ٹیگ کے محفوظات: امکان

نقصان ہے نقصان ہے نقصان ہے نقصان

جس راہ پر بھی ہم چلے اُس سے یہی آئی صدا
نقصان ہے نقصان ہے نقصان ہے نقصان
جتنی بلندی دیکھنی تھی دیکھ لی آگے تو بس
ڈھلوان ہے ڈھلوان ہے ڈھلوان ہے ڈھلوان
تقدیر مجبوری نہیں یہ تو کسی بھی چیز کا
امکان ہے امکان ہے امکان ہے امکان
ذوقِ سخن اتنا بڑھا اپنا کہ اب تو ہر طرف
دیوان ہے دیوان ہے دیوان ہے دیوان
گو بادشاہت کا مخالف ہوں مگر ٹیپو مرا
سلطان ہے سلطان ہے سلطان ہے سلطان
باصِرؔ سے ہوتی ہے خطا یہ سوچ کے کر درگذر
نادان ہے نادان ہے نادان ہے نادان
باصر کاظمی

جبکہ ہر بات میں پوشیدہ ہو امکانِ غزل

کیا بیاں کیجیے اب وسعتِ دامانِ غزل
جبکہ ہر بات میں پوشیدہ ہو امکانِ غزل
آپ ہم لاکھ بگاڑا کریں اس کی صورت
کوئی قوت ہے پُراسرار نگہبانِ غزل
قطب تھا اُن میں کوئی اور ولی تھا کوئی
دیکھنے میں تو وہ تھے محض ثنا خوانِ غزل
چاہیے شعر کو اب بھی وہی سودا وہی درد
توسنِ طبع وہی اور وہی میدانِ غزل
میرِ محفل تھا وہ ملتی نہیں کچھ اُس کی نظیر
اُس کے دم سے ہوا بھرپور گلستانِ غزل
آتشِ عشق نے دی جرأتِ اظہار مجھے
شجرِ غم کا ثمر ہے مرا دیوانِ غزل
کام گو بند نہیں کوئی بھی غالب کے بغیر
نام سے اُس کے ہی روشن ہے خیابانِ غزل
ناسخ و ذوق و ظفر، مومن و حالی و امیر
ان کے پھولوں سے مہکتا ہے گلستانِ غزل
راہ شاعر کو دکھاتا ہے وہی داغِ فراق
آج بھی ہجر کا سامان ہے سامانِ غزل
سفرِ فکر میں اقبال رہا میرا انیس
اُس نے سیراب کیا میرا بیابانِ غزل
لخت ہائے جگرِ وحشی کو معمولی نہ جان
کوئی یاقوتِ غزل ہے کوئی مرجانِ غزل
عمر بھر ہم کو وفا پیشہ اُسی نے رکھا
ہم نے باندھا تھا لڑکپن میں جو پیمانِ غزل
فیض پایا ہے کئی چشموں سے یوں تو باصِرؔ
مدرسہ میرا ہے ناصِر کا دبستانِ غزل
باصر کاظمی

کم نہیں کسبِ خسارہ میں مگر انسان بھی

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 32
عرش تک سے اِس پہ ارزانی ہیں گو احسان بھی
کم نہیں کسبِ خسارہ میں مگر انسان بھی
ہے ہمیں کیوں اُس بدن پر حکمرانی کا یقیں
جس کے ملنے کا نہیں باقی کوئی امکان بھی
سرو کا تو کیا جو لرزاں بھی ہو شورِ سیل سے
خاک پر دِبکے ملے ہیں سنبل و ریحان بھی
آبجو میں اور ہے پودا سرِ ساحل کچھ اور
سانس لینا دہر میں مشکل بھی ہے آسان بھی
باپ روزی کے لئے نکلا وطن سے دُور تو
مڑ کے بچّوں کی نہ اُس سے ہو سکی پہچان بھی
سحرِ سے فرصت مِلے دل کے تو ماجدؔ دیکھنا
کچھ تقاضے تجھ سے رکھتی ہے بدن میں جان بھی
ماجد صدیقی

