ٹیگ کے محفوظات: آغاز

اُڑ جاؤں گا لے کر پَرِ پَروازِ تخیّل

گر قید کروگے مِرا اندازِ تخیّل
اُڑ جاؤں گا لے کر پَرِ پَروازِ تخیّل
قرطاس و قَلَم مجھ سے اگر چھیِن بھی لوگے
گونجے گی جہاں میں مِری آوازِ تخیّل
ہر گوشِ سَماعَت پہ نقوش اِس کے رہیں گے
مقبولِ زمانہ ہے مِرا سازِ تخیّل
تخلیق بھی تخریب بھی تعمیر بھی اِس میں
تفصیل کے اِجمال میں ہے رازِ تخیّل
پابندیٔ افکار نے ذہنوں کو کِیا قتل
دو چار نَفَس باقی ہیں دَمسازِ تخیّل
تُو واقفِ تاریخ ہے اے گردِشِ ایّام
ضامنؔ ہے تغیّر کا یہ آغازِ تخیّل
ضامن جعفری

کسی کو پِھر نظر انداز کر دیا میں نے

زمانے بھر پَہ عیاں راز کر دیا میں نے
کسی کو پِھر نظر انداز کر دیا میں نے
صدائے درد کسی کو جہاں گراں گذری
شکستہ دل کو وَہیں ساز کر دیا میں نے
سماعتوں کو ہُوا ناگوار جو لہجہ
وہ لوحِ مَرقَدِ آواز کر دیا میں نے
دلوں کی بات کسی ایک کو تَو کہنی تھی
حضور! لیجیے! آغاز کر دیا میں نے
نظر پَہ حُسن کو دیکھا کہ اعتماد نہ تھا
سو دل کو حُسن کا ہَمراز کر دیا میں نے
خرد کو اہلِ خرد کُچھ نہ دے سکے ضامنؔ
جنوں کو باعثِ اعزاز کر دیا میں نے
ضامن جعفری

کوہ کی بازگشتوں میں اک راز موجود ہے

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 611
چیخ کے دائرے میں تگ و تاز موجود ہے
کوہ کی بازگشتوں میں اک راز موجود ہے
ویری سوری کہ تیری سماعت کا ہے مسئلہ
میری خاموشی میں میری آواز موجود ہے
وقت کرتالب و لہجے کی صرف کاپی نہیں
اس کے چلنے میں بھی میرا انداز موجود ہے
خواہشِ زلف دستِ بریدہ سے جاتی نہیں
ٹوٹے پیروں میں بھی شوقِ پرواز موجود ہے
خاتمہ کی کہانی فسانہ ہے امکان کا
ہر نہایت پہ اک اور آغاز موجود ہے
خاکِ منصور!تجھ پہ کوئی حرف کیا آئیگا
تیرے پہلو میں یہ تیرا جاں باز موجود ہے
منصور آفاق