ٹیگ کے محفوظات: انعام

آمدِ صبحِ شب اندام پہ رونا آیا

خوابِ گُل رنگ کے انجام پہ رونا آیا
آمدِ صبحِ شب اندام پہ رونا آیا
دل کا مفہوم اشاروں سے اُجاگر نہ ہوا
بے کسیِ گلہِ خام پہ رونا آیا
کبھی اُلفت سی جھلکتی ہے، کبھی نفرت سی
اے تعلق! ترے ابہام پہ رونا آیا
میری خوشیاں کبھی جس نام سے وابستہ تھیں
جانے کیوں آج اسی نام پہ رونا آیا
لے کے ابھرے گی سحَر پھر وہی پژمُردہ کرن
کیا کہوں ! تیرگیِ شام پہ رونا آیا
بے سبب اپنی نگاہوں سے گرا جاتا ہوں
اس فسوں کاریِ الزام پہ رونا آیا
اتنے ارزاں تو نہیں تھے مرے اشکوں کے گُہر
آج کیوں تلخیِ آلام پہ رونا آیا؟
لائقِ حسنِ نظر تھے نہ کبھی ان کے خطوط
آج محرومیِ پیغام پہ رونا آیا
اب بھی منزل مرے قدموں کی تمنائی ہے
کیا کہوں حسرتِ یک گام پہ رونا آیا
رونے والا تو کرے گا نہ کسی کا شکوہ
لاکھ کہیے غمِ ایّام پہ رونا آیا
ان کے شبہات میں کچھ اور اضافہ تھا شکیبؔ
اشکِ سادہ کے اس انعام پہ رونا آیا
شکیب جلالی

وقت سے پہلے خوشیوں کا اسقاط ہمارے نام لگا

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 33
شاخِ شجر پر پھل پکنے کا ہر حیلہ ناکام لگا
وقت سے پہلے خوشیوں کا اسقاط ہمارے نام لگا
آنے والے وقت کے تیور اِس میں وہ پڑھ لیتا ہے
اب بھی شاہ کے ہاتھ میں ہے جو وہ جمشیدی جام لگا
ہم جس کی کوڑی لائے تھے ہم نے جو کچھ سوچا تھا
اس کا ہونا ہی کیونکر اب کے بھی خیال خام لگا
ضبط کے ہاتھوں پھٹی پھٹی لگتی تھیں جتنی آنکھیں تھیں
اور سکوت لبوں کا سینے سینے کا کہرام لگا
ا چّھی قدروں کو اپنانا بات گئے وقتوں کی ہے
آج تو جس میں بھی ہے اُس کو سفلہ پن انعام لگا
وقت نہ پھر ہاتھ آئے گا ایسا اے صاحبِ بینائی
بول کوئی بولی اور ہم سارے اندھوں کے دام لگا
ہم کہ پیادہ پیا ہیں ماجدؔ جانیں یہ احوال ہمِیں
کن کن حیلوں دن کا سورج جا کے کنارِ شام لگا
ماجد صدیقی

وقت سے پہلے خوشیوں کا اسقاط ہمارے نام لگا

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 22
شاخِ شجر پر پھل پکنے کا ہر حیلہ ناکام لگا
وقت سے پہلے خوشیوں کا اسقاط ہمارے نام لگا
آنے والے وقت کے تیور اِس میں وہ پڑھ لیتا ہے
اب بھی شاہ کے ہاتھ میں ہے جو وہ جمشیدی جام لگا
ہم جس کی کوڑی لائے تھے ہم نے جو کچھ سوچا تھا
اس کا ہونا ہی کیونکر اب کے بھی خیال خام لگا
ضبط کے ہاتھوں پھٹی پھٹی لگتی تھیں جتنی آنکھیں تھیں
اور سکوت لبوں کا سینے سینے کا کہرام لگا
ا چّھی قدروں کو اپنانا بات گئے وقتوں کی ہے
آج تو جس میں بھی ہے اُس کو سفلہ پن انعام لگا
وقت نہ پھر ہاتھ آئے گا ایسا اے صاحبِ بینائی
بول کوئی بولی اور ہم سارے اندھوں کے دام لگا
ہم کہ پیادہ پیا ہیں ماجدؔ جانیں یہ احوال ہمِیں
کن کن حیلوں دن کا سورج جا کے کنارِ شام لگا
ماجد صدیقی

