ٹیگ کے محفوظات: آشنا

میں سر تا پا گماں ہوں آئنہ ہوتے ہوئے بھی

وہ چہرہ پُر یقیں ہے گرد سا ہوتے ہوئے بھی
میں سر تا پا گماں ہوں آئنہ ہوتے ہوئے بھی
وہ اک روزن قفس کا جس میں کرنیں ناچتی تھیں
مری نظریں اُسی پر تھیں رِہا ہوتے ہوئے بھی
مرے قصے کی بے رونق فضا مجھ میں نہیں ہے
میں پُر احوال ہوں بے ماجرا ہوتے ہوئے بھی
شرف حاصل رہا ہے مجھ کو اُس کی ہمرہی کا
بہت مغرور ہوں میں خاکِ پا ہوتے ہوئے بھی
وہ چہرہ جگمگا اٹھا نشاطِ آرزو سے
وہ پلکیں اٹھ گئیں بارِ حیا ہوتے ہوئے بھی
مجھے تُو نے بدن سمجھا ہوا تھا ورنہ میں تو
تری آغوش میں اکثر نہ تھا ہوتے ہوئے بھی
چلا جاتا ہوں دل کی سمت بھی گاہے بہ گاہے
میں ان آسائشوں میں مبتلا ہوتے ہوئے بھی
عجب وسعت ہے شہرِ عشق کی وسعت کہ مجھ کو
جنوں لگتا ہے کم بے انتہا ہوتے ہوئے بھی
اگر تیرے لیے دنیا بقا کا سلسلہ ہے
تو پھر تُو دیکھ لے مجھ کو فنا ہوتے ہوئے بھی
مسلسل قرب نے کیسا بدل ڈالا ہے تجھ کو
وہی لہجہ وہی ناز و ادا ہوتے ہوئے بھی
وہ غم جس سے کبھی میں اور تم یکجا ہوئے تھے
بس اُس جیسا ہی اک غم ہے جدا ہوتے ہوئے بھی
نہ جانے مستقل کیوں ایک ہی گردش میں گم ہوں
میں رمزِ عشق سے کم آشنا ہوتے ہوئے بھی
عرفان ستار

تیرے پہلو میں رہا میں اور رہا بھی دم بخود

دم بخود میری انا تیری ادا بھی دم بخود
تیرے پہلو میں رہا میں اور رہا بھی دم بخود
دیکھئے پہلے لہو ٹپکے کہ پھیلیں کرچیاں
دم بخود تیری نظر بھی آئنہ بھی دم بخود
اتنا سنّاٹا ہے کہ جیسے اوّلیں شامِ فراق
دم بخود ہے آسماں بھی اور ہَوا بھی دم بخود
یاد ہے تجھ کو وہ پہلے لمس کی حدّت کہ جب
رہ گئی تھی دفعتاً تیری حیا بھی دم بخود
ایک سے عالم میں دونوں مختلف اسباب سے
دم بخود تیرا کرم میری دعا بھی دم بخود
ایسا لگتا ہے کہ دونوں سے نہیں نسبت مجھے
دم بخود عمرِ رواں سیلِ فنا بھی دم بخود
رقص کرنے پر تُلی ہیں ہجر کی ویرانیاں
دم بخود سارے دیئے بھی غم کدہ بھی دم بخود
جب کھلے میری حقیقت تم وہ منظر دیکھنا
دم بخود نا آشنا بھی آشنا بھی دم بخود
عرفان ستار

دِل کو آنکھوں میں رَکھ لِیا کیجے

جَب کبھی اُن کا سامنا کیجے
دِل کو آنکھوں میں رَکھ لِیا کیجے
ٹھان ہی لی ہے اب تَو کیا کیجے
جائیے! عرضِ مدّعا کیجے
کہیِں نیچی نہ ہو نظَر صاحب
حالِ دل سب سے مت کہا کیجے
کوئی شعلہ نَفَس ہے محفل میں
میرے جینے کی بس دُعا کیجے
جُنبِشِ لَب نَظَر میں رہتی ہے
گفتگو آنکھ سے کِیا کیجے
جب اشارے کنائے ہیں موجود
جو کہیَں کھُل کے مت کَہا کیجے
ڈال کر پھر نَظَر اَجَل انداز
میرے حق میں کوئی دُعا کیجے
اُسی انداز میں وہی الفاظ
جب بھی موقع ہو کہہ دیا کیجے
میں ہُوں ضامنؔ مجھے تَو کم از کم
رازِ الفت سے آشنا کیجے
ضامن جعفری

تو اجنبی ہے مگر شکل آشنا سی ہے

جبیں پہ دُھوپ سی آنکھوں میں کچھ حیا سی ہے
تو اجنبی ہے مگر شکل آشنا سی ہے
خیال ہی نہیں آتا کسی مصیبت کا
ترے خیال میں ہر بات غم رُبا سی ہے
جہاں میں یوں تو کسے چین ہے مگر پیارے
یہ تیرے پھول سے چہرے پہ کیوں اُداسی ہے
دلِ غمیں سے بھی جلتے ہیں شادمانِ حیات
اسی چراغ کی اب شہر میں ہوا سی ہے
ہمیں سے آنکھ چراتا ہے اس کا ہر ذرّہ
مگر یہ خاک ہمارے ہی خوں کی پیاسی ہے
اُداس پھرتا ہوں میں جس کی دُھن میں برسوں سے
یونہی سی ہے وہ خوشی بات وہ ذرا سی ہے
چہکتے بولتے شہروں کو کیا ہوا ناصر
کہ دِن کو بھی مرے گھر میں وہی اُداسی ہے
ناصر کاظمی

نہ سنو تم تو کیا کہے کوئی

کب تلک مدعا کہے کوئی
نہ سنو تم تو کیا کہے کوئی
غیرتِ عشق کو قبول نہیں
کہ تجھے بے وفا کہے کوئی
منّتِ ناخدا نہیں منظور
چاہے اس کو خدا کہے کوئی
ہر کوئی اپنے غم میں ہے مصروف
کس کو درد آشنا کہے کوئی
کون اچھا ہے اِس زمانے میں
کیوں کسی کو برا کہے کوئی
کوئی تو حق شناس ہو یارب
ظلم کو ناروا کہے کوئی
وہ نہ سمجھیں گے اِن کنایوں کو
جو کہے برملا کہے کوئی
آرزُو ہے کہ میرا قصّہِ شوق
آج میرے سوا کہے کوئی
جی میں آتا ہے کچھ کہوں ناصر
کیا خبر سن کے کیا کہے کوئی
ناصر کاظمی

سچ ہے یارو خطا ہمیں سے ہوئی

زِندگی بھر وفا ہمیں سے ہوئی
سچ ہے یارو خطا ہمیں سے ہوئی
دل نے ہر داغ کو رکھا محفوظ
یہ زمیں خوشنما ہمیں سے ہوئی
ہم سے پہلے زمینِ شہرِ وفا
خاک تھی کیمیا ہمیں سے ہوئی
کتنی مردم شناس ہے دُنیا
منحرف بے حیا ہمیں سے ہوئی
کون اُٹھاتا شبِ فراق کے ناز
یہ بلا آشنا ہمیں سے ہوئی
بے غرض کون دل گنواتا ہے
تیری قیمت ادا ہمیں سے ہوئی
ستمِ ناروا تجھی سے ہوا
تیرے حق میں دُعا ہمیں سے ہوئی
سعیِٔ تجدیدِ دوستی ناصر
آج کیا بارہا ہمیں سے ہوئی
ناصر کاظمی

ہزار بار ملو پھر بھی آشنا نہ لگے

وہ اِس ادا سے جو آئے تو کیوں بھلا نہ لگے
ہزار بار ملو پھر بھی آشنا نہ لگے
کبھی وہ خاص عنایت کہ سو گماں گزریں
کبھی وہ طرزِ تغافل کہ محرمانہ لگے
وہ سیدھی سادی ادائیں کہ بجلیاں برسیں
وہ دلبرانہ مروّت کہ عاشقانہ لگے
دکھاؤں داغِ محبت جو ناگوار نہ ہو
سناؤں قصۂ فرقت اگر برا نہ لگے
بہت ہی سادہ ہے تو اور زمانہ ہے عیار
خدا کرے کہ تجھے شہر کی ہوا نہ لگے
بجھا نہ دیں یہ مسلسل اداسیاں دل کو
وہ بات کر کہ طبیعت کو تازیانہ لگے
جو گھر اُجڑ گئے اُن کا نہ رنج کر پیارے
وہ چارہ کر کہ یہ گلشن اُجاڑ سا نہ لگے
عتابِ اہلِ جہاں سب بھلا دیے لیکن
وہ زخم یاد ہیں اب تک جو غائبانہ لگے
وہ رنگ دل کو دیے ہیں لہو کی گردش نے
نظر اُٹھاؤں تو دنیا نگارخانہ لگے
عجیب خواب دکھاتے ہیں ناخدا ہم کو
غرض یہ ہے کہ سفینہ کنارے جا نہ لگے
لیے ہی جاتی ہے ہر دم کوئی صدا ناصر
یہ اور بات سراغِ نشانِ پا نہ لگے
ناصر کاظمی

بکھر کر رہ گئیں لہریں ہوا کی

عجب صورت بنی میری صدا کی
بکھر کر رہ گئیں لہریں ہوا کی
ہمارے جرم آپ اپنی سزا ہیں
اضافی ہے سزا روزِ جزا کی
کوئی پیماں نہیں باندھا تھا لیکن
تِری باتوں میں خوشبو تھی وفا کی
عجب سی اک تڑپ تھی میرے دل میں
تری آنکھوں میں شوخی تھی حیا کی
شناساؤں سے جی گھبرا گیا ہے
ضرورت ہے کسی نا آشنا کی
نہیں ملتے اگر وہ تم سے باصرِؔ
کچھ اُن کی اور کچھ مرضی خدا کی
باصر کاظمی

