ٹیگ کے محفوظات: امتحان

جو میرے سر پہ کوئی آسمان ہی ہوتا

چلو گمان سہی کچھ تو مان ہی ہوتا
جو میرے سر پہ کوئی آسمان ہی ہوتا
میں بے امان رہا اپنے گھر میں رہ کر بھی
کوئی بھی ہوتا یہاں، بے امان ہی ہوتا
جہاں پہ بسنا تھا ہر ایک لامکانی کو
ضرور تھا کہ وہ میرا مکان ہی ہوتا؟
تو اختیار میں کچھ لفظ ہی عطا ہوتے!
دیا جو درد ہے مجھ سے بیان ہی ہوتا!
نہ رہتا فاصلہ گر مجھ میں اور زمانے میں
تو میرے اور مرے درمیان ہی ہوتا
گگن پہ کھینچ کے سورج کو لا کے رکھ دیتا
جو سرخیوں کا افق پر نشان ہی ہوتا
ضرور تھا کہ کمالِ بیاں عطا کرتے؟
ضرور تھا کہ مرا امتحان ہی ہوتا؟
نہیں گلہ کوئی یاؔور پہ بحرِ غم میں کہیں
مرے سفینے پہ اک بادبان ہی ہوتا
یاور ماجد

میں بھی کس امتحان سے نکلا

آگ کے درمیان سے نکلا
میں بھی کس امتحان سے نکلا
پھر ہوا سے سلگ اٹھے پتے
پھر دھواں گلستان سے نکلا
جب بھی نکلا ستارہِ امید
کہر کے درمیان سے نکلا
چاندنی جھانکتی ہے گلیوں میں
کوئی سایہ مکان سے نکلا
ایک شعلہ پھر ایک دھوئیں کی لکیر
اور کیا خاکدان سے نکلا
چاند جس آسمان میں ڈوبا
کب اسی آسمان سے نکلا
یہ گہر جس کو آفتاب کہیں
کس اندھیرے کی کان سے نکلا
شکر ہے اس نے بے وفائی کی
میں کڑے امتحان سے نکلا
لوگ دشمن ہوئے اسی کے شکیبؔ
کام جس مہربان سے نکلا
شکیب جلالی

کوئی زباں دراز کوئی بے زبان ہے

لاکھوں میں کوئی کوئی یہاں خوش بیان ہے
کوئی زباں دراز کوئی بے زبان ہے
جتنے بھی تِیر تھے تِرے ترکش میں چل چکے
مدت سے تیرے ہاتھ میں خالی کمان ہے
مجھ سے زیادہ خود پہ وہ کرنے لگا ستم
جانا ہے جب سے اُس نے مِری اُس میں جان ہے
اکثر رہی ہے میرے تخیل کی سیر گاہ
وہ سَر زمین جس کے تلے آسمان ہے
کچھ تو یہ دل بھی ہو گیا کم ہمتی کا صید
اور کچھ بدن میں پچھلے سفر کی تکان ہے
ایسے پڑے ہوئے ہیں لبوں پر ہمارے قفل
ہم بھول ہی گئے ہیں کہ منہ میں زبان ہے
باصرِؔ کچھ اپنے آپ میں رہنے لگا ہے مست
اے حُسنِ بے خیال ترا امتحان ہے
باصر کاظمی

خیمہ مگر اُڑا کسی چڑیا کی جان کا

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 34
شاہیں پہ بندھ رہا تھا نشانہ، کمان کا
خیمہ مگر اُڑا کسی چڑیا کی جان کا
آئے گی کب، کہاں سے، نجانے نمِ یقیں
ہٹتا نہیں نظر سے بگولا گمان کا
اونچا اُڑا، تو سمتِ سفر کھو کے رہ گئی
رُخ ہی بدل گیا، مری سیدھی اُڑان کا
کیا جانیے، ہَوا کے کہے پر بھی کب کھلے
مشتِ خسیس سا ہے چلن، بادبان کا
ہم پَو پَھٹے بھی، دھُند کے باعث نہ اُڑ سکے
یوں بھی کھُلا کِیا ہے، عناد آسمان کا
ماجدؔ نفس نفس ہے گراں بار اِس طرح
دورانیہ ہو جیسے کسی امتحان کا
ماجد صدیقی

