ٹیگ کے محفوظات: اشتہار

صورت اک اعتبار سا ہے کچھ

دیوان دوم غزل 944
بود نقش و نگار سا ہے کچھ
صورت اک اعتبار سا ہے کچھ
یہ جو مہلت جسے کہیں ہیں عمر
دیکھو تو انتظار سا ہے کچھ
منھ نہ ہم جبریوں کا کھلوائو
کہنے کو اختیار سا ہے کچھ
منتظر اس کی گرد راہ کے تھے
آنکھوں میں سو غبار سا ہے کچھ
ضعف پیری میں زندگانی بھی
دوش پر اپنے بار سا ہے کچھ
کیا ہے دیکھو ہو جو ادھر ہر دم
اور چتون میں پیار سا ہے کچھ
اس کی برہم زنی مژگاں سے
دل میں اب خار خار سا ہے کچھ
جیسے عنقا کہاں ہیں ہم اے میر
شہروں میں اشتہار سا ہے کچھ
میر تقی میر

کہیو ہم صحرانوردوں کا تمامی حال زار

دیوان دوم غزل 804
اے صبا گر شہر کے لوگوں میں ہو تیرا گذار
کہیو ہم صحرانوردوں کا تمامی حال زار
خاک دہلی سے جدا ہم کو کیا یک بارگی
آسماں کو تھی کدورت سو نکالا یوں غبار
منصب بلبل غزل خوانی تھا سو تو ہے اسیر
شاعری زاغ و زغن کا کیوں نہ ہووے اب شعار
طائر خوش زمزمہ کنج قفس میں ہے خموش
چہچہے چہیاں کریں ہیں صحن گلشن میں ہزار
برگ گل سے بھی کیا نہ ایک نے ٹک ہم کو یاد
نامہ و پیغام و پرسش بے مراتب درکنار
بے خلش کیونکر نہ ہو گرم سخن گلزار میں
میں قفس میں ہوں کہ میرا تھا دلوں میں خارخار
بلبل خوش لہجہ کے جائے پہ گو غوغائیاں
طرح غوغا کی چمن میں ڈالیں پر کیا اعتبار
طائران خوش لب و لہجہ نہیں رہتے چھپے
شور سے ان کے بھرے ہیں قریہ و شہر و دیار
شہر کے کیا ایک دو کوچوں میں تھی شہرت رہی
شہروں شہروں ملکوں ملکوں ہے انھوں کا اشتہار
کیا کہوں سوے چمن ہوتا جو میں سرگرم گشت
پھول گل جب کھلنے لگتے جوش زن ہوتی بہار
شور سن سن کر غزل خوانی کا میری ہم صفیر
غنچہ ہو آتے جو ہوتا آب و رنگ شاخسار
خوش نوائی کا جنھیں دعویٰ تھا رہ جاتے خموش
جن کو میں کرتا مخاطب ان کو ہوتا افتخار
بعضوں کو رشک قبول خاطر و لطف سخن
بعضوں کا سینہ فگار و بعضوں کا دل داغدار
ایکوں کے ہونٹوں کے اوپر آفریں استاد تھا
ایک کہتے تھے رسوخ دل ہے اپنا استوار
ربط کا دعویٰ تھا جن کو کہتے تھے مخلص ہیں ہم
جانتے ہیں ذات سامی ہی کو ہم سب خاکسار
نقل کرتے کیا یہ صحبت منعقد جب ہوتی بزم
بیٹھ کر کہتے تھے منھ پر میرے بعضے بعضے یار
بندگی ہے خدمت عالی میں ہم کو دیر سے
کر رکھی ہے جان اپنی ہم نے حضرت پر نثار
سو نہ خط ان کا نہ کوئی پرچہ پہنچا مجھ تلک
واہ وا ہے رابطہ رحمت ہے یہ اخلاص و پیار
رفتہ رفتہ ہو گئیں آنکھیں مری دونوں سفید
بسکہ نامے کا کیا یاروں کے میں نے انتظار
لکھتے گر دو حرف لطف آمیز بعد از چند روز
تو بھی ہوتا اس دل بے تاب و طاقت کو قرار
سو تو یک ننوشتہ کاغذ بھی نہ آیا میرے پاس
ان ہم آوازوں سے جن کا میں کیا ربط آشکار
خط کتابت سے یہ کہتے تھے نہ بھولیں گے تجھے
آویں گے گھر بار کی تیرے خبر کو بار بار
جب گیا میں یاد سے تب کس کا گھر کاہے کا پاس
آفریں صد آفریں اے مردمان روزگار
اب بیاباں در بیاباں ہے مرا شور و فغاں
گو چمن میں خوش کی تم نے میری جاے نالہ وار
ہے مثل مشہور یہ عمر سفر کوتاہ ہے
طالع برگشتہ بھی کرتے ہیں اب امداد کار
اک پر افشانی میں بھی ہے یہ وطن گلزار سا
سامعوں کی چھاتیاں نالوں سے ہوویں گی فگار
منھ پہ آویں گے سخن آلودئہ خون جگر
کیونکہ یاران زماں سے چاک ہے دل جوں انار
لب سے لے کر تا سخن ہیں خونچکاں شکوے بھرے
لیک ہے اظہار ہر ناکس سے اپنا ننگ و عار
چپ بھلی گو تلخ کامی کھینچنی اس میں پڑے
بیت بحثی طبع نازک پر ہے اپنی ناگوار
آج سے کچھ بے حسابی جور کن مردم نہیں
ان سے اہل دل سدا کھینچے ہیں رنج بے شمار
بس قلم رکھ ہاتھ سے جانے بھی دے یہ حرف میر
کاہ کے چاہے نہیں کہسار ہوتے بے وقار
کام کے جو لوگ صاحب فن ہیں سو محسود ہیں
بے تہی کرتے رہیں گے حاسدان نابکار
میر تقی میر

