ٹیگ کے محفوظات: آخری

وہ شے جو دل میں فراواں ہے بے دلی ہی نہ ہو

چھلک رہی ہے جو مجھ میں وہ تشنگی ہی نہ ہو
وہ شے جو دل میں فراواں ہے بے دلی ہی نہ ہو
گزر رہا ہے تُو کس سے گریز کرتا ہوا
ٹھہر کے دیکھ لے اے دل کہیں خوشی ہی نہ ہو
ترے سکوت سے بڑھ کر نہیں ہے تیرا سخن
مرا سخن بھی کہیں میری خامشی ہی نہ ہو
میں شہرِ جاں سے اُسی کی طرف ہی لوٹوں گا
یہ اور بات کہ اب میری واپسی ہی نہ ہو
وہ آج مجھ سے کوئی بات کہنے والا ہے
میں ڈر رہا ہوں کہ یہ بات آخری ہی نہ ہو
نہ ہو وہ شخص مزاجاً ہی سرد مہر کہیں
میں بے رُخی جسے کہتا ہوں بے حسی ہی نہ ہو
یہ کیا سفر ہے کہ جس کی مسافتیں گُم ہیں
عجب نہیں کہ مری ابتدا ہوئی ہی نہ ہو
ہر اعتبار سے رہتا ہے با مراد وہ دل
امید جس نے کبھی اختیار کی ہی نہ ہو
عجیب ہے یہ مری لا تعلقی جیسے
جو کر رہا ہوں بسر میری زندگی ہی نہ ہو
یہ شعلگی تو صفت ہے الم نصیبوں کی
جو غم نہ ہو تو کسی دل میں روشنی ہی نہ ہو
کہیں غرور کا پردہ نہ ہو یہ کم سخنی
یہ عجز اصل میں احساسِ برتری ہی نہ ہو
مرے سپرد کیا اُس نے فیصلہ اپنا
یہ اختیار کہیں میری بے بسی ہی نہ ہو
عرفان ستار

وہ شے جو دل میں فراواں ہے بے دلی ہی نہ ہو

عرفان ستار ۔ غزل نمبر 25
چھلک رہی ہے جو مجھ میں وہ تشنگی ہی نہ ہو
وہ شے جو دل میں فراواں ہے بے دلی ہی نہ ہو
گزر رہا ہے تُو کس سے گریز کرتا ہوا
ٹھہر کے دیکھ لے اے دل کہیں خوشی ہی نہ ہو
ترے سکوت سے بڑھ کر نہیں ہے تیرا سخن
مرا سخن بھی کہیں میری خامشی ہی نہ ہو
میں شہرِ جاں سے اُسی کی طرف ہی لوٹوں گا
یہ اور بات کہ اب میری واپسی ہی نہ ہو
وہ آج مجھ سے کوئی بات کہنے والا ہے
میں ڈر رہا ہوں کہ یہ بات آخری ہی نہ ہو
نہ ہو وہ شخص مزاجاً ہی سرد مہر کہیں
میں بے رُخی جسے کہتا ہوں بے حسی ہی نہ ہو
یہ کیا سفر ہے کہ جس کی مسافتیں گُم ہیں
عجب نہیں کہ مری ابتدا ہوئی ہی نہ ہو
ہر اعتبار سے رہتا ہے با مراد وہ دل
امید جس نے کبھی اختیار کی ہی نہ ہو
عجیب ہے یہ مری لا تعلقی جیسے
جو کر رہا ہوں بسر میری زندگی ہی نہ ہو
یہ شعلگی تو صفت ہے الم نصیبوں کی
جو غم نہ ہو تو کسی دل میں روشنی ہی نہ ہو
کہیں غرور کا پردہ نہ ہو یہ کم سخنی
یہ عجز اصل میں احساسِ برتری ہی نہ ہو
مرے سپرد کیا اُس نے فیصلہ اپنا
یہ اختیار کہیں میری بے بسی ہی نہ ہو
عرفان ستار

مگر اب احتجاج جاں فصیلِ آخری پر ہے

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 614
تری تعمیر کی بنیاد اپنی بے گھری پر ہے
مگر اب احتجاج جاں فصیلِ آخری پر ہے
جسے حاصل کیا ہے تُو نے اپنی بیچ کر لاشیں
مرا تھو ایسی صدرِ مملکت کی نوکری پر ہے
فقط میری طرف سے ہی نہیں یہ پھولوں کا تحفہ
خدا کی لعنتِ پیہم بھی تیری قیصری پر ہے
جلوس اپنا ابھی نکلے گا کالی کالی قبروں سے
نظر اپنی بھی زر آباد کی خوش منظری پر ہے
قسم مجھ کو بدلتے موسموں کے سرخ رنگوں کی
ترا انجام اب لوگوں کی آشفتہ سری پر ہے
نظامِ زر !مجھے سونے کے برتن دے نہ تحفے میں
مرا ایمان تو خالی شکم کی بوزری پر ہے
زیادہ حیثیت رکھتی ہے پانی پت کی جنگوں سے
وہ اک تصویر بابر کی جو تزکِ بابری پر ہے
فرشتے منتظر ہیں بس سجا کر جنتیں اپنی
مرا اگلا پڑاؤ اب مریخ و مشتری پر ہے
وہ جو موج سبک سر ناچتی ہے میری سانسوں میں
سمندر کا تماشا بھی اسی بس جل پری پر ہے
اسے صرفِ نظر کرنے کی عادت ہی سہی لیکن
توقع، بزم میں اپنی مسلسل حاضری پر ہے
یقینا موڑ آئیں گے مرے کردار میں لیکن
ابھی تو دل کا افسانہ نگاہِ سرسری پر ہے
عجب تھیٹر لگا ہے عرسِ حوا پر کہ آدم کی
توجہ صرف اعضائے بدن کی شاعری پر ہے
وفا کے برف پروردہ زمانے یاد ہیں لیکن
یقیں منصور جذبوں کی دہکتی جنوری پر ہے
منصور آفاق

