ٹیگ کے محفوظات: اوسان

آہ و فغاں کے طور سے میرے لوگ مجھے پہچان گئے

دیوان سوم غزل 1253
شور کیا جو اس کی گلی میں رات کو ہیں سب جان گئے
آہ و فغاں کے طور سے میرے لوگ مجھے پہچان گئے
عہد میں اس کی یاری کے خوں دل میں ہوئے ہیں کیا کیا چائو
خاک میں آخر ساتھ ہی میرے سب میرے ارمان گئے
موت جو آئے سر پر انساں دست و پا گم کرتا ہے
دیکھتے ہی شمشیر بکف کچھ آج اسے اوسان گئے
مہلت عمر دوروزہ کتنی کریے فضولی کاہے پر
آئے جو ہیں دنیا میں ہم تو جیسے کہیں مہمان گئے
ہاتھ لگا وہ گوہر مقصد جیسا ہے معلوم ہمیں
محو طلب ہو اہل طلب سب خاک بھی یاں کی چھان گئے
کہیے سلوک انھوں کے کیا کیا چھیڑ تجاہل کی ہے نئی
نکلے تھے اس رستے سو وے جان کے بھی انجان گئے
میر نظر کی دل کی طرف کی عرش کی جانب فکر بہت
تھی جو طلب مطلوب کی ہم کو کیدھر کیدھر دھیان گئے
میر تقی میر

اک اشکِ فراموش مرے دھیان میں آیا

آفتاب اقبال شمیم ۔ غزل نمبر 88
لرزہ سا کبھی تن میں کبھی جان میں آیا
اک اشکِ فراموش مرے دھیان میں آیا
خوں ہو کہ یہ دل طاق ہوا عرضِ ہنر میں
یہ ساز سدا ٹوٹ کے ہی تان میں آیا
تھا خواب بھی اک کرمکِ شب تاب کی صورت
جو روز میرے تیرہ شبستان میں آیا
کچھ یوں بھی مجھے عمر کے گھٹنے کا قلق تھا
کچھ سخت خسارہ میرے ارمان میں آیا
اے ربِ سخن! میں کوئی ایسا تو نہیں تھا
کیا جانئے، کیسے تیری پہچان میں آیا
وہ دید بھی کیا دید تھی، پر کیسے بتاؤں
اک عمر ہوئی میں نہیں اوسان میں آیا
آفتاب اقبال شمیم