سب کو دعویٰ ہے ولے ایک میں یہ جان نہیں

دیوان اول غزل 369
عشق کرنے کو جگر چاہیے آسان نہیں
سب کو دعویٰ ہے ولے ایک میں یہ جان نہیں
غارت دیں میں نگہ خصمی ایماں میں ادا
تجھ کو کافر نہ کہے جو وہ مسلمان نہیں
سرسری ملیے بتوں سے جو نہ ہوتاب جفا
عشق کا ذائقہ کچھ داخل ایمان نہیں
ایک بے درد تجھے پاس نہیں عاشق کا
ورنہ عالم میں کسے خاطرمہمان نہیں
کیونکے غم سرزدہ ہر لحظہ نہ آوے دل میں
گھر ہے درویش کا یاں در نہیں دربان نہیں
ہم نشیں آہ نہ تکلیف شکیبائی کر
عشق میں صبر و تحمل ہو یہ امکان نہیں
کس طرح منزل مقصود پہ پہنچیں گے میر
سفر دور ہے اور ہم کنے سامان نہیں
میر تقی میر

ہو گر شریف مکہ مسلمان ہی نہیں

دیوان اول غزل 306
جو حیدری نہیں اسے ایمان ہی نہیں
ہو گر شریف مکہ مسلمان ہی نہیں
وہ ترک صید پیشہ مرا قصد کیا کرے
دبلے پنے سے تن میں مرے جان ہی نہیں
خال و خط ایسے فتنے نگاہیں یہ آفتیں
کچھ اک بلا وہ زلف پریشان ہی نہیں
ہیں جزو خاک ہم تو غبار ضعیف سے
سر کھینچنے کا ہم کنے سامان ہی نہیں
دیکھی ہو جس نے صورت دلکش وہ ایک آن
پھر صبر اس سے ہو سکے امکان ہی نہیں
خورشید و ماہ و گل سبھی اودھر رہے ہیں دیکھ
اس چہرے کا اک آئینہ حیران ہی نہیں
یکساں ہے تیرے آگے جو دل اور آرسی
کیا خوب و زشت کی تجھے پہچان ہی نہیں
سجدہ اس آستاں کا نہ جس کے ہوا نصیب
وہ اپنے اعتقاد میں انسان ہی نہیں
کیا تجھ کو بھی جنوں تھا کہ جامے میں تیرے میر
سب کچھ بجا ہے ایک گریبان ہی نہیں
میر تقی میر

اس عیش کے لیے سر و سامان چاہیے

عرفان صدیقی ۔ غزل نمبر 354
وحشت کے ساتھ دشت مری جان چاہیے
اس عیش کے لیے سر و سامان چاہیے
کچھ عشق کے نصاب میں کمزور ہم بھی ہیں
کچھ پرچۂ سوال بھی آسان چاہیے
تجھ کو سپردگی میں سمٹنا بھی ہے ضرور
سچا ہے کاروبار تو نقصان چاہیے
اب تک کس انتظار میں بیٹھے ہوئے ہیں لوگ
امید کے لیے کوئی امکان چاہیے
ہو گا یہاں نہ دست و گریباں کا فیصلہ
اس کے لیے تو حشر کا میدان چاہیے
آخر ہے اعتبارِ تماشا بھی کوئی چیز
انسان تھوڑی دیر کو حیران چاہیے
جاری ہیں پائے شوق کی ایذا رسانیاں
اب کچھ نہیں تو سیرِ بیابان چاہیے
سب شاعراں خریدۂ دربار ہو گئے
یہ واقعہ تو داخلِ دیوان چاہیے
ملکِ سخن میں یوں نہیں آنے کا انقلاب
دو چار بار نون کا اعلان چاہیے
اپنا بھی مدتوں سے ہے رقعہ لگا ہوا
بلقیس شاعری کو سلیمان چاہیے
عرفان صدیقی

یاد وہ بھی نہیں آتا ہے پریشان جو ہیں

عرفان صدیقی ۔ غزل نمبر 173
کچھ نہ کچھ بھول تو ہوجاتی ہے انسان جو ہیں
یاد وہ بھی نہیں آتا ہے پریشان جو ہیں
صرف اتنا کہ بڑی چیز ہے ملنا دل کا
ہم کوئی بات سمجھتے نہیں ناداں جو ہیں
رونقِ شہر سے مایوس نہ ہو بانوئے شہر
خاک اڑانے کو ترے بے سرو سامان جو ہیں
خیر دُنیا مری وحشت کے لیے تنگ سہی
اور یہ عرصۂ باطن میں بیابان جو ہیں
اے شبِ دربدری آنکھ میں روشن کیا ہے
کچھ ستارے کہ سرِ مطلعِ امکان جو ہیں
اگلے موسم میں ہماری کوئی پہچان تو ہو
ان کو محفوظ رکھیں تارِ گریبان جو ہیں
رات کی رات فقیروں کی بھی دلداری کر
دائم آباد زمیں، ہم ترے مہمان جو ہیں
عرفان صدیقی

