ٹیگ کے محفوظات: انار

ہر بار ہم نے اپنی سی کوشش ہزار کی

کیا جبر کی سنائیں تو کیا اختیار کی
ہر بار ہم نے اپنی سی کوشش ہزار کی
تھی ہم سفر بس ایک ہی میری تمام عمر
چبھتی رہی ہے پاؤں میں جو نوک خار کی
عمریں گزار بیٹھا ہوں دیتے ہوئے حساب
خواہش رُپہلے پیار کی جو سنگسار کی
شعر و سُخن کی وادی کا آوارہ میں ہرن
مجھ کو ہے سنگلاخ یہ رہ روزگار کی
بادل دھوئیں کے، چیخیں، تڑپتوں کی سسکیاں
شہرِ اماں میں کاہے کو پھیلی انارکی
دیکھے جہاں خزاں میں ادھڑتے ہوئے درخت
میں نے بھی اپنی گدڑی وہیں تار تار کی
مقروض زندگی تھی کبھی ان کے نام کی
ہر سانس اب تو لیتے ہیں یاؔور ادھار کی
یاور ماجد

آندھی سی آوے نکلے کبھو جو غبار دل

دیوان پنجم غزل 1673
ہر لحظہ ہے کدورت خاطر سے بار دل
آندھی سی آوے نکلے کبھو جو غبار دل
تربندی خشک بندی نمک بندی ہوچکی
بے ڈول پھیلتا سا چلا ہے فگار دل
جوں رنگ لائے سیب ذقن باغ حسن میں
ووں ہیں ریاض عشق میں صد چاک انار دل
باہر ہیں حد و حصر سے کھینچے جو غم الم
کیا ہوسکے حساب غم بے شمار دل
لاکھوں جتن کیے نہ نبھی دل سے یار کے
اس کا جفا شعار وفا ہے شعار دل
اس کی گلی میں صبح دلوں کا شکار تھا
نکلا ہزار ناز سے بہر شکار دل
کیا میر پھر ثبات سے رو سوے دل کریں
ایسے نہیں گئے ہیں سکون و قرار دل
میر تقی میر

یاں کام جا چکا ہے اب اختیار سے بھی

دیوان چہارم غزل 1489
اے کاش کوئی جاکر کہہ آوے یار سے بھی
یاں کام جا چکا ہے اب اختیار سے بھی
تاچند بے دماغی کب تک سخن خشن ہو
کوئی تو بات کریے اخلاص پیار سے بھی
یک معنی شگفتہ سو رنگ بندھ گئے ہیں
الوان گل ہیں ہر سو اب کے بہار سے بھی
کیا جیب و آستیں ہی سیلاب خیز ہے یاں
دریا بہا کریں ہیں میرے کنار سے بھی
باغ وفا سے ہم نے پایا سو پھل یہ پایا
سینے میں چاک تر ہے دل اب انار سے بھی
راہ اس کی برسوں دیکھی آنکھیں غبار لائیں
نکلا نہ کام اپنا اس انتظار سے بھی
جان و جہاں سے گذرا میں میر جن کی خاطر
بچ کر نکلتے ہیں وے میرے مزار سے بھی
میر تقی میر

اب جو کھلا سو جیسے گل بے بہار دل

دیوان دوم غزل 852
مدت تو وا ہوا ہی نہ یہ غنچہ وار دل
اب جو کھلا سو جیسے گل بے بہار دل
ہے غم میں یاد کس کو فراموش کار دل
اب آ بنی ہے جی پہ رہا درکنار دل
دشوار ہے ثبات بہت ہجر یار میں
یاں چاہیے ہے دل سو کہاں میرے یار دل
وہ کون سی امید برآئی ہے عشق میں
رہتا ہے کس امید پہ امیدوار دل
ظالم بہت ضرور ہے ان بیکسوں کا پاس
ناچار اپنے رہتے ہیں جو مار مار دل
تم پر تو صاف میری کدورت کھلی ہے آج
مدت سے ہے ملال کے زیر غبار دل
مائل ادھر کے ہونے میں مجبور ہیں سبھی
کھنچتا ہے اس کی اور کو بے اختیار دل
حد ہے گی دلبری کی بھی اے غیرت چمن
ہو آدمی صنوبر اگر لاوے بار دل
داخل یہ اضطراب تنک آبیوں میں ہے
رکھتی نہیں ہے برق ہی کچھ بے قرار دل
کیا ہیں گرسنہ چشم دل اب کے یہ دلبراں
تسکین ان کی ہو نہ جو لیویں ہزار دل
جوں سیب ہیں ذقن کے چمن زار حسن میں
یوں باغ حسن میں بھی ہیں رنگیں انار دل
ہم سے جو عشق کشتہ جئیں تو عجب ہے میر
چھاتی ہے داغ ٹکڑے جگر کے فگار دل
میر تقی میر

