ٹیگ کے محفوظات: انقلاب

ذرا دوہرا مرا عہدِ شباب آہستہ آہستہ

دِکھا چشمِ تصوّر پھر وہ خواب آہستہ آہستہ
ذرا دوہرا مرا عہدِ شباب آہستہ آہستہ
کسی کے مصحفِ رُخ پر نگاہیں جَم کَے رہ جائیں
پڑھی جائے بَہ فُرصَت یہ کتاب آہستہ آہستہ
نیازِ عشق و نازِ حسن ہَوں مصروفِ سرگوشی
سوال آہستہ آہستہ جواب آہستہ آہستہ
کوئی مدہوش دزدیدہ نظر اُٹھ اُٹھ کے جھُکتی ہو
خموشی چار سُو محوِ خطاب آہستہ آہستہ
نگاہوں میں ہو بحرِ سرخوشی اُور وہ سرِ ساحل
پٹکتے پھِر رہے ہَوں سر حباب آہستہ آہستہ
گذرتا وقت وہ اُستاد ہے اَزبَر کرا دے گا
کتابِ زندگی کے سارے باب آہستہ آہستہ
نوشتِ برق رفتاری ہے تاریخِ نگاہ و دل
پڑھی جاتی ہے لیکن یہ کتاب آہستہ آہستہ
دیارِ حُسن میں اَب راج ہو گا عشق کا، ضامنؔ!
میں برپا کر رہا ہُوں انقلاب آہستہ آہستہ
ضامن جعفری

تیرے دل کی برف نے دیکھا نہیں ہے آفتاب

چشمِ کم سے دیکھتا ہے کیوں مِری چشمِ پُر آب
تیرے دل کی برف نے دیکھا نہیں ہے آفتاب
یوں گزرتی جا رہی ہے زندگی کی دوپہر
دل میں اک امیدِ کاذب اور آنکھوں میں سراب
خود سَری اُس تُند خو کی جاتے جاتے جائے گی
ایک ہی دن میں کبھی آتا نہیں ہے انقلاب
تم نے ہم کو کیا دیا اور ہم سے تم کو کیا مِلا
مِل گئی فرصت کبھی تو یہ بھی کر لیں گے حساب
ہم کو اپنا شہر یاد آتا نہ شاید اِس قدر
کیا کریں رہتا ہے تیرے شہر کا موسم خراب
ایک خط لکھ کر سمجھنا فرض پورا ہو گیا
واہ باصرِؔ جی تمہارا بھی نہیں کوئی جواب
باصر کاظمی

جس سے دل آگ و چشم آب ہے میاں

دیوان سوم غزل 1196
عشق وہ خانماں خراب ہے میاں
جس سے دل آگ و چشم آب ہے میاں
تن میں جب تک ہے جاں تکلف ہے
ہم میں اس میں ابھی حجاب ہے میاں
گو نہیں میں کسو شمار میں یاں
عاقبت ایک دن حساب ہے میاں
کو دماغ و جگر کہاں وہ قلب
یاں عجب ایک انقلاب ہے میاں
زلف بل کھا رہی ہے گو اس کی
دل کو اپنے تو پیچ و تاب ہے میاں
لطف و مہر و وفا وہ کیا جانے
ناز ہے خشم ہے عتاب ہے میاں
لوہو اپنا پیوں ہوں چپکا ہوں
کس کو اس بن سر شراب ہے میاں
چشم وا یاں کی چشم بسمل ہے
جاگنا یہ نہیں ہے خواب ہے میاں
منھ سے کچھ بولتا نہیں قاصد
شاید اودھر سے اب جواب ہے میاں
دل ہی اپنا نہیں فقط بے چین
جی کو بھی زور اضطراب ہے میاں
چاہیے وہ کہے سو لکھ رکھیں
ہر سخن میر کا کتاب ہے میاں
میر تقی میر

