ٹیگ کے محفوظات: انکار

یا پھر مرا وجود ہی بے زار مجھ میں ہے

میرے سوا بھی کوئی گرفتار مجھ میں ہے
یا پھر مرا وجود ہی بے زار مجھ میں ہے
میری غزل میں ہے کسی لہجے کی بازگشت
اک یارِ خوش کلام و طرح دار مجھ میں ہے
حد ہے، کہ تُو نہ میری اذیت سمجھ سکا
شاید کوئی بلا کا اداکار مجھ میں ہے
جس کا وجود وقت سے پہلے کی بات ہے
وہ بھی عدم سے برسرِ پیکار مجھ میں ہے
تُو ہے کہ تیری ذات کا اقرار ہر نفس
میں ہوں کہ میری ذات کا انکار مجھ میں ہے
تجھ سے نہ کچھ کہا تو کسی سے نہ کچھ کہا
کتنی شدید خواہشِ اظہار مجھ میں ہے
میں کیا ہوں کائنات میں کچھ بھی نہیں ہوں میں
پھر کیوں اسی سوال کی تکرار مجھ میں ہے
جس دن سے میں وصال کی آسودگی میں ہوں
اُس دن سے وہ فراق سے دوچار مجھ میں ہے
میں ہوں کہ ایک پل کی بھی فرصت نہیں مجھے
وہ ہے کہ ایک عمر سے بے کار مجھ میں ہے
عرفان ستار

جانا ہے کب خبر نہیں، تیّار ہو کے رہ

ہوکر وداع سب سے، سبک بار ہو کے رہ
جانا ہے کب خبر نہیں، تیّار ہو کے رہ
یہ لمحہ بھر بھی دھیان ہٹانے کی جا نہیں
دنیا ہے تیری تاک میں، ہشیار ہو کے رہ
خطرہ شبِ وجود کو مہرِ عدم سے ہے
سب بے خبر ہیں، تُو ہی خبردار ہو کے رہ
شاید اتر ہی آئے خنک رنگ روشنی
چل آج رات خواب میں بیدار ہو کے رہ
کس انگ سے وہ لمس کُھلے گا، کسے خبر
تُو بس ہمہ وجود طلبگار ہو کے رہ
تُو اب سراپا عشق ہُوا ہے، تو لے دعا
جا سر بسر اذیّت و آزار ہو کے رہ
شاید کبھی اِسی سے اٹھے پھر ترا خمیر
بنیادِ خوابِ ناز میں مسمار ہو کے رہ
کچھ دیر ہے سراب کی نظّارگی مزید
کچھ دیر اور روح کا زنگار ہو کے رہ
اب آسمانِ حرف ہُوا تا اُفق سیاہ
اب طمطراق سے تُو نمودار ہو کے رہ
بس اک نگاہ دُور ہے خوابِ سپردگی
تُو لاکھ اپنے آپ میں انکار ہو کے رہ
وہ زمزمے تھے بزمِ گماں کے، سو اب کہاں
یہ مجلسِ یقیں ہے، عزادار ہو کے رہ
اندر کی اونچ نیچ کو اخفا میں رکھ میاں
احوالِ ظاہری میں تو ہموار ہو کے رہ
کیسے بھلا تُو بارِ مروّت اٹھائے گا
محفل ہے دوستوں کی، سو عیّار ہو کے رہ
بے قیمتی کے رنج سے خود کو بچا کے چل
بازارِ دلبری میں خریدار ہو کے رہ
فرمانروائے عقل کے حامی ہیں سب یہاں
شاہِ جنوں کا تُو بھی وفادار ہو کے رہ
تُو ہجر کی فضیلتیں خود پر دراز رکھ
خود اپنی راہِ شوق میں دیوار ہو کے رہ
لوگوں پہ اپنا آپ سہولت سے وا نہ کر
عرفان، میری مان لے، دشوار ہو کے رہ
عرفان ستار

وہ کام کر رہا ہوں جو دشوار تک نہیں

زندہ ہوں اور ہجر کا آزار تک نہیں
وہ کام کر رہا ہوں جو دشوار تک نہیں
اب میں ہوں اور تجھ کو منانے کی جستجو
کچھ بھی نہیں ہے راہ میں، پندار تک نہیں
یعنی مرا وجود ہی مشکوک ہو گیا
اب تو میں اپنے آپ سے بیزار تک نہیں
لَو بھی تھکن سے چُور ہوئی ہے، دماغ بھی
اور آسماں پہ صبح کے آثار تک نہیں
اقرار کر کے اُس کو نبھانا کسے نصیب
اس عمر میں تو مہلتِ انکار تک نہیں
تھی جس کی پور پور مری لمس آشنا
اب یاد اُس کے گیسو و رخسار تک نہیں
اس بے کراں خلا میں نگاہوں کو کیا کروں
اب تو نظر کے سامنے دیوار تک نہیں
عرفان ستار

