ٹیگ کے محفوظات: اقرار

اُس کے انکار میں کچھ شائبہ اقرار کا ہے

کس کو سمجھاؤں سبب جو مرے اصرار کا ہے
اُس کے انکار میں کچھ شائبہ اقرار کا ہے
کفر و ایماں کا نہ اقرار نہ انکار کا ہے
مسئلہ سارے کا سارا ترے دیدار کا ہے
تو نے پوچھا ہے ترا مجھ سے تعلق کیا ہے
وہی رشتہ ہے مصور سے جو شہکار کا ہے
دل میں میرے بھی وہی ہے جو ہے تیرے دل میں
فرق ہم دونوں میں پیرایۂ اظہار کا ہے
وہ مسیحائی پہ مائل ہیں یقیناً میری
ذکر محفل میں سنا ہے کسی بیمار کا ہے
کر کے تُو بیخ کَنی میری پشیماں کیوں ہے
یہ کرشمہ تَو تری پستیٔ کردار کا ہے
کس قدر بزم میں انجان سے بن جاتے ہیں
فکر یہ بھی ہے سبب کیا مرے آزار کا ہے
حسنِ خود بیں سے ہماری تَو نہ نبھتی ضامنؔ
یہ کمال اُور یہ ہنر عشقِ روا دار کا ہے
ضامن جعفری

ما ایم در کمندِ تو اقرار کردہ ای

سِرّے چہ خوش زِ چشمِ خود اظہار کردہ ای
ما ایم در کمندِ تو اقرار کردہ ای
یارب زِ ہفت رنگیِ ما عاصیانِ خلد
این عرصۂ وجود را، شہکار کردہ ای
اغماضِ تو کسے نشناسد جز اہلِ دل
دانیم ہمچنیں جہت اصرار کردہ ای
یک غنچہ ما زِ گلشنِ حُسنَت نچیدہ ایم
با این ہمہ بہ خاطرِ خود خار کردہ ای
بِنشِیں و بِشنَوی زِ دلم ہر چہ بِگزَرَد
زاں نقشِ دل کہ نقش بہ دیوار کردہ ای
آن کارِ حسن بود کو آدم زِ خلد راند
ما را بہ چہ گناہ سرِ دار کردہ ای
ما خواستیم دولتِ یک حرفِ صد سخن
باوَر نمی کنیم کہ انکار کردہ ای
ہر کس گسست و رست زِ بندِ کمندِ تو
کاغازِ رسمِ قدغنِ اظہار کردہ ای
ضامنؔ ہنوز پا بہ رکاب اَست و منتظر
اقرار خواہی کرد کہ انکار کردہ ای
ضامن جعفری

جُگ بیتے ہیں بستی کو بیدار ہوئے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 18
لٹ جانے کے خدشوں سے دو چار ہوئے
جُگ بیتے ہیں بستی کو بیدار ہوئے
شہرِ ستم میں حرص و ہوا کی سازش سے
کیا کیا اہلِ نظر، وقفِ دربار ہوئے
شاخ پہ کونپل بننے اور کھِل اٹھنے کے
کیا کیا سپنے آنکھوں کا آزار ہوئے
باغ میں جانے اور مہک لے آنے کے
بادِ صبا سے کیا کیا قول اقرار ہوئے
دریا میں منجدھار ہی دشمنِ جان نہ تھی
اور بھی کچھ دھاوے ہم پر اُس پار ہوئے
راہبری کا ماجد! قحط کہاں ایسا
جیسے اب ہیں، ہم کب یُوں نادار ہوئے
ماجد صدیقی

ہر شخص سے پوچھیں ہمیں آزار ہے کیسا

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 8
ہونٹوں پہ نہ لائیں یہ سخن ’’یار ہے کیسا‘‘
ہر شخص سے پوچھیں ہمیں آزار ہے کیسا
نیلام تو اُٹھ لے ابھی کھل جائے گا سب کچھ
ہم کون ہیں اور مصر کا بازار ہے کیسا
بھّٹی میں شراروں کی چمن سینچ رہا ہے
اس دور کا انسان بھی بیدار ہے کیسا
انصاف کی میزان کا بَل خود یہ بتائے
عشّاق کا احوال سرِ دار ہے کیسا
ایقان ہی جب اُن پہ تمہارا نہیں ماجدؔ
پھر کرب و الم کا تمہیں اقرار ہے کیسا
ماجد صدیقی