دامن پکڑ کے رویئے یک دم سحاب کا

دیوان دوم غزل 730
بالقوہ ٹک دکھایئے چشم پرآب کا
دامن پکڑ کے رویئے یک دم سحاب کا
جو کچھ نظر پڑے ہے حقیقت میں کچھ نہیں
عالم میں خوب دیکھو تو عالم ہے خواب کا
دریا دلی جنھیں ہے نہیں ہوتے کاسہ لیس
دیکھا ہے واژگوں ہی پیالہ حباب کا
شاید کہ قلب یار بھی ٹک اس طرف پھرے
میں منتظر زمانے کے ہوں انقلاب کا
بارے نقاب دن کو جو رکھتا ہے منھ پہ تو
پردہ سا رہ گیا ہے کچھ اک آفتاب کا
تلوار بن نکلتے نہیں گھر سے ایک دم
خوں کر رہو گے تم کسو خانہ خراب کا
یہ ہوش دیکھ آگے مرے ساتھ غیر کے
رکھتا ہے پائوں مست ہو جیسے شراب کا
مجنوں میں اور مجھ میں کرے کیوں نہ فرق عشق
چھپتا نہیں مزہ تو جلے سے کباب کا
رو فرصت جوانی پہ جوں ابر بے خبر
انداز برق کا سا ہے عہد شباب کا
واں سے تو نامہ بر کو ہے کب کا جواب صاف
میں سادگی سے لاگو ہوں خط کے جواب کا
ٹپکاکرے ہے زہر ہی صرف اس نگاہ سے
وہ چشم گھر ہے غصہ و ناز و عتاب کا
لائق تھا ریجھنے ہی کے مصراع قد یار
میں معتقد ہوں میر ترے انتخاب کا
میر تقی میر

اس کے بعد آئے جو عذاب آئے

فیض احمد فیض ۔ غزل نمبر 34
آئے کچھ ابر، کچھ شراب آئے
اس کے بعد آئے جو عذاب آئے
بامِ مینا سے ماہتاب اُترے
دستِ ساقی میں، آفتاب آئے
ہر رگِ خوں میں پھر چراغاں ہو
سامنے پھر وہ بے نقاب آئے
عمر کے ہر ورق پہ دل کو نظر
تیری مہر و وفا کے باب آئے
کر رہا تھا غم جہاں کا حساب
آج تم یاد بے حساب آئے
نہ گئی تیرے غم کی سرداری
دل میں یوں روز انقلاب آئے
جل اُٹھے بزم غیر کے دروبام
جب بھی ہم خانماں خراب آئے
اس طرح اپنی خامشی گونجی
گویا ہر سمت سے جواب آئے
فیض تھی راہ سربسر منزل
ہم جہاں پہنچے، کامیاب آئے
فیض احمد فیض

انقلاب

مری آنکھوں میں برستے ہوئے آنسو نہ رہے

دل کی دنیا نہ رہی، درد کے پہلو نہ رہے

آہوں سے روح کی اگنی کی بھبھک جاتی رہی

خشک ہونٹوں سے شرابوں کی مہک جاتی رہی

نیند کا چین گیا، جاگنے کی بات گئی

نشوں کا دن گیا اور مستیوں کی رات گئی

ذرّوں کے سینوں میں مہتابوں کی دنیا نہ رہی

قرمزی رنگوں میں گم خوابوں کی دنیا نہ رہی

ڈال رکھا تھا تخیل نے جو رنگیں پردا

رخِ ہستی سے ہے اٹھنے لگا رفتہ رفتہ

اب حقیقت مری آنکھوں کے قریب آتی ہے

نظر اب دنیا کی تصویرِ مہیب آتی ہے

اب تبسم مجھے غنچوں کا رُلا دیتا ہے

دل کے شعلوں کا ہر اک جھونکا ہوا دیتا ہے

حسن کے ناز و ادا جانتا ہوں، جانتا ہوں

اس کا سحر، اس کا فسوں، مانتا ہوں، مانتا ہوں

چاند کی قاش سے ماتھے کی صباحت! سچ ہے

پھول کی طرح حسیں چہرے کی رنگت! سچ ہے

مست نظروں میں شرابوں کی ملاوٹ! سچ ہے

سرخ ہونٹوں میں نباتوں کی گھلاوٹ! سچ ہے

دیکھتی ہیں مگر اب میری نگاہیں کچھ اور!