ما ایم در کمندِ تو اقرار کردہ ای

سِرّے چہ خوش زِ چشمِ خود اظہار کردہ ای
ما ایم در کمندِ تو اقرار کردہ ای
یارب زِ ہفت رنگیِ ما عاصیانِ خلد
این عرصۂ وجود را، شہکار کردہ ای
اغماضِ تو کسے نشناسد جز اہلِ دل
دانیم ہمچنیں جہت اصرار کردہ ای
یک غنچہ ما زِ گلشنِ حُسنَت نچیدہ ایم
با این ہمہ بہ خاطرِ خود خار کردہ ای
بِنشِیں و بِشنَوی زِ دلم ہر چہ بِگزَرَد
زاں نقشِ دل کہ نقش بہ دیوار کردہ ای
آن کارِ حسن بود کو آدم زِ خلد راند
ما را بہ چہ گناہ سرِ دار کردہ ای
ما خواستیم دولتِ یک حرفِ صد سخن
باوَر نمی کنیم کہ انکار کردہ ای
ہر کس گسست و رست زِ بندِ کمندِ تو
کاغازِ رسمِ قدغنِ اظہار کردہ ای
ضامنؔ ہنوز پا بہ رکاب اَست و منتظر
اقرار خواہی کرد کہ انکار کردہ ای
ضامن جعفری

ہے کرب نمایاں تِرے انکار کے پیچھے

پوشیدہ ہے کچھ پردۂ اَسرار کے پیچھے
ہے کرب نمایاں تِرے انکار کے پیچھے
سایے کے بھلا کیا قد و قامت سے اُلجھنا
سورج سے تَو نمٹو جو ہے دیوار کے پیچھے
لَوٹ آئے ہیں خاموش نہ دیکھی گئی ہم سے
ارزانیٔ دل رونقِ بازار کے پیچھے
گر سچ ہے تمہیں ترکِ مراسم کا نہیں دکھ
پھر کیا ہے یہ سب چشمِ گُہَربار کے پیچھے
پاگل تو نہیں ہو جو یہ چہروں پہ سکوں ہے
کیوں بیٹھے ہو ہلتی ہوئی دیوار کے پیچھے
در اصل نگاہوں میں کھٹکتا ہے مرا سر
ہیں لوگ بظاہر مری دستار کے پیچھے
دنیا کی نگاہوں میں تو میں ناچ رہا ہوں
وہ ڈور لئے بیٹھا ہے دیوار کے پیچھے
کیوں لگتے ہیں یہ ٹوٹے ہوئے دل کی سی آواز
کیا راز ہے ضامنؔ ترے اشعار کے پیچھے
ضامن جعفری

بختِ خوابیدہ غنیمت ہے کہ بیدار ہوں میں

گو بیاباں میں ہوں اور بے بس و بے یار ہوں میں
بختِ خوابیدہ غنیمت ہے کہ بیدار ہوں میں
شانِ مصروفیت آوارگی میں بھی تھی کچھ
گھر میں ہر چند کہ مصروف ہوں بیکار ہوں میں
اُسی طوفان کی اک لہر مری ناؤ بنی
تم اُدھر ڈھونڈ رہے ہو مجھے اِس پار ہوں میں
مٹ گئے سینکڑوں اقرار حمایت کے تری
آج بھی گونج رہا ہے جو وہ انکار ہوں میں
میرے بارے میں کبھی فرض نہ کر لینا کچھ
سرِ تسلیم کبھی ہوں کبھی تلوار ہوں میں
باصر کاظمی

آرام بھی مِلا ہمیں آزار کی طرح

سوئے بہت مگر کسی بیمار کی طرح
آرام بھی مِلا ہمیں آزار کی طرح
کچھ ایسی پُختہ ہو گئی دِل توڑنے کی خو
اِقرار کر رہے ہیں وہ اِنکار کی طرح
بیکار سمجھے جاتے ہیں فن کار اِس لیے
دن رات کام کرتے ہیں بیگار کی طرح
میری غزل میں کیسے تغزل ملے اُنہیں
پڑھتے ہیں اب وہ شاعری اخبار کی طرح
باصر کاظمی

اور پیرایہ نہ تھا اظہار کا

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 62
ترجماں لرزہ تھا بس بیمار کا
اور پیرایہ نہ تھا اظہار کا
یہ چلن اب نِت کا ہے، اخبار کا
اِک نہ اِک لائے بگولہ نار کا
استطاعت ہو تو پڑھ لو ہر کہیں
رُخ بہ رُخ اِک نرخ ہے بازار کا
تاب کیا کیا دے گیا ابلیس کو
اِک ذرا سا حوصلہ انکار کا
ہم کہ ہیں ہر پل سکوں نا آشنا
ہے یہ فتنہ دیدۂ بیدار کا
ہو سخن ماجِد کا یا خلقِ خُدا
حال مندا ہے ہر اِک شہکار کا
ماجد صدیقی

مشتہر کرتے ہیں جنسِ دختراں اخبار میں

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 2
یہ اضافہ بھی ہُوا ماں باپ کے آزار میں
مشتہر کرتے ہیں جنسِ دختراں اخبار میں
آبلہ پائی نے کر دی ہے مسافت یوں تمام
پیر چپکے رہ گئے ہیں جادۂ پر خار میں
تن بدن سے کھال تک جیسے ادھڑ جانے لگے
جیب ہی ہلکی نہیں ہوتی ہے اب بازار میں
سخت مشکل ہے کوئی تریاق اُس کا مِل سکے
زہر جو شامل ملے، ذی جاہ کے انکار میں
خلق ناداری کے ہاتھوں جان دینے پر مصر
اور زر کی بانٹ کے جھگڑے ادھر دربار میں
کیا کہیں ہر آن ماجد مضطرب، پڑنے کو ہیں
سنگ ریزے کیا سے کیا ہر دیدۂ بیدار میں
ماجد صدیقی