فکر پہنچے گا وہاں دو چار کا

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 8
ہم سخن کہتے ہیں جس معیار کا
فکر پہنچے گا وہاں دو چار کا
دھجّیاں اُس کی بکھر کر رہ گئیں
جس ورق پر عکس تھا اقرار کا
کھاٹ چھُڑوانے لگی بیساکھیاں
حال اچّھا ہو چلا بیمار کا
ڈھانپنے کو برق پھر عُریانیاں
ناپ لینے آ گئی اشجار کا
آ پڑا پھل اور زباں کے درمیاں
فاصلہ، ماجدؔ! سمندر پار کا
ماجد صدیقی

ظلمتِ خلوت وگرنہ مستقل آزار تھا

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 33
مل گیا کوئی تو یہ چہرہ سحر آثار تھا
ظلمتِ خلوت وگرنہ مستقل آزار تھا
مجھ میں جانے کیا ہُنر تھا وہ کہ جس کے بُغض سے
میرے گھرکی سمت کھلتا ہر دریچہ نار تھا
کیوں مُصر رہنے لگا اِس پاک دامانی پہ مَیں
وہ خطائیں کیا ہوئیں جِن کا مجھے اقرار تھا
وہ بھی کیا شب تھی کہ جس کے حشرزا انجام پر
کانپتے ہاتھوں میں میرے صبح کا اخبار تھا
کس کی قامت کس سے کتنی پست ہے، اس فرق پر
جس کسی کو شہر میں دیکھا وہی بیمار تھا
رابطہ جب تک رہا ماجدؔ زمیں سے پیڑ کا
برگ برگ اُس کا سراپا مطلعٔ انوار تھا
ماجد صدیقی

دے گیا کتنے زمانوں کے وہ آزار مجھے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 76
جس کسی نے بھی دیا دیدۂ بیدار مجھے
دے گیا کتنے زمانوں کے وہ آزار مجھے
ہاں یہی حکم عدالت سے مجھے ملنا تھا
ابتدا ہی سے رہا جرم کا اقرار مجھے
رُت بدلتی تو مرا دل بھی گواہی دیتا
کچھ قرائن سے بھی آتے نظر آثار مجھے
اپنی آہٹ کے سوا کوئی پس و پیش نہیں
کھینچ لایا ہے یہ کس اَوج پہ پندار مجھے
سجدہ ریزی بھی کروں، سربفلک بھی ٹھہروں
ایک دم کیسے سکھاؤگے یہ اطوار مجھے
ہائے وہ لوگ کہ صدیوں کے جو پیراک ہوئے
ایک لمحے سے گزرنا ہوا دُشوار مجھے
آنکھ نمناک ہے پر لب ہیں شگفتہ ماجدؔ
اور کیا چاہئے پیرایۂ اظہار مجھے
ماجد صدیقی

جانے میں کیوں گلستاں سے بیزار تھا

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 29
گُل بہ گُل حُسن، میرا طلب گار تھا
جانے میں کیوں گلستاں سے بیزار تھا
سامنے اُس کے خاموش تھے اِس طرح
ہر خطا کا ہمیں جیسے اقرار تھا
زندگی جب نثارِ غمِ دہر تھی
اُس کا ملنا بھی ایسے میں بیکار تھا
مُنہ سے کہنا اگرچہ نہ آیا اُسے
بور تھا مجھ سے وہ سخت بیزار تھا
زندگی ہم سے ماجدؔ گریزاں تو تھی
جُرم اپنا بھی کچھ اِس میں سرکار تھا
ماجد صدیقی

