اپنے پیارے والد جناب ماجد صدیقی اور اپنے جگر گوشوں ماہین اور ذیشان کے نام، زندگی میں جو کچھ سیکھا انہی سے سیکھا۔
طے کیا تھا سفر جو ماجدؔ نے
کیا کبھی ہو سکے گا یاؔور سے؟
اپنے پیارے والد جناب ماجد صدیقی اور اپنے جگر گوشوں ماہین اور ذیشان کے نام، زندگی میں جو کچھ سیکھا انہی سے سیکھا۔
طے کیا تھا سفر جو ماجدؔ نے
کیا کبھی ہو سکے گا یاؔور سے؟
پہلی بارش
شفیقہ بیگم کے نام
اپنے چچا، استاد اور کھیل کے ساتھی، عنصر رضا کاظمی کے نام جن کے زیرِ سایہ، میں نے کھیل میں زندگی کو دیکھنا شروع کیا۔
اپنے سسر سید توفیق حسین واسطی کے نام جن سے مجھے وہی محبت ملی جو والدین سے ملتی ہے۔
اپنی والدہ مرحومہ شفیقہ بیگم اور مرحومہ چچی شکیلہ جبین کے نام
اپنے والدِ مرحوم، ناصِر کاظمی کے نام
تو نے ہی سکھائی تھی مجھ کو یہ غزلخوانی
بیکار بیٹھے رہنے سے بہتر ہے کوئی دن
تصویر کھینچئے کسی موجِ خیال کی
ناصِر کاظمی
آج کے نام
اور
آج کے غم کے نام
آج کا غم کہ ہے زندگی کے بھرے گلستاں سے خفا
زرد پتوں کا بن
زرد پتوں کا بن جو مرا دیس ہے
درد کی انجمن جو مرا دیس ہے
کلرکوں کی افسردہ جانوں کے نام
کِرم خوردہ دلوں اور زبانوں کے نام
پوسٹ مینوں کے نام
تانگے والوں کے نام
ریل بانوں کے نام
کارخانوں کے بھوکے جیالوں کے نام
بادشاہِ جہاں، والیِ ما سوا، نائب اللہ فی الارض،
دہقاں کے نام
جس کے ڈھوروں کو ظالم ہنکا لے گئے
جس کی بیٹی کو ڈاکو اٹھالے گئے
ہاتھ بھر کھیت سے ایک انگشت پٹوار نے کاٹ لی ہے
دوسری مالیے کے بہانے سے سرکار نے کاٹ لی ہے
جس کی پگ زور والوں کے پاؤں تلے
دھجیاں ہو گئی ہے
ان دکھی ماؤں کے نام
رات میں جن کے بچے بلکتے ہیں اور
نیند کی مار کھائے ہوئے بازوؤ ں میں سنبھلتے نہیں
دکھ بتاتے نہیں
منتوں زاریوں سےبہلتے نہیں
ان حسیناؤں کے نام
جن کی آنکھوں کے گُل
چلمنوں اور دریچوں کی بیلوں پہ بیکار کھل کھل کے
مرجھاگئے ہیں
ان بیاہتاؤ ں کے نام
جن کے بدن
بے محبت ریا کار سیجوں پہ سج سج کے اکتا گئے ہیں
بیواؤں کے نام
کٹڑیوں؎۱ اور گلیوں، محلوں کے نام
جن کی ناپاک خاشا ک سے چاند راتوں
کو آ آ کے کرتا ہے اکثر وضو
جن کے سایوں میں کرتی ہے آہ و بکا
آنچلوں کی حنا
چوڑیوں کی کھنک
کاکلوں کی مہک
آرزو مند سینوں کی اپنے پسینےمیں جلنے کی بو
پڑھنے والوں کے نام
وہ جو اصحابِ طبل و علم
کے دروں پر کتاب اور قلم
کا تقاضا لیے ہاتھ پھیلائے
پہنچے، مگر لوٹ کر گھر نہ آئے
وہ معصوم جو بھولپن میں
وہاں اپنے ننھے چراغوں میں لو کی لگن
لے کے پہنچے جہاں
بٹ رہے تھے، گھٹا ٹوپ، بے انت راتوں کے سائے
ان اسیروں کے نام
جن کے سینوں میں فردا کے شب تاب گوہر
جیل خانوں کی شوریدہ راتوں کی صر صر میں
جل جل کے انجم نما ہو گئے ہیں
آنے والے دنوں کے سفیروں کے نام
وہ جو خوشبوئے گل کی طرح
اپنے پیغام پر خود فدا ہو گئے ہیں
(ناتمام)
؎۱ کٹڑی۔ کٹڑے کی تصغیر، پنجابی میں ملحقہ مکانوں کے احاطے کو کہتے ہیں
آپنیاں سانہواں دے سُکھ
خالدہ ماجد دے ناں
گھُلّے ڈاہڈا نھیر جویں ہُن گھلیا اے
بجھیا کلُل جائے پھَٹ جویں ہُن کھلیا اے
جھلّے کوئی نہ تھاں تے ٹکراں ماراں میں
ربّا! اُنج کدوں تینوں چتیاراں میں
آپنیاں سانہواں دے سُکھ
خالدہ ماجد دے ناں
گھُلّے ڈاہڈا نھیر جویں ہُن گھلیا اے
بجھیا کلُل جائے پھَٹ جویں ہُن کھلیا اے
جھلّے کوئی نہ تھاں تے ٹکراں ماراں میں
ربّا! اُنج کدوں تینوں چتیاراں میں