میں سر تا پا گماں ہوں آئنہ ہوتے ہوئے بھی

عرفان ستار ۔ غزل نمبر 63
وہ چہرہ پُر یقیں ہے گرد سا ہوتے ہوئے بھی
میں سر تا پا گماں ہوں آئنہ ہوتے ہوئے بھی
وہ اک روزن قفس کا جس میں کرنیں ناچتی تھیں
مری نظریں اُسی پر تھیں رِہا ہوتے ہوئے بھی
مرے قصے کی بے رونق فضا مجھ میں نہیں ہے
میں پُر احوال ہوں بے ماجرا ہوتے ہوئے بھی
شرف حاصل رہا ہے مجھ کو اُس کی ہمرہی کا
بہت مغرور ہوں میں خاکِ پا ہوتے ہوئے بھی
وہ چہرہ جگمگا اٹھا نشاطِ آرزو سے
وہ پلکیں اٹھ گئیں بارِ حیا ہوتے ہوئے بھی
مجھے تُو نے بدن سمجھا ہوا تھا ورنہ میں تو
تری آغوش میں اکثر نہ تھا ہوتے ہوئے بھی
چلا جاتا ہوں دل کی سمت بھی گاہے بہ گاہے
میں ان آسائشوں میں مبتلا ہوتے ہوئے بھی
عجب وسعت ہے شہرِ عشق کی وسعت کہ مجھ کو
جنوں لگتا ہے کم بے انتہا ہوتے ہوئے بھی
اگر تیرے لیے دنیا بقا کا سلسلہ ہے
تو پھر تُو دیکھ لے مجھ کو فنا ہوتے ہوئے بھی
مسلسل قرب نے کیسا بدل ڈالا ہے تجھ کو
وہی لہجہ وہی ناز و ادا ہوتے ہوئے بھی
وہ غم جس سے کبھی میں اور تم یکجا ہوئے تھے
بس اُس جیسا ہی اک غم ہے جدا ہوتے ہوئے بھی
نہ جانے مستقل کیوں ایک ہی گردش میں گم ہوں
میں رمزِ عشق سے کم آشنا ہوتے ہوئے بھی
عرفان ستار

تیرے پہلو میں رہا میں اور رہا بھی دم بخود

عرفان ستار ۔ غزل نمبر 21
دم بخود میری انا تیری ادا بھی دم بخود
تیرے پہلو میں رہا میں اور رہا بھی دم بخود
دیکھئے پہلے لہو ٹپکے کہ پھیلیں کرچیاں
دم بخود تیری نظر بھی آئنہ بھی دم بخود
اتنا سنّاٹا ہے کہ جیسے اوّلیں شامِ فراق
دم بخود ہے آسماں بھی اور ہَوا بھی دم بخود
یاد ہے تجھ کو وہ پہلے لمس کی حدّت کہ جب
رہ گئی تھی دفعتاً تیری حیا بھی دم بخود
ایک سے عالم میں دونوں مختلف اسباب سے
دم بخود تیرا کرم میری دعا بھی دم بخود
ایسا لگتا ہے کہ دونوں سے نہیں نسبت مجھے
دم بخود عمرِ رواں سیلِ فنا بھی دم بخود
رقص کرنے پر تُلی ہیں ہجر کی ویرانیاں
دم بخود سارے دیئے بھی غم کدہ بھی دم بخود
جب کھلے میری حقیقت تم وہ منظر دیکھنا
دم بخود نا آشنا بھی آشنا بھی دم بخود
عرفان ستار

سو کوئی دن جو ہے تو پھر سالہا نہیں ہے

دیوان ششم غزل 1884
بے لطف یار ہم کو کچھ آسرا نہیں ہے
سو کوئی دن جو ہے تو پھر سالہا نہیں ہے
سن عشق جو اطبا کرتے ہیں چشم پوشی
جانکاہ اس مرض کی شاید دوا نہیں ہے
جس آنکھ سے دیا تھا ان نے فریب دل کو
اس آنکھ کو جو دیکھا اب آشنا نہیں ہے
جب دیکھو آئینے کو تب روبرو ہے اس کے
بے چشم و رو اسے کچھ شرم و حیا نہیں ہے
میں برگ بند اگرچہ زیر شجر رہا ہوں
فقر مکب سے لیکن برگ و نوا نہیں ہے
شیریں نمک لبوں بن اس کے نہیں حلاوت
اس تلخ زندگی میں اب کچھ مزہ نہیں ہے
اعضا گداز ہوکر سب بہ گئے ہیں میرے
ہجراں میں اس کے مجھ میں اب کچھ رہا نہیں ہے
سن سانحات عشقی ہنس کیوں نہ دو پیارے
کیا جانو تم کسو سے دل ٹک لگا نہیں ہے
دل خوں جگر کے ٹکڑے جب میر دیکھتا ہوں
اب تک زباں سے اپنی میں کچھ کہا نہیں ہے
میر تقی میر

بیتاب دل کا مرگ کہیں مدعا نہ ہو

دیوان ششم غزل 1867
چاہت میں خوبرویوں کی کیا جانے کیا نہ ہو
بیتاب دل کا مرگ کہیں مدعا نہ ہو
بے لاگ عشق بازی میں مفلس کا ہے ضرر
کیا کھیلے وہ جوا جسے کچھ آسرا نہ ہو
کرتے دعا مجھے وہ دغاباز دیکھ کر
بولا کہ اس فقیر کے دل میں دغا نہ ہو
آزاد پرشکستہ کو صد رنگ قید ہے
یارب اسیر ایسا قفس سے رہا نہ ہو
دوری مہ سے کبک ہیں کہسار میں خراب
دلبر سے اپنے کوئی الٰہی جدا نہ ہو
کھولے ہے آنکھ اس کے گل رو پہ ہر سحر
غالب کہ میری آئینے کی اب صفا نہ ہو
آہوں کے میری دود سے گھر بھر گیا ہے سب
سدھ ہمنشیں لے دل کی کہیں وہ جلا نہ ہو
ہم گر جگر نکال رکھیں اس کے زیر پا
بے دید کی ادھر سے نظر آشنا نہ ہو
رہتے ہیں میر بے خود و وارفتہ ان دنوں
پوچھو کنایۃً کسو سے دل لگا نہ ہو
میر تقی میر

دل کا منکا ولے پھرا نہ کبھو

دیوان ششم غزل 1863
ہاتھ بے سبحہ ٹک رہا نہ کبھو
دل کا منکا ولے پھرا نہ کبھو
کیونکے عرفان ہو گیا سب کو
اپنے ڈھب پر تو وہ چڑھا نہ کبھو
روز دفتر لکھے گئے یاں سے
ان نے یک حرف بھی لکھا نہ کبھو
گو شگفتہ چمن چمن تھے گل
غنچۂ دل تو وا ہوا نہ کبھو
طور کی سی تھی صحبت اس کی مری
جھمکی دکھلا کے پھر ملا نہ کبھو
غیرت اپنی تھی یہ کہ بعد نماز
اس کا لے نام کی دعا نہ کبھو
ابتدا ہی میں مر گئے سب یار
عشق کی پائی انتہا نہ کبھو
وہ سخن گو فریبی چشم یار
ہم سے گویا تھی آشنا نہ کبھو
میر تقی میر

بہ خدا با خدا رہا ہوں میں

دیوان ششم غزل 1857
گو کہ بت خانے جا رہا ہوں میں
بہ خدا با خدا رہا ہوں میں
سب گئے دل دماغ تاب و تواں
میں رہا ہوں سو کیا رہا ہوں میں
برق تو میں نہ تھا کہ جل بجھتا
ابر تر ہوں کہ چھا رہا ہوں میں
اس کی بیگانہ وضعی ہے معلوم
برسوں تک آشنا رہا ہوں میں
دیکھو کب تیغ اس کی آبیٹھے
دیر سے سر اٹھا رہا ہوں میں
اس کی گرد سمند کا مشتاق
آنکھیں ہر سو لگا رہا ہوں میں
دور کے لوگ جن نے مارے قریب
اس کے ہمسائے آرہا ہوں میں
مجھ کو بدحال رہنے دیں اے کاش
بے دوا کچھ بھلا رہا ہوں میں
دل جلوں کو خدا جہاں میں رکھے
یا شقائق ہے یا رہا ہوں میں
کچھ رہا ہی نہیں ہے مجھ میں میر
جب سے ان سے جدا رہا ہوں میں
میر تقی میر

بے یار و بے دیار و بے آشنا ہوئے ہیں

دیوان ششم غزل 1848
اب دیکھیں آہ کیا ہو ہم وے جدا ہوئے ہیں
بے یار و بے دیار و بے آشنا ہوئے ہیں
غیرت سے نام اس کا آیا نہیں زباں پر
آگے خدا کے جب ہم محو دعا ہوئے ہیں
اہل چمن سے کیونکر اپنی ہو روشناسی
برسوں اسیر رہ کر اب ہم رہا ہوئے ہیں
بے عشق خوب رویاں اپنی نہیں گذرتی
اے وائے کس بلا میں ہم مبتلا ہوئے ہیں
جانا کہ تن میں ہر جا نازک ہے اور دلکش
ہم رفتۂ سراپا اس کے بجا ہوئے ہیں
تھے غنچے جتنے زیر دیوار باغ طائر
شب باشی چمن سے شاید خفا ہوئے ہیں
صرفہ قمیص کا ہے کیا وقر اس گلی میں
ترک لباس کر واں شاہاں گدا ہوئے ہیں
خاموش اس کے در پر ہوکر فقیر بیٹھے
یعنی کہ عاشقی میں ہم بے نوا ہوئے ہیں
عہد شباب گذرا شرب مدام ہی میں
ہم کہنہ سال ہوکر اب پارسا ہوئے ہیں
اظہار کم فراغی ہردم کی بے دماغی
ان روزوں میر صاحب کچھ میرزا ہوئے ہیں
میر تقی میر