چارہ گر روئینگے اور غمخوار بن جائیں گے ہم

احمد فراز ۔ غزل نمبر 42
یہ طبیعت ہے تو خود آزار بن جائیں گے ہم
چارہ گر روئینگے اور غمخوار بن جائیں گے ہم
ہم سرِ چاکِ وفا ہیں اور ترا دستِ ہنر
جو بنا دے گا ہمیں اے یار بن جائیں گے ہم
کیا خبر تھی اے نگارِ شہر تیرے عشق میں
دلبرانِ شہر کے دلدار بن جائیں گے ہم
سخت جاں ہیں پر ہماری استواری پر نہ جا
ایسے ٹوٹیں گے ترا اقرار بن جائیں گے ہم
اور کچھ دن بیٹھنے دو کوئے جاناں میں ہمیں
رفتہ رفتہ سایۂ دیوار بن جائیں گے ہم
اس قدر آساں نہ ہو گی ہر کسی سے دوستی
آشنائی میں ترا معیار بن جائیں گے ہم
میر و غالب کیا کہ بن پائے نہیں فیض و فراق
زعم یہ تھا رومی و عطار بن جائیں گے ہم
دیکھنے میں شاخِ گل لگتے ہیں لیکن دیکھنا
دستِ گلچیں کے لئے تلوار بن جائیں گے ہم
ہم چراغوں کو تو تاریکی سے لڑنا ہے فراز
گل ہوئے پر صبح کے آثار بن جائیں گے ہم
احمد فراز

ٹپکا پڑے ہے کیوں نگہ یار سے حجاب

مصطفٰی خان شیفتہ ۔ غزل نمبر 37
کیا اٹھ گیا ہے دیدۂ اغیار سے حجاب
ٹپکا پڑے ہے کیوں نگہ یار سے حجاب
لا و نَعَم نہیں جو تمنائے وصل پر
انکار سے حجاب ہے، اقرار سے حجاب
تقلیدِ شکل چاہئے سیرت میں بھی تجھے
کب تک رہے مجھے ترے اطوار سے حجاب
دشنام دیں جو بوسے میں ابرام ہم کریں
طبعِ غیور کو ہے پر اصرار سے حجاب
رندی میں بھی گئی نہ یہ مستوری و صلاح
آتا ہے مجھ کو محرمِ اسرار سے حجاب
وہ طعنہ زن ہے زندگیِ ہجر پر عبث
آتا ہے مجھ کو حسرتِ دیدار سے حجاب
جوشِ نگاہِ دیدۂ حیراں کو کیا کہوں
ظاہر ہے روئے آئینہ رخسار سے حجاب
روز و شبِ وصال مبارک ہو شیفتہ
جورِ فلک کو ہے ستمِ یار سے حجاب
مصطفٰی خان شیفتہ

یہ بھی اے چرخِ ستمگار! کروں یا نہ کروں

دیوانِ غالب ۔ غزل نمبر 159
نالے دل کھول کے دو چار کروں یا نہ کروں
یہ بھی اے چرخِ ستمگار! کروں یا نہ کروں
مجھ کو یہ وہم کہ انکار نہ ہو جاۓ کہیں
ان کو یہ فکر کہ اقرار کروں یا نہ کروں
لطف جب ہو کہ کروں غیر کو بھی میں بدنام
کہیۓ کیا حکم ہے سرکار! کروں یا نہ کروں
نوٹ از مولانا مہر: یہ غزل مولانا عبد الباری آسی کی کتاب سے منقول ہے لیکن اہلِ نظر مجموعۂ آسی میں میں شائع شدہ پورے غیر مطبوعہ کلام کا انتساب صحیح نہیں سمجھتے
مرزا اسد اللہ خان غالب

داغ سے تن گلزار کیا سب آنکھوں کو خونبار کیا

دیوان چہارم غزل 1346
زار کیا بیمار کیا اس دل نے کیا آزار کیا
داغ سے تن گلزار کیا سب آنکھوں کو خونبار کیا
جرم ہے ہم الفت کشتوں کا لگ پڑنے سے شوخ ہوا
اب کہتے ہیں دل میں اپنے ہم نے اسے کیوں پیار کیا
چاہا ہم نے کیا کیا تھا پر اپنا چاہا کچھ نہ ہوا
عزت کھوئی ذلت کھینچی عشق نے خوار و زار کیا
پیش گئی کب پیش زمانہ طبع خشن ہر ناکس کی
اک گردش میں سپہر نے جیسے سطح زمیں ہموار کیا
سادگی میری آہ نہ جانا جی ہی اس میں جاتا ہے
عشق کا اس پرکار کے میں نے لوگوں میں اقرار کیا
میر تقی میر

