ٹیگ کے محفوظات: اللہ

کس کو سیراب کرے وہ کسے پیاسا رکھے

احمد فراز ۔ غزل نمبر 136
ہر کوئی دل کی ہتھیلی پہ ہے صحرا رکھے
کس کو سیراب کرے وہ کسے پیاسا رکھے
عمر بھر کون نبھاتا ہے تعلق اتنا
اے مری جان کے دشمن تجھے اللہ رکھے
ہم کو اچھا نہیں لگتا کوئی ہم نام ترا
کوئی تجھ سا ہو تو پھر نام بھی تجھ سا رکھے
دل بھی پاگل ہے کہ اس شخص سے وابستہ ہے
جو کسی اور کا ہونے دے نہ اپنا رکھے
ہنس نہ اتنا بھی فقیروں کے اکیلے پن پر
جا، خدا میری طرح تجھ کو بھی تنہا رکھے
یہ قناعت ہے اطاعت ہے کہ چاہت ہے فراز
ہم تو راضی ہیں وہ جس حال میں جیسا رکھے
احمد فراز

بے غم کرو خوں ریزی خوں خواہ نہیں کوئی

دیوان پنجم غزل 1774
بے یار ہوں بیکس ہوں آگاہ نہیں کوئی
بے غم کرو خوں ریزی خوں خواہ نہیں کوئی
کیا تنگ مخوف ہے اس نیستی کا رستہ
تنہا پڑا ہے جانا ہمراہ نہیں کوئی
موہوم ہے ہستی تو کیا معتبری اس کی
ہے گاہ اگر کوئی تو گاہ نہیں کوئی
فرہاد کو مجنوں کو موت آگئی ہے آگے
کس سے کہیں درد دل اب آہ نہیں کوئی
میر اتنی سماجت جو بندوں سے تو کرتا ہے
دنیا میں مگر تیرا اللہ نہیں کوئی
میر تقی میر

قدر بہت ہی کم ہے دل کی پر دل میں ہے چاہ بہت

دیوان چہارم غزل 1364
دل نے کام کیے ہیں ضائع دلبر ہے دل خواہ بہت
قدر بہت ہی کم ہے دل کی پر دل میں ہے چاہ بہت
راہ کی بات سنی بھی ہے تو جانا حرف غریب اس کو
خوبی پر اپنی حسن پر اپنے پھرتا ہے گمراہ بہت
حیرانی ہے کیونکر ہووے نسبت اپنی اس سے درست
بندہ تو ہے عاجز عاجز اس کو غرور اللہ بہت
شوق کا خط طومار ہوا تھا ہاتھ میں لے کر کھولا جب
کہنے لگا کیا کرنے لکھے ہے اب تو نامہ سیاہ بہت
سب کہتے ہیں روے توجہ ایدھر کرنے کہتا تھا
شاید یوں بھی ظاہر ہووے ہے تو سہی افواہ بہت
اب تو پیر ہی حضرت ہوکر ایک کنارے بیٹھے ہیں
جب تھی جوانی تب تو ہم بھی جاتے تھے درگاہ بہت
کیا گذری ہے جی پہ تمھارے ہم سے تو کچھ میر کہو
آنے لگی ہے درد و الم سے صاحب لب پر آہ بہت
میر تقی میر

فقیروں کی اللہ اللہ ہے

دیوان سوم غزل 1289
چلے ہم اگر تم کو اکراہ ہے
فقیروں کی اللہ اللہ ہے
نہ افسر ہے نے درد سر نے کلہ
کہ یاں جیسا سر ویسا سرواہ ہے
جہاں لگ چلے گل سے ہم داغ ہیں
اگرچہ صبا بھی ہواخواہ ہے
غم عشق ہے ناگہانی بلا
جہاں دل لگا کڑھنا جانکاہ ہے
چراغان گل سے ہے کیا روشنی
گلستاں کسو کی قدم گاہ ہے
محبت ہے دریا میں جا ڈوبنا
کنوئیں میں بھی گرنا یہی چاہ ہے
کلی سا ہے کہتے ہیں منھ یار کا
نہیں معتبر کچھ یہ افواہ ہے
نہ کی کوتہی بت پرستی میں کچھ
خدا اس عقیدے سے آگاہ ہے
گیا میر کے جی کی سن کر وہ شوخ
لگا کہنے سب کو یہی راہ ہے
میر تقی میر

