ٹیگ کے محفوظات: آسمان

جو میرے سر پہ کوئی آسمان ہی ہوتا

چلو گمان سہی کچھ تو مان ہی ہوتا
جو میرے سر پہ کوئی آسمان ہی ہوتا
میں بے امان رہا اپنے گھر میں رہ کر بھی
کوئی بھی ہوتا یہاں، بے امان ہی ہوتا
جہاں پہ بسنا تھا ہر ایک لامکانی کو
ضرور تھا کہ وہ میرا مکان ہی ہوتا؟
تو اختیار میں کچھ لفظ ہی عطا ہوتے!
دیا جو درد ہے مجھ سے بیان ہی ہوتا!
نہ رہتا فاصلہ گر مجھ میں اور زمانے میں
تو میرے اور مرے درمیان ہی ہوتا
گگن پہ کھینچ کے سورج کو لا کے رکھ دیتا
جو سرخیوں کا افق پر نشان ہی ہوتا
ضرور تھا کہ کمالِ بیاں عطا کرتے؟
ضرور تھا کہ مرا امتحان ہی ہوتا؟
نہیں گلہ کوئی یاؔور پہ بحرِ غم میں کہیں
مرے سفینے پہ اک بادبان ہی ہوتا
یاور ماجد

کوئی زباں دراز کوئی بے زبان ہے

لاکھوں میں کوئی کوئی یہاں خوش بیان ہے
کوئی زباں دراز کوئی بے زبان ہے
جتنے بھی تِیر تھے تِرے ترکش میں چل چکے
مدت سے تیرے ہاتھ میں خالی کمان ہے
مجھ سے زیادہ خود پہ وہ کرنے لگا ستم
جانا ہے جب سے اُس نے مِری اُس میں جان ہے
اکثر رہی ہے میرے تخیل کی سیر گاہ
وہ سَر زمین جس کے تلے آسمان ہے
کچھ تو یہ دل بھی ہو گیا کم ہمتی کا صید
اور کچھ بدن میں پچھلے سفر کی تکان ہے
ایسے پڑے ہوئے ہیں لبوں پر ہمارے قفل
ہم بھول ہی گئے ہیں کہ منہ میں زبان ہے
باصرِؔ کچھ اپنے آپ میں رہنے لگا ہے مست
اے حُسنِ بے خیال ترا امتحان ہے
باصر کاظمی

آنکھیں ہماری لگ رہی ہیں آسمان سے

دیوان ششم غزل 1915
اب دشت عشق میں ہیں بتنگ آئے جان سے
آنکھیں ہماری لگ رہی ہیں آسمان سے
پڑتا ہے پھول برق سے گلزار کی طرف
دھڑکے ہے جی قفس میں غم آشیان سے
یک دست جوں صداے جرس بیکسی کے ساتھ
میں ہر طرف گیا ہوں جدا کاروان سے
تم کو تو التفات نہیں حال زار پر
اب ہم ملیں گے اور کسو مہربان سے
تم ہم سے صرفہ ایک نگہ کا کیا کیے
اغماض ہم کو اپنے ہے جی کے زیان سے
جاتے ہیں اس کی اور تو عشاق تیر سے
قامت خمیدہ ان کے اگر ہیں کمان سے
دلکش قد اس کا آنکھوں تلے ہی پھرا کیا
صورت گئی نہ اس کی ہمارے دھیان سے
آتا نہیں خیال میں خوش رو کوئی کبھو
تو مار ڈالیو نہ مجھے اس گمان سے
آنکھوں میں آ کے دل سے نہ ٹھہرا تو ایک دم
جاتا ہے کوئی دید کے ایسے مکان سے
دیں گالیاں انھیں نے وہی بے دماغ ہیں
میں میر کچھ کہا نہیں اپنی زبان سے
میر تقی میر