بہت پرہیز کر ہم سے ہمیں بیمار کرتے ہیں

دیوان دوم غزل 884
امید دل دہی تھی جن سے وے آزار کرتے ہیں
بہت پرہیز کر ہم سے ہمیں بیمار کرتے ہیں
کوئی ہم سا بھی اپنی جان کا دشمن کہیں ہو گا
بھری مجلس میں بیٹھے عشق کے اقرار کرتے ہیں
نشاں دے ہیں جہاں اس کا وہ ہرجائی نہیں ملتا
محلے کے ہمیں اب لوگ یوں ہی خوار کرتے ہیں
حجاب ناکسی سے مر گئے روپوش کب تک ہوں
جنھوں سے عار تھی ہم کو سو ہم سے عار کرتے ہیں
چھپا لیتا ہے مجھ سے چاند سا منھ وہ خدا جانے
سخن ساز اس کنے جاجا کے کیا اظہار کرتے ہیں
الف کی رمز اگر سمجھا اٹھا دل بحث علمی سے
اسی اک حرف کو برسوں سے ہم تکرار کرتے ہیں
بہت ہے تیز آب جدول شمشیر خوباں کا
اسے پھر پار کردیں ہیں یہ جس پر وار کرتے ہیں
انوکھا تو کہ یاں فکر اقامت تجھ کو ہے ورنہ
سب اس دلکش جگہ سے رخت اپنا بار کرتے ہیں
بلا آفت ہے کچھ دل پر کہ ایسا رنگ ہے ان کا
کسو بے مہر کے تیں میر شاید پیار کرتے ہیں
میر تقی میر

جی لیے ان نے ہزاروں کے یوں ہی پیار کے بیچ

دیوان دوم غزل 792
آتی ہے خون کی بو دوستی یار کے بیچ
جی لیے ان نے ہزاروں کے یوں ہی پیار کے بیچ
حیف وہ کشتہ کہ سو رنج سے آوے تجھ تک
اور رہ جائے تری ایک ہی تلوار کے بیچ
گرچہ چھپتی نہیں ہے چاہ پہ رہ منکر پاک
جی ہی دینا پڑے ہے عشق کے اقرار کے بیچ
نالہ شب آوے قفس سے تو گل اب اس پہ نہ جا
یہی ہنکار سی ہے مرغ گرفتار کے بیچ
انس کرتا تو ہے وہ مجھ کو خردباختہ جان
جیت میں اپنی نکالی ہے اسی ہار کے بیچ
چال کیا کبک کی اک بات چلی آتی ہے
لطف نکلے ہیں ہزاروں تری رفتار کے بیچ
تو جو جاتا ہے چمن میں تو تماشے کے لیے
موسم رفتہ بھی پھر آوے ہے گلزار کے بیچ
داغ چیچک نہ اس افراط سے تھے مکھڑے پر
کن نے گاڑی ہیں نگاہیں ترے رخسار کے بیچ
گھٹّے شمشیرزنی سے کف نازک میں ہیں
یہ جگرداری تھی کس خوں کے سزاوار کے بیچ
توبہ صد بار کہ مستی میں پرو ڈالے ہیں
دانے تسبیح کے میں رشتۂ زنار کے بیچ
حلقۂ گیسوے خوباں پہ نہ کر چشم سیاہ
میر امرت نہیں ہوتا دہن مار کے بیچ
میر تقی میر

