ٹیگ کے محفوظات: انگلیاں

پاگل نہ بن، رُتوں کو کبھی مہرباں بھی دیکھ

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 37
کانٹوں کے درمیاں گلِ تر کا نشاں بھی دیکھ
پاگل نہ بن، رُتوں کو کبھی مہرباں بھی دیکھ
ہاتھوں میں میرے، صفحۂ سادہ پہ کر نظر
اظہارِ غم کو ترسی ہوئی انگلیاں بھی دیکھ
تو اور سراپا بس میں ہمارے ہو! ہائے ہائے!!
ہم پر یہ ایک تہمتِ اہلِ جہاں بھی دیکھ
تھا زیست میں بہار کا طوفاں بھی پل دو پل
اِس بحر میں تموّجِ گردِ خزاں بھی دیکھ
سہمی ہوئی حیات کو یُوں مختصر نہ جان
لمحے میں جھانک اور اسے بیکراں بھی دیکھ
ردّی کے بھاؤ بیچا گیا ہوں کسی کے ہاتھ
لے کُو بکُو بکھرتی مری داستاں بھی دیکھ
ماجدؔ ہے جس کا شور سماعت میں اَب تلک
اُس سیلِ تند و تیز کے چھوڑے نشاں بھی دیکھ
ماجد صدیقی

سوچئے وہ شہر کیا ہو گا جہاں میں ہی نہیں

عرفان صدیقی ۔ غزل نمبر 201
دیکھئے جو دشت زندہ ہے دم آہو سے ہے
سوچئے وہ شہر کیا ہو گا جہاں میں ہی نہیں
خار و خس بھی ہیں تری موج ہوا کے شکوہ سنج
باغ میں اے موسم نامہرباں میں ہی نہیں
اب ادھورا چھوڑنا ممکن نہیں اے قصہ گو
ساری دنیا سن رہی ہے داستاں میں ہی نہیں
سایۂ آسیب وحشت دوسرے گھر میں بھی ہے
تیرا قیدی اے شب وہم و گماں میں ہی نہیں
تیرے اک جانے سے یہ لشکر بھی پیاسا مر نہ جائے
تشنہ لب صحرا میں اے جوئے رواں میں ہی نہیں
MERGED آسماں کی زد میں زیر آسماں میں ہی نہیں
تو بھی ہے ظالم نشانے پر یہاں میں ہی نہیں
اختر الایمان کی اک نظم سے مجھ پر کھلا
اور بھی کم گو ہیں مجبور فغاں میں ہی نہیں
کوئی انشا کر رہا ہے مصحف آئندگاں
لکھ رہی ہیں لکھنے والی انگلیاں میں ہی نہیں
رنج اس کا ہے کہ کس کو رائیگاں کرتا ہے کون
ورنہ اس آشوب جاں میں رائیگاں میں ہی نہیں
خار و خس بھی ہیں تری زور ہوا سے پائمال
باغ میں اے موسم نامہرباں میں ہی نہیں
اب اسے انجام تک لانا تو ہو گا قصہ گو
ساری دنیا سن رہی ہے داستاں میں ہی نہیں
سایۂ آسیب کوئی دوسرے گھر میں بھی ہے
ہاں گرفتار شب وہم و گماں میں ہی نہیں
تیرے رک جانے سے یہ لشکر بھی پیاسا مر نہ جائے
تشنہ لب صحرا میں اے جوئے رواں میں ہی نہیں
عرفان صدیقی

میں نہیں دیر تلک تلخیاں رکھنے والا

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 34
یاد کے طاقچہ میں بجلیاں رکھنے والا
میں نہیں دیر تلک تلخیاں رکھنے والا
مجھ کو اس وقت بھی ہے تیز بہت تیز بخار
اورمرا کوئی نہیں پٹیاں رکھنے والا
چیرتا جاتا ہے خود آپ کنارے اپنے
ساحلوں پہ وہی مرغابیاں رکھنے والا
دھول سے کیسے بچا سکتا ہے اپنی چیزیں
دل کے کمرے میں کئی کھڑکیاں رکھنے والا
پال بیٹھا ہے پرندوں کی رہائی کا جنون
جار میں اپنے لئے تتلیاں رکھنے والا
بزم میں آیا نہیں کتنے دنوں سے منصور
وہ پیانو پہ حسیں انگلیاں رکھنے والا
منصور آفاق