ٹیگ کے محفوظات: احباب

ٹُوٹ جاتے ہیں سہانے خواب آدھی رات کو

گُونجتا ہے نالہِ مہتاب آدھی رات کو
ٹُوٹ جاتے ہیں سہانے خواب آدھی رات کو
بھاگتے سایوں کی چیخیں، ٹُوٹتے تاروں کا شور
میں ہوں اور اک محشرِ بے خواب آدھی رات کو
شام ہی سے بزمِ انجم نشہِ غفلت میں تھی
چاند نے بھی پی لیا زہراب آدھی رات کو
اک شکستہ خواب کی کڑیاں ملانے آئے ہیں
دیر سے بچھڑے ہوئے احباب آدھی رات کو
دولتِ احساسِ غم کی اتنی اَرزانی ہوئی
نیند سی شے ہو گئی نایاب آدھی رات کو
شکیب جلالی

جلتے ہوئے چراغ تہِ آب دیکھتے

ساحل سے دُور جب بھی کوئی خواب دیکھتے
جلتے ہوئے چراغ تہِ آب دیکھتے
ہم نے فضول چھیڑ دی زخمِ نہاں کی بات
چُپ چاپ رنگِ خندہِ احباب دیکھتے
غم کی بس ایک موج نے جن کو ڈبو دیا
اے کاش وہ بھی حلقہِ گرداب دیکھتے
بیتے دنوں کے زخم کُریدے ہیں رات بھر
آئی نہ جن کو نیند وہ کیا خواب دیکھتے
کشکولِ شعرِتر لیے پھرتے نہ ہم‘ شکیبؔ
اس ریشمیں بدن پہ جو کمخواب دیکھتے
شکیب جلالی

طوفاں مری خواہش ہیں تو گرداب مرے خواب

خورشید نہ یہ انجم و مہتاب مرے خواب
طوفاں مری خواہش ہیں تو گرداب مرے خواب
پوچھے تو کوئی کون ہے ہر شخص کے اندر
جو چیختا رہتا ہے مرے خواب مرے خواب
اِس خوف سے کرتا ہی نہیں تجھ سے بیاں میں
کرجائیں نہ تجھ کو کہِیں بیخواب مرے خواب
گھبراتا ہے دل دُور سے اب دیکھ کر اِن کو
اِک دَور تھا جب تھے مرے احباب مرے خواب
ضامنؔ وہ چلا آتا ہے ہر خواب میں میرے
واقف ہے کہ ہیں واقفِ آداب مرے خواب
ضامن جعفری

روز اک تازہ تلاطم ہے مرے اعصاب میں

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 29
گھِر گئی ہے رُوح اپنی جانے کس گرداب میں
روز اک تازہ تلاطم ہے مرے اعصاب میں
یاس کی خشکی، نمِ اُمید کی بہتات سے
ایک کائی سی جمی ہے دیدۂ بے خواب میں
میں کہ تنہائی میں تھا بے در حویلی کی طرح
بند کمرہ سا بنا بیٹھا ہوں اب احباب میں
دل کہ باغی لہر تھا اب پیرہن ذرّوں کا ہے
ڈھل گیا ہے یہ بھی آخر زیست کے آداب میں
اُکھڑے حرفوں کی کتابِ زیست کے اوراق پر
چیونٹیاں سی کسمساتی ہیں سکوں کے باب میں
کچھ ہَوا یا دھوپ ہی ماجدؔ مرے درپے نہ تھی
جانے کیا کچھ اور بربادی کے تھا اسباب میں
ماجد صدیقی

اب تو ہم لوگ گئے دیدۂ بے خواب سے بھی

احمد فراز ۔ غزل نمبر 99
دل بہلتا ہے کہاں انجم و مہتاب سے بھی
اب تو ہم لوگ گئے دیدۂ بے خواب سے بھی
رو پڑا ہوں تو کوئی بات ہی ایسی ہو گی
میں کہ واقف تھا ترے ہجر کے آداب سے بھی
کچھ تو اُس آنکھ کا شیوہ ہے خفا ہو جانا
اور کچھ بھول ہوئی ہے دلِ بیتاب سے بھی
اے سمندر کی ہوا تیر اکرم بھی معلوم
پیاس ساحل کی تو بجھتی نہیں سیلاب سے بھی
کچھ تو اُس حُسن کو جانے ہے زمانہ سارا
اور کچھ بات چلی ہے مرے احباب سے بھی
احمد فراز

