ٹیگ کے محفوظات: اوجھل

مگر یہ لوگ پاگل ہو گئے ہیں

ترے ملنے کو بیکل ہو گئے ہیں
مگر یہ لوگ پاگل ہو گئے ہیں
بہاریں لے کے آئے تھے جہاں تم
وہ گھر سنسان جنگل ہو گئے ہیں
یہاں تک بڑھ گئے آلامِ ہستی
کہ دل کے حوصلے شل ہو گئے ہیں
کہاں تک تاب لائے ناتواں دل
کہ صدمے اب مسلسل ہو گئے ہیں
نگاہِ یاس کو نیند آ رہی ہے
مژہ پر اشک بوجھل ہو گئے ہیں
اُنھیں صدیوں نہ بھولے گا زمانہ
یہاں جو حادثے کل ہو گئے ہیں
جنھیں ہم دیکھ کر جیتے تھے ناصرؔ
وہ لوگ آنکھوں سے اوجھل ہو گئے ہیں
ناصر کاظمی

جو آج تو ہوتے ہیں مگر کل نہیں ہوتے

احمد فراز ۔ غزل نمبر 111
ایسا ہے کہ سب خواب مسلسل نہیں ہوتے
جو آج تو ہوتے ہیں مگر کل نہیں ہوتے
اندر کی فضاؤں کے کرشمے بھی عجب ہیں
مینہ ٹوٹ کے برسے بھی تو بادل نہیں ہوتے
کچھ مشکلیں ایسی ہیں کہ آساں نہیں ہوتیں
کچھ ایسے معمے ہیں کبھی حل نہیں ہوتے
شائستگیِ غم کے سبب آنکھوں کے صحرا
نمناک تو ہو جاتے ہیں جل تھل نہیں ہوتے
کیسے ہی تلاطم ہوں مگر قلزمِ جاں میں
کچھ یاد جزیرے ہیں کہ اوجھل نہیں ہوتے
عشاق کے مانند کئی اہل ہوس بھی
پاگل تو نظر آتے ہیں پاگل نہیں ہوتے
سب خواہشیں پوری ہوں فراز ایسا نہیں ہے
جیسے کئی اشعار مکمل نہیں ہوتے
احمد فراز

جو ہے سو کوئی دم کو فیصل ہے

دیوان اول غزل 601
دہر بھی میر طرفہ مقتل ہے
جو ہے سو کوئی دم کو فیصل ہے
کثرت غم سے دل لگا رکنے
حضرت دل میں آج دنگل ہے
روز کہتے ہیں چلنے کو خوباں
لیکن اب تک تو روز اول ہے
چھوڑ مت نقد وقت نسیہ پر
آج جو کچھ ہے سو کہاں کل ہے
بند ہو تجھ سے یہ کھلا نہ کبھو
دل ہے یا خانۂ مقفل ہے
سینہ چاکی بھی کام رکھتی ہے
یہی کر جب تلک معطل ہے
اب کے ہاتھوں میں شوق کے تیرے
دامن بادیہ کا آنچل ہے
ٹک گریباں میں سر کو ڈال کے دیکھ
دل بھی کیا لق و دق جنگل ہے
ہجر باعث ہے بدگمانی کا
غیرت عشق ہے تو کب کل ہے
مر گیا کوہکن اسی غم میں
آنکھ اوجھل پہاڑ اوجھل ہے
میر تقی میر

وہ کہ جو کل نہ ہوا، کل نہیں ہونے والا

آفتاب اقبال شمیم ۔ غزل نمبر 83
مسئلہ آدمی کا حل نہیں ہونے والا
وہ کہ جو کل نہ ہوا، کل نہیں ہونے والا
ایک تعمیر جو ہر دم زدِ تخریب میں ہے
اس جگہ کچھ بھی مکمل نہیں ہونے والا
جھیل ہے آنکھ مری، ایک پرت پانی کی
جس سے جلوہ ترا اوجھل نہیں ہونے والا
اس عنایت میں کوئی اس کی غرض بھی ہو گی
یہ کرم تم پہ مسلسل نہیں ہونے والا
شوق سے بوجھ مصائب کا بڑھاتے جاؤ
یہ جو ہے دوش مرا، شل نہیں ہونے والا
آفتاب اقبال شمیم