وُہ مہرباں تھا تو دل کو گمان کیا کیا تھے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 4
ہمارے زیرِ قدم آسمان کیا کیا تھے
وُہ مہرباں تھا تو دل کو گمان کیا کیا تھے
چمن کو راس فضا جن دنوں تھی موسم کی
شجر شجر پہ تنے سائبان کیا کیا تھے
کھُلا زمین کے قدموں تلے سے کھنچنے سے
کہ اوجِ فرق کے سُود و زیان کیا کیا تھے
یہ بھید وسعتِ صحرا میں ہم پہ جا کے کھُلا
کہ شہرِ درد میں ہم بے زبان کیا کیا تھے
ہمیں ہی مل نہ سکا، وُہ بہر قدم ورنہ
مہ و گلاب سے اُس کے نشان کیا کیا تھے
نہ سرخرو کبھی جن سے ہوئے تھے ہم ماجدؔ
دل و نگاہ کے وُہ امتحان کیا کیا تھے
ماجد صدیقی

جو برگ بھی تھا سلگتی زبان جیسا تھا

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 23
گُماں بہار پہ دیپک کی تان جیسا تھا
جو برگ بھی تھا سلگتی زبان جیسا تھا
وُہ دن بھی تھے کہ نظر سے نظر کے ملنے پر
کسی کا سامنا جب امتحان جیسا تھا
یہ کیا ہُوا کہ سہارے تلاش کرتا ہے
وُہ پیڑ بھی کہ چمن میں چٹان جیسا تھا
کسی پہ کھولتے کیا حالِ آرزو، جس کا
کمال بِکھرے پروں کی اُڑان جیسا تھا
تنی تھی گرچہ سرِ ناؤ سائباں جیسی
سلوک موج کا لیکن کمان جیسا تھا
کہاں گیا ہے وُہ سرچشمۂ دُعا اپنا
کہ خاک پر تھا مگر آسمان جیسا تھا
نظر میں تھا ہُنرِ ناخُدا، جبھی ماجدؔ
یقین جو بھی تھا دل کو گمان جیسا تھا
ماجد صدیقی

لیتے رہے امتحان اپنا

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 6
ہم تجھ سے ہٹاکے دھیان اپنا
لیتے رہے امتحان اپنا
وہ کچھ نہ بتا کے، جو ہُوا ہے
رکھتی ہے بھرم، زبان اپنا
جُنبش سے ہوا کی ریت پر سے
مٹتا ہی گیا نشان اپنا
حالات بدل چکے تو جانا
برحق تھا ہر اِک گمان اپنا
جتلا کے لچک ذرا سی پہلے
دکھلائے ہُنر کمان اپنا
آیا ہے جو چل کے در پہ تیرے
ماجدؔ ہے اِسے بھی جان اپنا
ماجد صدیقی

طلسمِ ہوش ربا ہے دکانِ بادہ فروش

مصطفٰی خان شیفتہ ۔ غزل نمبر 53
اُٹھے نہ چھوڑ کے ہم آستانِ بادہ فروش
طلسمِ ہوش ربا ہے دکانِ بادہ فروش
کھلا جو پردہ روئے حقائقِ اشیاء
کھلی حقیقتِ رازِ نہانِ بادہ فروش
فسردہ طینتی و کاہلی سے ہم نے کبھی
شباب میں بھی نہ دیکھی دکانِ بادہ فروش
یقین ہے کہ مئے ناب مفت ہاتھ آئے
یہ جی میں ہے کہ بنوں میہمانِ بادہ فروش
قدح سے دل ہے مراد اور مے سے عشق غرض
میں وہ نہیں کہ نہ سمجھوں زبانِ بادہ فروش
عجب نہیں کہ کسی روز وہ بھی آ نکلیں
کہ ہے گزرگہِ خلق، آستانِ بادہ فروش
مے و سرود کے اسرار آپ آ کر دیکھ
نہ پوچھ مجھ سے کہ ہوں راز دانِ بادہ فروش
شراب دیکھ کہ کس رنگ کی پلاتا ہے
جز اس کے اور نہیں امتحانِ بادہ فروش
تری شمیم نے گلزار کو کیا برباد
تری نگاہ نے کھولی دکانِ بادہ فروش
عبث ہے شیفتہ ہر اک سے پوچھتے پھرنا
ملے گا بادہ کشوں سے نشانِ بادہ فروش
مصطفٰی خان شیفتہ