کس نے اتنی رات گئے بیدار کیا

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 53
خدشوں نے پھر ذہن پہ جیسے وار کیا
کس نے اتنی رات گئے بیدار کیا
وسعتِ شب کو بڑھتا دیکھ کے ہم نے بھی
اپنا اک اک حرف سحر آثار کیا
موسم گل میں گلشن سے جو آئے تھے
اُن جھونکوں نے اور بھی کچھ بے زار کیا
آخر اک دن ناز عجائب گھر کا بنے
ہم نے جن تختوں پر دریا پار کیا
کچھ بھی نہیں جس گھر میں اُس کے تحفّظ نے
گھر والوں کو اور بھی ہے نادار کیا
ماتھے پر مزدور کے دیکھ، مشقّت نے
کن شفاف نگینوں سے سنگھار کیا
ماجدؔ سمت سفر کی ٹیڑھی تھی ورنہ
چلنے سے کب ہم نے تھا انکار کیا
ماجد صدیقی

پات پہ جیسے چیونٹی دریا پار کرے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 90
آس ہمیں بھی کچھ ایسا ہی خوار کرے
پات پہ جیسے چیونٹی دریا پار کرے
جُگ بیتے ایسا ہی ہوتا آیا ہے
دل میں جس کے چور ہو پہلے وار کرے
دیکھ کے چابک راکب کا، چل پڑنے سے
مرکب میں کب تاب کہ وُہ انکار کرے
بادل جُھک کر اِک دو بوندیں برسا کر
اور بھی افزوں صحرا کا آزار کرے
ہم وُہ گھوڑے بیچ کے سونے والے ہیں
اَب کوئی بھونچال جنہیں بیدار کرے
عرضِ سخن پر ماجدؔ داد خسیسوں کی
کسب ہُنر تک سے جیسے بیزار کرے
ماجد صدیقی

شہر میں اب اِس بیماری سے بچنا ہے دشوار بہت

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 26
نطق سلامت ہے تو مہلک جرثوموں کے وار بہت
شہر میں اب اِس بیماری سے بچنا ہے دشوار بہت
اُس چنچل کے ہاتھوں جن پر رہ رہ کر تھی اوس پڑی
جانے پھر کیوں رہنے لگے ہیں وہ جذبے بیدار بہت
نازک وقت پہنچنے پر قائم نہ کسی کا بھی تھا بھرم
جتنی تمنّائیں تھیں دل میں نکلیں وہ نادار بہت
دونوں جرم کے منوانے پر اور نہ ماننے پر تھے تُلے
ہم کہ ہمیں اصرار بہت تھاوہ کہُانہیں انکار بہت
اور تأثر دے کر جس نے میرا خون غلاف کیا
وقت کے ہاتھوں دھل کر چمکی آخر وہ تلوار بہت
وہ قاصد دربانِ درِ محبوب سا جو محتاط رہے
دیدنی ہیں اُس قاصد جیسے نت چھپتے اخبار بہت
ایک ہی بات ہے پنکھ کٹیں یا چونچ پہ مُہر لگے ماجدؔ
مہجوروں کی خاطر ہیں اِس گلشن میں آزار بہت
ماجد صدیقی

جرعۂ قرب سے اُس کے گئے آزار بہت

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 27
لطفِ باہم سے ہوئے وصل میں سرشار بہت
جرعۂ قرب سے اُس کے گئے آزار بہت
شخص و ناشخص کی پُرسش کا نشانہ ٹھہرے
ہم کہ کرتے رہے ہر درد کا پرچار بہت
خاک سے مہرِ سرِ حشر کرے ہے پیدا
آج کے دَور کا انسان ہے بیدار بہت
آخر اُس کو بھی ہمیں سی ہے تُفِ گرد ملی،
تھے بہم شاخِ شگفتہ کو بھی شہکار بہت
کھول کر رکھ گئی ہر راز، شد و بودِ حباب
ہم کو تسلیمِ حقیقت سے تھا انکار بہت
ہے کہاں رفعتِ فن، شرطِ ستائش ماجدؔ
وہی فنکار ہے جس کے ہیں طرفدار بہت
ماجد صدیقی

موسمِ گل میں بھی پت جھڑ کے ہیں آثار وہی

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 85
تندئ باد وہی، گرد کی یلغار وہی
موسمِ گل میں بھی پت جھڑ کے ہیں آثار وہی
عدل کے نام پہ ہم سے تھی جو نُچوائی گئی
فرقِ نا اہل پہ اب کے بھی ہے دستار وہی
حلقۂ رقصِ صبا میں تو ہے شامل لیکن
پہلوئے گل میں ہیں پیوست ابھی خار وہی
مطمئن کیا ہو کوئی غسلِ مناظر سے کہ ہے
کربِ آشوب وہی دیدۂ بیدار وہی
ہے لپک اب بھی وہی دستِ طلب میں کہ جو تھی
با ثمر شاخ کے ہونٹوں پہ ہے انکار وہی
اب بھی اِک حد سے پرے شوق کے پر جلتے ہیں
عجزِ سائل ہے وہی شوکتِ دربار وہی
رُت کُھلی پر نہ معافی کو ملا اذنِ کشود
پیرہن ہے تنِ ہر حرف پہ ناچار وہی
کلبلائے تو اسے اتنا تو کرنے دیجے
دل جسے بعدِ جراحت بھی ہے آزار وہی
اب بھی چہروں سے غمِ دل نہیں کُھلتا ماجدؔ
اب بھی پندار کو ہے کلفتِ اظہار وہی
ماجد صدیقی