ہم خاص نہیں اور کرم عام نہ ہو گا

مصطفٰی خان شیفتہ ۔ غزل نمبر 19
تقلیدِ عدو سے ہمیں ابرام نہ ہو گا
ہم خاص نہیں اور کرم عام نہ ہو گا
صیاد کا دل اس سے پگھلنا متعذر
جو نالہ کہ آتش فگنِ دام نہ ہو گا
جس سے ہے مجھے ربط وہ ہے کون، کہاں ہے
الزام کے دینے سے تو الزام نہ ہو گا
بے داد وہ اور اس پہ وفا یہ کوئی مجھ سا
مجبور ہوا ہے، دلِ خود کام نہ ہو گا
وہ غیر کے گھر نغمہ سرا ہوں گے مگر کب
جب ہم سے کوئی نالہ سرانجام نہ ہو گا
ہم طالبِ شہرت ہیں، ہمیں ننگ سے کیا کام
بدنام اگر ہوں گے تو کیا نام نہ ہو گا
قاصد کو کیا قتل، کبوتر کو کیا ذبح
لے جائے مرا اب کوئی پیغام، نہ ہو گا
جب پردہ اٹھا تب ہے عدو دوست کہاں تک
آزارِ عدو سے مجھے آرام نہ ہو گا
یاں جیتے ہیں امیدِ شبِ وصل پر اور واں
ہر صبح توقع ہے کہ تا شام نہ ہو گا
قاصد ہے عبث منتظرِ وقت، کہاں وقت
کس وقت انہیں شغلِ مے و جام نہ ہو گا
دشمن پسِ دشنام بھی ہے طالبِ بوسہ
محوِ اثرِ لذتِ دشنام نہ ہو گا
رخصت اے نالہ کہ یاں ٹھہر چکی ہے
نالہ نہیں جو آفتِ اجرام، نہ ہو گا
برق آئینۂ فرصتِ گلزار ہے اس پر
آئینہ نہ دیکھے کوئی گل فام، نہ ہو گا
اے اہلِ نظر ذرے میں پوشیدہ ہے خورشید
ایضاح سے حاصل بجز ابہام نہ ہو گا
اس ناز و تغافل میں ہے قاصد کی خرابی
بے چارہ کبھی لائقِ انعام نہ ہو گا
اس بزم کے چلنے میں ہو تم کیوں متردد
کیا شیفتہ کچھ آپ کا اکرام نہ ہو گا
مصطفٰی خان شیفتہ

رسوا ہوکر مارے جاویں اس کو بھی بدنام کریں

دیوان چہارم غزل 1463
یوں ناکام رہیں گے کب تک جی میں ہے اک کام کریں
رسوا ہوکر مارے جاویں اس کو بھی بدنام کریں
جن کو خدا دیتا ہے سب کچھ وے ہی سب کچھ دیتے ہیں
ٹوپی لنگوٹی پاس اپنے ہم اس پر کیا انعام کریں
منھ کھولے تو روز ہے روشن زلف بکھیرے رات ہے پھر
ان طوروں سے عاشق کیوں کر صبح کو اپنی شام کریں
خط و کتابت حرف و حکایت صفحہ ورق میں آجاوے
دستے کے دستے کاغذ ہو جو دل کا حال ارقام کریں
شیخ پڑے محراب حرم میں پہروں دوگانہ پڑھتے رہو
سجدہ ایک اس تیغ تلے کا ان سے ہو تو سلام کریں
دل آسودہ ہو تو رہے ٹک در پر ہم سو بار گئے
وہ سو یہی کہہ بھیجے ہے باہر جاویں اب آرام کریں
میل گدائی طبع کو اپنی کچھ بھی نہیں ہے ورنہ میر
دو عالم کو مانگ کے لاویں ہم جو تنک ابرام کریں
میر تقی میر