خالی ہوا جہاں جو گئے ہم جہان سے

دیوان ششم غزل 1890
لے عشق میں گئے دل پر اپنی جان سے
خالی ہوا جہاں جو گئے ہم جہان سے
دل میں مسودے تھے بہت پر حضور یار
نکلا نہ ایک حرف بھی میری زبان سے
ٹک دل سے آئو آنکھوں میں ہے دید کی جگہ
بہتر نہیں مکان کوئی اس مکان سے
اول زمینیوں میں ہو مائل مری طرف
جو حادثہ نزول کرے آسمان سے
یہ وہم ہے کہ آنکھیں مری لگ گئیں کہیں
تم مار ڈالیو نہ مجھے اس گمان سے
کھل جائیں گی تب آنکھیں جو مرجاوے گا کوئی
تم باز نئیں ہو آتے مرے امتحان سے
نامہربانی نے تو تمھاری کیا ہلاک
اب لگ چلیں گے اور کسی مہربان سے
زنبورخانہ چھاتی غم دوری سے ہوئی
وے ہم تلک نہ آئے کبھو کسر شان سے
تاثیر کیا کرے سخن میر یار میں
جب دیکھو لگ رہا ہے کوئی اس کے کان سے
میر تقی میر

مطلق نہیں ہے بند ہماری زبان میں

دیوان ششم غزل 1850
اسرار دل کے کہتے ہیں پیر و جوان میں
مطلق نہیں ہے بند ہماری زبان میں
رنگینی زمانہ سے خاطر نہ جمع رکھ
سو رنگ بدلے جاتے ہیں یاں ایک آن میں
شاید بہار آئی ہے دیوانہ ہے جوان
زنجیر کی سی آتی ہے جھنکار کان میں
بے وقفہ اس ضعیف پہ جور و ستم نہ کر
طاقت تعب کی کم ہے بہت میری جان میں
اس کے لبوں کے آگے کنھوں نے نہ بات کی
آئی ہے کسر شہد مصفا کی شان میں
چہرہ ہی یار کا رہے ہے چت چڑھا سدا
خورشید و ماہ آتے ہیں کب میرے دھیان میں
اب میرے اس کے عہد میں شاید کہ اٹھ گئی
آگے جو رسم دوستی کی تھی جہان میں
تارے تو یہ نہیں مری آہوں سے رات کی
سوراخ پڑگئے ہیں تمام آسمان میں
ابرو کی طرح اس کی چڑھی ہی رہے ہے میر
نکلی ہے شاخ تازہ کوئی کیا کمان میں
میر تقی میر

مگر آئے تھے میہمان سے لوگ

دیوان چہارم غزل 1423
کیا چلے جاتے ہیں جہان سے لوگ
مگر آئے تھے میہمان سے لوگ
قہر ہے بات بات پر گالی
جاں بہ لب ہیں تری زبان سے لوگ
شہر میں گھر خراب ہے اپنا
آتے ہیں یاں اب اس نشان سے لوگ
ایک گردش میں ہیں برابر خاک
کیا جھگڑتے ہیں آسمان سے لوگ
درد دل ان نے کب سنا میرا
لگے رہتے ہیں اس کے کان سے لوگ
بائو سے بھی لچک لہک ہے انھیں
ہیں یہی سبزے دھان پان سے لوگ
شوق میں تیر سے چلے اودھر
ہم خمیدہ قداں کمان سے لوگ
آدمی اب نہیں جہاں میں میر
اٹھ گئے اس بھی کاروان سے لوگ
میر تقی میر

اللہ رے دماغ کہ ہے آسمان پر

دیوان چہارم غزل 1386
مرتے ہیں ہم تو آدم خاکی کی شان پر
اللہ رے دماغ کہ ہے آسمان پر
چرکہ تھا دل میں لالہ رخوں کے خیال سے
کیا کیا بہاریں دیکھی گئیں اس مکان پر
عرصہ ہے تنگ صدر نشینوں پہ شکر ہے
بیٹھے اگر تو جا کے کسو آستان پر
آفات میں ہے مرغ چمن گل کے شوق سے
جوکھوں ہزار رنگ کی رہتی ہے جان پر
اس کام جاں کے جلووں کا میں ہی نہیں ہلاک
آفت عجب طرح کی ہے سارے جہان پر
جاتے تو ہیں پہ خواہش دل موت ہے نری
پھر بھی ہمیں نظر نہیں جی کے زیان پر
تقدیس دل تو دیکھ ہوئی جس کو اس سے راہ
سر دیں ہیں لوگ اس کے قدم کے نشان پر
انداز و ناز اپنے اس اوباش کے ہیں قہر
سو سو جوان مرتے ہیں ایک ایک آن پر
شوخی تو دیکھو آپھی کہا آئو بیٹھو میر
پوچھا کہاں تو بولے کہ میری زبان پر
میر تقی میر

