ٹیگ کے محفوظات: آسان

گوش زد اک دن ہوویں کہیں تو بے لطفی سے زبان کرے

دیوان چہارم غزل 1492
لطف ہے کیا انواع ستم جو اس کے کوئی بیان کرے
گوش زد اک دن ہوویں کہیں تو بے لطفی سے زبان کرے
ہم تو چاہ کر اس پتھر کو سخت ندامت کھینچی ہے
چاہ کرے اب وہ کوئی جو چاہت کا ارمان کرے
سودے میں دل کے نفع جو چاہے خام طمع سودائی ہے
وارا سارا عشق میں کیسا جی کا بھی نقصان کرے
حشر کے ہنگامے میں چاہیں دادعشق تو حسن نہیں
کاشکے یاں وہ ظالم اپنے دل ہی میں دیوان کرے
آتش خو مغرور سے ویسے عہدہ برآ کیا عاشق ہو
دل کو جلاوے منت رکھے جی مارے احسان کرے
یمن عشق غم افزا سے کام نہایت مشکل ہے
اب بھی نہیں نومیدی دل کو شاید عشق آسان کرے
کہنے میں یہ بات آتی نہیں ہو سیر خدا کی قدرت کی
موند کر آنکھیں میر اگر تو دل کی طرف ٹک دھیان کرے
میر تقی میر

اب کہتے ہیں خلطہ کیسا جان نہیں پہچان نہیں

دیوان چہارم غزل 1462
عالم علم میں ایک تھے ہم وے حیف ہے ان کو گیان نہیں
اب کہتے ہیں خلطہ کیسا جان نہیں پہچان نہیں
کس امید پہ ساکن ہووے کوئی غریب شہر اس کا
لطف نہیں اکرام نہیں انعام نہیں احسان نہیں
ہائے لطافت جسم کی اس کے مر ہی گیا ہوں پوچھو مت
جب سے تن نازک وہ دیکھا تب سے مجھ میں جان نہیں
کیا باتوں سے تسلی ہو دل مشکل عشقی میری سب
یار سے کہنے کہتے ہیں پر کہنا کچھ آسان نہیں
شام و سحر ہم سرزدہ دامن سر بگریباں رہتے ہیں
ہم کو خیال ادھر ہی کاہے ان کو ادھر کا دھیان نہیں
جان کے میں تو آپ بنا ہوں ان لڑکوں میں دیوانہ
عقل سے بھی بہرہ ہے مجھ کو اتنا میں نادان نہیں
پائوں کو دامن محشر میں ناچاری سے ہم کھینچیں گے
لائق اپنی وحشت کے اس عرصے کا میدان نہیں
چاہت میں اس مایۂ جاں کی مرنے کے شائستہ ہوئے
جا بھی چکی ہے دل کی ہوس اب جینے کا ارمان نہیں
شور نہیں یاں سنتا کوئی میر قفس کے اسیروں کا
گوش نہیں دیوار چمن کے گل کے شاید کان نہیں
میر تقی میر

آ بوالہوس گر ذوق ہے یہ گو ہے یہ میدان ہے

دیوان اول غزل 606
اپنا سر شوریدہ تو وقف خم چوگان ہے
آ بوالہوس گر ذوق ہے یہ گو ہے یہ میدان ہے
عالم مری تقلید سے خواہش تری کرنے لگا
میں تو پشیماں ہو چکا لوگوں کو اب ارمان ہے
ہر چند بیش از بیش ہے دعویٰ تو رونے کا تجھے
پر دیدئہ نمناک بھی اے ابرتر طوفان ہے
اس بے دمی میں بھی کبھو دل بھر اٹھے ہے دم ترا
آ ٹک شتابی بے وفا اب تک تو مجھ میں جان ہے
ہر لحظہ خنجر درمیاں ہر دم زباں زیر زباں
وہ طور وہ اسلوب ہے یہ عہد یہ پیمان ہے
اس آرزوے وصل نے مشکل کیا جینا مرا
ورنہ گذرنا جان سے اتنا نہیں آسان ہے
بس بے وقاری ہوچکی گلیوں میں خواری ہوچکی
اب پاس کر ٹک میر کا دو چار دن مہمان ہے
میر تقی میر

