ٹیگ کے محفوظات: الفت

جس کسی کے ساتھ مل بیٹھے اسی سے تم کو اُلفت ہو گئی

چند لمحوں کا تصرّف کیا ہوا ان سے عقیدت ہو گئی
جس کسی کے ساتھ مل بیٹھے اسی سے تم کو اُلفت ہو گئی
اس طرح اکثر ہوا ہے دشمنوں کی خواہشوں کا احترام
جو بھی شے مرغوب تھی ان کو مجھے بھی اس سے رغبت ہو گئی
کل تلک ہر خواہشِ پُرکار بھی میری گوارا تھی انھیں
آج اک معصوم سی لغزش سزاوارِ شکایت ہو گئی
میں سمجھتا ہوں کہ ان پر اپنی خامی کا ہوا ہے انکشاف
لوگ کہتے ہیں مرے حالِ زُبوں سے ان کو نفرت ہو گئی
شکیب جلالی

اشکِ خوں سے آ گئیں رنگینیاں صحبت کی یاد

مصطفٰی خان شیفتہ ۔ غزل نمبر 46
روزِ غم میں کیا قیامت ہے شبِ عشرت کی یاد
اشکِ خوں سے آ گئیں رنگینیاں صحبت کی یاد
میری حالت دیکھ لو تغئیر کتنی ہو چکی
وصل کے دن دم بہ دم کیوں شیشۂ ساعت کی یاد
میں ہوں بے کس اور بے کس پر ترحم ہے ضرور
حسنِ روز افزوں دلا دینا مری حالت کی یاد
طاقتِ جنبش نہیں اس حال پہ قصدِ عدم
مر گئے پر بھی رہے گی اپنی اس ہمت کی یاد
غالباً ایامِ حرماں بے خودی میں کٹ گئے
آتی ہے پھر آرزو بھولی ہوئی مدت کی یاد
دل لگانے کا ارادہ پھر ہے شائد شیفتہ
ایسی حسرت سے جو ہے گزری ہوئی الفت کی یاد
مصطفٰی خان شیفتہ

کیجے ہمارے ساتھ، عداوت ہی کیوں نہ ہو

دیوانِ غالب ۔ غزل نمبر 148
وارستہ اس سے ہیں کہ محبّت ہی کیوں نہ ہو
کیجے ہمارے ساتھ، عداوت ہی کیوں نہ ہو
چھوڑا نہ مجھ میں ضعف نے رنگ اختلاط کا
ہے دل پہ بار، نقشِ محبّت ہی کیوں نہ ہو
ہے مجھ کو تجھ سے تذکرۂ غیر کا گلہ
ہر چند بر سبیلِ شکایت ہی کیوں نہ ہو
پیدا ہوئی ہے، کہتے ہیں، ہر درد کی دوا
یوں ہو تو چارۂ غمِ الفت ہی کیوں نہ ہو
ڈالا نہ بیکسی نے کسی سے معاملہ
اپنے سے کھینچتا ہوں خجالت ہی کیوں نہ ہو
ہے آدمی بجائے خود اک محشرِ خیال
ہم انجمن سمجھتے ہیں خلوت ہی کیوں نہ ہو
ہنگامۂ زبونئِ ہمّت ہے، انفعال
حاصل نہ کیجے دہر سے، عبرت ہی کیوں نہ ہو
وارستگی بہانۂ بیگانگی نہیں
اپنے سے کر، نہ غیر سے، وحشت ہی کیوں نہ ہو
مٹتا ہے فوتِ فرصتِ ہستی کا غم کوئی ؟
عمرِ عزیز صَرفِ عبادت ہی کیوں نہ ہو
اس فتنہ خو کے در سے اب اٹھتے نہیں اسدؔ
اس میں ہمارے سر پہ قیامت ہی کیوں نہ ہو
مرزا اسد اللہ خان غالب

کہیں اپنے رونے سے فرصت ہے مجھ کو

دیوان پنجم غزل 1707
کیا فرض ہستی کی رخصت ہے مجھ کو
کہیں اپنے رونے سے فرصت ہے مجھ کو
پھروں ہوں ترے عشق میں کوچہ کوچہ
مگر کوچہ گردی سے الفت ہے مجھ کو
کہاں زندگی مدت العمر ظالم
ترے عشق میں دم غنیمت ہے مجھ کو
نہ کر شور ناصح بہت ناتواں ہوں
کہاں بات اٹھانے کی طاقت ہے مجھ کو
ہیں اسباب مرنے کے سب تیرے غم میں
جیا اب تلک کیونکے حیرت ہے مجھ کو
دل اتنا ہے آشفتہ خورشیدرو کا
کہ اپنے بھی سائے سے وحشت ہے مجھ کو
کڑھوں ہوں گا من مانتا میر صاحب
غم یار میں کیا فراغت ہے مجھ کو
میر تقی میر

