ٹیگ کے محفوظات: انتساب

انتساب

اپنے پیارے والد جناب ماجد صدیقی اور اپنے جگر گوشوں ماہین اور ذیشان کے نام، زندگی میں جو کچھ سیکھا انہی سے سیکھا۔

طے کیا تھا سفر جو ماجدؔ نے

کیا کبھی ہو سکے گا یاؔور سے؟

یاور ماجد

انتساب

اپنے چچا، استاد اور کھیل کے ساتھی، عنصر رضا کاظمی کے نام جن کے زیرِ سایہ، میں نے کھیل میں زندگی کو دیکھنا شروع کیا۔

باصر کاظمی

انتساب

اپنے والدِ مرحوم، ناصِر کاظمی کے نام

تو نے ہی سکھائی تھی مجھ کو یہ غزلخوانی

بیکار بیٹھے رہنے سے بہتر ہے کوئی دن

تصویر کھینچئے کسی موجِ خیال کی

ناصِر کاظمی

باصر کاظمی

تمام بستی میں ایک سا اضطراب دیکھا

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 7
ہُوا ہے سچ مچ یہی کہ مَیں نے یہ خواب دیکھا
تمام بستی میں ایک سا اضطراب دیکھا
خُدا سے بھی ہے سلوک میرا معاوضے کا
کِیا ہے میں نے وُہی جو کارِ ثواب دیکھا
بھرا ہے کیا کیا نجانے چھالوں میں اپنے پانی
بہ دشتِ اُمید جانے کیا کیا سراب دیکھا
چھڑا جو قّصہ کبھی غلاموں کی منفعت کا
سخن میں آقاؤں کے نہ کیا اجتناب دیکھا
کسی عمارت پہ لوحِ کم مائیگاں نہ لٹکے
بڑے بڑوں ہی کے نام یہ انتساب دیکھا
پہنچ میں آیا جو بچّۂ میش بھیڑئیے کی
ندی کنارے اُسی کا ہے احتساب دیکھا
نہ بچ سکا تو بھی خود فریبی کی دلکشی سے
ترے بھی بالوں میں اب کے ماجدؔ خضاب دیکھا
ماجد صدیقی

