ٹیگ کے محفوظات: امتحاں

کسی کے جلووں کی زَد پہ نظروں کا امتحاں یاد آرہا ہے

نقاب اٹھنے پہ ہر ارادہ، تھا رایگاں، یاد آرہا ہے
کسی کے جلووں کی زَد پہ نظروں کا امتحاں یاد آرہا ہے
زہے مسرّت، مری خوشی سے کبھی چمن مسکرادیا تھا
زہے تصوّر، وہ مسکراتا ہوا سماں یاد آرہا ہے
بہار آئی ہے پھر چمن میں ، گھٹائیں گھِر گھِر کے آرہی ہیں
سجود ریزی پہ بجلیوں کی، پھر آشیاں یاد آرہا ہے
کلی کلی گیت گارہی ہے، بہار کی دل فریبیوں کے
ستم ظریفی تو دیکھیے مجھ کو آسماں یاد آرہا ہے
کسی مسافر کی آرزو میں نشانِ منزل بھٹک رہے ہیں
کسی مسافر کو شامِ غُربت میں کارواں یاد آرہا ہے
چمن کی رنگینیاں سمٹ کر، مرے تخیّل پہ چھاگئی ہیں
مجھے برنگِ بہار، پھر کوئی مہرباں یاد آرہا ہے
جہاں کہ اذنِ سجود پا کر جبیں کو میں نے اٹھا لیا تھا
قدم قدم، پر شکیبؔ، مجھ کو وہ آستاں یاد آرہا ہے
شکیب جلالی

نہ جانے مٹ چکی ہیں کیسی کیسی ہستیاں اب تک

زمانے میں نہیں باقی کوئی نام و نشاں اب تک
نہ جانے مٹ چکی ہیں کیسی کیسی ہستیاں اب تک
متاع و مال کیا، عزت بچا لینا بھی مشکل ہے
مسلمانوں کا قدرت لے رہی ہے امتحاں اب تک
ستم کوشی پہ نازاں ہیں یہ کُفر و شِرک کے بندے
الٰہی کیسے قائم ہیں زمین و آسماں اب تک
جُھلس دینے پہ بھی مُسلم کو، دل ٹھنڈا نہیں ہوتا
جلائی جا چکی ہیں بستیوں کی بستیاں اب تک
دلا کر یادِ رفعت عہدِ ماضی کی، مسلماں کو
تعجب کیا جو طعنہ دے رہی ہیں پستیاں اب تک
شکیبؔ زار کچھ ایسی اُلجھ کر رہ گئی ہستی
نہ سُلجھیں سعیِ پیہم سے بھی اپنی گُتّھیاں اب تک
شکیب جلالی

کَہیِں بھی رہ، تُو مِرے دِل سے جا، یَہاں سے نکل

سُن اے ہجومِ تَمَنّا! اَب اِس مَکاں سے نکل
کَہیِں بھی رہ، تُو مِرے دِل سے جا، یَہاں سے نکل
بَتا دِیا تھا کہ کھُل جائے گا یقیں کا بھَرَم
کَہا تھا عَقل سے مَت حَلقَہِ گُماں سے نکل
یہ کائنات سَنبھَل جائے گی پَہ شَرط یہ ہے
اِدھَر مَکاں سے میں نکلوں تُو لامکاں سے نکل
خِرَد پُکاری جو دیکھا مُجھے حضورِ جنوں
یہ تیرے بَس کا نہیں ہے اِس اِمتحاں سے نکل
چَمَن میں اَب تُو اَکیلا نہیں ہے بَرق بھی ہے
یہ باغ و غُنچَہ و گُل چھوڑ! آشیاں سے نکل
قَدَم نَہ چَپقَلِشِ خَیر و شَر میں رَکھ ضامنؔ
کَہیِں کا بھی نَہ رَہے گا تُو دَرمیاں سے نکل
ضامن جعفری

ہَمیَں یقین ہے ہَم زیبِ داستاں ہوں گے

حریمِ ناز کے قصّے اگر بیاں ہوں گے
ہَمیَں یقین ہے ہَم زیبِ داستاں ہوں گے
عَجَب شناخت ہے یہ شاہراہِ ہَستی کی
تَمام قافلے سُوئے عَدَم رَواں ہوں گے
نہ سمجھیں سہل پسند آپ اہلِ ساحل کو
ذرا سی دیر میں موجوں کے درمیاں ہوں گے
ہمارے ضبطِ سخن پر نہ جائیے صاحب
یہ بند ٹُوٹا تَو پھر آپ بھی کہاں ہوں گے
کہاں کہاں اُنہیَں ڈھونڈا مِرے تَخَیُّل نے
خیال تھا وہ ستاروں کے درمیاں ہوں گے
مِرا خیال ہے کوئی یہاں نہیں آتا
جو عِلم ہوتا یہاں اِتنے اِمتحاں ہوں گے
رَوِش حَسیِنوں کی ضامنؔ اِس اعتماد پہ ہے
ہمارے زَخم بھی ہم جیسے بے زباں ہوں گے
ضامن جعفری