آشنا رہ برسوں جو اک دم میں ہو ناآشنا

دیوان ششم غزل 1801
ہو کوئی اس بے وفا دلدار سے کیا آشنا
آشنا رہ برسوں جو اک دم میں ہو ناآشنا
قدر جانو کچھ ہماری ورنہ پچھتاؤ گے تم
پھر نہیں ملنے کا تم کو کوئی ہم سا آشنا
باغ کو بے لالہ و گل دیکھ کہتے تھے طیور
جھڑ گئے پت جھڑ میں اب کے ہائے کیا کیا آشنا
اب تو تو لڑکا نہیں عشق و ہوس میں کر تمیز
آشنا سے فرق ہوتا ہے بہت تا آشنا
ملتے ملتے منھ چھپانا بھی لطیفہ ہے نیا
آشنائی یا نہ کریے ہوجیے یا آشنا
تھا جنوں کا لطف مجنوں سے سو دنیا سے گیا
مغفرت ہو اس کو وحشی ہم سے بھی تھا آشنا
اب جو ہاتھ آئے ہیں ہم مت مفت کھو دیجو ہمیں
پھر نہ ہو گا تم کو ایسا کوئی پیدا آشنا
کیسا ہی پانی ہو اس کو پیری میں جانا ہے پیر
تھا جوانی میں مگر تو میر دانا آشنا
میر تقی میر

نہ جانا ان نے تو یوں بھی کہ کیا تھا

دیوان ششم غزل 1787
موئے ہم جس کی خاطر بے وفا تھا
نہ جانا ان نے تو یوں بھی کہ کیا تھا
معالج کی نہیں تقصیر ہرگز
مرض ہی عاشقی کا لا دوا تھا
نہ خود سر کیونکے ہوں ہم یار اپنا
خودآرا خودپسند و خودستا تھا
رکھا تھا منھ کبھو اس کنج لب پر
ہمارے ذوق میں اب تک مزہ تھا
نہ ملیو چاہنے والوں سے اپنے
نہ جانا تجھ سے یہ کن نے کہا تھا
پریشاں کر گئی فریاد بلبل
کسو سے دل ہمارا پھر لگا تھا
ملے برسوں وہی بیگانگی تھی
ہمارے زعم میں وہ آشنا تھا
نہ دیوانے تھے ہم سے قیس و فرہاد
ہمارا طور عشق ان سے جدا تھا
بدن میں صبح سے تھی سنسناہٹ
انھیں سنّاہٹوں میں جی جلا تھا
صنم خانے سے اٹھ کعبے گئے ہم
کوئی آخر ہمارا بھی خدا تھا
بدن میں اس کے ہے ہرجاے دلکش
جہاں اٹکا کسو کا دل بجا تھا
کوئی عنقا سے پوچھے نام تیرا
کہاں تھا جب کہ میں رسوا ہوا تھا
چڑھی تیوری چمن میں میر آیا
کلک خسپ آج شاید کچھ خفا تھا
میر تقی میر

کہ جاناں سے بھی جی ملا جانتا ہے

دیوان پنجم غزل 1783
یہی عشق ہے جی کھپا جانتا ہے
کہ جاناں سے بھی جی ملا جانتا ہے
بدی میں بھی کچھ خوبی ہووے گی تب تو
برا کرنے کو وہ بھلا جانتا ہے
مرا شعر اچھا بھی دانستہ ضد سے
کسو اور ہی کا کہا جانتا ہے
زمانے کے اکثر ستم گار دیکھے
وہی خوب طرز جفا جانتا ہے
نہیں جانتا حرف خط کیا ہیں لکھے
لکھے کو ہمارے مٹا جانتا ہے
نہ جانے جو بیگانہ تو بات پوچھے
سو مغرور کب آشنا جانتا ہے
نہیں اتحاد تن و جاں سے واقف
ہمیں یار سے جو جدا جانتا ہے
میر تقی میر

نہ جدا ہو کے پھر ملا افسوس

دیوان پنجم غزل 1629
یار ہم سے جدا ہوا افسوس
نہ جدا ہو کے پھر ملا افسوس
جب تلک آن کر رہے مجھ پاس
مجھ میں تب تک نہ کچھ رہا افسوس
دل میں حسرت گرہ ہے رخصت کی
چلتے ان نے نہ کچھ کہا افسوس
کیا تدارک ہے عشق میں دل کا
میں بلا میں ہوں مبتلا افسوس
سب سے بیگانگی کی جس کے لیے
وہ نہیں ہم سے آشنا افسوس
رات دن ہاتھ ملتے رہتے ہیں
دل کے جانے کا ہے بڑا افسوس
باچھیں پھٹ پھٹ گئیں ہیں گھگھیاتے
بے اثر ہو گئی دعا افسوس
مجھ کو کرنا تھا احتراز اس سے
ہائے افسوس کیا کیا افسوس
نوش دارو ہے نیش دارو میر
متاثر نہیں دوا افسوس
میر تقی میر

سبھوں سے پاتے ہیں بیگانہ آشنا تیرا

دیوان چہارم غزل 1329
پھرے ہے وحشی سا گم گشتہ عشق کا تیرا
سبھوں سے پاتے ہیں بیگانہ آشنا تیرا
دریغ و درد تجھے کیوں ہے یاں تو جی ہی گئے
ہوا ہے ایک نگہ میں زیان کیا تیرا
جہاں بھرا ہے ترے شور حسن و خوبی سے
لبوں پہ لوگوں کے ہے ذکر جا بجا تیرا
نگاہ ایک ادھر ایک تیغ تیز کی اور
ہمارا خون ہی کرنا ہے مدعا تیرا
نظر کنھوں نے نہ کی حال میر پر افسوس
غریب شہروفا تھا وہ خاک پا تیرا
میر تقی میر

نکہت گل سے آشنا نہ ہوئے

دیوان سوم غزل 1261
ہم چمن میں گئے تھے وا نہ ہوئے
نکہت گل سے آشنا نہ ہوئے
سر کسو سے فرو نہیں آتا
حیف بندے ہوئے خدا نہ ہوئے
خوار و زار و ذلیل و بے رویت
عاشق اس کے ہوئے سو کیا نہ ہوئے
کیسا کیسا قفس سے سر مارا
موسم گل میں ہم رہا نہ ہوئے
میں نہ گردن کٹائی جب تک میر
عشق کے مجھ سے حق ادا نہ ہوئے
میر تقی میر

دل کو مزے سے بھی تو تنک آشنا کرو

دیوان سوم غزل 1232
زخموں پہ اپنے لون چھڑکتے رہا کرو
دل کو مزے سے بھی تو تنک آشنا کرو
کیا آنکھ بند کرکے مراقب ہوئے ہو تم
جاتے ہیں کیسے کیسے سمیں چشم وا کرو
موقوف ہرزہ گردی نہیں کچھ قلندری
زنجیر سر اتار کے زنجیر پا کرو
ہر چند اس متاع کی اب قدر کچھ نہیں
پر جس کسو کے ساتھ رہو تم وفا کرو
تدبیر کو مزاج محبت میں دخل کیا
جانکاہ اس مرض کی نہ کوئی دوا کرو
طفلی سے تم نے لطف و غضب مختلط کیے
ٹک مہر کو جدا کرو غصہ جدا کرو
بیٹھے ہو میر ہو کے درکعبہ پر فقیر
اس روسیہ کے باب میں بھی کچھ دعا کرو
میر تقی میر

الٰہی غنچہ ہے پژمردہ یا دل

دیوان سوم غزل 1164
نہ ٹک واشد ہوئی جب سے لگا دل
الٰہی غنچہ ہے پژمردہ یا دل
نہ اس سے یاں تئیں آیا گیا حیف
رہے ہم جب تلک اس میں رہا دل
اٹھایا داغ لالہ نے چمن سے
کروں کیا دیکھتے ہی جل گیا دل
نہیں کم رایت اقبال شہ سے
علم اپنا یہ دنیا سے اٹھا دل
ہمارا خاص مشرب عشق اس میں
پیمبر دل ہے قبلہ دل خدا دل
ہمارے منھ پہ طفل اشک دوڑا
کیا ہے اس بھی لڑکے نے بڑا دل
سبھوں سے میر بیگانے سے رہتے
جو ہوتا اس سے کچھ بھی آشنا دل
میر تقی میر

حق شناسوں کے ہاں خدا ہے عشق

دیوان سوم غزل 1158
کیا حقیقت کہوں کہ کیا ہے عشق
حق شناسوں کے ہاں خدا ہے عشق
دل لگا ہو تو جی جہاں سے اٹھا
موت کا نام پیار کا ہے عشق
اور تدبیر کو نہیں کچھ دخل
عشق کے درد کی دوا ہے عشق
کیا ڈبایا محیط میں غم کے
ہم نے جانا تھا آشنا ہے عشق
عشق سے جا نہیں کوئی خالی
دل سے لے عرش تک بھرا ہے عشق
کوہکن کیا پہاڑ کاٹے گا
پردے میں زور آزما ہے عشق
عشق ہے عشق کرنے والوں کو
کیسا کیسا بہم کیا ہے عشق
کون مقصد کو عشق بن پہنچا
آرزو عشق مدعا ہے عشق
میر مرنا پڑے ہے خوباں پر
عشق مت کر کہ بدبلا ہے عشق
میر تقی میر

