دیوان دوم غزل 777
برقع میں کیا چھپیں وے ہوویں جنھوں کی یہ تاب
رخسار تیرے پیارے ہیں آفتاب مہتاب
اٹکل ہمیں کو ان نے آخر ہدف بنایا
ہرچند ہم بلاکش تھے ایک تیر پرتاب
کچھ قدر میں نہ جانی غفلت سے رفتگاں کی
آنکھیں سی کھل گئیں اب جب صحبتیں ہوئیں خواب
ان بن ہی کے سبب ہیں اس لالچی سے سارے
یاں ہے فقیری محض واں چاہیے ہے اسباب
اس بحر حسن کے تیں دیکھا ہے آپ میں کیا
جاتا ہے صدقے اپنے جو لحظہ لحظہ گرداب
اچرج ہے یہ کہ مطلق کوئی نہیں ہے خواہاں
جنس وفا اگرچہ ہے گی بہت ہی کمیاب
تھی چشم یہ رکے گا پلکوں سے گریہ لیکن
ہوتی ہے بند کوئی تنکوں سے راہ سیلاب
تو بھی تو مختلط ہو سبزے میں ہم سے ساقی
لے کر بغل میں ظالم میناے بادئہ ناب
نکلی ہیں اب کے کلیاں اس رنگ سے چمن میں
سر جوڑ جوڑ جیسے مل بیٹھتے ہیں احباب
کیا لعل لب کسو کے اے میر چت چڑھے ہیں
چہرے پہ تیرے ہر دم بہتا رہے ہے خوناب
میر تقی میر
اسے پسند کریں:
پسند کریں لوڈ کیا جا رہا ہے۔۔۔