اب مجھے یہ امتحاں کھَلنے لگا

ارتباطِ جسم و جاں کھَلنے لگا
اب مجھے یہ امتحاں کھَلنے لگا
اک متاعِ زندگی لگتا تھا جو
اب وہ حرفِ رایگاں کھَلنے لگا
آنچ آئی جب اصولوں پر مرے
التفاتِ دوستاں کھَلنے لگا
تیری منزل تھی مرا نقشِ قدم
اب مرا نام و نشاں کھَلنے لگا
اشکبار آنکھوں نے مانگی ہے دعا
آگ لگ جائے، دُھواں کھَلنے لگا
کب تلک قتلِ زبان و حرف و لفظ
شاعرِ شعلہ بیاں کھَلنے لگا
علم و دانش، حرف و فن آزاد ہَوں
حلقۂ دانشوراں کھَلنے لگا
کب سے ہُوں محرومِ کنجِ عافیت
یہ جہانِ اَبلَہاں کھَلنے لگا
فطرتِ آزاد کو ضامنؔ مری
ہر جگہ اک آسماں کھَلنے لگا
ضامن جعفری

زمین کیا ہے، فضا کیا ہے، آسماں کیا ہے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 45
نگاہ میں ہے جو منظر بہ جُز گماں کیا ہے
زمین کیا ہے، فضا کیا ہے، آسماں کیا ہے
یہ جانتے ہیں مسافر فقط اندھیروں کے
ستارۂ سحری کیا ہے، کہکشاں کیا ہے
نظر میں لا کے تنِ برگِ زرد کا لرزہ
کُھلا یہ ہم پہ کہ اندیشۂ خزاں کیا ہے
گدا گدا ہے سو کُتّوں کا سامنا ہے اُسے
غنی کے واسطے آوازۂ سگاں کیا ہے
زوالِ عمر تلک ہم نہ سُرخرو ٹھہرے
حیات!تُجھ سا کوئی اور امتحاں کیا ہے
کوئی رہا ہے نہ ماجِد کسی نے رہنا ہے
تو پھر یہ مضحکۂ رنجِ رفتگاں کیا ہے
ماجد صدیقی

تن گیا آسماں کماں جیسا

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 89
ابروئے چشم دشمناں جیسا
تن گیا آسماں کماں جیسا
جبر کے موسموں سے زنگ آلود
جو بھی تھا برگ، تھا زباں جیسا
بھُولنے پر بھی دھیان جابر کا
پاس رہتا ہے پاسباں جیسا
جو بھی ہوتا ہے دن طلوع یہاں
سر پہ آتا ہے امتحاں جیسا
ہے نظر میں جو خواب سا ماجدؔ
ہے کوئی سروِ گلستاں جیسا
ماجد صدیقی

ہے خاکِ تن ہوا و ہوا خوں فشاں ہنوز

مصطفٰی خان شیفتہ ۔ غزل نمبر 52
ہم بے نشان اور وفا کا نشاں ہنوز
ہے خاکِ تن ہوا و ہوا خوں فشاں ہنوز
بیت الحزن میں نغمۂ شادی بلند ہے
نکلا ہی بابِ مصر سے ہے کارواں ہنوز
صبحِ شبِ وصال نیِ صبح ہے، مگر
پرویں ہنوز جلوہ گر و کہکشاں ہنوز
ہرگز ابھی شکایتِ دشمن نہ چاہئے
ہم پر بھی یار خوب نہیں مہرباں ہنوز
کیوں کر کہیں کہ چھٹ گئے ہم بندِ جسم سے
اس زلفِ پیچ پیچ میں الجھی ہے جاں ہنوز
جو بات میکدے میں ہے اک اک زبان پر
افسوس مدرسے میں ہے بالکل نہاں ہنوز
ضبط و شکیب یاں ہے نقابِ جمال میں
بے وجہ واں نہیں ہے سرِ امتحاں ہنوز
مدت ہوئی بہارِ جہاں دیکھتے ہوئے
دیکھا نہیں کسی نے گلِ بے خزاں ہنوز
اکثر ہوا ہے مجھ کو سفر در وطن مگر
لایا نہ دوستوں کے لئے ارمغاں ہنوز
اک شب ہوا تھا جلوہ نما چرخ پر وہ ماہ
مدہوش ہیں ملائکۂ آسماں ہنوز
نا آشنا رقیب سے ہے آشنا ابھی
نا آشنا ہے لب سے ہمارے فغاں ہنوز
آشفتہ زلف، چاک قبا، نیم باز چشم
ہیں صحبتِ شبانہ کے ظاہر نشاں ہنوز
اے موجۂ نسیم ذرا اور ٹھہر جا
ہے خاک پر ہماری وہ دامن فشاں ہنوز
مے خانے میں تمام جوانی بسر ہوئی
لیکن ملا نہ منصبِ پیرِ مغاں ہنوز
اے تابِ برق تھوڑی سی تکلیف اور بھی
کچھ رہ گئے ہیں خار و خسِ آشیاں ہنوز
آتا ہوں میں وہیں سے ذرا صبر شیفتہ
سونے کے قصد میں بھی نہیں پاسباں ہنوز
مصطفٰی خان شیفتہ

