ٹیگ کے محفوظات: انتقام

ہو گئی آج کی بھی شام تمام

پھر نہ ہو پایا کوئی کام تمام
ہو گئی آج کی بھی شام تمام
تشنگی کو مٹاتے مٹ گئے ہم
تشنگی کو ملا دوام تمام
وائے نسیاں۔۔۔ میں خود کو بھول گیا
کر کے آیا تھا اہتمام تمام
ناتمامی تمام عمر رہی
زندگی اپنی ناتمام، تمام
گو ادھوری تھی داستانِ سفر
ہوتی آئی ہے گام گام تمام
ناتمامی کی زندگی ساری
کام کیا کرتے تشنہ کام تمام
ہم سے اس عمرِ خام نے یاؔور
لے کے چھوڑا ہے انتقام تمام
یاور ماجد

کیا کیا نہ رنگ بھر دیے افسونِ شام نے

منظر تھا اک اُجاڑ نگاہوں کے سامنے
کیا کیا نہ رنگ بھر دیے افسونِ شام نے
اس حادثے کی‘ نخوتِ ساقی کو کیا خبر
بادہ پیا کہ زہر پیا تشنہ کام نے
چہرے سے اجنبی تھا وہ میرے لیے مگر
سب راز اس کے‘ کہہ دیے طرزِ خرام نے
نکلا نہیں ہوں آج بھی اپنے حصار سے
حدِّ نگاہ آج بھی ہے میرے سامنے
تھے حادثوں کے وار تو کاری‘ مگر مجھے
مرنے نہیں دیا خلشِ انتقام نے
اک سانس کی طناب جو ٹوٹی تو اے شکیبؔ
دوڑے ہیں لوگ جسم کے خیمے کو تھامنے
شکیب جلالی

ناکام ہوں کہ کام نہیں آپ سے مجھے

شکوہ بہ طرزِ عام نہیں آپ سے مجھے
ناکام ہوں کہ کام نہیں آپ سے مجھے
کہتا سلوک آپ کے ایک ایک سے مگر
مطلوب انتقام نہیں آپ سے مجھے
اے منصفو حقائق و حالات سے الگ
کچھ بحثِ خاص و عام نہیں آپ سے مجھے
یہ شہرِ دل ہے شوق سے رہیے یہاں مگر
اُمیدِ انتظام نہیں آپ سے مجھے
فرصت ہے اور شام بھی گہری ہے کس قدر
اِس وقت کچھ کلام نہیں آپ سے مجھے
ناصر کاظمی

انتقام

اُس کا چہرہ، اُس کے خدوخال یاد آتے نہیں

اک شبستاں یاد ہے

اک برہنہ جسم آتشداں کے پاس

فرش پر قالین، قالینوں کی سیج

دھات اور پتھر کے بت

گوشہء دیوار میں ہنستے ہوئے!

اور آتشداں میں انگاروں‌کا شور

اُن بتوں کی بے حِسی پر خشمگیں؛

اُجلی اُجلی اونچی دیواروں پہ عکس

اُن فرنگی حاکموں کی یادگار

جن کی تلواروں نے رکھا تھا یہاں

سنگِ بنیادِ فرنگ!

اُس کا چہرہ اُس کے خدوخال یاد آتے نہیں

اک برہنہ جسم اب تک یاد ہے

اجنبی عورت کا جسم،

میرے ‘ہونٹوں‘ نے لیا تھا رات بھر

جس سے اربابِ وطن کی بے بسی کا انتقام

وہ برہنہ جسم اب تک یاد ہے!

ن م راشد

کاہش اک روز مجھ کو شام سے ہے

دیوان دوم غزل 1052
کار دل اس مہ تمام سے ہے
کاہش اک روز مجھ کو شام سے ہے
تم نہیں فتنہ ساز سچ صاحب
شہر پرشور اس غلام سے ہے
بوسہ لے کر سرک گیا کل میں
کچھ کہو کام اپنے کام سے ہے
کوئی تجھ سا بھی کاش تجھ کو ملے
مدعا ہم کو انتقام سے ہے
کب وہ مغرور ہم سے مل بیٹھا
ننگ جس کو ہمارے نام سے ہے
خوش سرانجام وے ہی ہیں جن کو
اقتدا اولیں امام سے ہے
شعر میرے ہیں سب خواص پسند
پر مجھے گفتگو عوام سے ہے
شیطنت سے نہیں ہے خالی شیخ
اس کی پیدائش احتلام سے ہے
سر جھکائوں تو اور ٹیڑھے ہو
کیا تمھیں چڑ مرے سلام سے ہے
سہل ہے میر کا سمجھنا کیا
ہر سخن اس کا اک مقام سے ہے
میر تقی میر

دل ستم زدہ کو ہم نے تھام تھام لیا

دیوان اول غزل 26
ہمارے آگے ترا جب کسو نے نام لیا
دل ستم زدہ کو ہم نے تھام تھام لیا
قسم جو کھایئے تو طالع زلیخا کی
عزیز مصر کا بھی صاحب اک غلام لیا
خراب رہتے تھے مسجد کے آگے میخانے
نگاہ مست نے ساقی کی انتقام لیا
وہ کج روش نہ ملا راستے میں مجھ سے کبھی
نہ سیدھی طرح سے ان نے مرا سلام لیا
مزا دکھا دیں گے بے رحمی کا تری صیاد
گر اضطراب اسیری نے زیر دام لیا
مرے سلیقے سے میری نبھی محبت میں
تمام عمر میں ناکامیوں سے کام لیا
اگرچہ گوشہ گزیں ہوں میں شاعروں میں میر
پہ میرے شور نے روے زمیں تمام لیا
میر تقی میر