عرفان صدیقی ۔ غزل نمبر 134
میں تو اک بکھری ہوئی صف کا پیادہ ٹھہرا
کون اس فوج کا سالار ہے میں کیا جانوں
تو فرستادۂ سرکار نہیں ہے نہ سہی
ہاتھ میں محضرِ سرکار ہے میں کیا جانوں
شحنۂ شہر کی خدمت میں لگے ہیں سب لوگ
کون غالب کا طرفدار ہے میں کیا جانوں
اک نیا رنگ ہویدا ہے مری آنکھوں میں
آج کیا سرخئ اخبار ہے میں کیا جانوں
تجھ کو سیلاب کے آنے کی خبر دے دی ہے
تیرا در ہے تری دیوار ہے میں کیا جانوں
میں نمو کرنے پہ راضی نہیں بے موجِ بہار
موسمِ دَرہم و دِینار ہے میں کیا جانوں
سرِ پندار تو مجھ کو بھی نظر آتا ہے
اور کیا کیا تہہِ دستار ہے میں کیا جانوں
قحط میں کب سے دکاں میری پڑی ہے خالی
عشق سے گرمئ بازار ہے میں کیا جانوں
ہے کہیں صبحِ خوش آثار بھی لیکن فی الحال
میرے آگے تو شبِ تار ہے میں کیا جانوں
مجھ کو آتی ہے ترے حرف سے احساس کی آنچ
سب تری گرمئ گفتار ہے میں کیا جانوں
عرفان صدیقی
اسے پسند کریں:
پسند کریں لوڈ کیا جا رہا ہے۔۔۔