یار تک پھر تو کس قدر ہے راہ

دیوان سوم غزل 1243
رستے سے چاک دل کے ہو آگاہ
یار تک پھر تو کس قدر ہے راہ
رہتی ہے خلق آہ شب سے تنگ
وے نہیں سنتے میری بات اللہ
آنکھ اس منھ پہ کس طرح کھولوں
جوں پلک جل رہی ہے میری نگاہ
خط مرا دیکھ دیکھ کہنے لگا
ہائے کیا کیا لکھے ہے نامہ سیاہ
ہیں مسلمان ان بتوں سے ہمیں
عشق ہے لا الٰہ الا اللہ
پلکیں اس طور روتے روتے گئیں
سبزہ ہوتا ہے جس طرح لب چاہ
میر کعبے سے قصد دیر کیا
جائو پیارے بھلا خدا ہمراہ
میر تقی میر

ہمیشہ رہے نام اللہ کا

دیوان سوم غزل 1065
گیا حسن خوبان بد راہ کا
ہمیشہ رہے نام اللہ کا
پشیماں ہوا دوستی کر کے میں
بہت مجھ کو ارمان تھا چاہ کا
جگر کی سپر پھوٹ جانے لگی
بلا توڑ ہے ناوک آہ کا
اسیری کا دیتا ہے مژدہ مجھے
مرا زمزمہ گاہ و بیگاہ کا
رہوں جا کے مر حضرت یار میں
یہی قصد ہے بندہ درگاہ کا
کہا ہو دم قتل کچھ تو کہے
جواب اس کو کیا میرے خونخواہ کا
عدم کو نہیں مل کے جاتے ہیں لوگ
غم اس راہ میں کیا ہے ہمراہ کا
نظر خواب میں اس کے منھ پر پڑی
بہت خوب ہے دیکھنا ماہ کا
لگونہی اگر آنکھ تیری ہو میر
تماشا کر اس کی نظرگاہ کا
میر تقی میر

کس قدر مغرور ہے اللہ تو

دیوان دوم غزل 912
ملتفت ہوتا نہیں ہے گاہ تو
کس قدر مغرور ہے اللہ تو
مجھ سے کتنے جان سے جاتے رہے
کس کی میت کے گیا ہمراہ تو
بے خودی رہتی ہے اب اکثر مجھے
حال سے میرے نہیں آگاہ تو
اس کے دل میں کام کرنا کام ہے
یوں فلک پر کیوں نہ جا اے آہ تو
فرش ہیں آنکھیں ہی تیری راہ میں
آہ ٹک تو دیکھ کر چل راہ تو
جی تلک تو منھ نہ موڑیں تجھ سے ہم
کر جفا و جور خاطر خواہ تو
کاہش دل بھی دو چنداں کیوں نہ ہو
آنکھ میں آوے نہ دو دو ماہ تو
دل دہی کیا کی ہے یوں ہی چاہیے
اے زہے تو آفریں تو واہ تو
میر تو تو عاشقی میں کھپ گیا
مت کسی کو چند روز اب چاہ تو
میر تقی میر

شمع مزار میر بجز آہ کون ہے

دیوان اول غزل 576
مجھ سوز بعد مرگ سے آگاہ کون ہے
شمع مزار میر بجز آہ کون ہے
بیکس ہوں مضطرب ہوں مسافر ہوں بے وطن
دوری راہ بن مرے ہمراہ کون ہے
لبریز جس کے حسن سے مسجد ہے اور دیر
ایسا بتوں کے بیچ وہ اللہ کون ہے
رکھیو قدم سنبھل کے کہ تو جانتا نہیں
مانند نقش پا یہ سر راہ کون ہے
ایسا اسیر خستہ جگر میں سنا نہیں
ہر آہ میر جس کی ہے جانکاہ کون ہے
میر تقی میر