کیا دل میں چبھ گئی نگہِ جاں ستاں کی طرح؟

مصطفٰی خان شیفتہ ۔ غزل نمبر 44
ناصح تپاں ہے، شیفتۂ نیم جاں کی طرح
کیا دل میں چبھ گئی نگہِ جاں ستاں کی طرح؟
بہتر ہے آپ غیر سے دل کھول کر ملیں
آخر تو یہ بھی میرے ہی ہے امتحاں کی طرح
اُس شمع رُو کی بزم میں مانع نہ تھا کوئی
ہوتی سبک جو نالۂ آتش فشاں کی طرح
کیوں ہر نفس ہے شہدِ خموشی سے بند لب
بھائی ہے دل کو کون سے شیریں بیاں کی طرح
لڑنے میں آشتی نہ تغافل میں التفات
یہ جور کی نکالی ہے تم نے کہاں کی طرح
خمیازہ بند بند گسل ہے خمار سے
بدمست کر گئی یہ کس ابرو کماں کی طرح
ہر ہر قدم پہ رشک سے جلتی ہے شمعِ فند
چلتا ہے وہ بھی شیفتہ میری زباں کی طرح
مصطفٰی خان شیفتہ

مجھ کو خبر نہیں مری مٹی کہاں کی ہے

داغ دہلوی ۔ غزل نمبر 47
کعبے کی ہے ہوس کبھی کوئے بتاں کی ہے
مجھ کو خبر نہیں مری مٹی کہاں کی ہے
سن کر مرا فسانہ انہیں لطف آگیا
سنتا ہوں اب کہ روز طلب قصہ خواں کی ہے
پیغامبر کی بات پر آپس میں رنج کیا
میری زباں کی ہے نہ تمہاری زباں کی ہے
کچھ تازگی ہو لذتِ آزار کے لئے
ہر دم مجھے تلاش نئے آسماں کی ہے
جانبر بھی ہو گئے ہیں بہت مجھ سے نیم جان
کیا غم ہے اے طبیب جو پوری وہاں کی ہے
حسرت برس رہی ہے ہمارے مزار پر
کہتے ہیں سب یہ قبر کسی نوجواں کی ہے
وقتِ خرامِ ناز دکھا دو جدا جدا
یہ چال حشر کی یہ روش آسماں کی ہے
فرصت کہاں کہ ہم سے کسی وقت تو ملے
دن غیر کا ہے رات ترے پاسباں کی ہے
قاصد کی گفتگو سے تسلی ہو کس طرح
چھپتی نہیں وہ بات جو تیری زباں کی ہے
جورِ رقیب و ظلمِ فلک کا نہیں خیال
تشویش ایک خاطرِ نا مہرباں کی ہے
سن کر مرا فسانہء غم اس نے یہ کہا
ہو جائے جھوٹ سچ یہی خوبی بیاں کی ہے
دامن سنبھال باندھ کمر آستیں چڑھا
خنجر نکال دل میں اگر امتحاں کی ہے
ہر ہر نفس میں دل سے نکلنے لگا غبار
کیا جانے گردِ راہ یہ کس کارواں کی ہے
کیونکر نہ آتے خلد سے آدم زمین پر
موزوں وہیں وہ خوب ہے جو سنتے جہاں کی ہے
تقدیر سے یہ پوچھ رہا ہوں کہ عشق میں
تدبیر کوئی بھی ستمِ ناگہاں کی ہے
اردو ہے جس کا نام ہمیں جانتے ہیں داغ
ہندوستاں میں دھوم ہماری زباں کی ہے
داغ دہلوی

کس نے عذاب جاں سہا کون عذاب جاں میں ہے

جون ایلیا ۔ غزل نمبر 222
ایک گماں کا حال ہے اور فقط گماں میں ہے
کس نے عذاب جاں سہا کون عذاب جاں میں ہے
لمحہ بہ لمحہ دم بہ دم آن بہ آن رم بہ رم
میں بھی گزشتگاں میں ہوں تو بھی گزشتگاں میں ہے
آدم و ذات کبریا کرب میں ہیں جدا جدا
کیا کہوں ان کا ماجرا جو بھی ہے امتحاں میں ہے
شاخ سے اڑ گیا پرند ہے دل شام درد مند
صحن میں ہے ملال سا حزن سا آسماں میں ہے
خودمیں بھی بےاماں ہوں میں،تجھ میں بھی بےاماں ہوں میں
کون سہے گا اس کا غم وہ جو مری اماں میں ہے
کیسا حساب کیا حساب حالت حال ہے عذاب
زخم نفس نفس میں ہے زہر زماں زماں میں ہے
اس کا فراق بھی زیاں اس کا وصال بھی زیاں
ایک عجیب کشمکش حلقہ بے دلاں میں ہے
بود نبود کا حساب میں نہیں جانتا مگر
سارے وجود کی نہیں میرے عدم کی ہاں میں ہے
جون ایلیا