ہوتا بھی کیا حوصلہ جھڑنے سے انکار کا

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 91
پاس نہ تھا جب توڑ ہی کچھ صرصر کے وار کا
ہوتا بھی کیا حوصلہ جھڑنے سے انکار کا
پھٹا پڑے ہے آنکھ سے موسم بھری بہار کا
اور تمہیں کیا چاہئے پیرایہ اظہار کا
چھَن کر جن سے آ سکا کبھی نہ ریزہ دھوپ کا
چھلنی چھلنی ہو گیا سایہ اُن اشجار کا
باقی سب اطراف میں شیروں کی اِک دھاڑ تھی
کھُلا دہانہ سامنے تھا اَن جانے غار کا
قصّہ مری شکست کا کل جس میں مطبوع تھا
گھر گھر سجا فریم میں ٹُکڑا وہ اخبار کا
دُور نہ ہو گا درد تو شبنم سے اِس آنکھ کی
اور تدارک ڈھونڈئیے ماجدؔ اِس آزار کا
ماجد صدیقی

یا پھر مرا وجود ہی بے زار مجھ میں ہے

عرفان ستار ۔ غزل نمبر 90
میرے سوا بھی کوئی گرفتار مجھ میں ہے
یا پھر مرا وجود ہی بے زار مجھ میں ہے
میری غزل میں ہے کسی لہجے کی بازگشت
اک یارِ خوش کلام و طرح دار مجھ میں ہے
حد ہے، کہ تُو نہ میری اذیت سمجھ سکا
شاید کوئی بلا کا اداکار مجھ میں ہے
جس کا وجود وقت سے پہلے کی بات ہے
وہ بھی عدم سے برسرِ پیکار مجھ میں ہے
تُو ہے کہ تیری ذات کا اقرار ہر نفس
میں ہوں کہ میری ذات کا انکار مجھ میں ہے
تجھ سے نہ کچھ کہا تو کسی سے نہ کچھ کہا
کتنی شدید خواہشِ اظہار مجھ میں ہے
میں کیا ہوں کائنات میں کچھ بھی نہیں ہوں میں
پھر کیوں اسی سوال کی تکرار مجھ میں ہے
جس دن سے میں وصال کی آسودگی میں ہوں
اُس دن سے وہ فراق سے دوچار مجھ میں ہے
میں ہوں کہ ایک پل کی بھی فرصت نہیں مجھے
وہ ہے کہ ایک عمر سے بے کار مجھ میں ہے
عرفان ستار

جانا ہے کب خبر نہیں، تیّار ہو کے رہ

عرفان ستار ۔ غزل نمبر 52
ہوکر وداع سب سے، سبک بار ہو کے رہ
جانا ہے کب خبر نہیں، تیّار ہو کے رہ
یہ لمحہ بھر بھی دھیان ہٹانے کی جا نہیں
دنیا ہے تیری تاک میں، ہشیار ہو کے رہ
خطرہ شبِ وجود کو مہرِ عدم سے ہے
سب بے خبر ہیں، تُو ہی خبردار ہو کے رہ
شاید اتر ہی آئے خنک رنگ روشنی
چل آج رات خواب میں بیدار ہو کے رہ
کس انگ سے وہ لمس کُھلے گا، کسے خبر
تُو بس ہمہ وجود طلبگار ہو کے رہ
تُو اب سراپا عشق ہُوا ہے، تو لے دعا
جا سر بسر اذیّت و آزار ہو کے رہ
شاید کبھی اِسی سے اٹھے پھر ترا خمیر
بنیادِ خوابِ ناز میں مسمار ہو کے رہ
کچھ دیر ہے سراب کی نظّارگی مزید
کچھ دیر اور روح کا زنگار ہو کے رہ
اب آسمانِ حرف ہُوا تا اُفق سیاہ
اب طمطراق سے تُو نمودار ہو کے رہ
بس اک نگاہ دُور ہے خوابِ سپردگی
تُو لاکھ اپنے آپ میں انکار ہو کے رہ
وہ زمزمے تھے بزمِ گماں کے، سو اب کہاں
یہ مجلسِ یقیں ہے، عزادار ہو کے رہ
اندر کی اونچ نیچ کو اخفا میں رکھ میاں
احوالِ ظاہری میں تو ہموار ہو کے رہ
کیسے بھلا تُو بارِ مروّت اٹھائے گا
محفل ہے دوستوں کی، سو عیّار ہو کے رہ
بے قیمتی کے رنج سے خود کو بچا کے چل
بازارِ دلبری میں خریدار ہو کے رہ
فرمانروائے عقل کے حامی ہیں سب یہاں
شاہِ جنوں کا تُو بھی وفادار ہو کے رہ
تُو ہجر کی فضیلتیں خود پر دراز رکھ
خود اپنی راہِ شوق میں دیوار ہو کے رہ
لوگوں پہ اپنا آپ سہولت سے وا نہ کر
عرفان، میری مان لے، دشوار ہو کے رہ
عرفان ستار

