ٹیگ کے محفوظات: اودھم

پوچھئے گا نہ بات یہ ہم سے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 44
کیوں خفا ہیں ہم ابنِ آدم سے
پوچھئے گا نہ بات یہ ہم سے
ہم اور اُس سے صفائیاں مانگیں
باز آئے ہم ایسے اودھم سے
اب تو ہے جاں کا بھی زیاں اِس میں
نشّہِ درد کم نہیں سم سے
جب سے اُبھرے نشیب سے ہم بھی
لوگ رہتے ہیں ہم سے برہم سے
کوئی خواہش بھی لَو نہ دے ماجدؔ
ہو گئے سب چراغ مدّھم سے
ماجد صدیقی

تم ہوئے رعنا جواں بالفرض لیکن ہم کہاں

دیوان ششم غزل 1855
دم ہے مہلت شیب میں جانے کا اپنے غم کہاں
تم ہوئے رعنا جواں بالفرض لیکن ہم کہاں
عالم عالم جمع تھے خوباں جہاں صافا ہوا
گرچہ عالم اور ہے اب واں پہ وہ عالم کہاں
تھی بلا شوخی شرارت یار کی ہنگامہ ساز
شور یوں تو اوروں کا بھی ہے پہ وہ اودھم کہاں
کیا جنوں ہے تم کو جو تم طالب ویرانہ ہو
جس کو فردوس بریں کہتے ہیں واں آدم کہاں
حبس دم میں شیخ جو کرتا نہیں حرف و سخن
حق طرف ہے اس کے اس بیہودہ گو میں دم کہاں
ہو سو ہو میں میر اب تو دم بخود ہوں ہجر میں
کیا لکھوں تہ دل کی باتیں کاغذ و محرم کہاں
میر تقی میر

کاش یہ آفت نہ ہوتی قالب آدم کے بیچ

دیوان ششم غزل 1821
دل یہی ہے جس کو دل کہتے ہیں اس عالم کے بیچ
کاش یہ آفت نہ ہوتی قالب آدم کے بیچ
چھاتی کٹتی سنگ ہی سے دل کے جانے میں نہیں
نعل سینوں پر جڑے جاتے ہیں اس ماتم کے بیچ
نقشہ اس کا مردم دیدہ میں میرے نقش ہے
یعنی صورت اس ہی کی پھرتی ہے چشم نم کے بیچ
شاد وے جو اب جواں تازہ ہوئے ہیں شہر میں
دل زدہ ہم شیب میں رہتے ہیں اپنے غم کے بیچ
دل نہ ایسا کر کہ پشت چشم وہ نازک کرے
سو بلائیں ہیں یہاں ان ابروؤں کے خم کے بیچ
حد سے افزوں اس گلی میں شور ہے عشاق کا
کون سنتا ہے کسو کی بات اس اودھم کے بیچ
رونق آبادی ملک سخن ہے اس تلک
ہوں ہزاروں دم الٰہی میر کے اک دم کے بیچ
میر تقی میر

بہت عالم کرے گا غم ہمارا

دیوان ششم غزل 1808
سخن مشتاق ہے عالم ہمارا
بہت عالم کرے گا غم ہمارا
پڑھیں گے شعر رورو لوگ بیٹھے
رہے گا دیر تک ماتم ہمارا
نہیں ہے مرجع آدم اگر خاک
کدھر جاتا ہے قد خم ہمارا
زمین و آسماں زیر و زبر ہے
نہیں کم حشر سے اودھم ہمارا
کسو کے بال درہم دیکھتے میر
ہوا ہے کام دل برہم ہمارا
میر تقی میر

جب تلک ہم جائیں اودھم ہو گیا

دیوان ششم غزل 1789
جمع اس کے نکلے عالم ہو گیا
جب تلک ہم جائیں اودھم ہو گیا
گو پریشاں ہو گئے گیسوے یار
حال ہی اپنا تو درہم ہو گیا
کیا کہوں کیا طرح بدلی یار نے
چائو تھا دل میں سو اب غم ہو گیا
کیا لکھوں مشکل ہوئی تحریر حال
خط کا کاغذ رونے سے نم ہو گیا
دم دیے بہتیرے یاروں نے ولے
خشک نے سا شیخ بے دم ہو گیا
کیوں نہ درہم برہم اپنا ہو مزاج
بات کہتے یار برہم ہو گیا
باغ جیسے راغ وحشت گاہ ہے
یاں سے شاید گل کا موسم ہو گیا
کیا نماز اے میر اس اوقات کی
جب کہ قد محراب سا خم ہو گیا
میر تقی میر

بس اب تو کھل گئیں ہیں آنکھیں دیکھا ہم نے دنیا کو

دیوان پنجم غزل 1708
کیا غیرت سے دل پر تنگ رنج و غم نے دنیا کو
بس اب تو کھل گئیں ہیں آنکھیں دیکھا ہم نے دنیا کو
رہا ہے ایک عالم اور دنیاداروں میں اس کا
کیا ہے بے وفا معلوم سب عالم نے دنیا کو
ہمیشہ رونا کڑھنا سینہ کوبی ہر زماں کرنا
عزاخانہ کیا دل کے مرے ماتم نے دنیا کو
سنا میں نے کہ آخر ہاتھ اٹھایا اس نے دنیا سے
اگر پایا بھی محنت کر کسو ہمدم نے دنیا کو
زمیں سے آسماں تک میر ہے شور جنوں میرا
تہ و بالا کیا دونوں میں اس اودھم نے دنیا کو
میر تقی میر

