ پر
وہ تعلق واہمہ تھا، وہ تھا یارانہ غلط
میں انا الحق کہہ رہا ہوں اور خود منصور ہوں
مجھ سے اہل معرفت کو بات سمجھانا غلط
منصور آفاق