وہ کون سی زمیں ہے جہاں آسماں نہیں

داغ دہلوی ۔ غزل نمبر 40
دنیا میں آدمی کو مصیبت کہاں‌ نہیں
وہ کون سی زمیں ہے جہاں آسماں نہیں
کس طرح جان دینے کے اقرار سے پھروں
میری زبان ہے یہ تمہاری زباں نہیں
اے موت تو نے دیر لگائی ہے کس لیئے
عاشق کا امتحان ہے تیرا امتحان نہیں
تنہا بھی جب رہے تو وہ رہتے ہیں‌ہوشیار
خود اپنے پاسباں‌ ہیں اگر پاسباں نہیں
ایسا خط اُن کو راہ میں‌ ملتا ہے روز ایک
جس میں‌کسی کا نام کسی کا نشاں نہیں
داغ دہلوی

اور پھر کم ہی دھیان میں رکھا

جون ایلیا ۔ غزل نمبر 34
اُس نے ہم کو گمان میں رکھا
اور پھر کم ہی دھیان میں رکھا
کیا قیامت نمو تھی وہ جس نے
حشر اُس کی اٹھان میں رکھا
جوششِ خوں نے اپنے فن کا حساب
ایک چوپ، ایک چٹان میں رکھا
لمحے لمحے کی اپنی تھی اک شان
تو نہ ہی ایک شان میں رکھا
ہم نے پیہم قبول و رد کر کے
اُس کو ایک امتحان میں رکھا
تم تو اُس یاد کی امان میں ہو
اُس کو کس کی امان میں رکھا
اپنا رشتہ زمیں سے ہی رکھو
کچھ نہیں آسمان میں رکھا
جون ایلیا

خالی ہوا جہاں جو گئے ہم جہان سے

دیوان ششم غزل 1890
لے عشق میں گئے دل پر اپنی جان سے
خالی ہوا جہاں جو گئے ہم جہان سے
دل میں مسودے تھے بہت پر حضور یار
نکلا نہ ایک حرف بھی میری زبان سے
ٹک دل سے آئو آنکھوں میں ہے دید کی جگہ
بہتر نہیں مکان کوئی اس مکان سے
اول زمینیوں میں ہو مائل مری طرف
جو حادثہ نزول کرے آسمان سے
یہ وہم ہے کہ آنکھیں مری لگ گئیں کہیں
تم مار ڈالیو نہ مجھے اس گمان سے
کھل جائیں گی تب آنکھیں جو مرجاوے گا کوئی
تم باز نئیں ہو آتے مرے امتحان سے
نامہربانی نے تو تمھاری کیا ہلاک
اب لگ چلیں گے اور کسی مہربان سے
زنبورخانہ چھاتی غم دوری سے ہوئی
وے ہم تلک نہ آئے کبھو کسر شان سے
تاثیر کیا کرے سخن میر یار میں
جب دیکھو لگ رہا ہے کوئی اس کے کان سے
میر تقی میر

آئو بھلا کبھو تو سو جائو زبان کر

دیوان دوم غزل 815
رہ جائوں چپ نہ کیونکے برا جی میں مان کر
آئو بھلا کبھو تو سو جائو زبان کر
کہتے ہیں چلتے وقت ملاقات ہے ضرور
جاتے ہیں ہم بھی جان سے ٹک دیکھو آن کر
کیا لطف تھا کہ میکدے کی پشت بام پر
سوتے تھے مست چادر مہتاب تان کر
آیا نہ چل کے یاں تئیں وہ باعث حیات
مارا ہے ان نے جان سے ہم کو تو جان کر
ایسے ہی تیز دست ہو خونریزی میں تو پھر
رکھوگے تیغ جور کی یک چند میان کر
یہ بے مروتی کہ نگہ کا مضائقہ
اتنا تو میری جان نہ مجھ سے سیان کر
رنگین گور کرنی شہیدوں کی رسم ہے
تو بھی ہماری خاک پہ خوں کے نشان کر
رکھنا تھا وقت قتل مرا امتیاز ہائے
سو خاک میں ملایا مجھے سب میں سان کر
تم تیغ جور کھینچ کے کیا سوچ میں گئے
مرنا ہی اپنا جی میں ہم آئے ہیں ٹھان کر
وے دن گئے کہ طاقت دل کا تھا اعتماد
اب یوں کھڑے کھڑے نہ مرا امتحان کر
اس گوہر مراد کو پایا نہ ہم نے میر
پایان کار مر گئے یوں خاک چھان کر
میر تقی میر