فرش ہے مخمل و کمخواب ترے کوچے میں

مصطفٰی خان شیفتہ ۔ غزل نمبر 74
کیوں نہ اڑ جائے مرا خواب ترے کوچے میں
فرش ہے مخمل و کمخواب ترے کوچے میں
دولتِ حسن یہاں تک تو لٹائی ظالم
اشک ہے گوہرِ نایاب ترے کوچے میں
جوششِ گریۂ عشاق سے اک دم میں ہوا
شجرِ سوختہ، شاداب ترے کوچے میں
ہوش کا پاؤں جو یاں آ کے پھسل جاتا ہے
کیا لنڈھائی ہے مئے ناب ترے کوچے میں
ہے کفِ پائے عدو، پا سے ترے رنگیں تر
بس کہ ہم روتے ہیں خوناب ترے کوچے میں
گوشہ گیری سے بھی گردش نہ گئ طالع کی
پھرتے ہیں صورتِ دولاب ترے کوچے میں
غیر نے سنگ جو پھینکے وہ ہوئے بالشِ سر
چین سے کرتے ہیں ہم خواب ترے کوچے میں
وہ بھی محروم نہیں جن کو نہیں بزم میں بار
تیرے رخسار کی ہے تاب ترے کوچے میں
چل دیا شیفتہ سودے میں خدا جانے کہاں
ڈھونڈتے پھرتے ہیں احباب ترے کوچے میں
مصطفٰی خان شیفتہ

کہ کچھ حظ اٹھے سیرِ مہتاب کا

مصطفٰی خان شیفتہ ۔ غزل نمبر 17
پلا جام ساقی مے ناب کا
کہ کچھ حظ اٹھے سیرِ مہتاب کا
دلِ زار کا ماجرا کیا کہوں
فسانہ ہے مشہور سیماب کا
کہاں پھر وہ نایاب، پایا جسے
غلط شوق ہے جنسِ نایاب کا
نہ کیجو غل اے خوش نوایانِ صبح
یہ ہے وقت ان کی شکر خواب کا
محبت نہ ہرگز جتائی گئی
رہا ذکر کل اور ہر باب کا
دمِ سرد سے لا نہ طوفانِ باد
نہ سن ماجرا چشمِ پر آب کا
وہاں بے خودوں کی خبر کون لے
جہاں شغل ہو بادۂ ناب کا
وہاں تیرہ روزوں کی پروا کسے
جہاں شوق ہو سیرِ مہتاب کا
وہ تشخیصِ شخصی بھی جاتی رہی
کنارا الٹتے ہی جلباب کا
میں بے جرم رہتا ہوں خائف کہ واں
جفا میں نہیں دخل اسباب کا
پڑے صبر آرام کی جان پر
مری جانِ بے صبر و بے تاب کا
لبِ لعل کو کس کے جنبش ہوئی
ہوا میں ہے کچھ رنگ عناب کا
نہ کرنا خطا پر نظر شیفتہ
کہ اغماض شیوہ ہے احباب کا
مصطفٰی خان شیفتہ

شعلۂ جوّالہ ہر اک حلقۂ گرداب تھا

دیوانِ غالب ۔ غزل نمبر 91
شب کہ برقِ سوزِ دل سے زہرۂ ابر آب تھا
شعلۂ جوّالہ ہر اک حلقۂ گرداب تھا
واں کرم کو عذرِ بارش تھا عناں گیرِ خرام
گریے سے یاں پنبۂ بالش کفِ سیلاب تھا
واں خود آرائی کو تھا موتی پرونے کا خیال
یاں ہجومِ اشک میں تارِ نگہ نایاب تھا
جلوۂ گل نے کیا تھا واں چراغاں آب جو
یاں رواں مژگانِ چشمِ تر سے خونِ ناب تھا
یاں سرِ پرشور بے خوابی سے تھا دیوار جو
واں وہ فرقِ ناز محوِ بالشِ کمخواب تھا
یاں نفَس کرتا تھا روشن، شمعِ بزمِ بےخودی
جلوۂ گل واں بساطِ صحبتِ احباب تھا
فرش سے تا عرش واں طوفاں تھا موجِ رنگ کا
یاں زمیں سے آسماں تک سوختن کا باب تھا
ناگہاں اس رنگ سے خوں نابہ ٹپکانے لگا
دل کہ ذوقِ کاوشِ ناخن سے لذت یاب تھا
مرزا اسد اللہ خان غالب

