وفورِ شوق رہے دل میں جا گزیں کب تک
مکان جس کا ہے وہ ہو گا خود مکیں کب تک
سکونِ دل کی کرن کب افق سے پھوٹے گی
ترا طواف کروں کعبۂ یقیں کب تک
نشانِ سجدہ سجا تَو لِیا ہے ماتھے پر
اب اِس سے ہو گی منوّر تری جبیں کب تک
علامتِ رَمَقِ جاں ہے یہ غنیمت جان
ترا ضمیر کرے گا نہیں نہیں کب تک
یہیں عذاب ہیں دوزخ کو بھی یہیں لے آ
پڑی رہے گی وہ بیکار اور وہیں کب تک
رہیں گے عرش بَدَر تیرے کب تلک آباد
نظر فلک سے چُرائے گی یہ زمیں کب تک
کب اپنی ذات سے آزاد ہو گا یہ انساں
رہے گی اِس کی اَنا مارِ آستیں کب تک
نہ فلسفہ تری منزل نہ یہ علومِ جدید
نہ آزمائے گا ضامنؔ تُو راہِ دیں کب تک
ضامن جعفری