از زمیں تا بہ آسماں خوں ہے

جون ایلیا ۔ غزل نمبر 220
زیرِ محراب ابرواں خوں ہے
از زمیں تا بہ آسماں خوں ہے
ایک بسمل کا رقصِ رنگ تھا آج
سرِ مقتل جہاں تہاں خوں ہے
زخم کے خرمنوں کا مژدہ ہو
آب۔ کشت بلا کشاں خوں ہے
سادہ پوشانِ عیدِ شوق، نوید
آبِ حوض نمازیاں خوں ہے
باب ہے حسرتوں کی محنت گاہ
دل یارانہ خوں فشاں خوں ہے
زخم انگیز ہے خراشِ امید
ہے دیدار۔ گل رخاں خوں ہے
ہو گئے باریاب اہل غرض
روئے دہلیز و آسماں خوں ہے
دل خونیں ہے میزباں
عمدہ خوانِ میزبان خوں ہے
فصل آئی ہے رنگِ مستوں کی
تابہ دیوارِ گلستاں خوں ہے
ہر تماشائی مدعی ٹھہرا
پر تو زخمِ خوں چکا خوں ہے
میں ہوں بے داغ دامناں محتاط
نفسِ خوں گرفتگاں خوں ہے
غنچہ ہا زخم، زخم ہا الماس
شبنم باغ امتحاں خوں ہے
اس طرف کوہکن ادھر شیریں
اور دونوں کے درمیاں خوں ہے
بے دلوں کو نہ چھیڑیو کہ یہ قوم
امتِ شوق رائیگاں خوں ہے
جون ایلیا

اسی گماں کو بچا لوں کہ درمیاں ہے یہی

جون ایلیا ۔ غزل نمبر 158
کوئی گماں بھی نہیں درمیاں گماں ہے یہی
اسی گماں کو بچا لوں کہ درمیاں ہے یہی
یہ آدمی کے ہیں انفاس جس کے زہر فروش
اسے بٹھاؤ کہ میرا مزاج داں ہے یہی
کبھی کبھی جو نہ آؤ نظر تو سہہ لیں گے
نظر سے دُور نہ ہونا کہ امتحاں ہے یہی
میں آسماں کا عجب کچھ لحاظ رکھتا ہوں
جو اس زمین کو سہہ لے وہ آسماں ہے یہی
یہ ایک لمحہ جو دریافت کر لیا میں نے
وصالِ جاں ہے یہی اور فراقِ جاں ہے یہی
تم اُن میں سے ہو جو یاں فتح مند ٹہرے ہیں
سنو کہ وجہِ غمِ دل شگستگاں ہے یہی
جون ایلیا

شام کا وقت ہے میاں چپ رہ

جون ایلیا ۔ غزل نمبر 141
کیا یقین اور کیا گماں چپ رہ
شام کا وقت ہے میاں چپ رہ
ہو گیا قصہ وجود تمام
ہے اب آغاز داستان چپ رہ
میں تو پہلے ہی جا چکاہوں کہیں
تو بھی جاناں نہیں یہاں چپ رہ
تو اب آیا ہے حال میں اپنے
جب زمین ہے نہ آسمان چپ رہ
تو جہاں تھا جہاں جہاں تھا کبھی
تو بھی اب نہیں وہاں چپ رہ
ذکر چھیڑا خدا کا پھر تو نے
یاں ہے انساں بھی رایگاں چپ رہ
سارا سودا نکال دے سر سے
اب نہیں کوئی آستاں چپ رہ
اہرمن ہو خدا ہو یا آدم
ہو چکا سب کا امتحاں چپ رہ
اب کوئی بات تیری بات نہیں
نہیں تیری تری زباں چپ رہ
ہے یہاں ذکر حال موجوداں
تو ہے اب ازگزشتگاں چپ رہ
ہجر کی جاں کنی تمام ہوئی
دل ہو جون بے اماں چپ رہ
جون ایلیا

رہی نہ طرزِ ستم کوئی آسماں کے لئے

دیوانِ غالب ۔ غزل نمبر 209
نویدِ امن ہے بیدادِ دوست جاں کے لئے
رہی نہ طرزِ ستم کوئی آسماں کے لئے
بلا سے!گر مژۂ یار تشنۂ خوں ہے
رکھوں کچھ اپنی ہی مژگانِخوں فشاں کے لئے
وہ زندہ ہم ہیں کہ ہیں روشناسِ خلق اے خضر
نہ تم کہ چور بنے عمرِ جاوداں کے لئے
رہا بلا میں بھی، میں مبتلائے آفتِ رشک
بلائے جاں ہے ادا تیری اک جہاں کے لئے
فلک نہ دور رکھ اُس سے مجھے، کہ میں ہی نہیں
دراز دستئِ قاتل کے امتحاں کے لئے
مثال یہ مری کوشش کی ہے کہ مرغِ اسیر
کرے قفس میں فراہم خس آشیاں کے لئے
گدا سمجھ کے وہ چپ تھا، مری جو شامت آئے
اٹھا اور اٹھ کے قدم میں نے پاسباں کے لئے
بہ قدرِ شوق نہیں ظرفِ تنگنائے غزل
کچھ اور چاہیے وسعت مرے بیاں کے لئے
دیا ہے خلق کو بھی، تا اسے نظر نہ لگے
بنا ہے عیش تجمُّل حسین خاں کے لئے
زباں پہ بارِ خدایا! یہ کس کا نام آیا
کہ میرے نطق نے بوسے مر ی زباں کے لئے
نصیرِ دولت و دیں اور معینِ ملّت و ملک
بنا ہے چرخِ بریں جس کے آستاں کے لئے
زمانہ عہد میں اُس کے ہے محوِ آرائش
بنیں گے اور ستارے اب آسماں کے لئے
ورق تمام ہوا اور مدح باقی ہے
سفینہ چاہیے اس بحرِ بیکراں کے لئے
ادائے خاص سے غالب ہوا ہے نکتہ سرا
صلائے عام ہے یارانِ نکتہ داں کے لئے
مرزا اسد اللہ خان غالب

