ٹیگ کے محفوظات: امکاں

یاد کیا تجھ کو دلائیں ترا پیماں جاناں

تُو کہ ہم سے ہے بصد ناز گریزاں جاناں
یاد کیا تجھ کو دلائیں ترا پیماں جاناں
چل یہ مانا کہ تجھے یاد نہیں کچھ بھی۔ مگر
یہ چمکتا ہوا کیا ہے سرِ مژگاں جاناں
آج قدموں تلے روندی ہے کلاہِ پندار
آج وا مجھ پہ ہوا ہے درِ امکاں جاناں
میں بھی کیا چیز ہوں آخر، جو یہاں میرے لے
ہیں فنا اور بقا دست و گریباں جاناں
خواب، تنہائی، تری یاد، مرا ذوقِ سخن
عمر بھر کے لیے کافی ہے یہ ساماں جاناں
زندگی ٹھہری ہوئی، اور گزرتی ہوئی عمر
دیکھ کیا کچھ ہے یہاں ساکت و جنباں جاناں
جتنی زنجیر ہے، اُتنی ہی مری حدِّ سفر
ہے مری حدِّ نظر وسعتِ زنداں جاناں
ابھی حالات موافق ہیں تو کچھ طے کرلیں
کتنا ٹھہرے گی بھلا گردشِ دوراں جاناں
اک ترے غم کی کمی تھی تری دیوانے کو
ورنہ وحشت تو یہاں تھی ہی فراواں جاناں
درد تازہ بھی ہے، گہرا بھی ہے، جاں سوز بھی ہے
کوئی مرہم، کوئی نشتر، کوئی درماں جاناں
اپنا تو ایک ہی لہجہ ہے یہ، سیدھا، سچا
بزمِ احباب ہو، یا بزمِ حریفاں جاناں
اور ہوں گے جو ترے عشق کی تشہیر کریں
ہم نہیں وہ، جو کریں چاک گریباں جاناں
پوچھتا رہتا ہوں اکثر، کہ ہُوا کیا ہے تجھے؟
کچھ بتاتا ہی نہیں ہے دلِ ناداں جاناں
جُز دعا نذرگزارے گا تجھے کیا یہ فقیر؟
جا تری خیر، خدا تیرا نگہباں جاناں
’’خلقتِ شہر تو کہنے کو فسانے مانگے‘‘
ہم بہت خوش ہیں ترے بعد، ارے ہاں جاناں
ہم جہاں جائیں یونہی خاک اڑاتے جائیں
پاوٗں کے ساتھ بندھا ہے یہ بیاباں جاناں
یاد آتا تو بہت ہو گا تجھے جانِ فراز
کس قدر پیار سے کہتا تھا وہ جاناں، جاناں
ہائے کیا وقت تھا، اس بام پہ ہوتے تھے فراز
اب جہاں ہوتا ہے عرفان غزل خواں، جاناں
عرفان ستار

‎دھیان جا نکلا مگر اک روئے تاباں کی طرف

آج کرنا تھی توجہ چاکِ داماں کی طرف
‎دھیان جا نکلا مگر اک روئے تاباں کی طرف
‎جب ہوا کے نام پہنچا آمدِ شب کا پیام
‎ایک جھونکا چل دیا شمعِ فروزاں کی طرف
‎ایک چہرہ جگمگایا ہے سرِ دشتِ خیال
‎ایک شعلہ اٹھ رہا ہے دل سے مژگاں کی طرف
‎یہ بیاباں اور اس میں چیختی گاتی ہوا
‎ان سے دل بھر لے تو جاؤں راہِ آساں کی طرف
‎اس طرح حائل نہیں ہوتے کسی کی راہ میں
‎کیوں بھلا اتنی توجہ ایک مہماں کی طرف
‎عین ممکن ہے کہ تو سچ بول کر زندہ رہے
‎میں اشارہ کر رہا ہوں ایک امکاں کی طرف
‎اک تقاضا بے بسی کی راکھ میں دہکا ہوا
‎اک تذبذب کا سفر انکار سے ہاں کی طرف
‎جس کے بدلے موت صدیوں کی بسر کرنا پڑے
‎زندگی کا قرض اتنا تو نہیں جاں کی طرف
عرفان ستار