رکھے نہ تم نے کان ٹک اس داستان پر

دیوان دوم غزل 805
آغشتہ خون دل سے سخن تھے زبان پر
رکھے نہ تم نے کان ٹک اس داستان پر
کچھ ہورہے گا عشق و ہوس میں بھی امتیاز
آیا ہے اب مزاج ترا امتحان پر
یہ دلبری کے فن و فریب اتنی عمر میں
جھنجھلاہٹ اب تو آوے ہے اس کے سیان پر
محتاج کر خدا نہ نکالے کہ جوں ہلال
تشہیر کون شہر میں ہو پارہ نان پر
دیکھا نہ ہم نے چھوٹ میں یاقوت کی کبھو
تھا جو سماں لبوں کے ترے رنگ پان پر
کیا رہروان راہ محبت ہیں طرفہ لوگ
اغماض کرتے جاتے ہیں جی کے زیان پر
پہنچا نہ اس کی داد کو مجلس میں کوئی رات
مارا بہت پتنگ نے سر شمع دان پر
یہ چشم شوق طرفہ جگہ ہے دکھائو کی
ٹھہرو بقدر یک مژہ تم اس مکان پر
بزاز کے کو دیکھ کے خرقے بہت پھٹے
بیٹھا وہ اس قماش سے آکر دکان پر
موزوں کرو کچھ اور بھی شاید کہ میر جی
رہ جائے کوئی بات کسو کی زبان پر
میر تقی میر

پر یہ تیرا نہ امتحان گیا

دیوان دوم غزل 739
سینکڑوں بیکسوں کا جان گیا
پر یہ تیرا نہ امتحان گیا
واے احوال اس جفاکش کا
عاشق اپنا جسے وہ جان گیا
داغ حرماں ہے خاک میں بھی ساتھ
جی گیا پر نہ یہ نشان گیا
کل نہ آنے میں ایک یاں تیرے
آج سو سو طرف گمان گیا
حرف نشنو کوئی اسے بھی ملا
تب تو میں نے کہا سو مان گیا
دل سے مت جا کہ پھر وہ پچھتایا
ہاتھ سے جس کے یہ مکان گیا
پھرتے پھرتے تلاش میں اس کی
ایک میرا ہی یوں نہ جان گیا
اب جو عیسیٰ ؑ فلک پہ ہے وہ بھی
شوق میں برسوں خاک چھان گیا
کون جی سے نہ جائے گا اے میر
حیف یہ ہے کہ تو جوان گیا
میر تقی میر

یہ بلا آسمان پر آئی

دیوان اول غزل 436
آہ میری زبان پر آئی
یہ بلا آسمان پر آئی
عالم جاں سے تو نہیں آیا
ایک آفت جہان پر آئی
پیری آفت ہے پھر نہ تھا گویا
یہ بلا جس جوان پر آئی
ہم بھی حاضر ہیں کھینچیے شمشیر
طبع گر امتحان پر آئی
تب ٹھکانے لگی ہماری خاک
جب ترے آستان پر آئی
آتش رنگ گل سے کیا کہیے
برق تھی آشیان پر آئی
طاقت دل برنگ نکہت گل
پھیر اپنے مکان پر آئی
ہو جہاں میر اور غم اس کا
جس سے عالم کی جان پر آئی
میر تقی میر