دکھ ہمیں بھی ہوتا ہے آدمی تو ہم بھی ہیں

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 381
دیکھتے لپک تیرے طنز کی تو ہم بھی ہیں
دکھ ہمیں بھی ہوتا ہے آدمی تو ہم بھی ہیں
کھلتے کھلتے کھلتے ہیں اپنی اپنی دنیا میں
تم اگر تجسس ہو سنسنی تو ہم بھی ہیں
تم سہی سیہ بدلی آنسوئوں کے موسم کی
آس پاس مژگاں کے کچھ نمی تو ہم بھی ہیں
عشق کی شریعت میں کیا جو قیس پہلے تھے
ہجر کی طریقت میں آخری تو ہم بھی ہیں
جانتے ہیں دنیا کو درد کا سمندر ہے
اور اس سمندر میں اک گلی تو ہم بھی ہیں
پیڑ سے تعلق تو ٹوٹ کے بھی رہتا ہے
سوختہ سہی لیکن شبنمی تو ہم بھی ہیں
دو گھڑی کا قصہ ہے زندگی محبت میں
دو گھڑی تو تم بھی ہو دو گھڑی تو ہم بھی ہیں
جیل کی عمارت ہے عاشقی کی صحبت بھی
بیڑیاں اگر تم ہو ہتھکڑی تو ہم بھی ہیں
نام وہ ہمارا پھر اک کرن کے ہونٹوں پر
وقت کے ستارے پر۔ ہاں ابھی تو ہم بھی ہیں
کیا ہوا جو ہجراں کی رہ رہے ہیں مشکل میں
یار کے شبستاں میں یاد سی تو ہم بھی ہیں
دیدنی زمانے میں بے خبر بہاروں سے
گلستانِ حیرت کی اک کلی تو ہم بھی ہیں
مانا عشق کرنے کا کچھ پتہ نہیں تم کو
دلبری کی بستی میں اجنبی تو ہم بھی ہیں
یہ الگ گوارا ہم وقت کو نہیں لیکن
جس طرح کے ہوتے ہیں آدمی تو ہم بھی ہیں
کربلا کی وحشت سے، سلسلہ نہیں لیکن
ساحلوں پہ دریا کے تشنگی تو ہم بھی ہیں
ہیر تیرے بیلے میں آنسوئوں کے ریلے میں
خالی خالی بیلے میں بانسری تو ہم بھی ہیں
تم چلو قیامت ہو تم چلو مصیبت ہو
بے بسی تو ہم بھی ہیں ، بے کسی تو ہم بھی ہیں
صبح کے نکلتے ہی بجھ تو جانا ہے ہم کو
رات کی سہی لیکن روشنی تو ہم بھی ہیں
دیکھتے ہیں پھولوں کو، سوچتے ہیں رنگوں کو
خوشبوئوں کے مکتب میں فلسفی تو ہم بھی ہیں
ایک الف لیلیٰ کی داستاں سہی کوئی
دوستو کہانی اک متھ بھری تو ہم بھی ہیں
منصور آفاق

میرے ساتھ خوشبو اور روشنی مسافر ہیں

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 368
یاد کے گلی میں دو اجنبی مسافر ہیں
میرے ساتھ خوشبو اور روشنی مسافر ہیں
گھر میں کمپیوٹر کی صرف ایک کھڑکی ہے
ورنہ قیدیوں کے دل ہر گھڑی مسافر ہیں
چند ٹن بیئر کے ہیں چند چپس کے پیکٹ
رات کی سڑک ہے اور ہم یونہی مسافر ہیں
کون ریل کو سگنل لالٹین سے دے گا
گاؤں کے سٹیشن پر اک ہمی مسافر ہیں
نیند کے جزیرے پر، آنکھ کی عمارت میں
اجنبی سے لگتے ہیں ، یہ کوئی مسافر ہیں
شب پناہ گیروں کے ساتھ ساتھ رہتی ہے
روشنی کی بستی میں ہم ابھی مسافر ہیں
اور اک سمندر سا پھر عبور کرنا ہے
خار و خس کی کشتی ہے کاغذی مسافر ہیں
چند اور رہتے ہیں دھوپ کے قدم منصور
شام کی گلی کے ہم آخری مسافر ہیں
منصور آفاق