اچّھا یہ میرے درد کا درماں کِیا گیا

ہر زخمِ دل کو بزم میں عُریاں کِیا گیا
اچّھا یہ میرے درد کا درماں کِیا گیا
روزِ اَزَل ہی سے مجھے حیراں کِیا گیا
مسجود کر کے ہمسرِ یزداں کِیا گیا
آساں کتابِ زیست نہ تھی، اُس پہ مستزاد
اَوراقِ زندگی کو پریشاں کِیا گیا
دُشواریاں تھیں اِتنی اگر راہِ عشق میں
کیوں وصلِ یار داخلِ امکاں کِیا گیا
روشن شبِ فراق رہے تیرے خدّ و خال
ہر داغِ دل سے دل میں چراغاں کِیا گیا
بدلا تھا تُو نے خُود مِرا مفہومِ زندگی
اب خُود ہی کہہ رَہا ہے کہ احساں کِیا گیا
اِظہارِ عشق کیا ہے، تقاضائے حُسن ہے
خُود اُس طَرَف سے دِید کا ساماں کِیا گیا
ضامنؔ نے اِنتباہِ مسلسل کے باوجود
پِھر سچ کہا تَو داخلِ زنداں کِیا گیا
ضامن جعفری

عجب میلہ سا میلہ تھا چراغاں سا چراغاں تھا

مبارک خاطرِ ویراں یہ کل شب کون مہماں تھا
عجب میلہ سا میلہ تھا چراغاں سا چراغاں تھا
اُمنگیں ، آرزوئیں ، حسرتیں ، رقصاں رہیِں پَیہَم
اُدھر تھی فرصتِ یک شب اِدھر برسَوں کا ساماں تھا
اِدھر تصویرِ حیرت عشق تھا اُس کو قریں پا کر
اُدھر وارفتگیِ عشق پر خود حسن حیراں تھا
مرے جذبات کی پستی نے معراجِ فنا پائی
کہ وہ حسنِ مجسّم تھا مگر شعلہ بداماں تھا
مجھے تَو اُن سے یہ قربت قیامت ہو گئی ضامنؔ
ذرا سا فاصلہ رہتا تَو کچھ جینے کا امکاں تھا
ضامن جعفری

ہمیں چمن میں اِک امکاں نے روک رکّھا ہے

فریبِ رنگِ بَہاراں نے روک رکّھا ہے
ہمیں چمن میں اِک امکاں نے روک رکّھا ہے
یہ کیسے ہاتھ ہیں تن سے جُدا نہیں ہیں مگر
اِنہیں ذرا سے گریباں نے روک رکّھا ہے
سُنا ہے ہم نے کہ وہ مائلِ کَرَم ہیں بہت
ہماری تنگیِ داماں نے روک رکّھا ہے
جنابِ شیخ یہ کہہ کر چُھپا گئے کیا کیا
خیالِ خاطرِ یزداں نے روک رکّھا ہے
کسی کی راہگذر میں ہُوں منتظر کب سے
بس ایک شعر کے امکاں نے روک رکّھا ہے
لہو کے چِھینٹَوں نے ضامنؔ پکڑ لیے ہیں قدَم
رَگوں میں خوں کے چراغاں نے روک رکّھا ہے
ضامن جعفری