آئینہ ہو تو قابل دیدار کیوں نہ ہو

دیوان اول غزل 396
دل صاف ہو تو جلوہ گہ یار کیوں نہ ہو
آئینہ ہو تو قابل دیدار کیوں نہ ہو
عالم تمام اس کا گرفتار کیوں نہ ہو
وہ ناز پیشہ ایک ہے عیار کیوں نہ ہو
مستغنیانہ تو جو کرے پہلے ہی سلوک
عاشق کو فکر عاقبت کار کیوں نہ ہو
رحمت غضب میں نسبت برق و سحاب ہے
جس کو شعور ہو تو گنہگار کیوں نہ ہو
دشمن تو اک طرف کہ سبب رشک کا ہے یاں
در کا شگاف و رخنۂ دیوار کیوں نہ ہو
آیات حق ہیں سارے یہ ذرات کائنات
انکار تجھ کو ہووے سو اقرار کیوں نہ ہو
ہر دم کی تازہ مرگ جدائی سے تنگ ہوں
ہونا جو کچھ ہے آہ سو یک بار کیوں نہ ہو
موے سفید ہم کو کہے ہے کہ غافلاں
اب صبح ہونے آئی ہے بیدار کیوں نہ ہو
نزدیک اپنے ہم نے تو سب کر رکھا ہے سہل
پھر میر اس میں مردن دشوار کیوں نہ ہو
میر تقی میر

مایوس ہوں میں بھی کہ ہوں بیمار محبت

دیوان اول غزل 184
چھٹتا ہی نہیں ہو جسے آزار محبت
مایوس ہوں میں بھی کہ ہوں بیمار محبت
امکاں نہیں جیتے جی ہو اس قید سے آزاد
مرجائے تبھی چھوٹے گرفتار محبت
تقصیر نہ خوباں کی نہ جلاد کا کچھ جرم
تھا دشمن جانی مرا اقرار محبت
ہر جنس کے خواہاں ملے بازارجہاں میں
لیکن نہ ملا کوئی خریدار محبت
اس راز کو رکھ جی ہی میں تا جی بچے تیرا
زنہار جو کرتا ہو تو اظہار محبت
ہر نقش قدم پر ترے سر بیچے ہیں عاشق
ٹک سیر تو کر آج تو بازار محبت
کچھ مست ہیں ہم دیدئہ پرخون جگر سے
آیا یہی ہے ساغر سرشار محبت
بیکار نہ رہ عشق میں تو رونے سے ہرگز
یہ گریہ ہی ہے آب رخ کار محبت
مجھ سا ہی ہو مجنوں بھی یہ کب مانے ہے عاقل
ہر سر نہیں اے میر سزاوارمحبت
میر تقی میر

میں نے پوچھا ہے تو اقرار کیا ہے اس نے

عرفان صدیقی ۔ غزل نمبر 279
تشنہ رکھا ہے نہ سرشار کیا ہے اس نے
میں نے پوچھا ہے تو اقرار کیا ہے اس نے
گر گئی قیمتِ شمشاد قداں آنکھوں میں
شہر کو مصر کا بازار کیا ہے اس نے
وہ یہاں ایک نئے گھر کی بنا ڈالے گا
خانۂ درد کو مسمار کیا ہے اس نے
دیکھ لیتا ہے تو کھلتے چلے جاتے ہیں گلاب
میری مٹی کو خوش آثار کیا ہے اس نے
دوسرا چہرہ اس آئینے میں دکھلائی نہ دے
دل کو اپنے لیے تیار کیا ہے اس نے
حرف میں جاگتی جاتی ہے مرے دل کی مراد
دھیرے دھیرے مجھے بیدار کیا ہے اس نے
میرے اندر کا ہرن شیوۂ رم بھول گیا
کیسے وحشی کو گرفتار کیا ہے اس نے
میں بہر حال اسی حلقۂ زنجیر میں ہوں
یوں تو آزاد کئی بار کیا ہے اس نے
اب سحر تک تو جلوں گا کوئی آئے کہ نہ آئے
مجھ کو روشن سرِ دیوار کیا ہے اس نے
عرفان صدیقی

روشنی روزنِ دیوار بھی کر سکتے ہیں

عرفان صدیقی ۔ غزل نمبر 187
جشنِ مہتاب گرفتار بھی کر سکتے ہیں
روشنی روزنِ دیوار بھی کر سکتے ہیں
یوسفِ شہر، تجھے تیرے قبیلے والے
دام لگ جائیں تو بازار بھی کر سکتے ہیں
ایک شکل اور بھی ہے چپ کھڑے رہنے کے سوا
آپ اس جرم کا اقرار بھی کر سکتے ہیں
دفن کردی گئی جس خاک میں بستی میری
شہر اسی خاک سے آثار بھی کر سکتے ہیں
فتح کے نشے میں یہ بات نہ بھولو کہ وہ لوگ
پھر پلٹ آئیں تو یلغار بھی کر سکتے ہیں
جی دکھایا ترے لہجے نے تو معلوم ہوا
کس طرح لفظ کو تلوار بھی کر سکتے ہیں
عرفان صدیقی

