ٹیگ کے محفوظات: اوائل

میری خوں ریزی ہی کا مائل ہے

دیوان پنجم غزل 1772
سخت بے رحم آہ قاتل ہے
میری خوں ریزی ہی کا مائل ہے
دور مجنوں کا ہو گیا آخر
یاں جنوں کا ابھی اوائل ہے
نکلے اس راہ کس طرح وہ ماہ
نہ تو طالع نہ جذب کامل ہے
مثل صورت ہیں جلوہ کے حیراں
ہائے کیا شکل کیا شمائل ہے
ہاتھ رکھ لیوے تو کہے کہ بس اب
کیا جیے گا بہت یہ گھائل ہے
حق میں اس بت کے بد کہیں کیونکر
وہ ہمارا خداے باطل ہے
سچ ہے راحت تو بعد مرنے کے
پر بڑا واقعہ یہ ہائل ہے
تیغ اگر درمیاں رہے تو رہے
یار میرا جوان جاہل ہے
رو نہیں چشم تر سے اب رکھیے
سیل اسی در کا کب سے سائل ہے
حال ہم ڈوبتوں کا کیا جانے
جس کو دریا پہ سیر ساحل ہے
میر کب تک بحال مرگ جئیں
کچھ بھی اس زندگی کا حاصل ہے
میر تقی میر

میں کشتہ ہوں انداز قاتل کا اپنے

دیوان اول غزل 556
تڑپنا بھی دیکھا نہ بسمل کا اپنے
میں کشتہ ہوں انداز قاتل کا اپنے
نہ پوچھو کہ احوال ناگفتہ بہ ہے
مصیبت کے مارے ہوئے دل کا اپنے
دل زخم خوردہ کے اور اک لگائی
مداوا کیا خوب گھائل کا اپنے
جو خوشہ تھا صد خرمن برق تھا یاں
جلایا ہوا ہوں میں حاصل کا اپنے
ٹک ابرو کو میری طرف کیجے مائل
کبھو دل بھی رکھ لیجے مائل کا اپنے
ہوا دفتر قیس آخر ابھی یاں
سخن ہے جنوں کے اوائل کا اپنے
بنائیں رکھیں میں نے عالم میں کیا کیا
ہوں بندہ خیالات باطل کا اپنے
مقام فنا واقعے میں جو دیکھا
اثر بھی نہ تھا گور منزل کا اپنے
میر تقی میر