ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 51
جب سے اندر سے بِکے اخبار میرے شہر کے
لا دوا ہونے لگے آزار میرے شہر کے
اَنٹیوں کے مول بِکتے ہیں کئی یوسف یہاں
مصر کے بازار ہیں بازار، میرے شہر کے
لُوٹ کر شب زادگاں نے جگنوؤں کی پُونحیاں
چہرہ چہرہ مَل لئے انوار، میرے شہر کے
جانچیے تو لوگ باہم نفرتوں میں غرق ہیں
دیکھیے تو فرد ہیں تہوار، میرے شہر کے
کُو بہ کُو پسماندگی کا ہے تعفّن چار سو
اور بہت ذی شان ہیں دربار، میرے شہر کے
چوس لینے پر نمِ زر، جس کسی کے پاس ہے
کر چکے ایکا سبھی زر دار، میرے شہر کے
مکر کیا کیا لوریاں ماجد اُنہیں دینے لگا
لوگ جتنے بھی مِلے بیدار، میرے شہر کے
ماجد صدیقی