کہ ہمیں متصل لکھا ہے خط

دیوان سوم غزل 1150
شاید اس سادہ نے رکھا ہے خط
کہ ہمیں متصل لکھا ہے خط
شوق سے بات بڑھ گئی تھی بہت
دفتر اس کو لکھیں ہیں کیا ہے خط
نامہ کب یار نے پڑھا سارا
نہ کہا یہ بھی آشنا ہے خط
ساتھ ہم بھی گئے ہیں دور تلک
جب ادھر کے تئیں چلا ہے خط
کچھ خلل راہ میں ہوا اے میر
نامہ بر کب سے لے گیا ہے خط
میر تقی میر

دانستہ جا پڑے ہے کوئی بھی بلا کے بیچ

دیوان سوم غزل 1124
جانا نہ دل کو تھا تری زلف رسا کے بیچ
دانستہ جا پڑے ہے کوئی بھی بلا کے بیچ
فرہاد و قیس جس سے مجھے چاہو پوچھ لو
مشہور ہے فقیر بھی اہل وفا کے بیچ
آخر تو میں نے طول دیا بحث عشق کو
کوتاہی تم بھی مت کرو جور و جفا کے بیچ
آئی جو لب پہ آہ تو میں اٹھ کھڑا ہوا
بیٹھا گیا نہ مجھ سے تو ایسی ہوا کے بیچ
اقبال دیکھ اس ستم و ظلم و جور پر
دیکھوں ہوں جس کو ہے وہ اسی کی دعا کے بیچ
دل اس چمن میں بہتوں سے میرا لگا ولے
بوے وفا نہ پائی کسو آشنا کے بیچ
جوش و خروش میر کے جاتے رہے نہ سب
ہوتا ہے شور چاہنے کی ابتدا کے بیچ
میر تقی میر

ویسی دیکھی نہ ایک جا صورت

دیوان سوم غزل 1115
سیر کی ہم نے اٹھ کے تا صورت
ویسی دیکھی نہ ایک جا صورت
منھ لگانا تو درکنار ان نے
نہ کہا ہے یہ آشنا صورت
منھ دکھاتی ہے آرسی ہر صبح
تو بھی اپنی تو ٹک دکھا صورت
خوب ہے چہرئہ پری لیکن
آگے اس کے ہے کیا بلا صورت
کب تلک کوئی جیسے صورت باز
آوے پیاری بنا بنا صورت
ایک دن تو یہ کہہ کہ ملنے کی
تو بھی ٹھہرا کے کوئی لا صورت
حلقے آنکھوں میں پڑ گئے منھ زرد
ہو گئی میر تیری کیا صورت
میر تقی میر

ہشیاری کے برابر کوئی نشہ نہیں ہے

دیوان دوم غزل 1040
ہم مست ہو بھی دیکھا آخر مزہ نہیں ہے
ہشیاری کے برابر کوئی نشہ نہیں ہے
شوق وصال ہی میں جی کھپ گیا ہمارا
باآنکہ ایک دم وہ ہم سے جدا نہیں ہے
ہر صبح اٹھ کے تجھ سے مانگوں ہوں میں تجھی کو
تیرے سوائے میرا کچھ مدعا نہیں ہے
زیر فلک رکا ہے اب جی بہت ہمارا
اس بے فضا قفس میں مطلق ہوا نہیں ہے
آنکھیں ہماری دیکھیں لوگوں نے اشک افشاں
اب چاہ کا کسو کی پردہ رہا نہیں ہے
منھ جن نے میرا دیکھا ایک آہ دل سے کھینچی
اس درد عاشقی کی آیا دوا نہیں ہے
تھیں پیش از آشنائی کیا آشنا نگاہیں
اب آشنا ہوئے پر آنکھ آشنا نہیں ہے
کریے جو ابتدا تو تا حشر حال کہیے
عاشق کی گفتگو کو کچھ انتہا نہیں ہے
پردہ ہی ہم نے دیکھا چہرے پہ گاہ و بے گہ
اتنا بھی منھ چھپانا کچھ خوش نما نہیں ہے
میں روئوں تم ہنسو ہو کیا جانو میر صاحب
دل آپ کا کسو سے شاید لگا نہیں ہے
میر تقی میر

جگر سب کھا گیا اب کیا رہا ہے

دیوان دوم غزل 1027
دل بیتاب آفت ہے بلا ہے
جگر سب کھا گیا اب کیا رہا ہے
ہمارا تو ہے اصل مدعا تو
خدا جانے ترا کیا مدعا ہے
محبت کشتہ ہیں ہم یاں کسو پاس
ہمارے درد کی بھی کچھ دوا ہے
حرم سے دیر اٹھ جانا نہیں عیب
اگر یاں ہے خدا واں بھی خدا ہے
نہیں ملتا سخن اپنا کسو سے
ہماری گفتگو کا ڈھب جدا ہے
کوئی ہے دل کھنچے جاتے ہیں اودھر
فضولی ہے تجسس یہ کہ کیا ہے
مروں میں اس میں یا رہ جائوں جیتا
یہی شیوہ مرا مہر و وفا ہے
صبا اودھر گل اودھر سرو اودھر
اسی کی باغ میں اب تو ہوا ہے
تماشا کردنی ہے داغ سینہ
یہ پھول اس تختے میں تازہ کھلا ہے
ہزاروں ان نے ایسی کیں ادائیں
قیامت جیسے اک اس کی ادا ہے
جگہ افسوس کی ہے بعد چندے
ابھی تو دل ہمارا بھی بجا ہے
جو چپکے ہوں کہے چپکے ہو کیوں تم
کہو جو کچھ تمھارا مدعا ہے
سخن کریے تو ہووے حرف زن یوں
بس اب منھ موندلے میں نے سنا ہے
کب اس بیگانہ خو کو سمجھے عالم
اگرچہ یار عالم آشنا ہے
نہ عالم میں ہے نے عالم سے باہر
پہ سب عالم سے عالم ہی جدا ہے
لگا میں گرد سر پھرنے تو بولا
تمھارا میر صاحب سرپھرا ہے
میر تقی میر

اک آگ سی رہے ہے کیا جانیے کہ کیا ہے

دیوان دوم غزل 1026
چھاتی جلا کرے ہے سوز دروں بلا ہے
اک آگ سی رہے ہے کیا جانیے کہ کیا ہے
میں اور تو ہیں دونوں مجبورطور اپنے
پیشہ ترا جفا ہے شیوہ مرا وفا ہے
روے سخن ہے کیدھر اہل جہاں کا یارب
سب متفق ہیں اس پر ہر ایک کا خدا ہے
کچھ بے سبب نہیں ہے خاطر مری پریشاں
دل کا الم جدا ہے غم جان کا جدا ہے
حسن ان بھی معنیوں کا تھا آپھی صورتوں میں
اس مرتبے سے آگے کوئی چلے تو کیا ہے
شادی سے غم جہاں میں دہ چند ہم نے پایا
ہے عید ایک دن تو دس روز یاں دہا ہے
ہے خصم جان عاشق وہ محو ناز لیکن
ہر لمحہ بے ادائی یہ بھی تو اک ادا ہے
ہو جائے یاس جس میں سو عاشقی ہے ورنہ
ہر رنج کو شفا ہے ہر درد کو دوا ہے
نایاب اس گہر کی کیا ہے تلاش آساں
جی ڈوبتا ہے اس کا جو تہ سے آشنا ہے
مشفق ملاذ و قبلہ کعبہ خدا پیمبر
جس خط میں شوق سے میں کیا کیا اسے لکھا ہے
تاثیر عشق دیکھو وہ نامہ واں پہنچ کر
جوں کاغذ ہوائی ہر سو اڑا پھرا ہے
ہے گرچہ طفل مکتب وہ شوخ ابھی تو لیکن
جس سے ملا ہے اس کا استاد ہو ملا ہے
پھرتے ہو میر صاحب سب سے جدے جدے تم
شاید کہیں تمھارا دل ان دنوں لگا ہے
میر تقی میر

گم کیا خود کے تیں خدا سمجھے

دیوان دوم غزل 1009
اب سمجھ آئی مرتبہ سمجھے
گم کیا خود کے تیں خدا سمجھے
اس قدر جی میں ہے دغا اس کے
کہ دعا کریے تو دغا سمجھے
کچھ سمجھتے نہیں ہمارا حال
تم سے بھی اے بتاں خدا سمجھے
غلط اپنا کہ اس جفاجو کو
سادگی سے ہم آشنا سمجھے
نکتہ داں بھی خدا نے تم کو کیا
پر ہمارا نہ مدعا سمجھے
لکھے دفتر کتابیں کیں تصنیف
پر نہ طالع کا ہم لکھا سمجھے
میر صاحب کا ہر سخن ہے رمز
بے حقیقت ہے شیخ کیا سمجھے
میر تقی میر

جی رات دن جنھوں کے کھپیں ان میں کیا رہے

دیوان دوم غزل 1002
دوری میں اس کی گور کنارے ہم آرہے
جی رات دن جنھوں کے کھپیں ان میں کیا رہے
اس آفتاب حسن کے ہم داغ شرم ہیں
ایسے ظہور پر بھی وہ منھ کو چھپا رہے
اب جس کے حسن خلق پہ بھولے پھریں ہیں لوگ
اس بے وفا سے ہم بھی بہت آشنا رہے
مجروح ہم ہوئے تو نمک پاشیاں رہیں
ایسی معاش ہووے جہاں کیا مزہ رہے
مرغان باغ سے نہ ہوئی میری دم کشی
نالے کو سن کے وقت سحر دم ہی کھا رہے
چھاتی رکی رہے ہے جو کرتے نہیں ہیں آہ
یاں لطف تب تلک ہی ہے جب تک ہوا رہے
کشتے ہیں ہم تو ذوق شہیدان عشق کے
تیغ ستم کو دیر گلے سے لگا رہے
گاہے کراہتا ہے گہے چپ ہے گاہ سست
ممکن نہیں مریض محبت بھلا رہے
آتے کبھو جو واں سے تو یاں رہتے تھے اداس
آخر کو میر اس کی گلی ہی میں جا رہے
میر تقی میر