چاروں اور نگہ کرنے میں عالم عالم حسرت تھی

دیوان چہارم غزل 1533
آج ہمیں بیتابی سی ہے صبر کی دل سے رخصت تھی
چاروں اور نگہ کرنے میں عالم عالم حسرت تھی
کس محنت سے محبت کی تھی کس خواری سے یاری کی
رنج ہی ساری عمر اٹھایا کلفت تھی یا الفت تھی
بدنامی کیا عشق کی کہیے رسوائی سی رسوائی ہے
صحرا صحرا وحشت بھی تھی دنیا دنیا تہمت تھی
راہ کی کوئی سنتا نہ تھا یاں رستے میں مانند جرس
شور سا کرتے جاتے تھے ہم بات کی کس کو طاقت تھی
عہد ہمارا تیرا ہے یہ جس میں گم ہے مہر و وفا
اگلے زمانے میں تو یہی لوگوں کی رسم و عادت تھی
خالی ہاتھ سیہ رو ایسے کاہے کو تھے گریہ کناں
جن روزوں درویش ہوئے تھے پاس ہمارے دولت تھی
جو اٹھتا ہے یاں سے بگولا ہم سا ہے آوارہ کوئی
اس وادی میں میر مگر سرگشتہ کسو کی تربت تھی
میر تقی میر

وے اندھیری مینھ برسے جوں کبھو شدت سے یاں

دیوان چہارم غزل 1459
ہجر میں روتا ہوں ہر شب میں تو اس صورت سے یاں
وے اندھیری مینھ برسے جوں کبھو شدت سے یاں
کس قدر بیگانہ خو ہیں مردمان شہرحسن
بات کرنا رسم و عادت ہی نہیں الفت سے یاں
اٹھ گئے ہیں جب سے ہم سونا پڑا ہے باغ سب
شور ہنگام سحر کا مہر ہے مدت سے یاں
سر کوئی پھوڑے محبت میں تو بارے اس طرح
مر گیا ہے عشق میں فرہاد جس قدرت سے یاں
دلکشی اس بزم کی ظاہر ہے تم دیکھو تو ہو
لوگ جی دیتے چلے جاتے ہیں کس حسرت سے یاں
صورتوں سے خاکداں یہ عالم تصویر ہے
بولیں کیا اہل نظر خاموش ہیں حیرت سے یاں
فہم حرفوں کے تنافر کا بھی یاروں کو نہیں
اس پہ رکھتے ہیں تنفر سب مری صحبت سے یاں
پنج روزہ عمر کریے عاشقی یا زاہدی
کام کچھ چلتا نہیں اس تھوڑی سی مہلت سے یاں
کیا سرجنگ و جدل ہو بے دماغ عشق کو
صلح کی ہے میر نے ہفتاد و دو ملت سے یاں
میر تقی میر

دے کسے فرصت سپہر دوں ہے کم فرصت بہت

دیوان چہارم غزل 1362
دیر کب رہنا ملے ہے یاں نہیں مہلت بہت
دے کسے فرصت سپہر دوں ہے کم فرصت بہت
کم نہیں دیوانہ ہونا بھی ہمارا دفعتہ
ڈریے ہوجاوے خردور کی جو پلٹے مت بہت
گریہ و زاری سے روز وشب کی شکوے کچھ نہیں
مجھ کو رونا یہ ہے جی کو اس سے ہے الفت بہت
کیا وداع اس یار کے کوچے سے ہم مشکل ہوئے
زار باراں لوگ روتے تھے دم رخصت بہت
بعد مرگ آنکھیں کھلی رہنے سے یہ جانا گیا
دیکھنے کی اس کے میرے جی میں تھی حسرت بہت
سن کے ضائع روزگاری اس کی جی لایا نہ تاب
آپ کو کر بیٹھے ضائع ہم کو تھی غیرت بہت
آنکھیں جاتی ہیں مندی ضعف دلی سے دم بہ دم
ان دنوں ان کو بھی ایدھر ہی سے ہے غفلت بہت
دل گئے پر آج کل سے چپ نہیں مجھ کو لگی
گذری اس بھی بات کو اے ہم نفس مدت بہت
دل میں جا کرتا ہے طورمیر شاید دوستاں
ان نے صاحب دل کسو سے رکھی ہے صحبت بہت
میر تقی میر