مرے دل کی گواہی درج کریں، مرے ہونٹوں کا اقرار لکھیں

عرفان صدیقی ۔ غزل نمبر 168
مرے شانوں پہ دو لکھنے والے، تحریر سرِ دیوار لکھیں
مرے دل کی گواہی درج کریں، مرے ہونٹوں کا اقرار لکھیں
میں نے تو یہ جنگ نہیں چھیڑی، مرا کام تو لڑتے رہنا ہے
آنے والے مرے کھاتے میں، کل جیت لکھیں یا ہار لکھیں
وہی نوحہ بیتی باتوں کا، وہی نغمہ آتی راتوں کا
جب کوچ کریں ہر بار سنیں، جب خیمہ لگے ہر بار لکھیں
میں ضدی لڑکا ماضی کے گرتے ہوئے گھر سے بھاگا ہوا
مجھے پچھلے موسم خط بھیجیں، مجھے گزری راتیں پیار لکھیں
یہ تپتا دشت بسانے میں، اوپر والے مرا ہاتھ بٹا
کچھ سایہ مرے اشعار بنیں کچھ سایہ ترے اشجار لکھیں
عرفان صدیقی

بھیجا نہیں سو یار کو اس بار عید کارڈ

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 253
اس کے لیے تھا باعثِ آزار عید کارڈ
بھیجا نہیں سو یار کو اس بار عید کارڈ
ایسا نہیں کہ بھول گیا ہے تمام شہر
آئے ہیں اپنے پاس بھی دوچار عید کارڈ
تیرہ برس کے بعد بھی اک یاد کے طفیل
میں نے اٹھایا تو لگا انگار عید کارڈ
ہر سال بھیجتا ہوں جسے اپنے آپ کو
اک ہے مری کہانی کا کردار عید کارڈ
کرنا ہے کب تلک شبِ انکار میں قیام
پچھلے برس کا آخری اقرار عید کارڈ
منصور سرورق پہ ہے تصویر شام کی
آیا ہے کیسا آئینہ بردار عید کارڈ
منصور آفاق