پر منھ پہ آ ہی جاتی ہے بے اختیار بات

دیوان دوم غزل 783
سنتا نہیں اگرچہ ہمارا نگار بات
پر منھ پہ آ ہی جاتی ہے بے اختیار بات
بلبل کے بولنے سے ہے کیوں بے دماغ گل
آپس میں یوں تو ہوتی ہے یارو ہزار بات
منھ تک رہو جو ہو وہ فریبندہ حرف زن
اس تھوڑے سن و سال میں یہ پیچدار بات
بوسہ دے چپکے لب کا کہ تب کچھ مزہ نہیں
پاوے گی سارے شہر میں جب اشتہار بات
ہے کس کی صوت انکر اصوات واعظا
کب آدمی کی جنس کرے ہے پکار بات
آہو کو اس کی چشم سخن گو سے مت ملا
شہری سے کرسکے ہے کہیں بھی گنوار بات
یوں بار گل سے اب کے جھکے ہیں نہال باغ
جھک جھک کے جیسے کرتے ہیں دوچار یار بات
آزردہ دل کو حرف پہ لانے کا لطف کیا
کرتی ہے خونچکاں مرے لب سے گذار بات
مرجاں کوئی کہے ہے کوئی ان لبوں کو لعل
کچھ رفتہ رفتہ پا ہی رہے گی قرار بات
یوں چپکے چپکے میر تلف ہو گا کب تلک
کچھ ہووے بھڑ کر اس سے بھی کر ایک بار بات
میر تقی میر

ہوا وہ بے مروت بے وفا ہرگز نہ یار اپنا

دیوان دوم غزل 747
ہوئیں رسوائیاں جس کے لیے چھوٹا دیار اپنا
ہوا وہ بے مروت بے وفا ہرگز نہ یار اپنا
خدا جانے ہمیں اس بے خودی نے کس طرف پھینکا
کہ مدت ہو گئی ہم کھینچتے ہیں انتظار اپنا
ذلیل اس کی گلی میں ہوں تو ہوں آزردگی کیسی
کہ رنجش اس جگہ ہووے جہاں ہو اعتبار اپنا
اگرچہ خاک اڑائی دیدئہ تر نے بیاباں کی
ولے نکلا نہ خاطر خواہ رونے سے غبار اپنا
کہا بد وضع لوگوں نے جو دیکھا رات کو ملتے
ہوا صحبت میں ان لڑکوں کی ضائع روزگار اپنا
کریں جو ترک عزلت واسطے مشہور ہونے کے
مگر شہروں میں کم ہے جیسے عنقا اشتہار اپنا
دل بے تاب و بے طاقت سے کچھ چلتا نہیں ورنہ
کھڑا بھی واں نہ جاکر ہوں اگر ہو اختیار اپنا
عجب ہم بے بصیرت ہیں کہاں کھولا ہے بار آکر
جہاں سے لوگ سب رخت سفر کرتے ہیں بار اپنا
نہ ہو یوں میکدہ مسجد سا پر واں ہوش جاتے ہیں
ہوا ہے دونوں جاگہ ایک دو باری گذار اپنا
سراپا آرزو ہم لوگ ہیں کاہے کو رندوں میں
رہے ہیں اب تلک جیتے ولے دل مار مار اپنا
گیا وہ بوجھ سب ہلکے ہوئے ہم میر آخر کو
مناسب تھا نہ جانا اس گلی میں بار بار اپنا
میر تقی میر

شاعری تو شعار ہے اپنا

دیوان دوم غزل 724
نکتہ مشتاق و یار ہے اپنا
شاعری تو شعار ہے اپنا
بے خودی لے گئی کہاں ہم کو
دیر سے انتظار ہے اپنا
روتے پھرتے ہیں ساری ساری رات
اب یہی روزگار ہے اپنا
دے کے دل ہم جو ہو گئے مجبور
اس میں کیا اختیار ہے اپنا
کچھ نہیں ہم مثال عنقا لیک
شہر شہر اشتہار ہے اپنا
جس کو تم آسمان کہتے ہو
سو دلوں کا غبار ہے اپنا
صرفہ آزار میر میں نہ کرو
خستہ اپنا ہے زار ہے اپنا
میر تقی میر