دل نہ رہے جو ہاتھ رکھے تو سماجت ات گت مت کریو

دیوان سوم غزل 1240
آج ہمارا جی بے کل ہے تم بھی غفلت مت کریو
دل نہ رہے جو ہاتھ رکھے تو سماجت ات گت مت کریو
ڈھیری رہے اک خاک کی تو کیا ایسے خاک برابر کی
مجھ کو زمیں میں گاڑوگے تو نشان تربت مت کریو
ایسی جان کہاں ہے ہم میں رنج نہ دینا ہاتھوں کو
ایک ہی وار میں ہو چکیے گا دوسری ضربت مت کریو
ہم کو تو مارا عشق نے آخر پر یہ وصیت یاد رہے
دیر جہاں میں تم جو ہو تو کسو سے الفت مت کریو
میری طرف کی یارو اس سے بات کوئی کہتے ہو کہو
مانے نہ مانے وہ جانے پھر تم بھی منت مت کریو
کہیے سو کیا اب چپکے دیکھو گو میں اس میں مر جائوں
تم کو قسم ہے حرف و سخن کی مجھ سے مروت مت کریو
ہوش نہیں اپنا تو ہمیں ٹک میر آئے ہیں پرسش کو
جانے سے آگے ان کو ہمارے پیارے رخصت مت کریو
میر تقی میر

تب کسی ناآشناے مہر سے الفت کرو

دیوان سوم غزل 1227
کھینچنا رنج و تعب کا دوستاں عادت کرو
تب کسی ناآشناے مہر سے الفت کرو
روٹھ کر منتا نہیں وہ شوخ یوں کیوں نہ کوئی
عذر چاہو دیر تک مدت تلک منت کرو
کب تک اے صورت گراں حیراں پھروں بے روے یار
نقش اس کا کھینچ رکھنے کی کوئی صورت کرو
انس اگر ان نوخطان شہر سے منظور ہے
اپنی پرچھائیں سے بھی جوں خامہ تم وحشت کرو
کچھ نہ پوچھو صحبت دیروزہ کی کم فرصتی
جوں ہی جا بیٹھے لگا کہنے انھیں رخصت کرو
عشق میں کیا دخل ہے نازک مزاجی کے تئیں
کوہکن کے طور سے جی توڑ کر محنت کرو
پہلے دیوانے ہوئے پھر میر آخر ہو گئے
ہم نہ کہتے تھے کہ صاحب عاشقی تم مت کرو
میر تقی میر

اور نہ تھی توفیق تمھیں تو بوسے کی ہمت رکھتے تھے

دیوان دوم غزل 1005
ایک سمیں تم ہم فقرا سے اکثر صحبت رکھتے تھے
اور نہ تھی توفیق تمھیں تو بوسے کی ہمت رکھتے تھے
آگے خط سے دماغ تمھارا عرش پہ تھا ہو وے ہی تم
پائوں زمیں پر رکھتے تھے تو خدا پر منت رکھتے تھے
اب تو ہم ہو چکتے ہیں ٹک تیرے ابرو خم ہوتے
کیا کیا رنج اٹھاتے تھے جب جی میں طاقت رکھتے تھے
چاہ کے سارے دیوانے پر آپ سے اکثر بیگانے
عاشق اس کے سیر کیے ہم سب سے جدی مت رکھتے تھے
ہم تو سزاے تیغ ہی تھے پر ظلم بے حد کیا معنی
اور بھی تجھ سے آگے ظالم اچھی صورت رکھتے تھے
آج غزال اک رہبر ہوکر لایا تربت مجنوں پر
قصد زیارت رکھتے تھے ہم جب سے وحشت رکھتے تھے
کس دن ہم نے سر نہ چڑھاکر ساغر مے کو نوش کیا
دور میں اپنے دختر رز کی ہم اک حرمت رکھتے تھے
کوہکن و مجنون و وامق کس کس کے لیں نام غرض
جی ہی سے جاتے آگے سنے وے لوگ جو الفت رکھتے تھے
چشم جہاں تک جاتی تھی گل دیکھتے تھے ہم سرخ و زرد
پھول چمن کے کس کے منھ سے ایسی خجلت رکھتے تھے
کام کرے کیا سعی و کوشش مطلب یاں ناپیدا تھا
دست و پا بہتیرے مارے جب تک قدرت رکھتے تھے
چتون کے کب ڈھب تھے ایسے چشمک کے تھے کب یہ ڈول
ہائے رے وے دن جن روزوں تم کچھ بھی مروت رکھتے تھے
لعل سے جب دل تھے یہ ہمارے مرجاں سے تھے اشک چشم
کیا کیا کچھ پاس اپنے ہم بھی عشق کی دولت رکھتے تھے
کل کہتے ہیں اس بستی میں میر جی مشتاقانہ موئے
تجھ سے کیا ہی جان کے دشمن وے بھی محبت رکھتے تھے
میر تقی میر