عجیب حرف ہے امکان میں نہیں آتا

عرفان صدیقی ۔ غزل نمبر 10
پکارتا ہے مگر دھیان میں نہیں آتا
عجیب حرف ہے امکان میں نہیں آتا
بس ایک نام ہے اپنا نشاں، جو یاد نہیں
اور ایک چہرہ جو پہچان میں نہیں آتا
میں گوشہ گیر ہوں صدیوں سے اپنے حجرے میں
مصافِ بیعت و پیمان میں نہیں آتا
مجھے بھی حکم نہیں شہر سے نکلنے کا
مرا حریف بھی میدان میں نہیں آتا
میں اس ہجوم میں کیوں اس قدر اکیلا ہوں
کہ جمع ہو کے بھی میزان میں نہیں آتا
مرے خدا، مجھے اس آگ سے نکال کہ تو
سمجھ میں آتا ہے، ایقان میں نہیں آتا
عرفان صدیقی

ایک بزنس جس میں بس نقصان ہے

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 593
اچھے بزنس مین کی پہچان ہے
ایک بزنس جس میں بس نقصان ہے
دوڑتی پھرتی ہوئی بچی کے پاس
دور تک اک گھاس کا میدان ہے
صبح تازہ کی اذاں کے واسطے
میرے کمرے میں بھی روشن دان ہے
پتھروں سے مل نہ پتھر کی طرح
سنگ میں بھی روح کا امکان ہے
چند ہیں ابرِ رواں کی چھتریاں
باقی خالی دھوپ کادالان ہے
اتنا ہے پاکیزگی سے رابطہ
میرے گھر کا نام پاکستان ہے
موت آفاقی حقیقت ہے مگر
زندگی پر بھی مرا ایمان ہے
جتنی ممکن ہے جگہ دامن میں دے
روشنی منصور کی مہمان ہے
منصور آفاق

یہ رات چاند رات ہے کم آن سائیکی

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 467
پہلو میں آ کہ اپنا ہو عرفان سائیکی
یہ رات چاند رات ہے کم آن سائیکی
میرے سگار میں رہے جلتے تمام عمر
احساس، خواب، آگہی، وجدان، سائیکی
اٹکا ہوا ہے خوف کے دھڑ میں مرا دماغ
وحشت زدہ خیال، پریشان سائیکی
باہر مرے حریمِ حرم سے نکل کے آ
اپنے چراغِ طور کو پہچان سائیکی
رستہ نجات کا ترے لاکٹ میں بند ہے
باہر کہیں نہیں کوئی نروان سائیکی
لاکھوں بلیک ہول ہیں مجھ میں چھپے ہوئے
میری خلاؤں سے بھی ہے سنسان سائیکی
کیا تُو برہنہ پھرتی ہے میری رگوں کے بیچ
میرے بدن میں کیسا ہے ہیجان سائیکی
خالی ہے دیکھ یاد کی کرسی پڑی ہوئی
سونا پڑا ہے شام کا دالان سائیکی
دریا نکل بھی سکتا ہے صحرائے چشم سے
تجھ میں دھڑکتا ہے کوئی طوفان سائیکی
یہ گیت یہ بہار یہ دستک یہ آہٹیں
یہ کیا کسی کا رہ گیا سامان سائیکی
یہ حسرتیں یہ روگ یہ ارماں یہ درد و غم
کرتی ہو جمع میر کا دیوان، سائیکی
شاخوں سے بر گ و بارکی امید کیا کروں
پہنچا ہوا جڑوں میں ہے سرطان سائیکی
ممکن ہے تجھ سے اپنی ملاقات ہوکبھی
موجود ہیں بڑے ابھی امکان سائیکی
گرداب کھینچ سکتے ہیں پاتال کی طرف
کوئی جہاز کا نہیں کپتان سائیکی
پھر ڈھونڈتا ہے تیرے خدو خال روح میں
منصور کا ہے پھر نیا رومان سائیکی
منصور آفاق