جاہ و جلال عہدِ وصالِ بتاں نہ پوچھ

دیوانِ غالب ۔ غزل نمبر 185
ہندوستان سایۂ گل پائے تخت تھا
جاہ و جلال عہدِ وصالِ بتاں نہ پوچھ
ہر داغِ تازہ یک دلِ داغ انتظار ہے
عرضِ فضائے سینۂ درد امتحاں نہ پوچھ
مرزا اسد اللہ خان غالب

اِک چھیڑ ہے وگرنہ مراد امتحاں نہیں

دیوانِ غالب ۔ غزل نمبر 178
ہم پر جفا سے ترکِ وفا کا گماں نہیں
اِک چھیڑ ہے وگرنہ مراد امتحاں نہیں
کس منہ سے شکر کیجئے اس لطف خاص کا
پرسش ہے اور پائے سخن درمیاں نہیں
ہم کو ستم عزیز، ستم گر کو ہم عزیز
نا مہرباں نہیں ہے اگر مہرباں نہیں
بوسہ نہیں، نہ دیجیے دشنام ہی سہی
آخر زباں تو رکھتے ہو تم، گر دہاں نہیں
ہر چند جاں گدازئِ قہروعتاب ہے
ہر چند پشت گرمئِ تاب و تواں نہیں
جاں مطربِ ترانہ ھَل مِن مَزِید ہے
لب پر دہ سنجِ زمزمۂِ الاَماں نہیں
خنجر سے چیر سینہ اگر دل نہ ہو دو نیم
دل میں چُھری چبھو مژہ گر خونچکاں نہیں
ہے ننگِ سینہ دل اگر آتش کدہ نہ ہو
ہے عارِدل نفس اگر آذر فشاں نہیں
نقصاں نہیں جنوں میں بلا سے ہو گھر خراب
سو گز زمیں کے بدلے بیاباں گراں نہیں
کہتے ہو “ کیا لکھا ہے تری سرنوشت میں“
گویا جبیں پہ سجدۂ بت کا نشاں نہیں
پاتا ہوں اس سے داد کچھ اپنے کلام کی
رُوح القُدُس اگرچہ مرا ہم زباں نہیں
جاں ہے بہائے بوسہ ولے کیوں کہے ابھی
غالب کو جانتا ہے کہ وہ نیم جاں نہیں
مرزا اسد اللہ خان غالب

نہ ہو جب دل ہی سینے میں تو پھر منہ میں زباں کیوں ہو

دیوانِ غالب ۔ غزل نمبر 146
کسی کو دے کے دل کوئی نوا سنجِ فغاں کیوں ہو
نہ ہو جب دل ہی سینے میں تو پھر منہ میں زباں کیوں ہو
وہ اپنی خو نہ چھوڑیں گے ہم اپنی وضع کیوں چھوڑیں@
سبک سر بن کے کیا پوچھیں کہ ہم سے سر گراں کیوں ہو
کِیا غم خوار نے رسوا، لگے آگ اس محبّت کو
نہ لاوے تاب جو غم کی، وہ میرا راز داں کیوں ہو
وفا کیسی کہاں کا عشق جب سر پھوڑنا ٹھہرا
تو پھر اے سنگ دل تیرا ہی سنگِ آستاں کیوں ہو
قفس میں مجھ سے رودادِ چمن کہتے نہ ڈر ہمدم
گری ہے جس پہ کل بجلی وہ میرا آشیاں کیوں ہو
یہ کہہ سکتے ہو "ہم دل میں نہیں ہیں” پر یہ بتلاؤ
کہ جب دل میں تمہیں تم ہو تو آنکھوں سے نہاں کیوں ہو
غلط ہے جذبِ دل کا شکوہ دیکھو جرم کس کا ہے
نہ کھینچو گر تم اپنے کو، کشاکش درمیاں کیوں ہو
یہ فتنہ آدمی کی خانہ ویرانی کو کیا کم ہے
ہوئے تم دوست جس کے، دشمن اس کا آسماں کیوں ہو
یہی ہے آزمانا تو ستانا کس کو کہتے ہیں
عدو کے ہو لیے جب تم تو میرا امتحاں کیوں ہو
کہا تم نے کہ کیوں ہو غیر کے ملنے میں رسوائی
بجا کہتے ہو، سچ کہتے ہو، پھر کہیو کہ ہاں کیوں ہو
نکالا چاہتا ہے کام کیا طعنوں سے تُو غالب
ترے بے مہر کہنے سے وہ تجھ پر مہرباں کیوں ہو
@ کچھ نسخوں میں ’وضع کیوں بدلیں‘ ہے۔
مرزا اسد اللہ خان غالب