جنس تقویٰ کے تئیں صرف مئے خام کرو

دیوان اول غزل 394
شیخ جی آئو مصلیٰ گرو جام کرو
جنس تقویٰ کے تئیں صرف مئے خام کرو
فرش مستاں کرو سجادئہ بے تہ کے تئیں
مے کی تعظیم کرو شیشے کا اکرام کرو
دامن پاک کو آلودہ رکھو بادے سے
آپ کو مغبچوں کے قابل دشنام کرو
نیک نامی و تقاوت کو دعا جلد کہو
دین و دل پیش کش سادئہ خود کام کرو
ننگ و ناموس سے اب گذرو جوانوں کی طرح
پر فشانی کرو اور ساقی سے ابرام کرو
خوب اگر جرعۂ مے نوش نہیں کرسکتے
خاطر جمع مے آشام سے یہ کام کرو
اٹھ کھڑے ہو جو جھکے گردن میناے شراب
خدمت بادہ گساراں ہی سر انجام کرو
مطرب آکر جو کرے چنگ نوازی تو تم
پیرہن مستوں کی تقلید سے انعام کرو
خنکی اتنی بھی تو لازم نہیں اس موسم میں
پاس جوش گل و دل گرمی ایام کرو
سایۂ گل میں لب جو پہ گلابی رکھو
ہاتھ میں جام کو لو آپ کو بدنام کرو
آہ تا چند رہو خانقہ و مسجد میں
ایک تو صبح گلستان میں بھی شام کرو
رات تو ساری گئی سنتے پریشاں گوئی
میر جی کوئی گھڑی تم بھی تو آرام کرو
میر تقی میر

دیکھا اس بیماری دل نے آخر کام تمام کیا

دیوان اول غزل 7
الٹی ہو گئیں سب تدبیریں کچھ نہ دوا نے کام کیا
دیکھا اس بیماری دل نے آخر کام تمام کیا
عہد جوانی رو رو کاٹا پیری میں لیں آنکھیں موند
یعنی رات بہت تھے جاگے صبح ہوئی آرام کیا
حرف نہیں جاں بخشی میں اس کی خوبی اپنی قسمت کی
ہم سے جو پہلے کہہ بھیجا سو مرنے کا پیغام کیا
ناحق ہم مجبوروں پر یہ تہمت ہے مختاری کی
چاہتے ہیں سو آپ کریں ہیں ہم کو عبث بدنام کیا
سارے رند اوباش جہاں کے تجھ سے سجود میں رہتے ہیں
بانکے ٹیڑھے ترچھے تیکھے سب کا تجھ کو امام کیا
سرزد ہم سے بے ادبی تو وحشت میں بھی کم ہی ہوئی
کوسوں اس کی اور گئے پر سجدہ ہر ہر گام کیا
کس کا کعبہ کیسا قبلہ کون حرم ہے کیا احرام
کوچے کے اس کے باشندوں نے سب کو یہیں سے سلام کیا
شیخ جو ہے مسجد میں ننگا رات کو تھا میخانے میں
جبہ خرقہ کرتا ٹوپی مستی میں انعام کیا
کاش اب برقع منھ سے اٹھا دے ورنہ پھر کیا حاصل ہے
آنکھ مندے پر ان نے گو دیدار کو اپنے عام کیا
یاں کے سپید و سیہ میں ہم کو دخل جو ہے سو اتنا ہے
رات کو رو رو صبح کیا یا دن کو جوں توں شام کیا
صبح چمن میں اس کو کہیں تکلیف ہوا لے آئی تھی
رخ سے گل کو مول لیا قامت سے سرو غلام کیا
ساعد سیمیں دونوں اس کے ہاتھ میں لاکر چھوڑ دیے
بھولے اس کے قول و قسم پر ہائے خیال خام کیا
کام ہوئے ہیں سارے ضائع ہر ساعت کی سماجت سے
استغنا کی چوگنی ان نے جوں جوں میں ابرام کیا
ایسے آہوے رم خوردہ کی وحشت کھونی مشکل تھی
سحر کیا اعجاز کیا جن لوگوں نے تجھ کو رام کیا
میر کے دین و مذہب کو اب پوچھتے کیا ہو ان نے تو
قشقہ کھینچا دیر میں بیٹھا کب کا ترک اسلام کیا
میر تقی میر