پیارے پاکستان! خدا حافظ

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 201
راکھ ہوئے ارمان، خدا حافظ
پیارے پاکستان! خدا حافظ
ایک بجا ہے رات کے چہرے پر
اچھا، میری جان! خدا حافظ
رختِ سفر میں باندھ نہیں سکتا
تتلی اور گلدان! خدا حافظ
جوشِ قدح سے آنکھیں بھر لی ہیں
اشکوں کے طوفان! خدا حافظ
رات کا خالی شہر بلاتا ہے
دہکے آتش دان! خدا حافظ
میں کیا جانوں میں کس اور گیا
اے دل اے انجان خدا حافظ
مان نہیں سکتا میں ہجر کی فال
حافظ کے دیوان خدا حافظ
تیرا قصبہ اب میں چھوڑ چلا
ساونت پوش مکان خدا حافظ
کالی رات سے میں مانوس ہوا
سورج کے امکان خدا حافظ
رات شرابی ہوتی جاتی ہے
اے میرے وجدان خدا حافظ
میں ہوں شہر سخن کا آوارہ
علم و قلم کی شان خدا حافظ
خود کو مان لیا پہچان لیا
اے چشمِ حیران خدا حافظ
دل منصور چراغِ طور ہوا
موسیٰ کے ارمان خدا حافظ
منصور آفاق

نظر دیوار سے گزری، رکی ڈھلوان پر بارش

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 192
تحیر خیز موسم کی ہوئی وجدان پر بارش
نظر دیوار سے گزری، رکی ڈھلوان پر بارش
ترے پاگل کی باتیں اتفاقاتِ جہاں ہیں کیا
ہوئی ہے یوں ہی برسوں بعد ریگستان پر بارش
سراپا آگ !دم بھر کو مرے چہرے پہ نظریں رکھ
تری آنکھوں سے ہو گی تیرے آتش دان پر بارش
گرے تو پھول بن جائے ترے چہرے پہ مہتابی
پڑے تو آگ بن جائے ترے دامان پر بارش
کتابِ غم کو کتنی بار برساتوں میں رکھا ہے
نہیں پڑتی جنابِ میر کے دیوان پر بارش
وہ برساتیں پہن کر گاؤں میں پھرتی ہوئی لڑکی
مجھے یاد آتی ہے اس سے مہکتی دھان پر بارش
محبت جاگتی ہے جب تو پھر ہوتی ہے سپنوں کی
مقام یاد پر بارش، شبِ پیمان پر بارش
عدم آباد سے آگے خدا کی آخری حد تک
رہی ہے زندگی کی قریہء امکان پر بارش
گئے گزرے زمانے ڈھونڈتی بدلی کی آنکھوں سے
یونہی ہے اِس کھنڈر جیسے دلِ ویران پر بارش
کئی برسوں سے پانی کو ترستی تھی مری چوپال
کسی کا پاؤں پڑتے ہی ہوئی دالان پر بارش
بڑی مشکل سے بادل گھیر لایا تھا کہیں سے میں
اتر آئی ہے اب لیکن مرے نقصان پر بارش
بہا کر لے گئی جو شہر کے کچے گھروندوں کو
نہیں ویسی نہیں ہے قصرِ عالی شان پر بارش
کہے ہے بادلو! یہ ڈوبتے سورج کی تنہائی
ذرا سی اہتمامِ شام کے سامان پر بارش
بدن کو ڈھانپ لیتی ہیں سنہری بھاپ کی لہریں
اثر انداز کیا ہو لمس کے طوفان پر بارش
جلایا کس گنہ گارہ کو معصوموں کی بستی نے
کہ اتری بال بکھرائے ہوئے شمشان پر بارش
کسی مشہور نٹ کا رقص تھا اونچی حویلی میں
ہوئی اچھی بھلی نوٹوں کی پاکستان پر بارش
مجھے مرجھاتے پھولوں کا ذرا سا دکھ ہوا منصور
مسلسل ہو رہی ہے کانچ کے گلدان پر بارش
منصور آفاق