آخر آخر جان دی یاروں نے یہ صحبت ہوئی

دیوان دوم غزل 958
عشق میں ذلت ہوئی خفت ہوئی تہمت ہوئی
آخر آخر جان دی یاروں نے یہ صحبت ہوئی
عکس اس بے دید کا تو متصل پڑتا تھا صبح
دن چڑھے کیا جانوں آئینے کی کیا صورت ہوئی
لوح سینہ پر مری سو نیزئہ خطی لگے
خستگی اس دل شکستہ کی اسی بابت ہوئی
کھولتے ہی آنکھیں پھر یاں موندنی ہم کو پڑیں
دید کیا کوئی کرے وہ کس قدر مہلت ہوئی
پائوں میرا کلبۂ احزاں میں اب رہتا نہیں
رفتہ رفتہ اس طرف جانے کی مجھ کو لت ہوئی
مر گیا آوارہ ہوکر میں تو جیسے گردباد
پر جسے یہ واقعہ پہنچا اسے وحشت ہوئی
شاد و خوش طالع کوئی ہو گا کسو کو چاہ کر
میں تو کلفت میں رہا جب سے مجھے الفت ہوئی
دل کا جانا آج کل تازہ ہوا ہو تو کہوں
گذرے اس بھی سانحے کو ہم نشیں مدت ہوئی
شوق دل ہم ناتوانوں کا لکھا جاتا ہے کب
اب تلک آپھی پہنچنے کی اگر طاقت ہوئی
کیا کف دست ایک میداں تھا بیاباں عشق کا
جان سے جب اس میں گذرے تب ہمیں راحت ہوئی
یوں تو ہم عاجزترین خلق عالم ہیں ولے
دیکھیو قدرت خدا کی گر ہمیں قدرت ہوئی
گوش زد چٹ پٹ ہی مرنا عشق میں اپنے ہوا
کس کو اس بیماری جانکاہ سے فرصت ہوئی
بے زباں جو کہتے ہیں مجھ کو سو چپ رہ جائیں گے
معرکے میں حشر کے گر بات کی رخصت ہوئی
ہم نہ کہتے تھے کہ نقش اس کا نہیں نقاش سہل
چاند سارا لگ گیا تب نیم رخ صورت ہوئی
اس غزل پر شام سے تو صوفیوں کو وجد تھا
پھر نہیں معلوم کچھ مجلس کی کیا حالت ہوئی
کم کسو کو میر کی میت کی ہاتھ آئی نماز
نعش پر اس بے سر و پا کی بلا کثرت ہوئی
میر تقی میر

اس بے وفا کو ہم سے کچھ الفت نہیں رہی

دیوان دوم غزل 957
وہ رابطہ نہیں وہ محبت نہیں رہی
اس بے وفا کو ہم سے کچھ الفت نہیں رہی
دیکھا تو مثل اشک نظر سے گرا دیا
اب میری اس کی آنکھ میں عزت نہیں رہی
رندھنے سے جی کے کس کو رہا ہے دماغ حرف
دم لینے کی بھی ہم کو تو فرصت نہیں رہی
تھی تاب جی میں جب تئیں رنج و تعب کھنچے
وہ جسم اب نہیں ہے وہ قدرت نہیں رہی
منعم امل کا طول یہ کس جینے کے لیے
جتنی گئی اب اتنی تو مدت نہیں رہی
دیوانگی سے اپنی ہے اب ساری بات خبط
افراط اشتیاق سے وہ مت نہیں رہی
پیدا کہاں ہیں ایسے پراگندہ طبع لوگ
افسوس تم کو میر سے صحبت نہیں رہی
میر تقی میر

