ٹیگ کے محفوظات: الوطن

سخن کدہ مری طرزِ سخن کو ترسے گا

زباں سخن کو سخن بانکپن کو ترسے گا
سخن کدہ مری طرزِ سخن کو ترسے گا
نئے پیالے سہی تیرے دَور میں ساقی
یہ دَور میری شرابِ کہن کو ترسے گا
مجھے تو خیر وطن چھوڑ کر اماں نہ ملی
وطن بھی مجھ سے غریب الوطن کو ترسے گا
انہی کے دم سے فروزاں ہیں ملتوں کے چراغ
زمانہ صحبتِ اربابِ فن کو ترسے گا
بدل سکو تو بدل دو یہ باغباں ورنہ
یہ باغ سایہِ سرو و سمن کو ترسے گا
ہوائے ظلم یہی ہے تو دیکھنا اِک دن
زمین پانی کو سورج کرن کو ترسے گا
ناصر کاظمی

جانا ہی تھا ہمیں بھی بہار چمن کے ساتھ

دیوان ششم غزل 1869
اب دل خزاں میں رہتا ہے جی کی رکن کے ساتھ
جانا ہی تھا ہمیں بھی بہار چمن کے ساتھ
کب تک خراب شہر میں اس کے پھرا کریں
اب جاویں یاں سے کوئی غریب الوطن کے ساتھ
ہم باغ سے خزاں میں گئے پر ہزار حیف
جانا بنا نہ اپنا گل و یاسمن کے ساتھ
لکنت سے کیا نکلتی نہیں اس کے منھ سے بات
چپکا ہے حرف یار کے شیریں دہن کے ساتھ
جی خواب مرگ لے گئی حسرت ہی میں ندان
اک شب نہ سوئے ہم کسو گل پیرہن کے ساتھ
جی پھٹ گیا ہے رشک سے چسپاں لباس کے
کیا تنگ جامہ لپٹا ہے اس کے بدن کے ساتھ
کیا جانیں لوگ عشق کا راز و نیاز میر
اک بات اس سے ہو گئی دو دو بچن کے ساتھ
میر تقی میر

کہے یہ بات غریب الوطن ، وطن والو

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 227
مسافرت ہی ہے رنج و محن ، وطن والو
کہے یہ بات غریب الوطن ، وطن والو
سویر ے پھرتے ہیں باغِ جناح میں کیا کیا
بڑی حسین ہے صبحِ چمن وطن والو
جہاں کی ساری بہاروں سے خوبصورت ہیں
ہمارے اپنے یہ برگ و سمن وطن والو
زمانے بھرسے ملائم ہیں نرم و نازک ہیں
زبانیں اپنی یہ اپنے سخن وطن والو
یہ شاعری ہے تمہاری ، تمہاری خاطر ہے
یہ گفتگو یہ جگرکی جلن وطن والو
تم اس سے تازہ زمانہ خرید سکتے ہو
اٹھالو میرے قلم کایہ دھن وطن والو
تمہیں مٹانے کی کوشش میں کیا جہاں والے
تم آپ خودسے ہوشمشیرزن وطن والو
وطن میں ایک نئے دور کیلئے منصور
ضروری ہو گیا دیوانہ پن وطن والو
منصور آفاق