ٹیگ کے محفوظات: آبشار

اب کسی پر کوئی اعتبار نہیں ہے

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 624
مان لیا وہ بھی میرا یار نہیں ہے
اب کسی پر کوئی اعتبار نہیں ہے
جاگ رہا ہوں میں کتنے سال ہوئے ہیں
کیسے کہوں اس کا انتظار نہیں ہے
ٹوٹ گئے ہیں دو پھر امید بھرے دل
ٹکڑے ہیں اتنے کہ کچھ شمار نہیں ہے
میرا بدن برف ہے یا تیرِ نظر میں
پہلے پہل والی اب کے مار نہیں ہے
عہدِ خزاں میں ہے میرا باغ کہ جیسے
دامنِ تقدیر میں بہار نہیں ہے
سنگ اچھالے ہیں اس نے بام سے مجھ پر
جیسے گلی اس کی رہگزار نہیں ہے
ایک دعا بس ہے میرے پاس عشاء کی
رات! مرا کوئی غمگسار نہیں ہے
صرف گھٹا ہے جو دل میں روئے برس کے
اور کوئی چشمِ اشکبار نہیں ہے
سرخ ہے بے شک نمود چہرئہ تاریخ
دامنِ تہذیب داغ دار نہیں ہے
سنگ زدہ اس کے رنگ ڈھنگ ہیں لیکن
آدمی ہے کوئی کوہسار نہیں ہے
پار کروں گا میں اپنی آگ کا دریا
دیکھ رہا ہوں یہ بے کنار نہیں ہے
وقت نہیں آج اس کے پاس ذرا بھی
اور یہاں رنگِ اختصار نہیں ہے
مست ہوائیں بھی ماہتاب بھی لیکن
رات بھری زلفِ آبشار نہیں ہے
گھوم رہا ہوں فصیلِ ذات کے باہر
کوئی بھی دروازئہ دیار نہیں ہے
ایک نہیں قحط عشق صرف یہاں پر
شہر میں کوئی بھی کاروبار نہیں ہے
پھیر ہی جا مجھ پہ اپنا دستِ کرامت
آ کہ مری جان کو قرار نہیں ہے”
درج ہے نیلی بہشتِ خواب کا منظر
آنکھ میں منصور کی غبار نہیں ہے
بنام غالب
منصور آفاق

وہ دیکھنا ہے جسے بار بار کیسا ہے

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 601
امیدِ وصل ہے جس سے وہ یار کیسا ہے
وہ دیکھنا ہے جسے بار بار کیسا ہے
اٹھانیں کیسی ہیں اسکی ، خطوط کیسے ہیں
بدن کا قریۂ نقش و نگار کیسا ہے
ادائیں کیسی ہیں کھانے کی میز پر اس کی
لباس کیسا ہے اْس کا، سنگھار کیسا ہے
وہ کیسے بال جھٹکتی ہے اپنے چہرے سے
لبوں سے پھوٹتے دن کا نکھار کیسا ہے
وہ شاخیں کیسی ہے دامن کے پھول کیسے ہیں
مقامِوصل کا قرب و جوار کیسا ہے
وہ پاؤں گھومتے کیسے ہیں اپنی گلیوں میں
طلسمِ شوق کا پھیلا دیار کیسا ہے
سیاہی گرتی ہے دنیا پہ یا سنہرا پن
وہ زلفیں کیسی ہیں وہ آبشار کیسا ہے
طواف کرتا ہے جس کا یہ کعبہِاعظم
وہ پاک باز ، تہجد گزار کیسا ہے
یہ کس خیال کی مستی ہے میری آنکھوں میں
شراب پی ہی نہیں ہے…خمار کیسا ہے
نہ کوئی نام نہ چہرہ نہ رابطہ نہ فراق
کسی کا پھر یہ مجھے انتظار کیسا ہے
یہ اجنبی سی محبت کہاں سے آئی ہے
یونہی جو روح سے نکلا ہے ، پیار کیسا ہے
بس ایک سایہ تعاقب میں دیکھتا ہوں میں
کسی کے ہونے کا یہ اعتبار کیسا ہے
وہ پھول جس کی مہک سے مہک رہا ہوں میں
کھلا ہوا کہیں ، دریا کے پار ،کیسا ہے
وہ جس کی نرم تپش سے دھک رہا ہے دل
وہ آسمان کے پیچھے شرار کیسا ہے
یہ آپ دھول اڑاتی ہے کس لئے منزل
یہ راستے پہ مسلسل غبار کیسا ہے
نواحِ جاں میں فقط چاند کی کرن منصور
بدن میں آگ ہے کیسی ، بخار کیسا ہے
منصور آفاق