وہ کام کر رہا ہوں جو دشوار تک نہیں

عرفان ستار ۔ غزل نمبر 49
زندہ ہوں اور ہجر کا آزار تک نہیں
وہ کام کر رہا ہوں جو دشوار تک نہیں
اب میں ہوں اور تجھ کو منانے کی جستجو
کچھ بھی نہیں ہے راہ میں، پندار تک نہیں
یعنی مرا وجود ہی مشکوک ہو گیا
اب تو میں اپنے آپ سے بیزار تک نہیں
لَو بھی تھکن سے چُور ہوئی ہے، دماغ بھی
اور آسماں پہ صبح کے آثار تک نہیں
اقرار کر کے اُس کو نبھانا کسے نصیب
اس عمر میں تو مہلتِ انکار تک نہیں
تھی جس کی پور پور مری لمس آشنا
اب یاد اُس کے گیسو و رخسار تک نہیں
اس بے کراں خلا میں نگاہوں کو کیا کروں
اب تو نظر کے سامنے دیوار تک نہیں
عرفان ستار

وہ ہاتھ مل کے کہتے ہیں کیا یار مر گیا

داغ دہلوی ۔ غزل نمبر 27
کس نے کہا کہ داغ وفا دار مر گیا
وہ ہاتھ مل کے کہتے ہیں کیا یار مر گیا
دام بلائے عشق کی وہ کشمکش رہی
ایک اک پھڑک پھڑک کے گرفتار مر گیا
آنکھیں کھلی ہوئی پس مرگ اس لئے
جانے کوئی کہ طالب دیدار مر گیا
جس سے کیا ہے آپ نے اقرار جی گیا
جس نے سنا ہے آپ سے انکار مر گیا
کس بیکسی سے داغ نے افسوس جان دی
پڑھ کر ترے فراق کے اشعار مر گیا
داغ دہلوی

آزردہ دل کسو کا بیمار ہے ہمیشہ

دیوان ششم غزل 1872
آزارکش کو اس کے آزار ہے ہمیشہ
آزردہ دل کسو کا بیمار ہے ہمیشہ
مختار عشق اس کا مجبور ہی ہے یعنی
یک رہ دو چار ہو کر ناچار ہے ہمیشہ
کب سہل عاشقی میں اوقات گذرے ہے یاں
کام اپنا اس پر اس بن دشوار ہے ہمیشہ
عالم کا عین اسی کو معلوم کرچکے ہیں
اس وجہ سے اب اس کا دیدار ہے ہمیشہ
اس سے حصول مطلب اپنا ہوا نہ ہو گا
با آنکہ کام دل کا اظہار ہے ہمیشہ
پرواے نفع و نقصاں مطلق نہیں ہے اس کو
اس کی تو لاابالی سرکار ہے ہمیشہ
ملنا نہ ملنا ٹھہرے تو دل بھی ٹھہرے اپنا
اقرار ہے ہمیشہ انکار ہے ہمیشہ
آمادئہ فنا کچھ کیا میر اب ہوا ہے
جی مفت دینے کو وہ تیار ہے ہمیشہ
میر تقی میر

بستر پہ گرے رہتے ہیں بیمار سے ناخوش

دیوان چہارم غزل 1405
رہتے ہیں بہت دل کے ہم آزار سے ناخوش
بستر پہ گرے رہتے ہیں بیمار سے ناخوش
جانا جو مقرر ہے مرا دار فنا سے
اس بستی کے میں ہوں در و دیوار سے ناخوش
ہمواری سے ہیں نرم و خشن ایک سے دونوں
خوش ہیں نہ گل تر سے نہ ہم خار سے ناخوش
سررشتۂ دل بند نہیں زلف و کمر میں
کیا جانیے ہم کس لیے ہیں یار سے ناخوش
ہے عشق میں صحبت مری خوباں کی عجب کچھ
اقرار سے بیزار ہیں انکار سے ناخوش
خوش رہتے ہیں احباب بہم ربط کیے سے
رہتے ہو تمھیں ایک مرے پیار سے ناخوش
اک بات کا بھی لوگوں میں پھپّٹ اسے کرنا
ہم ہیں گے بہت میر کے بستار سے ناخوش
میر تقی میر

الا کھینچ بغل میں تجھ کو دیر تلک ہم پیار کریں

دیوان دوم غزل 887
آج ہمارے گھر آیا تو کیا ہے یاں جو نثار کریں
الا کھینچ بغل میں تجھ کو دیر تلک ہم پیار کریں
خاک ہوئے برباد ہوئے پامال ہوئے سب محو ہوئے
اور شدائد عشق کی رہ کے کیسے ہم ہموار کریں
زردی رخ رونا ہر دم کا شاہد دو جب ایسے ہوں
چاہت کا انصاف کرو تم کیونکر ہم انکار کریں
باغ میں اب آجاتے ہیں تو صرفہ اپنا چپ میں ہے
خوبی بیاں کر تیری ہم کیا گل کو گلے کا ہار کریں
شیوہ اپنا بے پروائی نومیدی سے ٹھہرا ہے
کچھ بھی وہ مغرور دبے تو منت ہم سو بار کریں
ہم تو فقیر ہیں خاک برابر آ بیٹھے تو لطف کیا
ننگ جہاں لگتا ہو ان کو واں وے ایسی عار کریں
پتا پتا گلشن کا تو حال ہمارا جانے ہے
اور کہے تو جس سے اے گل بے برگی اظہار کریں
کیا ان خوش ظاہر لوگوں سے ہم یہ توقع رکھتے تھے
غیر کو لے کر پاس یہ بیٹھیں ہم کو گلیوں میں خوار کریں
میر جی ہیں گے ایک جو آئے کیا ہم ان سے درد کہیں
کچھ بھی جو سن پاویں تو یہ مجلس میں بستار کریں
میر تقی میر