بے تکلف، داغِ مہ مُہرِ دہاں ہوجائے گا

دیوانِ غالب ۔ غزل نمبر 89
گر نہ ‘اندوہِ شبِ فرقت ‘بیاں ہو جائے گا
بے تکلف، داغِ مہ مُہرِ دہاں ہوجائے گا
زہرہ گر ایسا ہی شامِ ہجر میں ہوتا ہے آب
پر توِ مہتاب سیلِ خانماں ہوجائے گا
لے تو لوں سوتے میں اس کے پاؤں کا بوسہ، مگر
ایسی باتوں سے وہ کافر بدگماں ہوجائے گا
دل کو ہم صرفِ وفا سمجھے تھے، کیا معلوم تھا
یعنی یہ پہلے ہی نذرِ امتحاں ہوجائے گا
سب کے دل میں ہے جگہ تیری، جو تو راضی ہوا
مجھ پہ گویا، اک زمانہ مہرباں ہوجائے گا
گر نگاہِ گرم فرماتی رہی تعلیمِ ضبط
شعلہ خس میں، جیسے خوں رگ میں، نہاں ہوجائے گا
باغ میں مجھ کو نہ لے جا ورنہ میرے حال پر
ہر گلِ تر ایک "چشمِ خوں فشاں” ہوجائے گا
وائے گر میرا ترا انصاف محشر میں نہ ہو
اب تلک تو یہ توقع ہے کہ واں ہوجائے گا
فائدہ کیا؟ سوچ، آخر تو بھی دانا ہے اسدؔ
دوستی ناداں کی ہے، جی کا زیاں ہوجائے گا
مرزا اسد اللہ خان غالب

بن گیا رقیب آخر، تھا جو رازداں اپنا

دیوانِ غالب ۔ غزل نمبر 72
ذکر اس پری وش کا، اور پھر بیاں اپنا
بن گیا رقیب آخر، تھا جو رازداں اپنا
مے وہ کیوں بہت پیتے بز مِ غیر میں یا رب
آج ہی ہوا منظور اُن کو امتحاں اپنا
منظر اک بلندی پر اور ہم بنا سکتے
عرش سے اُدھر ہوتا، کاشکے مکاں اپنا
دے وہ جس قد ر ذلت ہم ہنسی میں ٹالیں گے
بارے آشنا نکلا، ان کا پاسباں، اپنا
در دِ دل لکھوں کب تک، جاؤں ان کو دکھلادوں
انگلیاں فگار اپنی، خامہ خونچکاں اپنا
گھستے گھستے مٹ جاتا، آپ نے عبث بدلا
ننگِ سجدہ سے میرے، سنگِ آستاں اپنا
تا کرے نہ غمازی، کرلیا ہے دشمن کو
دوست کی شکایت میں ہم نے ہمزباں اپنا
ہم کہاں کے دانا تھے، کس ہنر میں یکتا تھے
بے سبب ہوا غالب دشمن آسماں اپنا
مرزا اسد اللہ خان غالب

کی تم نے مہربانی بے خانماں کے اوپر

دیوان ششم غزل 1823
آئے ہو گھر سے اٹھ کر میرے مکاں کے اوپر
کی تم نے مہربانی بے خانماں کے اوپر
پھولوں سے اٹھ نگاہیں مکھڑے پہ اس کے ٹھہریں
وہ گل فروش کا جو آیا دکاں کے اوپر
برسات اب کے گذری خوف و خطر میں ساری
چشمک زناں رہی ہے برق آشیاں کے اوپر
رخسار سا کسو کے کاہے کو ہے فروزاں
ہر چند ماہ تاباں ہے آسماں کے اوپر
بے سدھ پڑا رہوں ہوں بستر پہ رات دن میں
کیا آفت آگئی ہے اس نیم جاں کے اوپر
عشق و ہوس میں کچھ تو آخر تمیز ہو گی
آئی طبیعت اس کی گر امتحاں کے اوپر
الفت کی کلفتوں میں معلوم ہے ہوئی وہ
تھا اعتماد کلی تاب و تواں کے اوپر
محو دعا تھا اکثر غیرت سے لیک گاہے
آیا نہ نام اس کا میری زباں کے اوپر
وہ جان و دل کی خواہش آیا نہیں جہاں میں
آئی ہے اک قیامت اہل جہاں کے اوپر
کیا لوگ ہیں محباں سوداے عاشقی میں
اغماض کرتے ہیں سب جی کے زیاں کے اوپر
حیرت سے اس کے روکی چپ لگ گئی ہے ایسی
گویا کہ مہر کی ہے میرے دہاں کے اوپر
جو راہ دوستی میں اے میر مرگئے ہیں
سر دیں گے لوگ ان کے پا کے نشاں کے اوپر
میر تقی میر