یہ وہ نہیں متاع کہ ہو ہر دکان میں

دیوان اول غزل 300
نکلے ہے جنس حسن کسی کاروان میں
یہ وہ نہیں متاع کہ ہو ہر دکان میں
جاتا ہے اک ہجوم غم عشق جی کے ساتھ
ہنگامہ لے چلے ہیں ہم اس بھی جہان میں
یارب کوئی تو واسطہ سرگشتگی کا ہے
یک عشق بھر رہا ہے تمام آسمان میں
ہم اس سے آہ سوز دل اپنا نہ کہہ سکے
تھے آتش دروں سے پھپھولے زبان میں
غم کھینچنے کو کچھ تو توانائی چاہیے
سویاں نہ دل میں تاب نہ طاقت ہے جان میں
غافل نہ رہیو ہم سے کہ ہم وے نہیں رہے
ہوتا ہے اب تو حال عجب ایک آن میں
وے دن گئے کہ آتش غم دل میں تھی نہاں
سوزش رہے ہے اب تو ہر اک استخوان میں
دل نذر و دیدہ پیش کش اے باعث حیات
سچ کہہ کہ جی لگے ہے ترا کس مکان میں
کھینچا نہ کر تو تیغ کہ اک دن نہیں ہیں ہم
ظالم قباحتیں ہیں بہت امتحان میں
پھاڑا ہزار جا سے گریبان صبر میر
کیا کہہ گئی نسیم سحر گل کے کان میں
میر تقی میر

انجان اتنے کیوں ہوئے جاتے ہو جان کر

دیوان اول غزل 226
جھوٹے بھی پوچھتے نہیں ٹک حال آن کر
انجان اتنے کیوں ہوئے جاتے ہو جان کر
وے لوگ تم نے ایک ہی شوخی میں کھو دیے
پیدا کیے تھے چرخ نے جو خاک چھان کر
جھمکے دکھاکے باعث ہنگامہ ہی رہے
پر گھر سے در پہ آئے نہ تم بات مان کر
کہتے نہ تھے کہ جان سے جاتے رہیں گے ہم
اچھا نہیں ہے آ نہ ہمیں امتحان کر
کم گو جو ہم ہوئے تو ستم کچھ نہ ہو گیا
اچھی نہیں یہ بات مت اتنی زبان کر
ہم وے ہیں جن کے خوں سے تری راہ سب ہے گل
مت کر خراب ہم کو تو اوروں میں سان کر
تا کشتۂ وفا مجھے جانے تمام خلق
تربت پہ میری خون سے میرے نشان کر
ناز و عتاب و خشم کہاں تک اٹھایئے
یارب کبھو تو ہم پہ اسے مہربان کر
افسانے ما و من کے سنیں میر کب تلک
چل اب کہ سوویں منھ پہ دوپٹے کو تان کر
میر تقی میر

جگر مرغ جان سے نکلا

دیوان اول غزل 38
تیر جو اس کمان سے نکلا
جگر مرغ جان سے نکلا
نکلی تھی تیغ بے دریغ اس کی
میں ہی اک امتحان سے نکلا
گو کٹے سر کہ سوز دل جوں شمع
اب تو میری زبان سے نکلا
آگے اے نالہ ہے خدا کا ناؤں
بس تو نُہ آسمان سے نکلا
چشم و دل سے جو نکلا ہجراں میں
نہ کبھو بحر و کان سے نکلا
مر گیا جو اسیر قید حیات
تنگناے جہان سے نکلا
دل سے مت جا کہ حیف اس کا وقت
جو کوئی اس مکان سے نکلا
اس کی شیریں لبی کی حسرت میں
شہد پانی ہو شان سے نکلا
نامرادی کی رسم میر سے ہے
طور یہ اس جوان سے نکلا
میر تقی میر

سائرن بھی، اذان بھی، ہم بھی

مجید امجد ۔ غزل نمبر 114
جنگ بھی، تیرا دھیان بھی، ہم بھی
سائرن بھی، اذان بھی، ہم بھی
سب تری ہی اماں میں شب بیدار
مورچے بھی، مکان بھی، ہم بھی
تیری منشاؤں کے محاذ پہ ہیں
چھاؤنی کے جوان بھی، ہم بھی
دیکھنے والے، یہ نظارہ بھی دیکھ
عزم بھی، امتحان بھی، ہم بھی
اک عجب اعتماد سینوں میں
فتح کا یہ نشان بھی، ہم بھی
تو بھی اور تیری نصرتوں کے ساتھ
شہر میں ٹکا خان بھی، ہم بھی
مجید امجد