کہیو ہم صحرانوردوں کا تمامی حال زار

دیوان دوم غزل 804
اے صبا گر شہر کے لوگوں میں ہو تیرا گذار
کہیو ہم صحرانوردوں کا تمامی حال زار
خاک دہلی سے جدا ہم کو کیا یک بارگی
آسماں کو تھی کدورت سو نکالا یوں غبار
منصب بلبل غزل خوانی تھا سو تو ہے اسیر
شاعری زاغ و زغن کا کیوں نہ ہووے اب شعار
طائر خوش زمزمہ کنج قفس میں ہے خموش
چہچہے چہیاں کریں ہیں صحن گلشن میں ہزار
برگ گل سے بھی کیا نہ ایک نے ٹک ہم کو یاد
نامہ و پیغام و پرسش بے مراتب درکنار
بے خلش کیونکر نہ ہو گرم سخن گلزار میں
میں قفس میں ہوں کہ میرا تھا دلوں میں خارخار
بلبل خوش لہجہ کے جائے پہ گو غوغائیاں
طرح غوغا کی چمن میں ڈالیں پر کیا اعتبار
طائران خوش لب و لہجہ نہیں رہتے چھپے
شور سے ان کے بھرے ہیں قریہ و شہر و دیار
شہر کے کیا ایک دو کوچوں میں تھی شہرت رہی
شہروں شہروں ملکوں ملکوں ہے انھوں کا اشتہار
کیا کہوں سوے چمن ہوتا جو میں سرگرم گشت
پھول گل جب کھلنے لگتے جوش زن ہوتی بہار
شور سن سن کر غزل خوانی کا میری ہم صفیر
غنچہ ہو آتے جو ہوتا آب و رنگ شاخسار
خوش نوائی کا جنھیں دعویٰ تھا رہ جاتے خموش
جن کو میں کرتا مخاطب ان کو ہوتا افتخار
بعضوں کو رشک قبول خاطر و لطف سخن
بعضوں کا سینہ فگار و بعضوں کا دل داغدار
ایکوں کے ہونٹوں کے اوپر آفریں استاد تھا
ایک کہتے تھے رسوخ دل ہے اپنا استوار
ربط کا دعویٰ تھا جن کو کہتے تھے مخلص ہیں ہم
جانتے ہیں ذات سامی ہی کو ہم سب خاکسار
نقل کرتے کیا یہ صحبت منعقد جب ہوتی بزم
بیٹھ کر کہتے تھے منھ پر میرے بعضے بعضے یار
بندگی ہے خدمت عالی میں ہم کو دیر سے
کر رکھی ہے جان اپنی ہم نے حضرت پر نثار
سو نہ خط ان کا نہ کوئی پرچہ پہنچا مجھ تلک
واہ وا ہے رابطہ رحمت ہے یہ اخلاص و پیار
رفتہ رفتہ ہو گئیں آنکھیں مری دونوں سفید
بسکہ نامے کا کیا یاروں کے میں نے انتظار
لکھتے گر دو حرف لطف آمیز بعد از چند روز
تو بھی ہوتا اس دل بے تاب و طاقت کو قرار
سو تو یک ننوشتہ کاغذ بھی نہ آیا میرے پاس
ان ہم آوازوں سے جن کا میں کیا ربط آشکار
خط کتابت سے یہ کہتے تھے نہ بھولیں گے تجھے
آویں گے گھر بار کی تیرے خبر کو بار بار
جب گیا میں یاد سے تب کس کا گھر کاہے کا پاس
آفریں صد آفریں اے مردمان روزگار
اب بیاباں در بیاباں ہے مرا شور و فغاں
گو چمن میں خوش کی تم نے میری جاے نالہ وار
ہے مثل مشہور یہ عمر سفر کوتاہ ہے
طالع برگشتہ بھی کرتے ہیں اب امداد کار
اک پر افشانی میں بھی ہے یہ وطن گلزار سا
سامعوں کی چھاتیاں نالوں سے ہوویں گی فگار
منھ پہ آویں گے سخن آلودئہ خون جگر
کیونکہ یاران زماں سے چاک ہے دل جوں انار
لب سے لے کر تا سخن ہیں خونچکاں شکوے بھرے
لیک ہے اظہار ہر ناکس سے اپنا ننگ و عار
چپ بھلی گو تلخ کامی کھینچنی اس میں پڑے
بیت بحثی طبع نازک پر ہے اپنی ناگوار
آج سے کچھ بے حسابی جور کن مردم نہیں
ان سے اہل دل سدا کھینچے ہیں رنج بے شمار
بس قلم رکھ ہاتھ سے جانے بھی دے یہ حرف میر
کاہ کے چاہے نہیں کہسار ہوتے بے وقار
کام کے جو لوگ صاحب فن ہیں سو محسود ہیں
بے تہی کرتے رہیں گے حاسدان نابکار
میر تقی میر

