ٹیگ کے محفوظات: انگاروں

نکلا چاند بھی گہنایا ہے سازش سے اندھیاروں کی

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 97
‮بے معنی بے کیف ہوئی ہے آنکھ مچولی تاروں کی
نکلا چاند بھی گہنایا ہے سازش سے اندھیاروں کی
ژالے، سیل، بگولے، بارش، شور مچاتی سرد ہوا
لمبی ہے فہرست بڑی اِس گلشن کے آزاروں کی
ایوانوں کی چبھتی چھاؤں ہے ہر سمت گھروندوں پر
رہگیروں کے ماتھوں پر ہے دُھول لپکتی کاروں کی
دعوے دار وفاؤں کے تو پہنچے، نئی مچانوں پر
جانے کس پر آنکھ لگی ہے ہم اخلاص کے ماروں کی
رُت رُت کا فیضان مقدّر ٹھہرے اُن ہی لوگوں کا
رکھتے ہیں جو اہلِ نظر پہچان بدلتے دھاروں کی
اُس کے وصل کا قصّہ ہم نے جن لفظوں میں ڈھالا ہے
در آئی اُن لفظوں میں بھی حدّت سی انگاروں کی
جب تک خون میں دھڑکن ہے جب تک یہ نطق سلامت ہے
ٹوٹ نہیں سکتی ہے ماجدؔ ہم سے سانجھ نگاروں کی
ماجد صدیقی

جو کہوں میں کوئی ہے میرے بھی غمخواروں کے بیچ

دیوان ششم غزل 1820
وامق و فرہاد و مجنوں کون ہے یاروں کے بیچ
جو کہوں میں کوئی ہے میرے بھی غمخواروں کے بیچ
جمع خوباں میں مرا محبوب اس مانند ہے
جوں مہ تابندہ آتا ہے کبھو تاروں کے بیچ
جو جفا عاشق پہ ہے سو اور لوگوں پر نہیں
اس سے پیدا ہے کہ میں ہی ہوں گنہگاروں کے بیچ
مر گئے بہتیرے صاحب دل ہوس کس کو ہوئی
ایسے مرنے جینے کی ان عشق کے ماروں کے بیچ
رونا کڑھنا عشق میں دیکھا مرا جن نے کہا
کیا جیے گا یہ ستم دیدہ ان آزاروں کے بیچ
منتظر برسوں رہے افسوس آخر مر گئے
دیدنی تھے لوگ اس ظالم کے بیماروں کے بیچ
خاک تربت کیوں نہ اپنی دلبرانہ اٹھ چلے
ہم بھی تھے اس نازنیں کے ناز برداروں کے بیچ
صاف میداں لامکاں سا ہو تو میرا دل کھلے
تنگ ہوں معمورۂ دنیا کی دیواروں کے بیچ
باغ میں تھے شب گل مہتاب میرے آس پاس
یار بن یعنی رہا میں میر انگاروں کے بیچ
میر تقی میر

کیا کیا ان نے سلوک کیے ہیں شہر کے عزت داروں سے

دیوان چہارم غزل 1490
خوار پھرایا گلیوں گلیوں سر مارے دیواروں سے
کیا کیا ان نے سلوک کیے ہیں شہر کے عزت داروں سے
دور اس سے تو اپنے بھائیں آگ لگی ہے گلستاں میں
آنکھیں نہیں پڑتی ہیں گل پر سینکتے ہیں انگاروں سے
شور کیا جو میں نے شبانگہ بیتابی سے دل کی بہت
کہنے لگا جی تنگ آیا ان مہر و وفا کے ماروں سے
وہ جو ماہ زمیں گرد اپنا دوپہری ہے ان روزوں
شوق میں ہر شب حرف و سخن ہے ہم کو فلک کے تاروں سے
حرف شنو ساتھ اپنے نہیں ہیں ورنہ دراے قافلہ ساں
راہ میں باتیں کس کس ڈھب کی کرتے ہیں ہم یاروں سے
خستہ ہو اپنا کیسا ہی کوئی پھر بھی گلے سے لگاتے ہیں
وحشت ایک تمھیں کو دیکھی اپنے سینہ فگاروں سے
داغ جگرداری ہیں اپنے کشتے ثبات دل کے ہیں
ہم نہ گئے جاگہ سے ہرگز قیمہ ہوئے تلواروں سے
حرف کی پہچان اس کو نہ تھی تو سادہ ہی کچھ اچھا تھا
بات اگر مانے ہے کوئی سو سو اب تکراروں سے
کوہکن و مجنوں یہ دونوں دشت و کوہ میں سرماریں
شوق نہیں ملنے کا ہم کو میر ایسے آواروں سے
میر تقی میر

ہوں جو رحمت کے سزاواروں کے بیچ

دیوان اول غزل 190
کاش اٹھیں ہم بھی گنہگاروں کے بیچ
ہوں جو رحمت کے سزاواروں کے بیچ
جی سدا ان ابروؤں ہی میں رہا
کی بسر ہم عمر تلواروں کے بیچ
چشم ہو تو آئینہ خانہ ہے دہر
منھ نظر آتا ہے دیواروں کے بیچ
ہیں عناصر کی یہ صورت بازیاں
شعبدے کیا کیا ہیں ان چاروں کے بیچ
جب سے لے نکلا ہے تو یہ جنس حسن
پڑ گئی ہے دھوم بازاروں کے بیچ
عاشقی و بے کسی و رفتگی
جی رہا کب ایسے آزاروں کے بیچ
جو سرشک اس ماہ بن جھمکے ہے شب
وہ چمک کاہے کو ہے تاروں کے بیچ
اس کے آتش ناک رخساروں بغیر
لوٹیے یوں کب تک انگاروں کے بیچ
بیٹھنا غیروں میں کب ہے ننگ یار
پھول گل ہوتے ہی ہیں خاروں کے بیچ
یارو مت اس کا فریب مہر کھائو
میر بھی تھے اس کے ہی یاروں کے بیچ
میر تقی میر