ٹیگ کے محفوظات: اشارت

عاشق زار کو مار رکھے ہے ایک ابرو کی اشارت میں

دیوان سوم غزل 1187
تیغ کی نوبت کب پہنچے ہے اپنے جی کی غارت میں
عاشق زار کو مار رکھے ہے ایک ابرو کی اشارت میں
گذرے گر دل میں ہوکر تو ایک نگاہ ضروری ہے
کچھ کچھ تیرے غم نے لکھا ہے آکر واں کی عمارت میں
سوکھ کے میں تو عشق کے غم میں خس کی مثال حقیر ہوا
وہ تقصیر نہیں کرتا ہے اب تک میری حقارت میں
ایک بگولا ساتھ مجھے بھی تربت قیس پہ لے آیا
کتنے غزال نظر واں آئے تھے مشغول زیارت میں
دل کو آگ اک دم میں دے دی اشک ہوئے چنگاری سے
کیا ہی شریر ہے شوخی برق ملائی ان نے شرارت میں
شیخ جو تھا دیدار بتاں کا منکر ایسا تھا معذور
دل کو بصیرت تھی نہ اس کے بے نوری تھی بصارت میں
خط و کتابت ایک طرف ہے دفتر لکھ لکھ بھیجے میر
کہیے کچھ جو صریر قلم کی کوتاہی ہو سفارت میں
میر تقی میر

غموں نے آج کل سنیو وہ آبادی ہی غارت کی

دیوان اول غزل 445
خرابی کچھ نہ پوچھو ملکت دل کی عمارت کی
غموں نے آج کل سنیو وہ آبادی ہی غارت کی
نگاہ مست سے جب چشم نے اس کی اشارت کی
حلاوت مے کی اور بنیاد میخانے کی غارت کی
سحرگہ میں نے پوچھا گل سے حال زار بلبل کا
پڑے تھے باغ میں یک مشت پر اودھر اشارت کی
جلایا جس تجلی جلوہ گر نے طور کو ہم دم
اسی آتش کے پر کالے نے ہم سے بھی شرارت کی
نزاکت کیا کہوں خورشید رو کی کل شب مہ میں
گیا تھا سائے سائے باغ تک تس پر حرارت کی
نظر سے جس کی یوسف سا گیا پھر اس کو کیا سوجھے
حقیقت کچھ نہ پوچھو پیرکنعاں کی بصارت کی
ترے کوچے کے شوق طوف میں جیسے بگولا تھا
بیاباں میں غبار میر کی ہم نے زیارت کی
میر تقی میر

نگاہ چشم ادھر تونے کی قیامت کی

دیوان اول غزل 443
خبر نہ تھی تجھے کیا میرے دل کی طاقت کی
نگاہ چشم ادھر تونے کی قیامت کی
انھوں میں جوکہ ترے محو سجدہ رہتے ہیں
نہیں ہے قدر ہزاروں برس کی طاعت کی
اٹھائی ننگ سمجھ تم نے بات کے کہتے
وفا و مہر جو تھی رسم ایک مدت کی
رکھیں امید رہائی اسیر کاکل و زلف
مری تو باتیں ہیں زنجیر صرف الفت کی
رہے ہے کوئی خرابات چھوڑ مسجد میں
ہوا منائی اگر شیخ نے کرامت کی
سوال میں نے جو انجام زندگی سے کیا
قد خمیدہ نے سوے زمیں اشارت کی
نہ میری قدر کی اس سنگ دل نے میر کبھو
ہزار حیف کہ پتھر سے میں محبت کی
میر تقی میر