ہند کی سب سے بڑی سرکار نو شہ گنج بخشؒ

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 191
برکتوں کا مطلع ء انوار نو شہ گنج بخشؒ
ہند کی سب سے بڑی سرکار نو شہ گنج بخشؒ
جا نشینِ غو ث اعظمؒ ، افتخا رِ اولیا
وا قف اسرار در اسرار نو شہ گنج بخشؒ
حاکم مِلک شر یعت ، مالک ، شہر سلوک
در سعادت نقطہ ء پرکار نو شہ گنج بخشؒ
آفتا بِ فیضِ عالم ہیں جہا ں پر غو ث پاکؒ
اُس فلک پر ثا بت و سیار نو شہ گنج بخشؒ
صر ف مشر ق میں نہیں ان کی ولا یت کا ظہو ر
خا کِ مغر ب پہ بھی رحمت بار نو شہ گنج بخشؒ
بر ق نو شاہی ؒ سے لے کر حضرت معر و ف تک
نیکیوں سے اک بھرا گلزار نو شہ گنج بخشؒ
چو متے ہیں حا ملانِ جبہ ود ستا ر پا ئو ں
محتر م اتنا سگِ دربار نو شہ گنج بخشؒ
عالمِ لاہو ت کی صبح مقد س ان کی ذا ت
رو شنی کا نر م و حد ت زار نو شہ گنج بخشؒ
بخش دیں بینا ئی نا بینا ئو ں کو اک دید سے
ہم نہیں کہتے ہیں یہ ، اوتار نو شہ گنج بخشؒ
ہر قدم اس شخص کا پھر بخت آور ہو گیا
مہر با ں جس پہ ہو ئے اک بار نو شہ گنج بخشؒ
زہد و تقو یٰ ، فقر و فا قہ اور عمل کے با ب میں
اک مجسم نو ر کا اظہار نو شہ گنج بخشؒ
وہ مجد د ہیں ہز ا ر وں سا ل پر پھیلے ہو ئے
یو ں سمجھ لو حا صلِ ادوار نو شہ گنج بخشؒ
منز ل علم و فضلیت ، رو نق را ہِ سلو ک
کشفِ مصطفو ی ؐ کے پیر و کار نو شہ گنج بخشؒ
کہتے ہیں بے رو ح جسمو ں کو جگا تا تھا مسیح
مر دہ دل کر دیتے ہیں بیدار نو شہ گنج بخشؒ
ہا ں ! سر تسلیم خم کر تا ہے در یا ئے چنا ب
پانیوں کے جیسے ہیں مختار نو شہ گنج بخشؒ
غو ثِ اعظم ؒ کے شجر کا خو شہ ء فقر و سلو ک
قا دری گلز ا ر کے پندار نو شہ گنج بخشؒ
شمعِ عر فا ن الہی ، شب زدو ں کی رو شنی
سا عتِ پر نو ر سے سر شار نو شہ گنج بخشؒ
دا ستا نو ں میں مر یدِ با صفا ہیں آپ کے
صا حبا ں مر ز ا کے بھی کر دار نو شہ گنج بخشؒ
جن و انسا ں ہی نہیں ہیں آپ کے خدا م میں
آپ کے قد سی ہیں خد متگار نو شہ گنج بخشؒ
پا ئے نو شہ کے تلے بہتے ہیں در یا ئے بہشت
سا قی ء کو ثر ؐ کے ہیں میخوار نو شہ گنج بخشؒ
آپ کا اسمِ گرا می وقت کے ہو نٹو ں پہ ہے
تذ کر ہ کر تا ہے سب سنسار نو شہ گنج بخشؒ
صر ف یو ر پ ہی نہیں ہے آپ کے ہیں معتقد
ہند سند ھ اور کا بل و قندھار نو شہ گنج بخشؒ
حکمرا نو ں کی جبینیں ان کے در پہ خم ہو ئیں
مو تیو ں والے سخی سردار نو شہ گنج بخشؒ
مو ج بن جا ئے گی کشتی تیر ے میرے وا سطے
یو ں اتا ریں گے ہمیں اس پار نو شہ گنج بخشؒ
اس شجر پر مو سمو ں کی ضر ب پڑ تی ہی نہیں
کس تسلسل سے ہیں سایہ دار نو شہ گنج بخشؒ
انبسا ط و لطف کا پہلو جہا ں کے وا سطے
نسلِ انسا نی کے ہیں غم خوار نو شہ گنج بخشؒ
کیوں نہ ہو ں عر فا ن کے مو تی در و دیوار میں
قصرِ نو شا ہی کے ہیں معمار نو شہ گنج بخشؒ
سلسہ نو شا ہیہ کا ہر جر ی ہے اولیا ء
لشکرِ حق کے جو ہیں سا لار نو شہ گنج بخشؒ
آپ کے در کے فقیر وں میں قطب اقطا ب ہیں
کون عظمت سے کر ے انکار نو شہ گنج بخشؒ
نو رو ں نہلا ئے ہو ئے چہر ے کی کر نیں اور ہم
کیا صبا حت خیز تھے رخسار نو شہ گنج بخشؒ
آپکے فیضِ نظر کی دا ستا ں اتنی ہے بس
سب مسلما ں ہو گئے کفار نو شہ گنج بخشؒ
اعتما دِ ذا ت کی کچھ غیر فا نی سا عتیں
آپ کے دم سے کر امت بار نو شہ گنج بخشؒ
بد عقید ہ زند گا نی کی سلگتی دھو پ میں
آپ ٹھہر ے سا یہء دیوار نو شہ گنج بخشؒ
ابن عر بی ؒ کے تصو ف کی کہا نی کیا کر وں
ہیں عد م کا اک عجب اظہار نو شہ گنج بخشؒ
مل گئی ان کی دعا سے کتنی دنیا کو شفا
امتِ بیما ر کے عطار نو شہ گنج بخشؒ
سن رہا ہوں آج تک عشقِ محمد ؐ کی اذا ں
مسجد نبوی کا اک مینار نو شہ گنج بخشؒ
فر ض ہے ہر شخص پر ذکر گرا می آپ کا
ایک اک نو شا ہی کا پر چار نو شہ گنج بخشؒ
تر دما غو ں میں یہ صبح فکر کی رعنا ئیاں
ٍٍٍآپ کے بس آپ کے افکار نو شہ گنج بخشؒ
معتر ف ہے ذہن انسا ں آپ کے عر فان کا
دل غلا می کا کر ے اقرار نو شہ گنج بخشؒ
خا کِ رنمل کو مسیحا ئی کی رفعت مل گئی
ہیں وہا ں جو دفن زند ہ دار نو شہ گنج بخشؒ
اک ذر اچشمِ عنا یت چا ہتا ہو ں آپ کی
آپ کا مجھ کو کر م در کار نو شہ گنج بخشؒ
کھو ل در واز ے جہا ں با نی کے میر ی ذا ت پر
میں بہت ہو ں مفلس و نا دار نو شہ گنج بخشؒ
چہر ہ ء انوا ر کی بس اک تجلی دے مجھے
خوا ب ہی میں بخش دے دیدار نو شہ گنج بخشؒ
حضرت معر و ف نو شا ہی کی فر ما ئش ہو ئی
پرُ سعا د ت یہ لکھے اشعار نو شہ گنج بخشؒ
منقبت منصو ر پڑ ھ پو رے ادب آداب سے
سن رہے ہیں شعر خو د سر کار نو شہ گنج بخشؒ
منصور آفاق