دکھلائی دے جہاں تک میدان ہورہا ہے

دیوان اول غزل 491
بے یار شہر دل کا ویران ہورہا ہے
دکھلائی دے جہاں تک میدان ہورہا ہے
اس منزل جہاں کے باشندے رفتنی ہیں
ہر اک کے ہاں سفر کا سامان ہورہا ہے
اچھا لگا ہے شاید آنکھوں میں یار اپنی
آئینہ دیکھ کر کچھ حیران ہورہا ہے
ٹک زیر طاق نیلی وسواس سے رہا کر
مدت سے گرنے پر یہ ایوان ہورہا ہے
گل دیکھ کر چمن میں تجھ کو کھلا ہی جا ہے
یعنی ہزار جی سے قربان ہورہا ہے
حال زبون اپنا پوشیدہ کچھ نہ تھا تو
سنتا نہ تھا کہ یہ صید بے جان ہورہا ہے
ظالم ادھر کی سدھ لے جوں شمع صبح گاہی
ایک آدھ دم کا عاشق مہمان ہورہا ہے
قرباں گہ محبت وہ جا ہے جس میں ہر سو
دشوار جان دینا آسان ہورہا ہے
ہر شب گلی میں اس کی روتے تو رہتے ہو تم
اک روز میر صاحب طوفان ہورہا ہے
میر تقی میر

بوسہ بھی لیں تو کیا ہے ایمان ہے ہمارا

دیوان اول غزل 108
تیرا رخ مخطط قرآن ہے ہمارا
بوسہ بھی لیں تو کیا ہے ایمان ہے ہمارا
گر ہے یہ بے قراری تو رہ چکا بغل میں
دو روز دل ہمارا مہمان ہے ہمارا
ہیں اس خراب دل سے مشہور شہرخوباں
اس ساری بستی میں گھر ویران ہے ہمارا
مشکل بہت ہے ہم سا پھر کوئی ہاتھ آنا
یوں مارنا تو پیارے آسان ہے ہمارا
ادریس و خضر و عیسیٰ قاتل سے ہم چھڑائے
ان خوں گرفتگاں پر احسان ہے ہمارا
ہم وے ہیں سن رکھو تم مرجائیں رک کے یک جا
کیا کوچہ کوچہ پھرنا عنوان ہے ہمارا
ہیں صید گہ کے میری صیاد کیا نہ دھڑکے
کہتے ہیں صید جو ہے بے جان ہے ہمارا
کرتے ہیں باتیں کس کس ہنگامے کی یہ زاہد
دیوان حشر گویا دیوان ہے ہمارا
خورشید رو کا پرتو آنکھوں میں روز ہے گا
یعنی کہ شرق رویہ دالان ہے ہمارا
ماہیت دوعالم کھاتی پھرے ہے غوطے
یک قطرہ خون یہ دل طوفان ہے ہمارا
نالے میں اپنے ہر شب آتے ہیں ہم بھی پنہاں
غافل تری گلی میں مندان ہے ہمارا
کیا خانداں کا اپنے تجھ سے کہیں تقدس
روح القدس اک ادنیٰ دربان ہے ہمارا
کرتا ہے کام وہ دل جو عقل میں نہ آوے
گھر کا مشیر کتنا نادان ہے ہمارا
جی جا نہ آہ ظالم تیرا ہی تو ہے سب کچھ
کس منھ سے پھر کہیں جی قربان ہے ہمارا
بنجر زمین دل کی ہے میر ملک اپنی
پر داغ سینہ مہر فرمان ہے ہمارا
میر تقی میر