آپ کو یار پسند اور مجھے دار پسند

آفتاب اقبال شمیم ۔ غزل نمبر 23
بس کہ فطرت نے بنایا ہمیں آزاد پسند
آپ کو یار پسند اور مجھے دار پسند
جیت کر جانئے کیوں ، میں بھی ذرا خوش نہ ہوا
اور دنیا نے بھی میرے لئے کی ہار پسند
ڈال دے وہ بھی جو آنکھوں میں چھپا رکھی ہو
ایسی کنجوسیاں کرتے نہیں مے خوار پسند
ساتھ ہی لے گیا پرسش کی تمنا شاید
ہائے وہ سب سے جدا شاعرِ دشوار پسند
اُن کے آلاتِ صدا جو بھی کہیں خوب کہیں
وُہ بڑے لوگ ہیں کرتے نہیں انکار پسند
موت آسان تھی جینے سے مگر کیا کیجئے
آ گئی در کے بجائے مجھے دیوار پسند
آفتاب اقبال شمیم

رنگ چھڑکا گیا تختۂ دار پر

فیض احمد فیض ۔ غزل نمبر 21
پھول مسلے گئے فرشِ گلزار پر
رنگ چھڑکا گیا تختۂ دار پر
بزم برپا کرے جس کو منظور ہو
دعوتِ رقص، تلوار کی دھار پر
دعوتِ بیعتِ شہ پہ ملزم بنا
کوئی اقرار پر، کوئی انکار پر
ناتمام
فیض احمد فیض

فریاد ہم بہت پسِ دیوار کرتے ہیں

عرفان صدیقی ۔ غزل نمبر 182
عرضِ وفا تو فرض ہے ناچار کرتے ہیں
فریاد ہم بہت پسِ دیوار کرتے ہیں
دو چار حرف لکھ کے ہم اپنے گمان میں
اس کو شریکِ لذت آزار کرتے ہیں
میرے خیال‘ اب ترا بچنا محال ہے
لوگوں کے لفظ ذہن پہ یلغار کرتے ہیں
اپنے سوا بھی رنج تماشا کریں‘ تو چل
کچھ دیر سیرِ کوچہ و بازار کرتے ہیں
خود ہی اسے ضرورتِ بیعت نہیں رہی
اب آپ کیا ارادۂ انکار کرتے ہیں
تجھ سے ملے تو ہم نے یہ جانا کہ آجکل
آہو شکاریوں کو گرفتار کرتے ہیں
کچھ دن پرند پرورشِ بال و پر کریں
بے صرفہ کیوں ہواؤں سے پیکار کرتے ہیں
آشفتگاں کو رمز و اشارت کا کیا دماغ
یہ لوگ کس زبان میں گفتار کرتے ہیں
عرفان صدیقی

ندی بھی ہے سبک رفتار مجھ سے

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 544
یہ گہرے سبز سے کہسار مجھ سے
ندی بھی ہے سبک رفتار مجھ سے
زمانہ ہے سحر آثار مجھ سے
ملو آ کے افق کے پار مجھ سے
اسے ہر بار ایسے دیکھتا ہوں
ملا ہے جیسے پہلی بار مجھ سے
طلب کی آخری حد آ گئی ہے
وہ آئے اور سنے انکار مجھ سے
مری تقدیر میں بربادیاں ہیں
کہے ٹوٹا ہوا اوتار مجھ سے
سمجھ کر دھوپ مجھ کو زندگی کی
گریزاں سایہء دیوار مجھ سے
درختوں پر میں بارش کی طرح ہوں
ہوا میں خاک کی مہکار مجھ سے
مسلسل لفظ ہیں کرب و بلا میں
سرِ نوکِ سناں اظہار مجھ سے
منائیں لوگ جشن فتح مندی
فقط نسبت ہے تیری ہار مجھ سے
پڑا کوئے ملامت میں کہیں ہوں
تعلق کیا رکھے دستار مجھ سے
میں شب بھر چاند کو منصور دیکھوں
یہ چاہے دیدئہ بیدار مجھ سے
منصور آفاق

عہدِ فرعون کے بھی فسوں کا ہم

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 218
سچ کہوں کیا کہ موسیٰ عصا دار ہم
عہدِ فرعون کے بھی فسوں کا ہم
ہم خذف ریزے مٹی کے ہم ٹھیکرے
نقشِ تہذیب کے کہنہ آثار ہم
ہم ہی تختِ سلیماں کی تاریخ ہیں
اشک آباد ہیکل کی دیوار ہم
ہم حسن کوزہ گر ہم ہی بغداد ہیں
اک گذشتہ خلافت کی دستار ہم
ہم ہیں خاک نگاراں کی تشکیل گاہ
موت کی گرد سے لکھے کردار ہم
ہر طرف سرخ پانی کے سیلا ب میں
تربتر،ٹوٹے کوزوں کے انبار ہم
ٹوٹنے کی صدائے ستم،ہرطرف
ایک آوازِ تخریب کا وار ہم
جو صلیبوں کی میخوں میں مردہ ہوا
اُس خدا زاد عیسیٰ کا انکار ہم
اک طرف ہم ہی منصور گرداب ہیں
اک طرف بہتی کشتی کے پتوار ہم
منصور آفاق