اطفال شہر لائے ہیں آفت جہان پر

دیوان دوم غزل 806
کیا کیا نہ لوگ کھیلتے جاتے ہیں جان پر
اطفال شہر لائے ہیں آفت جہان پر
کچھ ان دنوں اشارئہ ابرو ہیں تیزتیز
کیا تم نے پھر رکھی ہے یہ تلوار سان پر
تھوڑے میں دور کھینچے ہے کیا آدم آپ کو
اس مشت خاک کا ہے دماغ آسمان پر
کس پر تھے بے دماغ کہ ابرو بہت ہے خم
کچھ زور سا پڑا ہے کہیں اس کمان پر
کس رنگ راہ پاے نگاریں سے تو چلا
ہونے لگے ہیں خون قدم کے نشان پر
چرچا سا کر دیا ہے مرے شور عشق نے
مذکور اب بھی ہے یہ ہر اک کی زبان پر
پی پی کے اپنا لوہو رہیں گوکہ ہم ضعیف
جوں رینگتی نہیں ہے انھوں کے تو کان پر
یہ وہم ہے کہ اور کا ہے میرے تیں خیال
تو مار ڈالیو نہ مجھے اس گمان پر
کیفیتیں ہزار ہیں اس کام جاں کے بیچ
دیتے ہیں لوگ جان تو ایک ایک آن پر
دامن میں آج میر کے داغ شراب ہے
تھا اعتماد ہم کو بہت اس جوان پر
میر تقی میر

زلفوں کی درہمی سے برہم جہان مارا

دیوان دوم غزل 717
اس کام جان و دل نے عالم کا جان مارا
زلفوں کی درہمی سے برہم جہان مارا
بلبل کا آتشیں دم دل کو لگا ہمارے
ایسا کنھوں نے جیسے چھاتی میں بان مارا
خوں کچھ نہ تھا ہمارا مرکوز خاطر اس کو
للہ اک ہمیں بھی یوں درمیان مارا
سرچشمہ حسن کا وہ آیا نظر نہ مجھ کو
اس راہزن نے غافل کیا کاروان مارا
صبر و حواس و دانش سب عشق کے زبوں ہیں
میں کاوش مژہ سے عالم کو چھان مارا
کیا خون کا مزہ ہے اے عشق تجھ کو ظالم
ایک ایک دم میں تونے سو سو جوان مارا
ہم عاجزوں پر آکر یوں کوہ غم گرا ہے
جیسے زمیں کے اوپر اک آسمان مارا
کب جی بچے ہے یارو خوش رو و مو بتاں سے
گر صبح بچ گیا تو پھر شام آن مارا
کہتے نہ تھے کہ صاحب اتنا کڑھا نہ کریے
اس غم نے میر تم کو جی سے ندان مارا
میر تقی میر

ہونٹ پر رنگ پان ہے گویا

دیوان دوم غزل 699
غنچہ ہی وہ دہان ہے گویا
ہونٹ پر رنگ پان ہے گویا
میرے مردے سے بھی وہ چونکے ہے
اب تلک مجھ میں جان ہے گویا
چاہیے جیتے گذرے اس کا نام
منھ میں جب تک زبان ہے گویا
سربسر کیں ہے لیک وہ پرکار
دیکھو تو مہربان ہے گویا
حیرت روے گل سے مرغ چمن
چپ ہے یوں بے زبان ہے گویا
مسجد ایسی بھری بھری کب ہے
میکدہ اک جہان ہے گویا
جائے ہے شور سے فلک کی طرف
نالۂ صبح بان ہے گویا
بسکہ ہیں اس غزل میں شعر بلند
یہ زمین آسمان ہے گویا
وہی شور مزاج شیب میں ہے
میر اب تک جوان ہے گویا
میر تقی میر

اب تلک نیم جان ہے پیارے

دیوان اول غزل 548
قصد گر امتحان ہے پیارے
اب تلک نیم جان ہے پیارے
سجدہ کرنے میں سر کٹیں ہیں جہاں
سو ترا آستان ہے پیارے
گفتگو ریختے میں ہم سے نہ کر
یہ ہماری زبان ہے پیارے
کام میں قتل کے مرے تن دے
اب تلک مجھ میں جان ہے پیارے
یاری لڑکوں سے مت کرے ان کا
عشق…ن ہے پیارے
چھوڑ جاتے ہیں دل کو تیرے پاس
یہ ہمارا نشان ہے پیارے
شکلیں کیا کیا کیاں ہیں جن نے خاک
یہ وہی آسمان ہے پیارے
جا چکا دل تو یہ یقینی ہے
کیا اب اس کا بیان ہے پیارے
پر تبسم کے کرنے سے تیرے
کنج لب پر گمان ہے پیارے
میر عمداً بھی کوئی مرتا ہے
جان ہے تو جہان ہے پیارے
میر تقی میر