چاک ہے دل انار کے مانند

دیوان دوم غزل 797
تجھ بن اے نوبہار کے مانند
چاک ہے دل انار کے مانند
پہنچی شاید جگر تک آتش عشق
اشک ہیں سب شرار کے مانند
کو دماغ اس کی رہ سے اٹھنے کا
بیٹھے اب ہم غبار کے مانند
کوئی نکلے کلی تو لالے کی
اس دل داغدار کے مانند
سرو کو دیکھ غش کیا ہم نے
تھا چمن میں وہ یار کے مانند
ہار کر شب گلے پڑے اس کے
ہم بھی پھولوں کے ہار کے مانند
برق تڑپی بہت ولے نہ ہوئی
اس دل بے قرار کے مانند
ان نے کھینچی تھی صیدگہ میں تیغ
برق ابر بہار کے مانند
اس کے گھوڑے کے آگے سے نہ ٹلے
ہم بھی دبلے شکار کے مانند
زخم کھا بیٹھیو جگر پر مت
تو بھی مجھ دل فگار کے مانند
اس کی سرتیز ہر پلک ہے میر
خنجر آبدار کے مانند
میر تقی میر

اس وہم کی نمود کا ہے اعتبار کیا

دیوان دوم غزل 698
پھرتا ہے زندگی کے لیے آہ خوار کیا
اس وہم کی نمود کا ہے اعتبار کیا
کیا جانیں ہم اسیر قفس زاد اے نسیم
گل کیسے باغ کہتے ہیں کس کو بہار کیا
آنکھیں برنگ نقش قدم ہو گئیں سفید
پھر اور کوئی اس کا کرے انتظار کیا
سیکھی ہے طرح سینہ فگاری کی سب مری
لائے تھے ساتھ چاک دل ایسا انار کیا
سرکش کسو سے ایسی کدورت رکھے وہ شوخ
ہم اس کی خاک راہ ہیں ہم سے غبار کیا
نے وہ نگہ چبھی ہے نہ وے پلکیں گڑ گئیں
کیا جانیے کہ دل کو ہے یہ خار خار کیا
لیتا ہے ابر اب تئیں اس ناحیے سے آب
روئے ہیں ہم بھی برسوں تئیں زار زار کیا
عاشق کے دل سے رکھ نہ تسلی کی چشم داشت
ہے برق پارہ یہ اسے آوے قرار کیا
صحبت رہی بگڑتی ہی اس کینہ ور سے آہ
ہم جانتے نہیں ہیں کہ ہوتا ہے پیار کیا
مارا ہو ایک دو کو تو ہو مدعی کوئی
کشتوں کا اس کے روز جزا میں شمار کیا
مدت سے جرگہ جرگہ سرتیر ہیں غزال
کم ہو گیا ہے یاروں کا ذوق شکار کیا
پاتے ہیں اپنے حال میں مجبور سب کو ہم
کہنے کو اختیار ہے پر اختیار کیا
آخر زمانہ سازی سے کھویا نہ وقر میر
یہ اختیار تم نے کیا روزگار کیا
میر تقی میر