کیا ہے جھمک کفک کی رنگ حنا تو دیکھو

دیوان دوم غزل 914
گل برگ سے ہیں نازک خوبی پا تو دیکھو
کیا ہے جھمک کفک کی رنگ حنا تو دیکھو
ہر بات پر خشونت طرزجفا تو دیکھو
ہر لمحہ بے ادائی اس کی ادا تو دیکھو
سائے میں ہر پلک کے خوابیدہ ہے قیامت
اس فتنۂ زماں کو کوئی جگا تو دیکھو
بلبل بھی گل گئے پر مرکر چمن سے نکلی
اس مرغ شوق کش کی ٹک تم وفا تو دیکھو
طنزیں عبث کرو ہو غش رہنے پر ہمارے
دو چار دن کسو سے دل کو لگا تو دیکھو
ہونا پڑے ہے دشمن ہر گام اپنی جاں کا
کوچے میں دوستی کے ہر کوئی آ تو دیکھو
پیری میں مول لے ہے منعم حویلیوں کو
ڈھہتا پھرے ہے آپھی اس پر بنا تو دیکھو
ڈوبی ہے کشتی میری بحر عمیق غم میں
بیگانے سے کھڑے ہو تم آشنا تو دیکھو
آئے جو ہم تو ان نے آنکھوں میں ہم کو رکھا
اہل ہوس سے کوئی اودھر کو جا تو دیکھو
ہے اس چمن میں وہ گل صد رنگ محو جلوہ
دیکھو جہاں وہی ہے کچھ اس سوا تو دیکھو
اشعار میر پر ہے اب ہائے وائے ہر سو
کچھ سحر تو نہیں ہے لیکن ہوا تو دیکھو
میر تقی میر

پلک سے پلک آشنا ہی نہیں

دیوان دوم غزل 900
فراق آنکھ لگنے کی جا ہی نہیں
پلک سے پلک آشنا ہی نہیں
گلہ عشق کا بدو خلقت سے ہے
غم دل کو کچھ انتہا ہی نہیں
محبت جہاں کی تہاں ہوچکی
کچھ اس روگ کی بھی دوا ہی نہیں
دکھایا کیے یار اس رخ کا سطح
کہیں آرسی کو حیا ہی نہیں
وہ کیا کچھ نہیں حسن کے شہر میں
نہیں ہے تو رسم وفا ہی نہیں
چمن محو اس روے خوش کا ہے سب
گل تر کی اب وہ ہوا ہی نہیں
نہیں دیر اگر میر کعبہ تو ہے
ہمارے کوئی کیا خدا ہی نہیں
میر تقی میر

بھاگوں ہوں دور سب سے میں کس کا آشنا ہوں

دیوان دوم غزل 889
بیگانہ وضع برسوں اس شہر میں رہا ہوں
بھاگوں ہوں دور سب سے میں کس کا آشنا ہوں
پوچھا کیے ہیں مجھ سے گل برگ لب کو تیرے
بلبل کے ہاتھ جب میں گلزار میں لگا ہوں
اب کارشوق دیکھوں پہنچے مرا کہاں تک
قاصد کے پیچھے میں بھی بے طاقت اٹھ چلا ہوں
تجھ سے متاع خوش کا کیونکر نہ ہوں معرف
یوسفؑ کے ہاتھ پیارے کچھ میں نہیں بکا ہوں
گل پھول کوئی کب تک جھڑ جھڑ کے گرتے دیکھے
اس باغ میں بہت اب جوں غنچہ میں رکا ہوں
کیا کیا کیا تامل اس فکر میں گیا گھل
سمجھا نہ آپ کو میں کیا جانیے کہ کیا ہوں
ہوتا ہے گرم کیا تو اے آفتاب خوبی
ایک آدھ دم میں میں تو شبنم نمط ہوا ہوں
پیری سے جھکتے جھکتے پہنچا ہوں خاک تک میں
وہ سرکشی کہاں ہے اب تو بہت دبا ہوں
مجھ کو بلا ہے وحشت اے میر دور اس سے
جاگہ سے جب اٹھا ہوں آشوب سا اٹھا ہوں
میر تقی میر

گہر پہنچا بہم آب بقا میں

دیوان دوم غزل 867
نہیں تبخال لعل دلربا میں
گہر پہنچا بہم آب بقا میں
غریبانہ کوئی شب روز کر یاں
ہمیشہ کون رہتا ہے سرا میں
اٹھاتے ہاتھ کیوں نومید ہو کر
اگر پاتے اثر کچھ ہم دعا میں
کہے ہے ہر کوئی اللہ میرا
عجب نسبت ہے بندے میں خدا میں
کفن میں ہی نہ پہنا وہ بدن دیکھ
کھنچے لوہو میں بہتیروں کے جامیں
ادھر جانے کو آندھی تو ہے لیکن
سبک پائی سی ہے باد صبا میں
بلا تہ دار بحر عشق نکلا
نہ ہم نے انتہا لی ابتدا میں
ملے برسوں وہی بیگانہ ہے وہ
ہنر ہے یہ ہمارے آشنا میں
اگرچہ خشک ہیں جیسے پر کاہ
اڑے ہیں میرجی لیکن ہوا میں
میر تقی میر

یہی سبب ہے جو کھائی ہے میں دوا کی قسم

دیوان دوم غزل 856
مجھے تو درد سے اک انس ہے وفا کی قسم
یہی سبب ہے جو کھائی ہے میں دوا کی قسم
کل ان نے تیغ رکھی درمیاں کہ قطع ہے اب
قسم جو بیچ میں آئی سو اس ادا کی قسم
حنا لگی ترے ہاتھوں سے میں گیا پیسا
جگر تمام ہے خوں مجھ کو تیرے پا کی قسم
فقیر ہونے نے سب اعتبار کھویا ہے
قسم جو کھائوں تو کہتے ہیں کیا گدا کی قسم
قدم تلے ہی رہا اس کے یہ سر پرشور
جو کھایئے تو مرے طالع رسا کی قسم
سروں پہ ہاتھ کبھو تیغ پر کبھو اس کا
کچھ ایک قسم نہیں میرے آشنا کی قسم
جدال دیر کے رہبان سے کہاں تک میر
اٹھو حرم کو چلو اب تمھیں خدا کی قسم
میر تقی میر

کچھ اور صبح دم سے ہوا ہے ہوا کا رنگ

دیوان دوم غزل 848
ہے آگ کا سا نالۂ کاہش فزا کا رنگ
کچھ اور صبح دم سے ہوا ہے ہوا کا رنگ
دیکھے ادھر تو مجھ سے نہ یوں آنکھ وہ چھپائے
ظاہر ہے میرے منھ سے مرے مدعا کا رنگ
کس بے گنہ کے خوں میں ترا پڑ گیا ہے پائوں
ہوتا نہیں ہے سرخ تو ایسا حنا کا رنگ
بے گہ شکستہ رنگی خورشید کیا عجب
ہوتا ہے زرد بیشتر اہل فنا کا رنگ
گل پیرہن نہ چاک کریں کیونکے رشک سے
کس مرتبے میں شوخ ہے اس کی قبا کا رنگ
رہتا تھا ابتداے محبت میں منھ سفید
اب زرد سب ہوا ہوں یہ ہے انتہا کا رنگ
داروے لعل گوں نہ پیو میرزا ہو تم
گرمی پہ ہے دلیل بہت اس دوا کا رنگ
خوبی ہے اس کی حیّزِ تحریر سے بروں
کیا اس کا طور حسن لکھوں کیا ادا کا رنگ
پوچھیں ہیں وجہ گریۂ خونیں جو مجھ سے لوگ
کیا دیکھتے نہیں ہیں سب اس بے وفا کا رنگ
مقدور تک نہ گذرے مرے خوں سے یار میر
غیروں سے کیا گلہ ہے یہ ہے آشنا کا رنگ
میر تقی میر

دل جلا کوئی ہو گیا کیا خاک

دیوان دوم غزل 842
چلے ہے باغ کی صبا کیا خاک
دل جلا کوئی ہو گیا کیا خاک
ہے غبار اس کے خط سے دل میں بہت
باہم اب ہوئے گی صفا کیا خاک
ہم گرے اس کے در ہی پر مر کر
اور کوئی کرے وفا کیا خاک
خاک ہی میں ملائے رکھتے ہو
ہو کوئی تم سے آشنا کیا خاک
سب موئے ابتداے عشق ہی میں
ہووے معلوم انتہا کیا خاک
خاک پر ہے سدا جبین نیاز
اور کوئی ہو جبہہ سا کیا خاک
تربت میر پر چلے تم دیر
اتنی مدت میں واں رہا کیا خاک
میر تقی میر

کڑھیے کب تک نہ ہو بلا سے نفع

دیوان دوم غزل 833
عشق میں کچھ نہیں دوا سے نفع
کڑھیے کب تک نہ ہو بلا سے نفع
کب تلک ان بتوں سے چشم رہے
ہو رہے گا بس اب خدا سے نفع
میں تو غیر از ضرر نہ دیکھا کچھ
ڈھونڈو تم یار و آشنا سے نفع
مغتنم جان گر کسو کے تئیں
پہنچے ہے تیرے دست و پا سے نفع
اب فقیروں سے کہہ حقیقت دل
میر شاید کہ ہو دعا سے نفع
میر تقی میر