دیکھتا جسے بھی تھا کوہسار لگتا تھا

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 82
عرش تک میانوالی بے کنار لگتا تھا
دیکھتا جسے بھی تھا کوہسار لگتا تھا
بارشوں کے موسم میں جب ہوا اترتی تھی
اپنے گھر کا پرنالا آبشار لگتا تھا
منچلوں کی گلیوں میں رات جب مچلتی تھی
کوچہء رقیباں بھی کوئے یار لگتا تھا
ایک چائے خانہ تھا یاد کے سٹیشن پر
بھیگتے اندھیرے میں غمگسار لگتا تھا
ایک نہر پانی کی شہر سے گزرتی تھی
اس کا یخ رویہ بھی دل بہار لگتا تھا
ادھ جلے سے سگریٹ کے ایک ایک ٹکڑے میں
لاکھ لاکھ سالوں کا انتظار لگتا تھا
قید اک رگ و پے میں روشنی کی دیوی تھی
جسم کوئی شیشے کا جار وار لگتا تھا
باتھ روم میں کوئی بوند سی ٹپکتی تھی
ذہن پر ہتھوڑا سا بار بار لگتا تھا
ہمسفر جوانی تھی ہم سخن خدا منصور
اپنا ہی زمانے پر اقتدار لگتا تھا
منصور آفاق

آنکھوں سے گرپڑے کئی نیلم کے آبشار

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 7
میں جا رہا تھا دیکھنے فرودسِ بے کنار
آنکھوں سے گرپڑے کئی نیلم کے آبشار
شادابیوں کی آخری حد، وادئ گریز
پاؤں کے انتظار میں صدیوں سے اشکبار
ہلمت کی بے پناہ بلندی پہ تیز آب
پھرتا ہے بادلوں کے دریچوں میں بے قرار
لاکھوں برس قدیم گھنے جنگلوں کا کیل
اور اس کے بیچ زندگی باردو کا شکار
کیوں صحنِ شاردا میں ہوئی بدھ کی آتما
کتنے کروڑ لوگوں کے اشکوں سے داغدار
معصوم داؤکھن کی مقدس سفیدیاں
اک دورِ جاھلاں میں رسولوں میں انتظار
شمشہ بری کے پیچھے چناروں کا سرخ روپ
بادل بھری شعاعوں کامقتل پسِ بہار
اڑتے ہیں دھیر کوٹ کی گلیوں میں برگ و بار
جیسے بدلنے لگتی ہے تہذیبِ برف زار
شبنم کے موتیوں سے بھرا راولہ کا کوٹ
ہر سنگ میں دکھاتا ہے اک چشمِ آب دار
بنجوسہ جیسے آب درختوں کے تھال میں
بس گھومتی ہے روح میں خاموش سی پکار
دریائے تند سو گئے منگلا کی گود میں
منصور ڈھونڈتا رہا کشمیر کے سوار
منصور آفاق

پانیوں پر گر رہا تھا گھنٹیوں کا آبشار

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 6
پار دریا کر رہی تھی سبز اونٹوں کی قطار
پانیوں پر گر رہا تھا گھنٹیوں کا آبشار
دور تک کالی سڑک تھی اور پگھلتی تارکول
چل رہی تھی ٹائروں کا دکھ پہن کر ایک کار
رات ہجراں کی، سلو موشن میں صدیوں پر محیط
دن جدائی کا کہیں ، جیسے ابد کا انتظار
کعبہء عشقِ محمد ابرہوں کی زد میں ہے
پھر ابابیلوں کا لشکر آسمانوں سے اتار
سندھ کی موجوں کے بوسے مضطرب ہیں دیر سے
کر رہا ہے تیرے نقشِ پا کا ساحل انتظار
دور تک منصور بستر سی وصال انگیز ریت
ایک گیلی رات،میں ،اور تھل کا حسنِ خوشگوار
منصور آفاق