ہیں کہیں صبح کے آثار! نہیں کوئی نہیں

باقی صدیقی ۔ غزل نمبر 144
اٹھ گئے بزم سے میخوار؟ نہیں کوئی نہیں
ہیں کہیں صبح کے آثار؟ نہیں کوئی نہیں
ایک بیکس کے تقاضوں کی حقیقت ہی کیا
میں محبت کا طلبگار؟ نہیں کوئی نہیں
ظلم، ادبار، ہوس، وہم، عداوت، نفرت
ہیں کوئی جینے کے آثار؟ نہیں کوئی نہیں
فصل گل آئی کھنکنے لگے ساغر لیکن
میں تبسم کا سزاوار؟ نہیں کوئی نہیں
دب گئے ان کی نگاہوں کے اثر سے باقیؔ
کر لیا جرم کا اقرار؟ نہیں کوئی نہیں
باقی صدیقی

انساناں دے لہو وچ بِھجیاں، خبراں ہر اخبار دیاں

ماجد صدیقی (پنجابی کلام) ۔ غزل نمبر 62
سجریاں چوبھاں دے دے مینوں، قسطاں دے وچ ماردیاں
انساناں دے لہو وچ بِھجیاں، خبراں ہر اخبار دیاں
مُدتاں توں پئے وسدے نیں، انج دل چ خوف نہ پنگرن دے
جنج انجانیاں سدھراں، کسے اُٹھدی ہوئی مٹیار دیاں
ہمدرداں نئیں، غیراں کولوں، سچ دی آس رکھینداواں
میں کنسوئیاں لیندا رہناں، اپنے شہروں پار دیاں
محرومی دیاں خورے کِنیاں، لِتّاں تن چ لتھیاں نیں
چِیریاں نال وی، جان نہ لہوچوں، پرتاں ایس آزار دیاں
جو موسم وی آوے،دِسّے اِنج ائی کجھُ نتھاواں اوہ
جنج بے سُرتیاں اکھیاں، کسے کم ظرفے میخوار دیاں
اوڑک رانجھے چاک دی ڈولی، رہ جانی ایں سَکھنی ائی
اپنے انت نوں کدے نہ پجن، گھڑیاں قول اقرار دیاں
خورے کیہڑے ہجر دے پندھ چ، سُتے درد جگاندا اے
بول مسافر کونجاں دے نیں، گلاّں ماجدُ یار دیاں
ماجد صدیقی (پنجابی کلام)