رہتی ہے آرسی ہی دھری خودنما کے پاس

دیوان دوم غزل 823
عزت نہیں ہے دل کی کچھ اس دلربا کے پاس
رہتی ہے آرسی ہی دھری خودنما کے پاس
پہروں شبوں کو غم میں ترے جاگتے رہے
ہو آہنیں جگر سو کرے بے وفا کے پاس
راہ و روش رکھیں ہیں جدا دردمند عشق
زنہار یہ کھڑے نہیں ہوتے دوا کے پاس
کیا جانے قدر غنچۂ دل باغباں پسر
ہوتی گلابی ایسی کسو میرزا کے پاس
جو دیر سے حرم کو گئے سو وہیں موئے
آتا نہیں ہے جاکے کوئی پھر خدا کے پاس
کیا جانیے کہ کہتے ہیں کس کو یگانگی
بیگانے ہی سے ہم رہے اس آشنا کے پاس
میر اس دل گرفتہ کی یاں تو ملی نہ داد
عقدہ یہ لے کے جائوں گا مشکل کشا کے پاس
میر تقی میر

غنچہ ہے وہ لگی نہیں اس کو ہوا ہنوز

دیوان دوم غزل 818
اس شوخ سے سنا نہیں نام صبا ہنوز
غنچہ ہے وہ لگی نہیں اس کو ہوا ہنوز
عاشق کے اس کو گریۂ خونیں کا درد کیا
آنسو نہیں ہے آنکھ سے جس کی گرا ہنوز
کیا جانے وہ کہ گذرے ہے یاروں کے جی پہ کیا
مطلق کسو سے اس کا نہیں دل لگا ہنوز
برسوں میں نامہ بر سے مرا نام جو سنا
کہنے لگا کہ زندہ ہے وہ ننگ کیا ہنوز
گھگھیاتے رات کے تئیں باچھیں تو پھٹ گئیں
ناواقف قبول ہے لیکن دعا ہنوز
کیا کیا کرے ہے حجتیں قاصد سے لیتے خط
حالانکہ وہ ہوا نہیں حرف آشنا ہنوز
سو بار ایک دم میں گیا ڈوب ڈوب جی
پر بحر غم کی پائی نہ کچھ انتہا ہنوز
خط سے ہے بے وفائی حسن اس کی آئینہ
ہم سادگی سے رکھتے ہیں چشم وفا ہنوز
سو عقدے فرط شوق سے پیش آئے دل کو یاں
واں بند اس قبا کے نہیں ہوتے وا ہنوز
یاں میر ہم تو پہنچ گئے مرگ کے قریب
واں دلبروں کو ہے وہی قصد جفا ہنوز
میر تقی میر

ہم برے ہی سہی بھلا صاحب

دیوان دوم غزل 775
جو کہو تم سو ہے بجا صاحب
ہم برے ہی سہی بھلا صاحب
سادہ ذہنی میں نکتہ چیں تھے تم
اب تو ہیں حرف آشنا صاحب
نہ دیا رحم ٹک بتوں کے تئیں
کیا کیا ہائے یہ خدا صاحب
بندگی ایک اپنی کیا کم ہے
اور کچھ تم سے کہیے کیا صاحب
مہرافزا ہے منھ تمھارا ہی
کچھ غضب تو نہیں ہوا صاحب
خط کے پھٹنے کا تم سے کیا شکوہ
اپنے طالع کا یہ لکھا صاحب
پھر گئیں آنکھیں تم نہ آن پھرے
دیکھا تم کو بھی واہ وا صاحب
شوق رخ یاد لب غم دیدار
جی میں کیا کیا مرے رہا صاحب
بھول جانا نہیں غلام کا خوب
یاد خاطر رہے مرا صاحب
کن نے سن شعر میر یہ نہ کہا
کہیو پھر ہائے کیا کہا صاحب
میر تقی میر

دیکھا پھر اس کو خاک میں ہم نے ملا ہوا

دیوان دوم غزل 692
اس کام جان و دل سے جو کوئی جدا ہوا
دیکھا پھر اس کو خاک میں ہم نے ملا ہوا
کر ترک گرچہ بیٹھے ہیں پر ہے وہی تلاش
رہتا نہیں ہے ہاتھ ہمارا اٹھا ہوا
کھینچا بغل میں میں جو اسے مست پا کے رات
کہنے لگا کہ آپ کو بھی اب نشہ ہوا
نے صبر ہے نہ ہوش ہے نے عقل ہے نہ دین
آتا ہے اس کے پاس سے عاشق لٹا ہوا
اٹھتا ہے میرے دل سے کبھو جوش سا تو پھر
جاتا ہے دونوں آنکھوں سے دریا بہا ہوا
جوں صید نیم کشتہ تڑپتا ہے ایک سا
کیا جانیے کہ دل کو مرے کیا بلا ہوا
خط آئے پر جو گرم وہ پرکار مل چلا
میں سادگی سے جانا کہ اب آشنا ہوا
ہم تو لگے کنارے ہوئے غیر ہم کنار
ایکوں کی عید ایکوں کے گھر میں دہا ہوا
جوں برق مجھ کو ہنستے نہ دیکھا کسو نے آہ
پایا تو ابر سا کہیں روتا کھڑا ہوا
جس شعر پر سماع تھا کل خانقاہ میں
وہ آج میں سنا تو ہے میرا کہا ہوا
پایا مجھے رقیب نے آ اس کی زیر تیغ
دل خواہ بارے مدعی کا مدعا ہوا
بیمار مرگ سا تو نہیں روز اب بتر
دیکھا تھا ہم نے میر کو کچھ تو بھلا ہوا
میر تقی میر

بھروسا کیا ہے عمربے وفا کا

دیوان دوم غزل 683
نظر میں طور رکھ اس کم نما کا
بھروسا کیا ہے عمربے وفا کا
گلوں کے پیرہن ہیں چاک سارے
کھلا تھا کیا کہیں بند اس قبا کا
پرستش اب اسی بت کی ہے ہر سو
رہا ہو گا کوئی بندہ خدا کا
بلا ہیں قادرانداز اس کی آنکھیں
کیا یکہ جنازہ جس کو تاکا
بجا ہے عمر سے اب ایک حسرت
گیا وہ شور سر کا زور پا کا
مداوا خاطروں سے تھا وگرنہ
بدایت مرتبہ تھا انتہا کا
لگا تھا روگ جب سے یہ تبھی سے
اثر معلوم تھا ہم کو دوا کا
مروت چشم رکھنا سادگی ہے
نہیں شیوہ یہ اپنے آشنا کا
کہیں اس زلف سے کیا لگ چلی ہے
پڑے ہے پائوں بے ڈھب کچھ صبا کا
نہ جا تو دور صوفی خانقہ سے
ہمیں تو پاس ہے ابر و ہوا کا
نہ جانوں میر کیوں ایسا ہے چپکا
نمونہ ہے یہ آشوب و بلا کا
کرو دن ہی سے رخصت ورنہ شب کو
نہ سونے دے گا شور اس بے نوا کا
میر تقی میر

رہے جہان میں تو دیر میں رہا نہ رہا

دیوان دوم غزل 674
ستم سے گو یہ ترے کشتۂ وفا نہ رہا
رہے جہان میں تو دیر میں رہا نہ رہا
کب اس کا نام لیے غش نہ آگیا مجھ کو
دل ستم زدہ کس وقت اس میں جا نہ رہا
ملانا آنکھ کا ہر دم فریب تھا دیکھا
پھر ایک دم میں وہ بے دید آشنا نہ رہا
موئے تو ہم پہ دل پُر کو خوب خالی کر
ہزار شکر کسو سے ہمیں گلہ نہ رہا
ادھر کھلی مری چھاتی ادھر نمک چھڑکا
جراحت اس کو دکھانے کا اب مزہ نہ رہا
ہوا ہوں تنگ بہت کوئی دن میں سن لیجو
کہ جی سے ہاتھ اٹھاکر وہ اٹھ گیا نہ رہا
ستم کا اس کے بہت میں نزار ہوں ممنون
جگر تمام ہوا خون و دل بجا نہ رہا
اگرچہ رہ گئے تھے استخوان و پوست ولے
لگائی ایسی کہ تسمہ بھی پھر لگا نہ رہا
حمیت اس کے تئیں کہتے ہیں جو میر میں تھی
گیا جہاں سے پہ تیری گلی میں آ نہ رہا
میر تقی میر

سماجت اتنی بھی سب سے کوئی خدا بھی ہے

دیوان اول غزل 566
حصول کام کا دلخواہ یاں ہوا بھی ہے
سماجت اتنی بھی سب سے کوئی خدا بھی ہے
موئے ہی جاتے ہیں ہم درد عشق سے یارو
کسو کے پاس اس آزار کی دوا بھی ہے
اداسیاں تھیں مری خانقہ میں قابل سیر
صنم کدے میں تو ٹک آ کے دل لگا بھی ہے
یہ کہیے کیونکے کہ خوباں سے کچھ نہیں مطلب
لگے جو پھرتے ہیں ہم کچھ تو مدعا بھی ہے
ترا ہے وہم کہ میں اپنے پیرہن میں ہوں
نگاہ غور سے کر مجھ میں کچھ رہا بھی ہے
جو کھولوں سینۂ مجروح تو نمک چھڑکے
جراحت اس کو دکھانے کا کچھ مزہ بھی ہے
کہاں تلک شب و روز آہ درد دل کہیے
ہر ایک بات کو آخر کچھ انتہا بھی ہے
ہوس تو دل میں ہمارے جگہ کرے لیکن
کہیں ہجوم سے اندوہ غم کے جا بھی ہے
غم فراق ہے دنبالہ گرد عیش وصال
فقط مزہ ہی نہیں عشق میں بلا بھی ہے
قبول کریے تری رہ میں جی کو کھو دینا
جو کچھ بھی پایئے تجھ کو تو آشنا بھی ہے
جگر میں سوزن مژگاں کے تیں کڈھب نہ گڑو
کسو کے زخم کو تونے کبھو سیا بھی ہے
گذار شہر وفا میں سمجھ کے کر مجنوں
کہ اس دیار میں میر شکستہ پا بھی ہے
میر تقی میر