ہند کی سب سے بڑی سرکار نو شہ گنج بخشؒ

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 191
برکتوں کا مطلع ء انوار نو شہ گنج بخشؒ
ہند کی سب سے بڑی سرکار نو شہ گنج بخشؒ
جا نشینِ غو ث اعظمؒ ، افتخا رِ اولیا
وا قف اسرار در اسرار نو شہ گنج بخشؒ
حاکم مِلک شر یعت ، مالک ، شہر سلوک
در سعادت نقطہ ء پرکار نو شہ گنج بخشؒ
آفتا بِ فیضِ عالم ہیں جہا ں پر غو ث پاکؒ
اُس فلک پر ثا بت و سیار نو شہ گنج بخشؒ
صر ف مشر ق میں نہیں ان کی ولا یت کا ظہو ر
خا کِ مغر ب پہ بھی رحمت بار نو شہ گنج بخشؒ
بر ق نو شاہی ؒ سے لے کر حضرت معر و ف تک
نیکیوں سے اک بھرا گلزار نو شہ گنج بخشؒ
چو متے ہیں حا ملانِ جبہ ود ستا ر پا ئو ں
محتر م اتنا سگِ دربار نو شہ گنج بخشؒ
عالمِ لاہو ت کی صبح مقد س ان کی ذا ت
رو شنی کا نر م و حد ت زار نو شہ گنج بخشؒ
بخش دیں بینا ئی نا بینا ئو ں کو اک دید سے
ہم نہیں کہتے ہیں یہ ، اوتار نو شہ گنج بخشؒ
ہر قدم اس شخص کا پھر بخت آور ہو گیا
مہر با ں جس پہ ہو ئے اک بار نو شہ گنج بخشؒ
زہد و تقو یٰ ، فقر و فا قہ اور عمل کے با ب میں
اک مجسم نو ر کا اظہار نو شہ گنج بخشؒ
وہ مجد د ہیں ہز ا ر وں سا ل پر پھیلے ہو ئے
یو ں سمجھ لو حا صلِ ادوار نو شہ گنج بخشؒ
منز ل علم و فضلیت ، رو نق را ہِ سلو ک
کشفِ مصطفو ی ؐ کے پیر و کار نو شہ گنج بخشؒ
کہتے ہیں بے رو ح جسمو ں کو جگا تا تھا مسیح
مر دہ دل کر دیتے ہیں بیدار نو شہ گنج بخشؒ
ہا ں ! سر تسلیم خم کر تا ہے در یا ئے چنا ب
پانیوں کے جیسے ہیں مختار نو شہ گنج بخشؒ
غو ثِ اعظم ؒ کے شجر کا خو شہ ء فقر و سلو ک
قا دری گلز ا ر کے پندار نو شہ گنج بخشؒ
شمعِ عر فا ن الہی ، شب زدو ں کی رو شنی
سا عتِ پر نو ر سے سر شار نو شہ گنج بخشؒ
دا ستا نو ں میں مر یدِ با صفا ہیں آپ کے
صا حبا ں مر ز ا کے بھی کر دار نو شہ گنج بخشؒ
جن و انسا ں ہی نہیں ہیں آپ کے خدا م میں
آپ کے قد سی ہیں خد متگار نو شہ گنج بخشؒ
پا ئے نو شہ کے تلے بہتے ہیں در یا ئے بہشت
سا قی ء کو ثر ؐ کے ہیں میخوار نو شہ گنج بخشؒ
آپ کا اسمِ گرا می وقت کے ہو نٹو ں پہ ہے
تذ کر ہ کر تا ہے سب سنسار نو شہ گنج بخشؒ
صر ف یو ر پ ہی نہیں ہے آپ کے ہیں معتقد
ہند سند ھ اور کا بل و قندھار نو شہ گنج بخشؒ
حکمرا نو ں کی جبینیں ان کے در پہ خم ہو ئیں
مو تیو ں والے سخی سردار نو شہ گنج بخشؒ
مو ج بن جا ئے گی کشتی تیر ے میرے وا سطے
یو ں اتا ریں گے ہمیں اس پار نو شہ گنج بخشؒ
اس شجر پر مو سمو ں کی ضر ب پڑ تی ہی نہیں
کس تسلسل سے ہیں سایہ دار نو شہ گنج بخشؒ
انبسا ط و لطف کا پہلو جہا ں کے وا سطے
نسلِ انسا نی کے ہیں غم خوار نو شہ گنج بخشؒ
کیوں نہ ہو ں عر فا ن کے مو تی در و دیوار میں
قصرِ نو شا ہی کے ہیں معمار نو شہ گنج بخشؒ
سلسہ نو شا ہیہ کا ہر جر ی ہے اولیا ء
لشکرِ حق کے جو ہیں سا لار نو شہ گنج بخشؒ
آپ کے در کے فقیر وں میں قطب اقطا ب ہیں
کون عظمت سے کر ے انکار نو شہ گنج بخشؒ
نو رو ں نہلا ئے ہو ئے چہر ے کی کر نیں اور ہم
کیا صبا حت خیز تھے رخسار نو شہ گنج بخشؒ
آپکے فیضِ نظر کی دا ستا ں اتنی ہے بس
سب مسلما ں ہو گئے کفار نو شہ گنج بخشؒ
اعتما دِ ذا ت کی کچھ غیر فا نی سا عتیں
آپ کے دم سے کر امت بار نو شہ گنج بخشؒ
بد عقید ہ زند گا نی کی سلگتی دھو پ میں
آپ ٹھہر ے سا یہء دیوار نو شہ گنج بخشؒ
ابن عر بی ؒ کے تصو ف کی کہا نی کیا کر وں
ہیں عد م کا اک عجب اظہار نو شہ گنج بخشؒ
مل گئی ان کی دعا سے کتنی دنیا کو شفا
امتِ بیما ر کے عطار نو شہ گنج بخشؒ
سن رہا ہوں آج تک عشقِ محمد ؐ کی اذا ں
مسجد نبوی کا اک مینار نو شہ گنج بخشؒ
فر ض ہے ہر شخص پر ذکر گرا می آپ کا
ایک اک نو شا ہی کا پر چار نو شہ گنج بخشؒ
تر دما غو ں میں یہ صبح فکر کی رعنا ئیاں
ٍٍٍآپ کے بس آپ کے افکار نو شہ گنج بخشؒ
معتر ف ہے ذہن انسا ں آپ کے عر فان کا
دل غلا می کا کر ے اقرار نو شہ گنج بخشؒ
خا کِ رنمل کو مسیحا ئی کی رفعت مل گئی
ہیں وہا ں جو دفن زند ہ دار نو شہ گنج بخشؒ
اک ذر اچشمِ عنا یت چا ہتا ہو ں آپ کی
آپ کا مجھ کو کر م در کار نو شہ گنج بخشؒ
کھو ل در واز ے جہا ں با نی کے میر ی ذا ت پر
میں بہت ہو ں مفلس و نا دار نو شہ گنج بخشؒ
چہر ہ ء انوا ر کی بس اک تجلی دے مجھے
خوا ب ہی میں بخش دے دیدار نو شہ گنج بخشؒ
حضرت معر و ف نو شا ہی کی فر ما ئش ہو ئی
پرُ سعا د ت یہ لکھے اشعار نو شہ گنج بخشؒ
منقبت منصو ر پڑ ھ پو رے ادب آداب سے
سن رہے ہیں شعر خو د سر کار نو شہ گنج بخشؒ
منصور آفاق

