ٹیگ کے محفوظات: اندام

یہ شیشے کی عمارت پتھروں کے نام ہو جائے

قیامت ہے، مرا دل مرکزِ آلام ہو جائے
یہ شیشے کی عمارت پتھروں کے نام ہو جائے
خموشی بول اُٹّھے، ہر نظر پیغام ہو جائے
یہ سنّاٹا اگر حد سے بڑھے، کُہرام ہو جائے
اُدھر مہتاب اونچا ہو ذرا چھت کی منڈیروں سے
اِدھر قربان اس پر آفتابِ شام ہو جائے
ہمیں تو ہر قدم پر کارواں کا ساتھ دینا ہے
جہاں سب ہم سفر چاہیں ، وہیں بِسرام ہو جائے
ستارے مشعلیں لے کر مجھے بھی ڈھونڈنے نکلیں
میں رستہ بھول جاؤں ، جنگلوں میں شام ہو جائے
میں وہ آدم گزیدہ ہوں جو تنہائی کے صحرا میں
خود اپنی چاپ سن کر لرزہ بر اندام ہو جائے
مثال ایسی ہے اس عہدِ خرد کے ہوش مندوں کی
نہ ہو دامن میں ذرّہ، اور صحرا نام ہو جائے
شکیبؔ! اپنے تعارف کے لیے یہ بات کافی ہے
ہم اس سے بچ کے چلتے ہیں ، جو رستہ عام ہو جائے
شکیب جلالی

آمدِ صبحِ شب اندام پہ رونا آیا

خوابِ گُل رنگ کے انجام پہ رونا آیا
آمدِ صبحِ شب اندام پہ رونا آیا
دل کا مفہوم اشاروں سے اُجاگر نہ ہوا
بے کسیِ گلہِ خام پہ رونا آیا
کبھی اُلفت سی جھلکتی ہے، کبھی نفرت سی
اے تعلق! ترے ابہام پہ رونا آیا
میری خوشیاں کبھی جس نام سے وابستہ تھیں
جانے کیوں آج اسی نام پہ رونا آیا
لے کے ابھرے گی سحَر پھر وہی پژمُردہ کرن
کیا کہوں ! تیرگیِ شام پہ رونا آیا
بے سبب اپنی نگاہوں سے گرا جاتا ہوں
اس فسوں کاریِ الزام پہ رونا آیا
اتنے ارزاں تو نہیں تھے مرے اشکوں کے گُہر
آج کیوں تلخیِ آلام پہ رونا آیا؟
لائقِ حسنِ نظر تھے نہ کبھی ان کے خطوط
آج محرومیِ پیغام پہ رونا آیا
اب بھی منزل مرے قدموں کی تمنائی ہے
کیا کہوں حسرتِ یک گام پہ رونا آیا
رونے والا تو کرے گا نہ کسی کا شکوہ
لاکھ کہیے غمِ ایّام پہ رونا آیا
ان کے شبہات میں کچھ اور اضافہ تھا شکیبؔ
اشکِ سادہ کے اس انعام پہ رونا آیا
شکیب جلالی

یہ سنّاٹا اگر حد سے بڑھے کہرام ہو جائے

خموشی بول اُٹّھے‘ ہر نظر پیغام ہو جائے
یہ سنّاٹا اگر حد سے بڑھے کہرام ہو جائے
ستارے مشعلیں لے کر مجھے بھی ڈھونڈنے نکلیں
میں رستہ بھول جاؤں ‘ جنگلوں میں شام ہو جائے
میں وہ آدم گزیدہ ہوں جو تنہائی کے صحرا میں
خود اپنی چاپ سُن کر لرزہ بر اندام ہو جائے
مثال ایسی ہے اس دورِ خرد کے ہوش مندوں کی
نہ ہو دامن میں ذرّہ اور صحرا نام ہو جائے
شکیبؔ! اپنے تعارف کے لیے یہ بات کافی ہے
ہم اس سے بچ کے چلتے ہیں جو رستہ عام ہو جائے
شکیب جلالی

جپ نام اس کا صبح کو تا نام بھی چلے

دیوان ششم غزل 1914
سب کام سونپ اس کو جو کچھ کام بھی چلے
جپ نام اس کا صبح کو تا نام بھی چلے
گل بکھرے لال میرے قفس پر خزاں کی باؤ
شاید کہ اب بہار کے ایام بھی چلے
خط نکلے پر بھی یار نہ لکھتا تھا کوئی حرف
سو اس کو اب تو لوگوں کے پیغام بھی چلے
سایہ سی اس کے پیچھے لگی پھرتی ہے پری
وہ کیا جو آگے یار کے دوگام بھی چلے
پھر صعوہ کے خرام کی بے لطفی دیکھیو
جب راہ دو قدم وہ گل اندام بھی چلے
اب وہ نہیں کہ تھامے تھمے اضطرار ہے
اک عمر ہم تو ہاتھ سے دل تھام بھی چلے
یہ راہ دور عشق نہیں ہوتی میر طے
ہم صبح بھی چلے گئے ہیں شام بھی چلے
میر تقی میر

تہ خاک بھی خاک آرام ہو گا

دیوان اول غزل 80
جو یہ دل ہے تو کیا سر انجام ہو گا
تہ خاک بھی خاک آرام ہو گا
مرا جی تو آنکھوں میں آیا یہ سنتے
کہ دیدار بھی ایک دن عام ہو گا
نہ ہو گا وہ دیکھا جسے کبک تو نے
وہ اک باغ کا سرو اندام ہو گا
نہ نکلا کر اتنا بھی بے پردہ گھر سے
بہت اس میں ظالم تو بدنام ہو گا
ہزاروں کی یاں لگ گئیں چھت سے آنکھیں
تو اے ماہ کس شب لب بام ہو گا
وہ کچھ جانتا ہو گا زلفوں میں پھنسنا
جو کوئی اسیر تہ دام ہو گا
جگرچاکی ناکامی دنیا ہے آخر
نہیں آئے جو میر کچھ کام ہو گا
میر تقی میر