مختصر سا ہے سَفَر ساماں بہت

تنگیٔ دِل وسعتِ داماں بہت
مختصر سا ہے سَفَر ساماں بہت
کیا ضرورت اِتنی آبادی کی تھی؟
دِل دُکھانے کو ہے ایک اِنساں بہت
دیکھا گَرد آلُود آئینہ جو کَل
دیکھ کر دونوں ہوئے حیراں بہت
قید میں کب تک رہے گی زندگی؟
آپ کے پہلے بھی ہیں احساں بہت
گھر کے اندر بَند ہیں میں اُور گھُٹَن
گھر کے باہر مَوت کے امکاں بہت
زندگی رقصِ اَجَل میں تھَک کے چُور
اَور اَجَل خُوش ہے کہ ہیں مہماں بہت
ضامن جعفری

کچھ بھی ہوجائے پریشاں نہیں ہوتا کوئی

اب کسی بات پہ حیراں نہیں ہوتا کوئی
کچھ بھی ہوجائے پریشاں نہیں ہوتا کوئی
عقل نے ڈال دیے جب سے جنوں پر تالے
خود سے بھی دست و گریباں نہیں ہوتا کوئی
سر بَہ سجدہ ہُوئے اِک روز ملائک پھر بھی
قائلِ عالمِ امکاں نہیں ہوتا کوئی
گوشہِ عافیت اِک سب کے ہے اندر موجود
جانے کیا سوچ کے مہماں نہیں ہوتا کوئی
چشمِ گریاں سے ٹَپَک پڑتا ہے ضامنؔ یہ سوال
کیسا گلشن ہے غزل خواں نہیں ہوتا کوئی
ضامن جعفری

قصرِ بلقیس اِسے سمجھے سلیماں اپنا

آفتاب اقبال شمیم ۔ غزل نمبر 8
گھر کے آتا ہے نظر بے سرو ساماں اپنا
قصرِ بلقیس اِسے سمجھے سلیماں اپنا
نقش پا چھوڑ کے جانے کا کریں وہم، مگر
کہیں لگتا ہی نہیں پائے گریزاں اپنا
کاہے کے ڈھیر سے ہو سکتی ہے شعلے کی نمود
یعنی پستی میں بلندی کا ہے امکاں اپنا
رسمِ دیوانگی اس بار بدل دی جائے
موسمِ حبس میں کر چاک گریباں اپنا
قریۂ شور میں تنہائیاں تاحدِّ اُفق
شہر میں ساتھ رکھا ہم نے بیاباں اپنا
تابِ یک شعر سے ہے بزمِ تمنا کو فروغ
ہم نے بجھنے نہ دیا اشکِ فروزاں اپنا
آفتاب اقبال شمیم

پھر اسی باغ سے یہ میرا دبستاں نکلا

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 42
پیڑ پر شام کھلی، شاخ سے ہجراں نکلا
پھر اسی باغ سے یہ میرا دبستاں نکلا
رات نکلی ہیں پرانی کئی چیزیں اس کی
اور کچھ خواب کے کمرے سے بھی ساماں نکلا
نقش پا دشت میں ہیں میرے علاوہ کس کے
کیا کوئی شہر سے پھر چاک گریباں نکلا
خال و خد اتنے مکمل تھے کسی چہرے کے
رنگ بھی پیکرِ تصویر سے حیراں نکلا
لے گیا چھین کے ہر شخص کا ملبوس مگر
والیء شہر پناہ ، بام پہ عریاں نکلا
صبح ہوتے ہی نکل آئے گھروں سے پھر لوگ
جانے کس کھوج میں پھر شہرِ پریشاں نکلا
وہ جسے رکھا ہے سینے میں چھپا کر میں نے
اک وہی آدمی بس مجھ سے گریزاں نکلا
زخمِ دل بھرنے کی صورت نہیں کوئی لیکن
چاکِ دامن کے رفو کا ذرا امکاں نکلا
تیرے آنے سے کوئی شہر بسا ہے دل میں
یہ خرابہ تو مری جان ! گلستاں نکلا
زخم کیا داد وہاں تنگیء دل کی دیتا
تیر خود دامنِ ترکش سے پُر افشاں نکلا
رتجگے اوڑھ کے گلیوں کو پہن کے منصور
جو شبِ تار سے نکلا وہ فروزاں نکلا
منصور آفاق