کہ مل جاتا ہے ان جوئوں کا پانی بحر رحمت میں

دیوان دوم غزل 876
رکھا کر اشک افشاں چشم فرصت غیر فرصت میں
کہ مل جاتا ہے ان جوئوں کا پانی بحر رحمت میں
سنبھالے سدھ کہاں سر ہی فرو لاتا نہیں ہرگز
وگرنہ مان جاتا تھا کہاں تھوڑی سی منت میں
گئے دن متصل جانے کے اس کی اور اٹھ اٹھ کر
تفاوت ہو گیا اب تو بہت پائوں کی طاقت میں
تحمل ہوسکا جب تک بدن میں تاب و طاقت تھی
قیامت اب گذر جاتی ہے جی پر ایک ساعت میں
عجب کیا ہے جو یاران چمن کو ہم نہ پہچانیں
رہائی اتفاق اپنی پڑی ہے ایک مدت میں
سلاتا تیغ خوں میں گر نہ میرے تو قیامت تھی
اٹھا تھا روز محشر کا سا فتنہ رات صحبت میں
کوئی عمامہ لے بھاگا کنھوں نے پیرہن پھاڑا
بہت گستاخیاں یاروں نے کیں واعظ کی خدمت میں
ملا تیوری چڑھائے تو لگا ابرو بھی خم کرنے
موثر کچھ ہوا سر مارنا محراب طاعت میں
قدم پر رکھ قدم اس کے بہت مشکل ہے مر جانا
سرآمد ہو گیا ہے میر فن مہر و الفت میں
میر تقی میر

نگاہ چشم ادھر تونے کی قیامت کی

دیوان اول غزل 443
خبر نہ تھی تجھے کیا میرے دل کی طاقت کی
نگاہ چشم ادھر تونے کی قیامت کی
انھوں میں جوکہ ترے محو سجدہ رہتے ہیں
نہیں ہے قدر ہزاروں برس کی طاعت کی
اٹھائی ننگ سمجھ تم نے بات کے کہتے
وفا و مہر جو تھی رسم ایک مدت کی
رکھیں امید رہائی اسیر کاکل و زلف
مری تو باتیں ہیں زنجیر صرف الفت کی
رہے ہے کوئی خرابات چھوڑ مسجد میں
ہوا منائی اگر شیخ نے کرامت کی
سوال میں نے جو انجام زندگی سے کیا
قد خمیدہ نے سوے زمیں اشارت کی
نہ میری قدر کی اس سنگ دل نے میر کبھو
ہزار حیف کہ پتھر سے میں محبت کی
میر تقی میر

رواج اس ملک میں ہے درد و داغ و رنج و کلفت کا

دیوان اول غزل 122
غلط ہے عشق میں اے بوالہوس اندیشہ راحت کا
رواج اس ملک میں ہے درد و داغ و رنج و کلفت کا
زمیں اک صفحۂ تصویر بیہوشاں سے مانا ہے
یہ مجلس جب سے ہے اچھا نہیں کچھ رنگ صحبت کا
جہاں جلوے سے اس محبوب کے یکسر لبالب ہے
نظر پیدا کر اول پھر تماشا دیکھ قدرت کا
ہنوز آوارئہ لیلیٰ ہے جان رفتہ مجنوں کی
موئے پر بھی رہا ہوتا نہیں وابستہ الفت کا
حریف بے جگر ہے صبر ورنہ کل کی صحبت میں
نیاز و ناز کا جھگڑا گرو تھا ایک جرأت کا
نگاہ یاس بھی اس صید افگن پر غنیمت ہے
نہایت تنگ ہے اے صید بسمل وقت فرصت کا
خرابی دل کی اس حد ہے کہ یہ سمجھا نہیں جاتا
کہ آبادی بھی یاں تھی یا کہ ویرانہ تھا مدت کا
نگاہ مست نے اس کی لٹائی خانقہ ساری
پڑا ہے برہم اب تک کارخانہ زہد و طاعت کا
قدم ٹک دیکھ کر رکھ میر سر دل سے نکالے گا
پلک سے شوخ تر کانٹا ہے صحراے محبت کا
میر تقی میر