مرنا تمام ہو نہ سکا نیم جاں ہوا

دیوان ششم غزل 1793
میں رنج عشق کھینچے بہت ناتواں ہوا
مرنا تمام ہو نہ سکا نیم جاں ہوا
بستر سے اپنے اٹھ نہ سکا شب ہزار حیف
بیمار عشق چار ہی دن میں گراں ہوا
شاید کہ دل تڑپنے سے زخم دروں پھٹا
خونناب میری آنکھوں سے منھ پر رواں ہوا
غیر از خدا کی ذات مرے گھر میں کچھ نہیں
یعنی کہ اب مکان مرا لامکاں ہوا
مستوں میں اس کی کیسی تعین سے ہے نشست
شیشہ ہوا نہ کیف کا پیر مغاں ہوا
سائے میں تاک کے مجھے رکھا اسیر کر
صیاد کے کرم سے قفس آشیاں ہوا
ہم نے نہ دیکھا اس کو سو نقصان جاں کیا
ان نے جو اک نگاہ کی اس کا زیاں ہوا
ٹک رکھ لے ہاتھ تن میں نہیں اور جاے زخم
بس میرے دل کا یار جی اب امتحاں ہوا
وے تو کھڑے کھڑے مرے گھر آ کے پھر گئے
میں بے دیار و بیدل و بے خانماں ہوا
گردش نے آسماں کی عجائب کیا سلوک
پیر کبیر جب میں ہوا وہ جواں ہوا
مرغ چمن کی نالہ کشی کچھ خنک سی تھی
میں آگ دی چمن کو جو گرم فغاں ہوا
دو پھول لاکے پھینک دیے میری گور پر
یوں خاک میں ملا کے مجھے مہرباں ہوا
سر کھینچا دود دل نے جہاں تیرہ ہو گیا
دم بھر میں صبح زیر فلک کیا سماں ہوا
کہتے ہیں میر سے کہیں اوباش لڑ گئے
ہنگامہ ان سے ایسا الٰہی کہاں ہوا
میر تقی میر

بلبل نے بھی نہ طور گلوں کا بیاں کیا

دیوان سوم غزل 1079
میں گلستاں میں آ کے عبث آشیاں کیا
بلبل نے بھی نہ طور گلوں کا بیاں کیا
پھر اس کے ابرواں کا خم و تاب ہے وہی
تلوار کے تلے بھی مرا امتحاں کیا
دوں کس کو دوش دشمن جانی تھی دوستی
اس سودے میں صریح میں نقصان جاں کیا
گالی ہے حرف یار قلم نے قضا کے ہائے
صورت نکالی خوب ولے بدزباں کیا
اس جنس خوش کے پیچھے کھپا میں چوائو کیا
میں نے کسو کا کیا کیا اپنا زیاں کیا
لڑکے جہان آباد کے یک شہر کرتے ناز
آجاتے ہیں بغل میں اشارہ جہاں کیا
میں منتظر جواب کا نامے کے مر گیا
ناچار میر جان کو اودھر رواں کیا
میر تقی میر

کیا جانے منھ سے نکلے نالے کے کیا سماں ہو

دیوان اول غزل 383
اے چرخ مت حریف اندوہ بے کساں ہو
کیا جانے منھ سے نکلے نالے کے کیا سماں ہو
کب تک گرہ رہے گا سینے میں دل کے مانند
اے اشک شوق اک دم رخسار پر رواں ہو
ہم دور ماندگاں کی منزل رساں مگر اب
یا ہو صدا جرس کی یا گرد کارواں ہو
مسند نشین ہو گر عرصہ ہے تنگ اس پر
آسودہ وہ کسو کا جو خاک آستاں ہو
تاچند کوچہ گردی جیسے صبا زمیں پر
اے آہ صبح گاہی آشوب آسماں ہو
گر ذوق سیر ہے تو آوارہ اس چمن میں
مانند عندلیب گم کردہ آشیاں ہو
یہ جان تو کہ ہے اک آوارہ دست بردل
خاک چمن کے اوپر برگ خزاں جہاں ہو
کیا ہے حباب ساں یاں آ دیکھ اپنی آنکھوں
گر پیرہن میں میرے میرا تجھے گماں ہو
از خویش رفتہ ہر دم رہتے ہیں ہم جو اس بن
کہتے ہیں لوگ اکثر اس وقت تم کہاں ہو
پتھر سے توڑ ڈالوں آئینے کو ابھی میں
گر روے خوبصورت تیرا نہ درمیاں ہو
اس تیغ زن سے کہیو قاصد مری طرف سے
اب تک بھی نیم جاں ہوں گر قصد امتحاں ہو
کل بت کدے میں ہم نے دھولیں لگائیاں ہیں
کعبے میں آج زاہد گو ہم پہ سرگراں ہو
ہمسایہ اس چمن کے کتنے شکستہ پر ہیں
اتنے لیے کہ شاید اک بائو گل فشاں ہو
میر اس کو جان کر تو بے شبہ ملیو رہ پر
صحرا میں جو نمد مو بیٹھا کوئی جواں ہو
میر تقی میر