اب مرے فکر پہ ہیں کھل گئیں راہیں کچھ اور

اب ہر اک شے کی حقیقت پہ گماں رکھتا ہوں

اپنی تخییل کے قدموں پہ جہاں رکھتا ہوں

دیکھتا ہوں کہ نہیں کچھ بھی یہاں میرے بغیر

خس و خاشاک کا ہے ڈھیر جہاں میرے بغیر

حسن اک دھوکا ہے اورعشق ہی خود بھول ہے اک

تتلی کیوں گل پہ گرے، تتلی ہی خود پھول ہے اک

مجید امجد

کوئی تمہیدِ انقلاب نہیں

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 393
اپنی نیندوں میں کوئی خواب نہیں
کوئی تمہیدِ انقلاب نہیں
ساحلوں پر برہنہ جوڑے ہیں
پر کوئی آنکھ بے حجاب نہیں
ہم سفر احتیاط، میرا بدن
نیکیوں کی کوئی کتاب نہیں
کچھ دنوں سے بجا ہے شب کا ایک
اور گھڑیال بھی خراب نہیں
عمر گزری ہے ایک کمرے میں
پھر بھی ہم رنگ اپنے خواب نہیں
کس لیے ذہن میں در آتے ہیں
جن سوالات کے جواب نہیں
آنکھ بھی خالی ہو گئی منصور
اور گٹھڑی میں بھی ثواب نہیں
منصور آفاق

تو ہنس کے بولے وہ منہ قابل نقاب نہ تھا

امیر مینائی ۔ غزل نمبر 9
کہا جو میں نے کہ یوسف کو یہ حجاب نہ تھا
تو ہنس کے بولے وہ منہ قابل نقاب نہ تھا
شب وصال بھی وہ شوخ بے حجاب نہ تھا
نقاب اُلٹ کے بھی دیکھا تو بے نقاب نہ تھا
لپٹ کے چوم لیا منہ، مٹا دیا انکار
نہیں کا اُن کے سوا اس کے کچھ جواب نہ تھا
مرے جنازے پہ اب آتے شرم آتی ہے
حلال کرنے کو بیٹھے تھے جب حجاب نہ تھا
نصیب جاگ اُٹھے سو گئے جو پانوں مرے
تمہارے کوچے سے بہتر مقام خواب نہ تھا
غضب کیا کہ اسے تو نے محتسب توڑا
ارے یہ دل تھا مرا شیشۂ شراب نہ تھا
زمانہ وصل میں لیتا ہے کروٹیں کیا کیا
فراق یار کے دن ایک انقلاب نہ تھا
تمہیں نے قتل کیا ہے مجھے جو تنتے ہو
اکیلے تھے ملک الموت ہم رکاب نہ تھا
دعائے توبہ بھی ہم نے پڑھی تو مے پی کر
مزہ بھی ہم کو کسی شے کا بے شراب نہ تھا
میں روئے یار کا مشتاق ہو کے آیا تھا
ترے جمال کا شیدا تو اے نقاب نہ تھا
بیاں کی جو شبِ غم کی بے کسی، تو کہا
جگر میں درد نہ تھا، دل میں اضطراب نہ تھا
وہ بیٹھے بیٹھے جو دے بیٹھے قتل عام کا حکم
ہنسی تھی اُن کی کسی پر کوئی عتاب نہ تھا
جو لاش بھیجی تھی قاصد کی ، بھیجتے خط بھی
رسید وہ تو مرے خط کی تھی ، جواب نہ تھا
سرور قتل سے تھی ہاتھ پانوں کو جنبش
وہ مجھ پہ وجد کا عالم تھا، اضطراب نہ تھا
ثبات بحر جہاں میں نہیں کسی کو امیر
اِدھر نمود ہوا اور اُدھر حباب نہ تھا
امیر مینائی