یہ بلا آسمان پر آئی

دیوان اول غزل 436
آہ میری زبان پر آئی
یہ بلا آسمان پر آئی
عالم جاں سے تو نہیں آیا
ایک آفت جہان پر آئی
پیری آفت ہے پھر نہ تھا گویا
یہ بلا جس جوان پر آئی
ہم بھی حاضر ہیں کھینچیے شمشیر
طبع گر امتحان پر آئی
تب ٹھکانے لگی ہماری خاک
جب ترے آستان پر آئی
آتش رنگ گل سے کیا کہیے
برق تھی آشیان پر آئی
طاقت دل برنگ نکہت گل
پھیر اپنے مکان پر آئی
ہو جہاں میر اور غم اس کا
جس سے عالم کی جان پر آئی
میر تقی میر

آرزوے جہان ہوتے ہیں

دیوان اول غزل 336
خوبرو سب کی جان ہوتے ہیں
آرزوے جہان ہوتے ہیں
گوش دیوار تک تو جا نالے
اس میں گل کو بھی کان ہوتے ہیں
کبھو آتے ہیں آپ میں تجھ بن
گھر میں ہم میہمان ہوتے ہیں
دشت کے پھوٹے مقبروں پہ نہ جا
روضے سب گلستان ہوتے ہیں
حرف تلخ ان کے کیا کہوں میں غرض
خوبرو بدزبان ہوتے ہیں
غمزئہ چشم خوش قدان زمیں
فتنۂ آسمان ہوتے ہیں
کیا رہا ہے مشاعرے میں اب
لوگ کچھ جمع آن ہوتے ہیں
میر و مرزا رفیع و خواجہ میر
کتنے اک یہ جوان ہوتے ہیں
میر تقی میر

یہ وہ نہیں متاع کہ ہو ہر دکان میں

دیوان اول غزل 300
نکلے ہے جنس حسن کسی کاروان میں
یہ وہ نہیں متاع کہ ہو ہر دکان میں
جاتا ہے اک ہجوم غم عشق جی کے ساتھ
ہنگامہ لے چلے ہیں ہم اس بھی جہان میں
یارب کوئی تو واسطہ سرگشتگی کا ہے
یک عشق بھر رہا ہے تمام آسمان میں
ہم اس سے آہ سوز دل اپنا نہ کہہ سکے
تھے آتش دروں سے پھپھولے زبان میں
غم کھینچنے کو کچھ تو توانائی چاہیے
سویاں نہ دل میں تاب نہ طاقت ہے جان میں
غافل نہ رہیو ہم سے کہ ہم وے نہیں رہے
ہوتا ہے اب تو حال عجب ایک آن میں
وے دن گئے کہ آتش غم دل میں تھی نہاں
سوزش رہے ہے اب تو ہر اک استخوان میں
دل نذر و دیدہ پیش کش اے باعث حیات
سچ کہہ کہ جی لگے ہے ترا کس مکان میں
کھینچا نہ کر تو تیغ کہ اک دن نہیں ہیں ہم
ظالم قباحتیں ہیں بہت امتحان میں
پھاڑا ہزار جا سے گریبان صبر میر
کیا کہہ گئی نسیم سحر گل کے کان میں
میر تقی میر

دیکھا تو اور رنگ ہے سارے جہان کا

دیوان اول غزل 128
برقع اٹھا تھا رخ سے مرے بدگمان کا
دیکھا تو اور رنگ ہے سارے جہان کا
مت مانیو کہ ہو گا یہ بے درد اہل دیں
گر آوے شیخ پہن کے جامہ قرآن کا
خوبی کو اس کے چہرے کی کیا پہنچے آفتاب
ہے اس میں اس میں فرق زمین آسمان کا
ابلہ ہے وہ جو ہووے خریدار گل رخاں
اس سودے میں صریح ہے نقصان جان کا
کچھ اور گاتے ہیں جو رقیب اس کے روبرو
دشمن ہیں میری جان کے یہ جی ہے تان کا
تسکین اس کی تب ہوئی جب چپ مجھے لگی
مت پوچھ کچھ سلوک مرے بدزبان کا
یاں بلبل اور گل پہ تو عبرت سے آنکھ کھول
گلگشت سرسری نہیں اس گلستان کا
گل یادگار چہرئہ خوباں ہے بے خبر
مرغ چمن نشاں ہے کسو خوش زبان کا
توبرسوں میں کہے ہے ملوں گا میں میر سے
یاں کچھ کا کچھ ہے حال ابھی اس جوان کا
میر تقی میر