انتساب

آج کے نام

اور

آج کے غم کے نام

آج کا غم کہ ہے زندگی کے بھرے گلستاں سے خفا

زرد پتوں کا بن

زرد پتوں کا بن جو مرا دیس ہے

درد کی انجمن جو مرا دیس ہے

کلرکوں کی افسردہ جانوں کے نام

کِرم خوردہ دلوں اور زبانوں کے نام

پوسٹ مینوں کے نام

تانگے والوں کے نام

ریل بانوں کے نام

کارخانوں کے بھوکے جیالوں کے نام

بادشاہِ جہاں، والیِ ما سوا، نائب اللہ فی الارض،

دہقاں کے نام

جس کے ڈھوروں کو ظالم ہنکا لے گئے

جس کی بیٹی کو ڈاکو اٹھالے گئے

ہاتھ بھر کھیت سے ایک انگشت پٹوار نے کاٹ لی ہے

دوسری مالیے کے بہانے سے سرکار نے کاٹ لی ہے

جس کی پگ زور والوں کے پاؤں تلے

دھجیاں ہو گئی ہے

ان دکھی ماؤں کے نام

رات میں جن کے بچے بلکتے ہیں اور

نیند کی مار کھائے ہوئے بازوؤ ں میں سنبھلتے نہیں

دکھ بتاتے نہیں

منتوں زاریوں سےبہلتے نہیں

ان حسیناؤں کے نام

جن کی آنکھوں کے گُل

چلمنوں اور دریچوں کی بیلوں پہ بیکار کھل کھل کے

مرجھاگئے ہیں

ان بیاہتاؤ ں کے نام

جن کے بدن

بے محبت ریا کار سیجوں پہ سج سج کے اکتا گئے ہیں

بیواؤں کے نام

کٹڑیوں؎۱ اور گلیوں، محلوں کے نام

جن کی ناپاک خاشا ک سے چاند راتوں

کو آ آ کے کرتا ہے اکثر وضو

جن کے سایوں میں کرتی ہے آہ و بکا

آنچلوں کی حنا

چوڑیوں کی کھنک

کاکلوں کی مہک

آرزو مند سینوں کی اپنے پسینےمیں جلنے کی بو

پڑھنے والوں کے نام

وہ جو اصحابِ طبل و علم

کے دروں پر کتاب اور قلم

کا تقاضا لیے ہاتھ پھیلائے

پہنچے، مگر لوٹ کر گھر نہ آئے

وہ معصوم جو بھولپن میں

وہاں اپنے ننھے چراغوں میں لو کی لگن

لے کے پہنچے جہاں

بٹ رہے تھے، گھٹا ٹوپ، بے انت راتوں کے سائے

ان اسیروں کے نام

جن کے سینوں میں فردا کے شب تاب گوہر

جیل خانوں کی شوریدہ راتوں کی صر صر میں

جل جل کے انجم نما ہو گئے ہیں

آنے والے دنوں کے سفیروں کے نام

وہ جو خوشبوئے گل کی طرح

اپنے پیغام پر خود فدا ہو گئے ہیں

(ناتمام)

؎۱ کٹڑی۔ کٹڑے کی تصغیر، پنجابی میں ملحقہ مکانوں کے احاطے کو کہتے ہیں

فیض احمد فیض

یہ کون ہیں جو لہو کو کتاب کرتے ہیں

عرفان صدیقی ۔ غزل نمبر 183
سجے سجائے صحفیے خراب کرتے ہیں
یہ کون ہیں جو لہو کو کتاب کرتے ہیں
پرند جھیلوں پہ آتے ہیں لوٹنے کے لیے
سبھی رکے ہوئے لشکر رکاب کرتے ہیں
بہت غرور ہے اے آبجو‘ تو آج تجھے
ہم اپنی تشنہ لبی سے سراب کرتے ہیں
اسی زمین سے آتی ہے اپنے خوں کی مہک
سنو، یہیں کہیں خیمے طناب کرتے ہیں
چراغ آخرِ شب ہیں سو اپنے بچوں کو
ہم آنے والی سحر انتساب کرتے ہیں
عرفان صدیقی

ذرا سمیٹ بدن کے گلاب شاخِ گل

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 214
یہ تیرا خار بھی ہے محوِ خواب شاخِ گل
ذرا سمیٹ بدن کے گلاب شاخِ گل
مرے نصیب میں کانٹوں کی فصل آئی تھی
نہ مانگ مجھ سے گلوں کا حساب شاخِ گل
مری بہار کے بارے نہ پوچھا کر مجھ سے
ہے جھوٹ بولنا مجھ پہ عذاب شاخِ گل
کنارِ آب رواں ہمسفر زمانوں سے
خرامِ زندگی، موجِ کتاب، شاخِ گل
ورق ورق پہ پڑی ہیں شعاعیں خوشبو کی
کتاب زیست کا ہے انتساب شاخِ گل
خزاں کی شام ملی ہے مجھے تو گلشن میں
کہاں پہ آتا ہے تجھ پر شباب شاخِ گل
تلاش میں ہیں ہوائیں بہار کی منصور
کہاں لہکتی ہے خانہ خراب شاخ گل
منصور آفاق

انتساب

آپنیاں سانہواں دے سُکھ

خالدہ ماجد دے ناں

گھُلّے ڈاہڈا نھیر جویں ہُن گھلیا اے

بجھیا کلُل جائے پھَٹ جویں ہُن کھلیا اے

جھلّے کوئی نہ تھاں تے ٹکراں ماراں میں

ربّا! اُنج کدوں تینوں چتیاراں میں

ماجد صدیقی (پنجابی کلام)

انتساب

آپنیاں سانہواں دے سُکھ

خالدہ ماجد دے ناں

گھُلّے ڈاہڈا نھیر جویں ہُن گھلیا اے

بجھیا کلُل جائے پھَٹ جویں ہُن کھلیا اے

جھلّے کوئی نہ تھاں تے ٹکراں ماراں میں

ربّا! اُنج کدوں تینوں چتیاراں میں

ماجد صدیقی (پنجابی کلام)