گل اک دل ہے جس میں تری چاہ ہے

دیوان اول غزل 482
چمن یار تیرا ہواخواہ ہے
گل اک دل ہے جس میں تری چاہ ہے
سراپا میں اس کے نظر کرکے تم
جہاں دیکھو اللہ اللہ ہے
تری آہ کس سے خبر پایئے
وہی بے خبر ہے جو آگاہ ہے
مرے لب پہ رکھ کان آواز سن
کہ اب تک بھی یک ناتواں آہ ہے
گذر سر سے تب عشق کی راہ چل
کہ ہر گام یاں اک خطر گاہ ہے
کبھو وادی عشق دکھلایئے
بہت خضر بھی دل میں گمراہ ہے
جہاں سے تو رخت اقامت کو باندھ
یہ منزل نہیں بے خبر راہ ہے
نہ شرمندہ کر اپنے منھ سے مجھے
کہا میں نے کب یہ کہ تو ماہ ہے
یہ وہ کارواں گاہ دلکش ہے میر
کہ پھر یاں سے حسرت ہی ہمراہ ہے
میر تقی میر

کیا پوچھتے ہو الحمدللہ

دیوان اول غزل 424
اب حال اپنا اس کے ہے دل خواہ
کیا پوچھتے ہو الحمدللہ
مر جائو کوئی پروا نہیں ہے
کتنا ہے مغرور اللہ اللہ
پیر مغاں سے بے اعتقادی
استغفر اللہ استغفر اللہ
کہتے ہیں اس کے تو منھ لگے گا
ہو یوں ہی یارب جوں ہے یہ افواہ
حضرت سے اس کی جانا کہاں ہے
اب مر رہے گا یاں بندہ درگاہ
سب عقل کھوئے ہے راہ محبت
ہو خضر دل میں کیسا ہی گمراہ
مجرم ہوئے ہم دل دے کے ورنہ
کس کو کسو سے ہوتی نہیں چاہ
کیا کیا نہ ریجھیں تم نے پچائیں
اچھا رجھایا اے مہرباں آہ
گذرے ہے دیکھیں کیونکر ہماری
اس بے وفا سے نے رسم نے راہ
تھی خواہش دل رکھنا حمائل
گردن میں اس کی ہر گاہ و بیگاہ
اس پر کہ تھا وہ شہ رگ سے اقرب
ہرگز نہ پہنچا یہ دست کوتاہ
ہے ماسوا کیا جو میر کہیے
آگاہ سارے اس سے ہیں آگاہ
جلوے ہیں اس کے شانیں ہیں اس کی
کیا روز کیا خور کیا رات کیا ماہ
ظاہر کہ باطن اول کہ آخر
اللہ اللہ اللہ اللہ
میر تقی میر

خاک افتادہ ہوں میں بھی اک فقیر اللہ کا

دیوان اول غزل 35
مت ہو دشمن اے فلک مجھ پائمال راہ کا
خاک افتادہ ہوں میں بھی اک فقیر اللہ کا
سینکڑوں طرحیں نکالیں یار کے آنے کی لیک
عذر ہی جا ہے چلا اس کے دل ناخواہ کا
گر کوئی پیرمغاں مجھ کو کرے تو دیکھے پھر
میکدہ سارے کا سارا صرف ہے اللہ کا
کاش تیرے غم رسیدوں کو بلاویں حشر میں
ظلم ہے یک خلق پرآشوب ان کی آہ کا
جو سنا ہشیار اس میخانے میں تھا بے خبر
شوق ہی باقی رہا ہم کو دل آگاہ کا
باندھ مت رونے کا تار اے ناقباحت فہم چشم
اس سے پایا جائے ہے سر رشتہ جی کی چاہ کا
شیخ مت کر ذکر ہر ساعت قیامت کا کہ ہے
عرصۂ محشر نمونہ اس کی بازی گاہ کا
شہر میں کس منھ سے آوے سامنے تیرے کہ شوخ
جھائیوں سے بھر رہا ہے سارا چہرہ ماہ کا
سرفرو لاتی نہیں ہمت مری ہر اک کے پاس
ہوں گداے آستاں میں میر حضرت شاہ کا
میر تقی میر