دیکھا نہ مگر اس نے ہمارا گل و گلزار

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 5
کچھ زخم دھنک خیز ہیں کچھ زخم لہو بار
دیکھا نہ مگر اس نے ہمارا گل و گلزار
کیا مانگنے آ سکتے ہیں پھر تیری گلی میں
ہم آخرِ شب، آخری سگریٹ کے طلب گار
یہ فلسفہ ہے یا کہ خرابی ہے خرد کی
ہونے سے بھی انکار ، نہ ہونے سے بھی انکار
اک زاویہ در زاویہ جذبوں کی ریاضی
اک لمس بھری قوسِ قزح ، بسترِ بیدار
رکھ ہاتھ نہ زانو پہ اے دہکے ہوئے موسم
اس وقت زیادہ ہے بہت کار کی رفتار
نازک ہے بہت، داغ نہ پڑ جائیں بدن پر
اُس حسنِ گنہ خیز کو مسواک سے مت مار
آنکھوں سے لپکتے ہیں یہاں برف کے طوفاں
ہرچند کہ مصنوعی نہیں گرمیِ بازار
بنیاد میں رکھا گیا تھا جس کو مکاں کی
منصور ہوا پھر اسی بھونچال سے مسمار
وحدت کے ازل زار یہ کثرت کے ابد زار
ہم ہی سے دھنک رنگ ہیں ہم ہی سے کرم بار
ہم عالمِ لاہوت کی خوش بخت سحر ہیں
ہم حرکتِ افلاک ہیں ہم ثابت و سیار
ہم حسنِ نزاکت کی چہکتی ہوئی تاریخ
ہم قرطبہ اور تاج محل کے در و دیوار
ہم کاسہء مجذوب ہیں ہم دھجیاں دھج کی
ہم روند کے پاؤں سے نکل آئے ہیں دستار
ہم کُن کی صدا ہیں ہمی لولاک کا نغمہ
ہم وقت کے گنبد ہمی بازیچہء اسرار
ہم لوگ سراپا ہیں کرامت کوئی منصور
ہم قربِ خداوندی کے احساس کا اظہار
منصور آفاق

پہلی سی وہ اب صورت بازار نہیں ہے

باقی صدیقی ۔ غزل نمبر 253
دل جنس محبت کا خریدار نہیں ہے
پہلی سی وہ اب صورت بازار نہیں ہے
ہر بار وہی سوچ وہی زہر کا ساغر
اس پر یہ ستم جرات انکار نہیں ہے
کچھ اٹھ کے بگولوں کی طرح ہو گئے رقصاں
کچھ کہتے رہے راستہ ہموار نہیں ہے
دل ڈوب گیا لذت آغوش سحر میں
بیدار ہے اس طرح کہ بیدار نہیں ہے
یہ سر سے نکلتی ہوئی لوگوں کی فصیلیں
دل سے مگر اونچی کوئی دیوار نہیں ہے
دم سادھ کے بیٹھا ہوں اگرچہ مرے سر پر
اک شاخ ثمر دار ہے تلوار نہیں ہے
دم لو نہ کہیں دھوپ میں چلتے رہو باقیؔ
اپنے لئے یہ سایہ اشجار نہیں ہے
باقی صدیقی