وہ جو تڑپا لے گیا آسودگی و خواب کو

دیوان ششم غزل 1860
کیونکے نیچے ہاتھ کے رکھا دل بیتاب کو
وہ جو تڑپا لے گیا آسودگی و خواب کو
کم نہیں ہے سحر سے یہ بھی تصرف عشق کا
پانی کر آنکھوں میں لایا دل کے خون ناب کو
تھا یہی سرمایۂ بحر بلا پچھلے دنوں
چشم کم سے دیکھو مت اس دیدئہ پرآب کو
تو کہے تھی برق خاطف ناگہاں آکر گری
اک نگہ سے مار رکھا ان نے شیخ و شاب کو
کیا سفیدی دیکھی اس کی آستیں کے چاک سے
جس کے آگے رو نہ تھا کچھ پرتو مہتاب کو
چاہتا ہے جب مسبب آپھی ہوتا ہے سبب
دخل اس عالم میں کیا ہے عالم اسباب کو
دم بخود رہتا ہوں اکثر سر رکھے زانو پہ میر
حال کہہ کر کیا کروں آزردہ اور احباب کو
میر تقی میر

رخسار تیرے پیارے ہیں آفتاب مہتاب

دیوان دوم غزل 777
برقع میں کیا چھپیں وے ہوویں جنھوں کی یہ تاب
رخسار تیرے پیارے ہیں آفتاب مہتاب
اٹکل ہمیں کو ان نے آخر ہدف بنایا
ہرچند ہم بلاکش تھے ایک تیر پرتاب
کچھ قدر میں نہ جانی غفلت سے رفتگاں کی
آنکھیں سی کھل گئیں اب جب صحبتیں ہوئیں خواب
ان بن ہی کے سبب ہیں اس لالچی سے سارے
یاں ہے فقیری محض واں چاہیے ہے اسباب
اس بحر حسن کے تیں دیکھا ہے آپ میں کیا
جاتا ہے صدقے اپنے جو لحظہ لحظہ گرداب
اچرج ہے یہ کہ مطلق کوئی نہیں ہے خواہاں
جنس وفا اگرچہ ہے گی بہت ہی کمیاب
تھی چشم یہ رکے گا پلکوں سے گریہ لیکن
ہوتی ہے بند کوئی تنکوں سے راہ سیلاب
تو بھی تو مختلط ہو سبزے میں ہم سے ساقی
لے کر بغل میں ظالم میناے بادئہ ناب
نکلی ہیں اب کے کلیاں اس رنگ سے چمن میں
سر جوڑ جوڑ جیسے مل بیٹھتے ہیں احباب
کیا لعل لب کسو کے اے میر چت چڑھے ہیں
چہرے پہ تیرے ہر دم بہتا رہے ہے خوناب
میر تقی میر

ٹپکا کرے ہے آنکھوں سے خونناب روز و شب

دیوان اول غزل 175
اب وہ نہیں کہ آنکھیں تھیں پرآب روز و شب
ٹپکا کرے ہے آنکھوں سے خونناب روز و شب
اک وقت رونے کا تھا ہمیں بھی خیال سا
آئی تھی آنکھوں سے چلی سیلاب روز و شب
اس کے لیے نہ پھرتے تھے ہم خاک چھانتے
رہتا تھا پاس وہ در نایاب روز و شب
قدرت تو دیکھ عشق کی مجھ سے ضعیف کو
رکھتا ہے شاد بے خور و بے خواب روز و شب
سجدہ اس آستاں کا نہیں یوں ہوا نصیب
رگڑا ہے سر میانۂ محراب روز و شب
اب رسم ربط اٹھ ہی گئی ورنہ پیش ازیں
بیٹھے ہی رہتے تھے بہم احباب روز و شب
دل کس کے رو و مو سے لگایا ہے میر نے
پاتے ہیں اس جوان کو بیتاب روز و شب
میر تقی میر