ٹیگ کے محفوظات: انوار

لا دوا ہونے لگے آزار میرے شہر کے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 51
جب سے اندر سے بِکے اخبار میرے شہر کے
لا دوا ہونے لگے آزار میرے شہر کے
اَنٹیوں کے مول بِکتے ہیں کئی یوسف یہاں
مصر کے بازار ہیں بازار، میرے شہر کے
لُوٹ کر شب زادگاں نے جگنوؤں کی پُونحیاں
چہرہ چہرہ مَل لئے انوار، میرے شہر کے
جانچیے تو لوگ باہم نفرتوں میں غرق ہیں
دیکھیے تو فرد ہیں تہوار، میرے شہر کے
کُو بہ کُو پسماندگی کا ہے تعفّن چار سو
اور بہت ذی شان ہیں دربار، میرے شہر کے
چوس لینے پر نمِ زر، جس کسی کے پاس ہے
کر چکے ایکا سبھی زر دار، میرے شہر کے
مکر کیا کیا لوریاں ماجد اُنہیں دینے لگا
لوگ جتنے بھی مِلے بیدار، میرے شہر کے
ماجد صدیقی

یہاں اہلِ نظر تو ہیں بہت، بیدار کم کم ہیں

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 52
جو آنکھیں دیکھتی ہوں دھُند کے اُس پار، کم کم ہیں
یہاں اہلِ نظر تو ہیں بہت، بیدار کم کم ہیں
بھسم کرنے کو آہن، کام میں لایا گیا کیا کیا
فلاحت اور زراعت کے مگر اوزار کم کم ہیں
سمجھ بیٹھے ہیں جب سے اصلِ حرصِ خوش خصالاں ہم
کسی بھی صورتِ حالات سے بے زار کم کم ہیں
شکم جب سے بھرا رہنے لگا ہے چھِینا جھپٹی سے
وہ کہتے ہیں یہی ، نگری میں اب نادار کم کم ہیں
فروغِ تیرگی بھی دم بہ دم ماجِد فراواں ہے
نگر میں جگنوؤں کے پاس بھی انوار کم کم ہیں
ماجد صدیقی

ظلمتِ خلوت وگرنہ مستقل آزار تھا

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 33
مل گیا کوئی تو یہ چہرہ سحر آثار تھا
ظلمتِ خلوت وگرنہ مستقل آزار تھا
مجھ میں جانے کیا ہُنر تھا وہ کہ جس کے بُغض سے
میرے گھرکی سمت کھلتا ہر دریچہ نار تھا
کیوں مُصر رہنے لگا اِس پاک دامانی پہ مَیں
وہ خطائیں کیا ہوئیں جِن کا مجھے اقرار تھا
وہ بھی کیا شب تھی کہ جس کے حشرزا انجام پر
کانپتے ہاتھوں میں میرے صبح کا اخبار تھا
کس کی قامت کس سے کتنی پست ہے، اس فرق پر
جس کسی کو شہر میں دیکھا وہی بیمار تھا
رابطہ جب تک رہا ماجدؔ زمیں سے پیڑ کا
برگ برگ اُس کا سراپا مطلعٔ انوار تھا
ماجد صدیقی

صورتِ اشجار ہیں زردار ہم

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 103
جان پر سہہ کر خزاں کے وار ہم
صورتِ اشجار ہیں زردار ہم
وُہ بھی دِن تھے جب کسی کی دید سے
دمبدم تھے مطلعٔ انوار ہم
سامنے اُس کے سبک سر کیا ہوئے
لے کے پلٹے اور اک آزار ہم
ہر سفر ہے اَب تو ہجرت کا سفر
تھے کبھی اِس شہر میں انصار ہم
دل سے دل کو راہ اَب ہوتی نہیں
بھُولتے جاتے ہیں سب اقدار ہم
حال کیا جانے ہو ماجدؔ! باغ کا
دیکھتے ہیں اور ہی آثار ہم
ماجد صدیقی

تُجھ سے ملے تو ابرِ گہر بار ہو گئے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 17
سب سرحدوں سے شوق کی ہم پار ہو گئے
تُجھ سے ملے تو ابرِ گہر بار ہو گئے
ہر جنبشِ بدن کے تقاضے تھے مختلف
جذبے تمام مائلِ اظہار ہو گئے
زندہ رہے جو تُجھ سے بچھڑ کر بھی مُدّتوں
ہم لوگ کس قدر تھے جگردار ہو گئے
اپنے بدن کے لمس کی تبلیغ دیکھنا
ہم سحرِ آذری کے پرستار ہو گئے
دو وقت، دو بدن تھے، کہ جانیں تھیں دو بہم
رستے تمام مطلعِٔ انوار ہو گئے
ماجد ہے کس کا فیضِ قرابت کہ اِن دنوں
پودے سبھی سخن کے ثمردار ہو گئے
ماجد صدیقی

پر نمایاں تری آمد کے نہ آثار ہوئے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 33
پھُول انوار بہ لب، ابر گہر بار ہوئے
پر نمایاں تری آمد کے نہ آثار ہوئے
کچھ سزا اِس کی بھی گرہے تو بچیں گے کیسے
ہم کہ جو تُجھ سے تغافل کے گنہگار ہوئے
ہونٹ بے رنگ ہیں، آنکھیں ہیں کھنڈر ہوں جیسے
مُدّتیں بِیت گئیں جسم کو بیدار ہوئے
وُہ جنہیں قرب سے تیرے بھی نہ کچھ ہاتھ لگا
وُہی جذبات ہیں پھر درپئے آزار ہوئے
جب بھی لب پر کسی خواہش کا ستارا اُبھرا
جانے کیا کیا ہیں اُفق مطلعٔ انوار ہوئے
اب تو وا ہو کسی پہلو ترے دیدار کا در
یہ حجابات تو اب سخت گراں بار ہوئے
چھیڑ کر بیٹھ رہے قصّۂ جاناں ماجدؔ
جب بھی ہم زیست کے ہاتھوں کبھی بیزار ہوئے
ماجد صدیقی

حرفِ حق جب بھی کہو جان کا آزار بنے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 88
پا بہ زنجیر کرے، طوق بنے، دار بنے
حرفِ حق جب بھی کہو جان کا آزار بنے
مسکراتا ہے اُسے دیکھ کے ہر اہلِ ہوس
جب کوئی لفظ گریباں کا مرے، تار بنے
تھا نہ یاروں پہ کچھ ایسا بھی بھروسہ لیکن
اَب کے تو لوگ سرِ بزم یہ اغیار بنے
کیا توقّع ہو بھلا لطفِ مناظر سے کہ آنکھ
کربِ آشوب سے ہی دیدۂ بیدار بنے
ہاں مرے جُرم کی کچھ اور بھی تشہیر کرو
کیا خبر، جشن مری موت کا تہوار بنے
کیا کہُوں جس کے سبب لائقِ تعزیز ہُوں مَیں
حرفِ بے نام وہی چشمۂ انوار بنے
ہم کہ محسُود ہیں اِس فکر کی ضَو سے ماجدؔ
جانے کب نورُ یہی اپنے لئے نار بنے
ماجد صدیقی