آٹھ پہر رہتا ہے رونا اس کی دوری کے غم کا

دیوان پنجم غزل 1571
کچھ اندیشہ ہم کو نہیں ہے اپنے حال درہم کا
آٹھ پہر رہتا ہے رونا اس کی دوری کے غم کا
روتے کڑھتے خاک میں ملتے جیتے رہے ہم دنیا میں
دس دن اپنی عمر کے گویا عشرہ تھا یہ محرم کا
کشتی ہماری عشق میں کیا تھی ہاتھ ملاتے پاک ہوئی
پاے ثبات نہ ٹھہرا دم بھر اس میدان میں رستم کا
عالم نیستی کیا عالم تھا غم دنیا و دیں کا نہ تھا
ہوش آیا ہے جب سے سر میں شوق رہا اس عالم کا
یاں واجب ہے ہم کو تم کو دم لیویں تو شمردہ لیں
دینا ہو گا حساب کسو کو یک دم ہی میں دم دم کا
چھاتی کوٹی منھ نوچا سر دے دے مارا پتھر پر
دل کے خوں ہونے میں ہمارا یہی طریق ہے ماتم کا
لڑکے شوخ بہت ہیں لیکن ویسا میر نہیں کوئی
دھوم قیامت کی سی ہے ہنگامہ اس کے اودھم کا
میر تقی میر

ان ہی دیدئہ نم دیدوں سے کیا کیا ہم نے ستم دیکھے

دیوان چہارم غزل 1528
جب سے آنکھیں کھلی ہیں اپنی درد و رنج و غم دیکھے
ان ہی دیدئہ نم دیدوں سے کیا کیا ہم نے ستم دیکھے
سر جانے کی اور اپنے زنہار نگاہ نہ کی ہم نے
اٹھ کے اندھا دھند آئے چلے ہی اس ظالم کے قدم دیکھے
عالم ہیئت مجموعی سے ایک عجیب مرقع ہے
ہر صفحے میں ورق میں اس کے دیکھے تو عالم دیکھے
زخم نہ ہوویں کیونکر غائر چھاتی میں دل خستوں کی
تیرنگاہ یار جگر پر لگتے ہوئے پیہم دیکھے
یار کے در پر ذکر ہے کیا ہنگامۂ روزمحشر کا
اس کوچے میں قیامت سے تو میر بہت اودھم دیکھے
میر تقی میر

ہم نے کھینچی کمان رستم بھی

دیوان چہارم غزل 1491
زورکش ہیں گے عشق کے ہم بھی
ہم نے کھینچی کمان رستم بھی
ہے بلا دھوم دل تڑپنے کی
ایسا ہوتا نہیں ہے اودھم بھی
کچھ نہیں اور دیکھیں ہیں کیا کیا
خواب کا سا ہے یاں کا عالم بھی
حیف دل جاتے پڑ گئی جی کی
ورنہ غم کرتے لیتے ماتم بھی
حرم کعبہ کا نہ پایا بھید
نہ ملا واں کا ایک محرم بھی
خشک نے سا تھا شیخ حیف موا
یوں تو یار اس کو دیتے تھے دم بھی
کھپ ہی جاتا ہے آدمی اے میر
آفت جاں ہے عشق کا غم بھی
میر تقی میر

مژہ نم رہیں حال درہم رہا

دیوان چہارم غزل 1331
کیا عشق سو پھر مجھے غم رہا
مژہ نم رہیں حال درہم رہا
ضعیف و قوی دونوں رہتے نہیں
نہ یاں زال ٹھہرا نہ رستم رہا
سحر جلوہ کیوں کر کرے کل ہوکیا
یہ اندیشہ ہر رات ہر دم رہا
ہوا غم مجھے خوں جگر میں نہیں
اگر آنسو آتے کوئی تھم رہا
رہی آتی آندھی سی سینے میں میر
بہت دل تڑپنے کا اودھم رہا
میر تقی میر

دل کے جانے کا بڑا ماتم ہوا

دیوان سوم غزل 1076
سینہ کوبی ہے طپش سے غم ہوا
دل کے جانے کا بڑا ماتم ہوا
آنکھیں دوڑیں خلق جا اودھر گری
اٹھ گیا پردہ کہاں اودھم ہوا
کیا لکھوں رویا جو لکھتے جوں قلم
سب مرے نامے کا کاغذ نم ہوا
ہم جو اس بن خوار ہیں حد سے زیاد
یار یاں تک آن کر کیا کم ہوا
آگیا یوں ہی خراماں وہ تو پھر
حشر کا ہنگامہ ہی برہم ہوا
درہمی سے برہمی سے دیکھیو
دونوں عالم کا عجب عالم ہوا
جسم خاکی کا جہاں پردہ اٹھا
ہم ہوئے وہ میر سب وہ ہم ہوا
میر تقی میر