جگر مرغ جان سے نکلا

دیوان اول غزل 38
تیر جو اس کمان سے نکلا
جگر مرغ جان سے نکلا
نکلی تھی تیغ بے دریغ اس کی
میں ہی اک امتحان سے نکلا
گو کٹے سر کہ سوز دل جوں شمع
اب تو میری زبان سے نکلا
آگے اے نالہ ہے خدا کا ناؤں
بس تو نُہ آسمان سے نکلا
چشم و دل سے جو نکلا ہجراں میں
نہ کبھو بحر و کان سے نکلا
مر گیا جو اسیر قید حیات
تنگناے جہان سے نکلا
دل سے مت جا کہ حیف اس کا وقت
جو کوئی اس مکان سے نکلا
اس کی شیریں لبی کی حسرت میں
شہد پانی ہو شان سے نکلا
نامرادی کی رسم میر سے ہے
طور یہ اس جوان سے نکلا
میر تقی میر

بدن کے شہر میں دل کی دکان کیا کرتے

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 521
فراق بیچتے کیسے، پلان کیا کرتے
بدن کے شہر میں دل کی دکان کیا کرتے
ہمیں خبر ہی نہ تھی رات کے اترنے کی
سو اپنے کمرے کا ہم بلب آن کیا کرتے
نکل رہی تھی قیامت کی دھوپ ایٹم سے
یہ کنکریٹ بھرے سائبان کیا کرتے
تھلوں کی ریت پہ ٹھہرے ہوئے سفینے پر
ہوا تو تھی ہی نہیں بادبان کیا کرتے
بدن کا روح سے تھا اختلاف لیکن ہم
خیال و واقعہ کے درمیان کیا کرتے
فلک نژاد تھے اور لوٹ کے بھی جانا تھا
زمیں کے کس طرح ہوتے، مکان کیا کرتے
نمازاوڑھ کے رکھتے تھے، حج پہنتے تھے
ترے ملنگ تھے ہم ،دو جہان کیا کرتے
دکانِ دین فروشی پہ بِک رہا تھا تُو
تجھے خریدتے کیسے ، گمان کیا کرتے
نہ ہوتی صبحِ محمدثبوتِ حق کیلئے
تو یہ چراغوں بھرے آسمان کیا کرتے
پھر اس کے بعد بلندی سے کیا ہمیں منصور
مقامِ عرش سے کوئی اڑان کیا کرتے
منصور آفاق

یہ بغیر تاروں کے بلب آن کیسے ہیں

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 390
تیرا چہرہ کیسا ہے میرے دھیان کیسے ہیں
یہ بغیر تاروں کے بلب آن کیسے ہیں
خواب میں اسے ملنے کھیت میں گئے تھے ہم
کارپٹ پہ جوتوں کے یہ نشان کیسے ہیں
بولتی نہیں ہے جو وہ زبان کیسی ہے
یہ جو سنتے رہتے ہیں میرے کان کیسے ہیں
روکتے ہیں دنیا کو میری بات سننے سے
لوگ میرے بارے میں بد گمان کیسے ہیں
کیا ابھی نکلتا ہے ماہ تاب گلیوں میں
کچھ کہو میانوالی آسمان کیسے ہیں
کیا ابھی محبت کے گیت ریت گاتی ہے
تھل کی سسی کیسی ہے پنوں خان کیسے ہیں
کیا قطار اونٹوں کی چل رہی ہے صحرا میں
گھنٹیاں سی بجتی ہیں ، ساربان کیسے ہیں
چمنیوں کے ہونٹوں سے کیا دھواں نکلتا ہے
خالی خالی برسوں کے وہ مکان کیسے ہیں
دیکھتا تھا رم جھم سی بیٹھ کر جہاں تنہا
لان میں وہ رنگوں کے سائبان کیسے ہیں
اب بھی وہ پرندوں کو کیا ڈراتے ہیں منصور
کھیت کھیت لکڑی کے بے زبان کیسے ہیں
منصور آفاق