ٹیگ کے محفوظات: انبساط

کسو سے شہر میں کچھ اختلاط مجھ کو نہیں

دیوان سوم غزل 1197
گرفتہ دل ہوں سر ارتباط مجھ کو نہیں
کسو سے شہر میں کچھ اختلاط مجھ کو نہیں
جہاں ہو تیغ بکف کوئی سادہ جا لگنا
اب اپنی جان کا کچھ احتیاط مجھ کو نہیں
کرے گا کون قیامت کو ریسماں بازی
دل و دماغ گذار صراط مجھ کو نہیں
جسے ہو مرگ سا پیش استحالہ کیوں نہ کڑھے
اس اپنے جینے سے کچھ انبساط مجھ کو نہیں
ہوا ہوں فرط اذیت سے میں تو سن اے میر
تمیز رنج و خیال نشاط مجھ کو نہیں
میر تقی میر

پھر ایک پوری دیانت سے رات پوری کی

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 465
اک ایک سایہ ء ہجراں کے ساتھ پوری کی
پھر ایک پوری دیانت سے رات پوری کی
میں ایک کُن کی صدا تھا سو عمر بھر میں نے
ادھوری جو تھی پڑی کائنات پوری کی
عجیب عالمِ وحشت، عجیب دانائی
کبھی بکھیرا، کبھی اپنی ذات پوری کی
تھلوں کی ریت میں بو بو کے پیاس کے کربل
پھر آبِ سندھ نے رسمِ فرات پوری کی
پلک پلک پہ ستارے رکھے سہاگ کی رات
نہ پوچھ چاند کی کیسے برات پوری کی
کئی برس سے ادھوری پڑی تھی، سو میں نے
یہ مانگ تانگ کے سانسیں ، حیات پوری کی
یہ اور بات کہ دل میں اتر گیا پھر بھی
کسی سے ملتے ہوئے احتیاط پوری کی
یہ اور بات کہ آنسو ورق ورق پہ رکھے
کتابِ فلسفہء انبساط پوری کی
یہ اور بات کہ کام آ گئی کوئی نیکی
اُس اجنبی نے مگر واردات پوری کی
ہزار کہہ کے بھی میں کچھ نہ کہہ سکا منصور
کہا نہ کچھ بھی مگر اس نے بات پوری کی
منصور آفاق

روح کے اختلاط سے گزرا

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 27
رنگ اپنے محاط سے گزرا
روح کے اختلاط سے گزرا
عشق ڈھائیں قیامتیں کیا کیا
دل کئی پل صراط سے گزرا
روزمحشر بھی اسکے پہلو سے
میں بڑی احتیاط سے گزرا
ہر جگہ نقشِ پا ہیں کیوں میرے
کب میں شہرِ رباط سے گزرا
پھول سے قمقمے تھے پانی میں
جب میں نہرِ نشاط سے گزرا
نور کی پتیوں کی بارش میں
دل شبِ انبساط سے گزرا
میں الف کی شبیہ بنانے میں
بے کے کتنے نقاط سے گزرا
ہائے وہ جو تراشنے کے بعد
ایک سو دس قراط سے گزرا
شب گزرتی ہے جیسے یوں منصور
زندگی کی بساط سے گزرا
منصور آفاق