کیا ناز کر رہے ہو اب ہم میں کیا رہا ہے

دیوان اول غزل 555
طاقت نہیں ہے دل میں نے جی بجا رہا ہے
کیا ناز کر رہے ہو اب ہم میں کیا رہا ہے
جیب اور آستیں سے رونے کا کام گذرا
سارا نچوڑ اب تو دامن پر آرہا ہے
اب چیت گر نہیں کچھ تازہ ہوا ہوں بیکل
آیا ہوں جب بخود میں جی اس میں جارہا ہے
کاہے کا پاس اب تو رسوائی دور پہنچی
راز محبت اپنا کس سے چھپا رہا ہے
گرد رہ اس کی یارب کس اور سے اٹھے گی
سو سو غزال ہر سو آنکھیں لگا رہا ہے
بندے تو طرحدارو ہیں طرح کش تمھارے
پھر چاہتے ہو کیا تم اب اک خدا رہا ہے
دیکھ اس دہن کو ہر دم اے آرسی کہ یوں ہی
خوبی کا در کسو کے منھ پر بھی وا رہا ہے
وے لطف کی نگاہیں پہلے فریب ہیں سب
کس سے وہ بے مروت پھر آشنا رہا ہے
اتنا خزاں کرے ہے کب زرد رنگ پر یاں
تو بھی کسو نگہ سے اے گل جدا رہا ہے
رہتے ہیں داغ اکثر نان و نمک کی خاطر
جینے کا اس سمیں میں اب کیا مزہ رہا ہے
اب چاہتا نہیں ہے بوسہ جو تیرے لب سے
جینے سے میر شاید کچھ دل اٹھا رہا ہے
میر تقی میر

پر اس کے جی میں ہم سے کیا جانیے کہ کیا ہے

دیوان اول غزل 513
اپنا شعار پوچھو تو مہرباں وفا ہے
پر اس کے جی میں ہم سے کیا جانیے کہ کیا ہے
مت پوچھ میری اس کی شام و سحر کی صحبت
اس طرف سے ہے گالی اس طرف سے دعا ہے
بالیں پہ میری آکر ٹک دیکھ شوق دیدار
سارے بدن کا جی اب آنکھوں میں آرہا ہے
بے اس کے رک کے مرتے گرمی عشق میں تو
کرتے ہیں آہ جب تک تب تک ہی کچھ ہوا ہے
شکوہ ہے رونے کا یہ بے گانگی سے تیری
مژگان تر وگرنہ آنکھوں میں آشنا ہے
مت کر زمین دل میں تخم امید ضائع
بوٹا جو یاں اگا ہے سو اگتے ہی جلا ہے
شرمندہ ہوتے ہیں گے خورشید و ماہ دونوں
خوبی نے تیرے منھ کی ظالم قراں کیا ہے
اے شمع بزم عاشق روشن ہے یہ کہ تجھ بن
آنکھوں میں میری عالم تاریک ہو گیا ہے
جیتے ہی جی تلک ہیں سارے علاقے سو تو
عاشق ترا مجرد فارغ ہی ہو چکا ہے
آزردگی عبث کیوں تشہیر و قتل و ایذا
فرمایئے تو وہ کچھ جو کچھ کہ مدعا ہے
صد سحر و یک رقیمہ خط میر جی کا دیکھا
قاصد نہیں چلا ہے جادو مگر چلا ہے
میر تقی میر

دیوانگی کسو کی بھی زنجیر پا نہ تھی

دیوان اول غزل 456
آگے ہمارے عہد سے وحشت کو جا نہ تھی
دیوانگی کسو کی بھی زنجیر پا نہ تھی
بیگانہ سا لگے ہے چمن اب خزاں میں ہائے
ایسی گئی بہار مگر آشنا نہ تھی
کب تھا یہ شور نوحہ ترا عشق جب نہ تھا
دل تھا ہمارا آگے تو ماتم سرا نہ تھی
وہ اور کوئی ہو گی سحر جب ہوئی قبول
شرمندئہ اثر تو ہماری دعا نہ تھی
آگے بھی تیرے عشق سے کھینچے تھے درد و رنج
لیکن ہماری جان پر ایسی بلا نہ تھی
دیکھے دیار حسن کے میں کارواں بہت
لیکن کسو کے پاس متاع وفا نہ تھی
آئی پری سی پردئہ مینا سے جام تک
آنکھوں میں تیری دختر رز کیا حیا نہ تھی
اس وقت سے کیا ہے مجھے تو چراغ وقف
مخلوق جب جہاں میں نسیم و صبا نہ تھی
پژمردہ اس قدر ہیں کہ ہے شبہ ہم کو میر
تن میں ہمارے جان کبھو تھی بھی یا نہ تھی
میر تقی میر

پر ہوسکے تو پیارے ٹک دل کا آشنا رہ

دیوان اول غزل 423
جی چاہے مل کسو سے یا سب سے تو جدا رہ
پر ہوسکے تو پیارے ٹک دل کا آشنا رہ
کل بے تکلفی میں لطف اس بدن کا دیکھا
نکلا نہ کر قبا سے اے گل بس اب ڈھپا رہ
عاشق غیور جی دے اور اس طرف نہ دیکھے
وہ آنکھ جو چھپاوے تو تو بھی ٹک کھنچا رہ
پہنچیں گے آگے دیکھیں کس درجہ کو ابھی تو
اس ماہ چاردہ کا سن دس ہے یا کہ بارہ
کھینچا کرے ہے ہر دم کیا تیغ بوالہوس پر
اس ناسزاے خوں کے اتنا نہ سر چڑھا رہ
مستظہر محبت تھا کوہکن وگرنہ
یہ بوجھ کس سے اٹھتا ایک اور ایک گیارہ
ہر مشت خاک یاں کی چاہے ہے اک تامل
بن سوچے راہ مت چل ہر گام پر کھڑا رہ
شاید کہ سربلندی ہووے نصیب تیرے
جوں گرد راہ سب کے پائوں سے تو لگا رہ
اس خط سبز نے کچھ رویت نہ رکھی تیری
کیا ایسی زندگانی جا خضر زہر کھا رہ
حد سے زیادہ واعظ یہ کودنا اچھلنا
کاہے کو جاتے ہیں ہم اے خرس اب بندھا رہ
میں تو ہیں وہم دونوں کیا ہے خیال تجھ کو
جھاڑ آستین مجھ سے ہاتھ آپ سے اٹھا رہ
جیسے خیال مفلس جاتا ہے سو جگہ تو
مجھ بے نوا کے بھی گھر ایک آدھ رات آ رہ
دوڑے بہت ولیکن مطلب کو کون پہنچا
آئندہ تو بھی ہم سا ہوکر شکستہ پا رہ
جب ہوش میں تو آیا اودھر ہی جاتے پایا
اس سے تو میر چندے اس کوچے ہی میں جا رہ
میر تقی میر

وہ نمک چھڑکے ہے مزہ ہے یہ

دیوان اول غزل 421
ہم ہیں مجروح ماجرا ہے یہ
وہ نمک چھڑکے ہے مزہ ہے یہ
آگ تھے ابتداے عشق میں ہم
اب جو ہیں خاک انتہا ہے یہ
بود آدم نمود شبنم ہے
ایک دو دم میں پھر ہوا ہے یہ
شکر اس کی جفا کا ہو نہ سکا
دل سے اپنے ہمیں گلہ ہے یہ
شور سے اپنے حشر ہے پردہ
یوں نہیں جانتا کہ کیا ہے یہ
بس ہوا ناز ہو چکا اغماض
ہر گھڑی ہم سے کیا ادا ہے یہ
نعشیں اٹھتی ہیں آج یاروں کی
آن بیٹھو تو خوش نما ہے یہ
دیکھ بے دم مجھے لگا کہنے
ہے تو مردہ سا پر بلا ہے یہ
میں تو چپ ہوں وہ ہونٹ چاٹے ہے
کیا کہوں ریجھنے کی جا ہے یہ
ہے رے بیگانگی کبھو ان نے
نہ کہا یہ کہ آشنا ہے یہ
تیغ پر ہاتھ دم بہ دم کب تک
اک لگا چک کہ مدعا ہے یہ
میر کو کیوں نہ مغتنم جانے
اگلے لوگوں میں اک رہا ہے یہ
میر تقی میر

اوروں سے مل کے پیارے کچھ اور ہو گیا تو

دیوان اول غزل 388
ویسا کہاں ہے ہم سے جیسا کہ آگے تھا تو
اوروں سے مل کے پیارے کچھ اور ہو گیا تو
چالیں تمام بے ڈھب باتیں فریب ہیں سب
حاصل کہ اے شکر لب اب وہ نہیں رہا تو
جاتے نہیں اٹھائے یہ شور ہرسحر کے
یا اب چمن میں بلبل ہم ہی رہیں گے یا تو
آ ابر ایک دو دم آپس میں رکھیں صحبت
کڑھنے کو ہوں میں آندھی رونے کو ہے بلا تو
تقریب پر بھی تو تو پہلو تہی کرے ہے
دس بار عید آئی کب کب گلے ملا تو
تیرے دہن سے اس کو نسبت ہو کچھ تو کہیے
گل گو کرے ہے دعویٰ خاطر میں کچھ نہ لا تو
دل کیونکے راست آوے دعواے آشنائی
دریاے حسن وہ مہ کشتی بہ کف گدا تو
ہر فرد یاس ابھی سے دفتر ہے تجھ گلے کا
ہے قہر جب کہ ہو گا حرفوں سے آشنا تو
عالم ہے شوق کشتہ خلقت ہے تیری رفتہ
جانوں کی آرزو تو آنکھوں کا مدعا تو
منھ کریے جس طرف کو سو ہی تری طرف ہے
پر کچھ نہیں ہے پیدا کیدھر ہے اے خدا تو
آتی بخود نہیں ہے باد بہار اب تک
دو گام تھا چمن میں ٹک ناز سے چلا تو
کم میری اور آنا کم آنکھ کا ملانا
کرنے سے یہ ادائیں ہے مدعا کہ جا تو
گفت و شنود اکثر میرے ترے رہے ہے
ظالم معاف رکھیو میرا کہا سنا تو
کہہ سانجھ کے موئے کو اے میر روئیں کب تک
جیسے چراغ مفلس اک دم میں جل بجھا تو
میر تقی میر