پر مل چلا کرو بھی کسو خستہ جاں سے تم

دیوان اول غزل 278
جانا کہ شغل رکھتے ہو تیر و کماں سے تم
پر مل چلا کرو بھی کسو خستہ جاں سے تم
ہم اپنی چاک جیب کو سی رہتے یا نہیں
پھاٹے میں پائوں دینے کو آئے کہاں سے تم
اب دیکھتے ہیں خوب تو وہ بات ہی نہیں
کیا کیا وگرنہ کہتے تھے اپنی زباں سے تم
تنکے بھی تم ٹھہرتے کہیں دیکھے ہیں تنک
چشم وفا رکھو نہ خسان جہاں سے تم
جائو نہ دل سے منظر تن میں ہے جا یہی
پچھتائوگے اٹھوگے اگر اس مکاں سے تم
قصہ مرا سنوگے تو جاتی رہے گی نیند
آرام چشم مت رکھو اس داستاں سے تم
کھل جائیں گی پھر آنکھیں جو مر جائے گا کوئی
آتے نہیں ہو باز مرے امتحاں سے تم
جتنے تھے کل تم آج نہیں پاتے اتنا ہم
ہر دم چلے ہی جاتے ہو آب رواں سے تم
رہتے نہیں ہو بن گئے میر اس گلی میں رات
کچھ راہ بھی نکالو سگ و پاسباں سے تم
میر تقی میر

القصہ رفتہ رفتہ دشمن ہوا ہے جاں کا

دیوان اول غزل 25
شکوہ کروں میں کب تک اس اپنے مہرباں کا
القصہ رفتہ رفتہ دشمن ہوا ہے جاں کا
گریے پہ رنگ آیا قید قفس سے شاید
خوں ہو گیا جگر میں اب داغ گلستاں کا
لے جھاڑو ٹوکرا ہی آتا ہے صبح ہوتے
جاروب کش مگر ہے خورشید اس کے ہاں کا
دی آگ رنگ گل نے واں اے صبا چمن کو
یاں ہم جلے قفس میں سن حال آشیاں کا
ہر صبح میرے سر پر اک حادثہ نیا ہے
پیوند ہو زمیں کا شیوہ اس آسماں کا
ان صید افگنوں کا کیا ہو شکار کوئی
ہوتا نہیں ہے آخر کام ان کے امتحاں کا
تب تو مجھے کیا تھا تیروں سے صید اپنا
اب کرتے ہیں نشانہ ہر میرے استخواں کا
فتراک جس کا اکثر لوہو میں تر رہے ہے
وہ قصد کب کرے ہے اس صید ناتواں کا
کم فرصتی جہاں کے مجمع کی کچھ نہ پوچھو
احوال کیا کہوں میں اس مجلس رواں کا
سجدہ کریں ہیں سن کر اوباش سارے اس کو
سید پسر وہ پیارا ہے گا امام بانکا
ناحق شناسی ہے یہ زاہد نہ کر برابر
طاعت سے سو برس کی سجدہ اس آستاں کا
ہیں دشت اب یہ جیتے بستے تھے شہر سارے
ویرانۂ کہن ہے معمورہ اس جہاں کا
جس دن کہ اس کے منھ سے برقع اٹھے گا سنیو
اس روز سے جہاں میں خورشید پھر نہ جھانکا
ناحق یہ ظلم کرنا انصاف کہہ پیارے
ہے کون سی جگہ کا کس شہر کا کہاں کا
سودائی ہو تو رکھے بازار عشق میں پا
سر مفت بیچتے ہیں یہ کچھ چلن ہے واں کا
سو گالی ایک چشمک اتنا سلوک تو ہے
اوباش خانہ جنگ اس خوش چشم بدزباں کا
یا روئے یا رلایا اپنی تو یوں ہی گذری
کیا ذکر ہم صفیراں یاران شادماں کا
قید قفس میں ہیں تو خدمت ہے نالگی کی
گلشن میں تھے تو ہم کو منصب تھا روضہ خواں کا
پوچھو تو میر سے کیا کوئی نظر پڑا ہے
چہرہ اتر رہا ہے کچھ آج اس جواں کا
میر تقی میر

فصلِ گُل آئی امتحاں کی طرح

فیض احمد فیض ۔ غزل نمبر 28
یک بیک شورشِ فغاں کی طرح
فصلِ گُل آئی امتحاں کی طرح
صحنِ گلشن میں بہرِ مشتاقاں
ہر روش کِھنچ گئی کماں کی طرح
پھر لہو سے ہر ایک کاسۂ داغ
پُر ہُوا جامِ ارغواں کی طرح
یاد آیا جنُونِ گُم گشتہ
بے طلب قرضِ دوستاں کی طرح
جانے کس پر ہو مہرباں قاتِل
بے سبب مرگِ ناگہاں کی طرح
ہر صدا پر لگے ہیں کان یہاں
دل سنبھالے رہو زباں کی طرح
فیض احمد فیض

جہاں کر دے کوئی افسانہ خواں ختم

باقی صدیقی ۔ غزل نمبر 80
وہیں سمجھو ہماری داستاں ختم
جہاں کر دے کوئی افسانہ خواں ختم
شکست زسیت کا دل پر اثر کیا
مگر ہے راہ و رسم دوستاں ختم
وہاں سے میرا افسانہ چلے گا
جہاں ہو گی تمہاری داستاں ختم
الجھتا جا زمانے کی نظر سے
کبھی تو ہو گا دور امتحاں ختم
اگر ہم چپ بھی ہو جائیں تو باقیؔ
زمانہ بات کرتا ہے کہاں ختم
باقی صدیقی