میرے تلخاب کو وہ جام بنا دیتا ہے

آفتاب اقبال شمیم ۔ غزل نمبر 109
عرض سنتے ہی مرا کام بنا دیتا ہے
میرے تلخاب کو وہ جام بنا دیتا ہے
خاک و افلاک میں رشتہ ہے، شعور اتنا ہی
خاص کو ہم نسبِ عام بنا دیتا ہے
چھاؤں بھر دھوپ کی مہلت میں شجر میرے لئے
ایک خس خانۂِ آرام بنا دیتا ہے
ثبت و محکم بھی تغیّر کی حد و زد میں ہے
جب بھی چاہے وہ اسے خام بنا دیتا ہے
تجربہ جیسے کوئی نسخۂِ بینائی ہو
میرے دکھ کو مرا انعام بنا دیتا ہے
جو یہاں اایا یہاں سے کبھی نکلا ہی نہیں
شہر، رستوں کا عجب دام بنا دیتا ہے
اپنی قامت بھی ضروری ہے کہ پہچانے جاؤ
یوں تو نقاد بڑا نام بنا دیتا ہے
آفتاب اقبال شمیم

ہم لب سے لگا کر جام، ہوئے بدنام، بڑے بدنام

مجید امجد ۔ غزل نمبر 64
ایک ایک جھروکا خندہ بہ لب، ایک ایک گلی کہرام
ہم لب سے لگا کر جام، ہوئے بدنام، بڑے بدنام
رت بدلی کہ صدیاں لوٹ آئیں، اف یاد، کسی کی یاد
پھر سیلِ زماں میں تیر گیا اک نام، کسی کا نام
دل ہے کہ اک اجنبیِ حیراں، تم ہو کہ پرایا دیس
نظروں کی کہانی بن نہ سکیں ہونٹوں پہ رکے پیغام
روندیں تو یہ کلیاں نیشِ بلا، چومیں تو یہ شعلے پھول
یہ غم یہ کسی کی دین بھی ہے، انعام، عجب انعام
اے تیرگیوں کی گھومتی رو، کوئی تو رسیلی صبح
اے روشنیوں کی ڈولتی لو، اک شام، نشیلی شام
رہ رہ کے جیالے راہیوں کو دیتا ہے یہ کون آواز
کونین کی ہنستی منڈیروں پر، تم ہو کہ غمِ ایام
بے برگ شجر گردوں کی طرف پھیلائیں ہمکتے ہات
پھولوں سے بھری ڈھلوان پہ سوکھے پات کریں بسرام
ہم فکر میں ہیں اس عالم کا دستور ہے کیا دستور
یہ کس کو خبر اس فکر کا ہے دستورِ دو عالم نام
مجید امجد

مجھ کو اس الجھن سے کوئی کام نہ رکھنا

عرفان صدیقی ۔ غزل نمبر 21
رکھنا یا فہرست میں تم مرا نام نہ رکھنا
مجھ کو اس الجھن سے کوئی کام نہ رکھنا
سارے بوسے خاک میں مل گئے آتے آتے
اب کے ہوا کے ہاتھ میں یہ پیغام نہ رکھنا
شب کے مسافر اور پھر ایسی شب کے مسافر
دیکھ ہماری آس چراغِ شام نہ رکھنا
ورنہ خالی ہوجائیں گے سارے خزانے
آئندہ کسی سر پہ کوئی انعام نہ رکھنا
ایسے شور کے شہر میں اتنا مدھم لہجہ
اونچا سننے والوں پر الزام نہ رکھنا
میں چاہوں مرے دل کا لہو کسی کام آجائے
موسم چاہے چہروں کو گلفام نہ رکھنا
عرفان صدیقی

بدنام ہی دنیا میں نکو نام ہے گویا

الطاف حسین حالی ۔ غزل نمبر 24
کچھ کرتے ہیں جو یاں وہی انگشت نما ہیں
بدنام ہی دنیا میں نکو نام ہے گویا
ناچیز ہیں وہ کام نہیں جن پہ کچھ الزام
جو کام ہیں ان کا یہی انعام ہے گویا
ہے وقت راحیل اور وہی عشرت کے ہیں ساماں
آخر ہوئی رات اور ابھی شام ہے گویا
جب دیکھئے حالیؔ کو پڑا پائیے بیکار
کرنا اسے باقی یہی اک کام ہے گویا
الطاف حسین حالی