اور مطلق اب دماغ اپنا وفا کرتا نہیں

دیوان اول غزل 347
آہ وہ عاشق ستم ترک جفا کرتا نہیں
اور مطلق اب دماغ اپنا وفا کرتا نہیں
بات میں غیروں کو چپ کردوں ولیکن کیا کروں
وہ سخن نشنو تنک میرا کہا کرتا نہیں
روز بدتر جیسے بیمار اجل ہے دل کا حال
یہ سمجھ کر ہم نشیں اب میں دوا کرتا نہیں
گوئیا باب اجابت ہجر میں تیغا ہوا
ورنہ کس شب آپ کو میں بددعا کرتا نہیں
بیکسان عشق اس کے آہ کس کے پاس جائیں
گور بن کوئی صلا میں لب کو وا کرتا نہیں
چھوٹنا ممکن نہیں اپنا قفس کی قید سے
مرغ سیر آہنگ کو کوئی رہا کرتا نہیں
چرخ کی بھی کج ادائی ہم ہی پر جاتی ہے پیش
ناز کو اس سے تو اک دم بھی جدا کرتا نہیں
دیکھ اسے بے دید ہو آنکھوں نے کیا دیکھا بھلا
دل بھی بد کرتا ہے مجھ سے تو بھلا کرتا نہیں
کیونکے دیکھی جائے یہ بیگانہ وضعی مجھ سے شوخ
تو تو ایدھر یک نگاہ آشنا کرتا نہیں
کیا کہوں پہنچا کہاں تک میر اپنا کارشوق
یاں سے کس دن اک نیا قاصد چلا کرتا نہیں
میر تقی میر

لیک لگ چلنے میں بلا ہیں ہم

دیوان اول غزل 282
گرچہ آوارہ جوں صبا ہیں ہم
لیک لگ چلنے میں بلا ہیں ہم
کام کیا آتے ہیں گے معلومات
یہ تو سمجھے ہی نہ کہ کیا ہیں ہم
تم ہی بیگانگی کرو نہ کرو
دلبرو وے ہی آشنا ہیں ہم
اے بتاں اس قدر جفا ہم پر
عاقبت بندئہ خدا ہیں ہم
سرمہ آلودہ مت رکھا کر چشم
دیکھ اس وضع سے خفا ہیں ہم
ہے نمک سود سب تن مجروح
تیرے کشتوں میں میرزا ہیں ہم
تیرے کوچے میں تا بہ مرگ رکھا
کشتۂ منت وفا ہیں ہم
خوف ہم کو نہیں جنوں سے کچھ
یوں تو مجنوں کے بھی چچا ہیں ہم
آستاں پر ترے ہی گذری عمر
اسی دروازے کے گدا ہیں ہم
ڈرتے ہیں تیری بے دماغی سے
کیونکہ پھر یار جی بلا ہیں ہم
کوئی خواہاں نہیں ہمارا میر
گوئیا جنس ناروا ہیں ہم
میر تقی میر

مآل اپنا ترے غم میں خدا جانے کہ کیا ہو گا

دیوان اول غزل 89
بھلا ہو گا کچھ اک احوال اس سے یا برا ہو گا
مآل اپنا ترے غم میں خدا جانے کہ کیا ہو گا
تفحص فائدہ ناصح تدارک تجھ سے کیا ہو گا
وہی پاوے گا میرا درد دل جس کا لگا ہو گا
کسو کو شوق یارب بیش اس سے اور کیا ہو گا
قلم ہاتھ آگئی ہو گی تو سو سو خط لکھا ہو گا
دکانیں حسن کی آگے ترے تختہ ہوئی ہوں گی
جو تو بازار میں ہو گا تو یوسف کب بکا ہو گا
معیشت ہم فقیروں کی سی اخوان زماں سے کر
کوئی گالی بھی دے تو کہہ بھلا بھائی بھلا ہو گا
خیال اس بے وفا کا ہم نشیں اتنا نہیں اچھا
گماں رکھتے تھے ہم بھی یہ کہ ہم سے آشنا ہو گا
قیامت کرکے اب تعبیر جس کو کرتی ہے خلقت
وہ اس کوچے میں اک آشوب سا شاید ہوا ہو گا
عجب کیا ہے ہلاک عشق میں فرہاد و مجنوں کے
محبت روگ ہے کوئی کہ کم اس سے جیا ہو گا
نہ ہو کیوں غیرت گلزار وہ کوچہ خدا جانے
لہو اس خاک پر کن کن عزیزوں کا گرا ہو گا
بہت ہمسائے اس گلشن کے زنجیری رہا ہوں میں
کبھو تم نے بھی میرا شور نالوں کا سنا ہو گا
نہیں جز عرش جاگہ راہ میں لینے کو دم اس کے
قفس سے تن کے مرغ روح میرا جب رہا ہو گا
کہیں ہیں میر کو مارا گیا شب اس کے کوچے میں
کہیں وحشت میں شاید بیٹھے بیٹھے اٹھ گیا ہو گا
میر تقی میر

دشتِکُن میں چشمۂ حمد و ثنا احمد رضا

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 33
صبح دم شہرِ مدنیہ کی ہوا احمد رضا
دشتِکُن میں چشمۂ حمد و ثنا احمد رضا
حمد کی بہتی کرن وہ نعت کی اجلی شعاع
مدحتوں کے باغ کی بادِصبا احمد رضا
زندہ و جاوید رکھتا ہے انہیں عشقِ رسول
عشق کی بابت فنا نا آشنا احمد رضا
یہ سرِ فہرست عشاقِ محمدمیں ہے کون ؟
پوچھنے والے نے پھر خود ہی کہا احمد رضا
خانہ ء تاریک میں بھر دے اجالے لفظ سے
فیض کا سر چشمۂ صدق و صفا احمد رضا
کنزالایماں سے منور صحنِ اردو ہو گیا
آیتوں کا اختتامِ ترجمہ احمد رضا
روک دیتے ہیں بہارِ حکمت و عرفان سے
بد عقیدہ موسموں کا سلسلہ احمد رضا
آسماں کی بے کراں چھاتی پہ روز حشر تک
صبح نے کرنوں سے اپنی، لکھ دیا، احمد رضا
جل اٹھے ان سے سبھی علمِ عقائد کے چراغ
راستی کا روشنی کا راستہ احمد رضا
صاحبِ علم الکلام و حاملِ علم شعور
حاصلِ عہد علومِ فلسفہ احمد رضا
عالمِ علم لدنی ، عاملِ تسخیرِ ذات
روح و جاں میں قربِ احساسِ خدا احمد رضا
وہ صفاتِ حرف کی رو سے مخارج کے امیں
محرمِ احکامِ تجوید و نوا احمد رضا
بابتِ تفسیر قرآں جانتے تھے ایک ایک
معنی و تفہیمِ الہامِ الہ احمد رضا
وہ روایت اور درایت آشنا شیخ الحدیث
علمِ احوالِ نبی کے نابغہ احمد رضا
مالکی وشافعی ہوں یا کہ حنفی حنبلی
فقہ اربعہ پہ حرف انتہا احمد رضا
علمِ استخراجیہ ہویا کہ استقرائیہ
دیدہ ء منطق میں ہے چہرہ نما احمد رضا
علم ہندسہ و ریاضی کے نئے ادوار میں
موئے اقلیدس کی اشکال و ادا احمد رضا
علم جامع و جفر کی ہر ریاضت گاہ میں
جو ہرِ اعداد کی صوت و صدا احمد رضا
وہ بروج فلکیہ میں انتقال شمس ہیں
صاحبِعلمِ نجوم و زائچہ احمد رضا
وقت کی تاریخ ان کے ہاتھ پر تحریر ہے
جانتے ہیں سرگزشتِ ماجرا احمد رضا
روشنی علمِ تصوف کی انہی کی ذات سے
کثرتِ جاں میں لبِ وحدت سرا احمد رضا
حرفِ آخر تھے وہی عربی ادب پر ہند میں
والی ء تختِ علوم عربیہ احمد رضا
علمِ جاں ، علمِ فضائلِ علمِ لغت ،علم سیر
در علومِ خیرتجسیمِ ضیا احمد رضا
آسمانِ معرفت ، علمِ سلوک وکشف میں
منظرِبدرالدجیٰ ، شمس الضحیٰ احمد رضا
صبحِ عرفانِ الہی ، عابد شب زندہ دار
مسجدِ یاد خدا و مصطفی احمد رضا
عجز کا پندار ہے میرے قلم کی آنکھ میں
جو کچھ لکھا میں نے، کہیں اُس سے سوا احمد رضا
ٹوٹے پھوٹے لفظ تیری بارگاہ میں پیش ہیں
گرقبول افتدزہے عزوعطا احمد رضا
اعلی حضرت اہلِ سنت کے امام و پیشوا
اک نگہ مجھ پہ کرم کی اک نگہ احمد رضا
منصور آفاق