اک آنسو کی بوند میں دیکھو، دنیا دنیا، عالم عالم جل تھل ہے

مجید امجد ۔ غزل نمبر 54
اپنے دل کی چٹان سے پوچھو، ریزہ اک پنکھڑی کا کتنا بوجھل ہے
اک آنسو کی بوند میں دیکھو، دنیا دنیا، عالم عالم جل تھل ہے
جس کو دیکھو اپنے سفر کی دنیا بھی ہے، اپنے سفر میں تنہا بھی
قدم قدم پر اپنے آپ کے سامنے ہے اور اپنے آپ سے اوجھل ہے
روح سے روح کا نازک بندھن، پھولوں کی زنجیر میں جکڑی زندگیاں
کتنے دکھ ہیں، کتنا چین ہے، کیسی دھوپ ہے، کتنا گہرا بادل ہے
آنکھ کی پتلی، سانس کی ڈوری، دِل کی تھاپ، اک پل کی نرت کا تماشا ہے
گلتی کھوپڑیوں سے چنی دیواروں پر اک جلتی جوت کی جھل جھل ہے
ایک زمانے سے یہی رستہ زیرِ قدم ہے، اک اک جھونکا محرم ہے
آج جو من کی اوٹ سے دیکھا، ہر سو اک ان دیکھی رت کی چھل بل ہے
بہتی روشنیاں، بے کار شعاعیں، بکھری ٹھیکریاں، بے حرف سلیں
اک دِن انت یہی ہے مگر وہ ایک کرن جو دل کے ورق پر جدول ہے
مجید امجد

کوئی رات آئے اور اس شہر کو جنگل کردے

عرفان صدیقی ۔ غزل نمبر 264
در و دیوار میں کچھ تازہ ہوا حل کردے
کوئی رات آئے اور اس شہر کو جنگل کردے
پس نظارہ نکلتا ہے تماشا کیا کیا
آنکھ وہ شے ہے کہ انسان کو پاگل کردے
میں وہ طائر ہوں کہ ہے تیر کی زد سے باہر
اب یہ ضد چھوڑ مجھے آنکھ سے اوجھل کردے
ہے کوئی شخص مرے دشتِ زیاں کا سفری
ہے کوئی شخص جو اس دھوپ کو بادل کردے
ایک رنگ آج بھی تصویرِ ہنر میں کم ہے
موجِ خوں آ‘ مرا دیوان مکمل کردے
عرفان صدیقی

شاید مرا جمال مکمل نہیں ہوا

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 69
اب تک انا سے ربطِ مسلسل نہیں ہوا
شاید مرا جمال مکمل نہیں ہوا
وحشت وہی مزاج کی رونے کے بعد بھی
بارش ہوئی ہے شہر میں جل تھل نہیں ہوا
پھر ہو گی تجھ تلک مری اپروچ بزم میں
مایوس جانِ من ترا پاگل نہیں ہوا
ممکن نہیں ہے جس کا ذرا سا مشاہدہ
میری نظر سے وہ کبھی اوجھل نہیں ہوا
ہر چیز آشنائے تغیر ہوئی مگر
قانونِ ہست و بود معطل نہیں ہوا
دستِ اجل نے کی ہے تگ و دو بڑی مگر
دروازۂ حیات مقفل نہیں ہوا
برسوں سے ڈھونڈتا ہوں کوئی اور شخص میں
اِس ہجر کا معمہ کبھی حل نہیں ہوا
منصور اپنی ذات شکستہ کیے بغیر
پانی کا بلبلا کبھی بادل نہیں ہوا
منصور آفاق