ٹیگ کے محفوظات: اجنبی
مُطربہ چھیڑ دے خوشی کے گیت
میری زِندگی ہے تو
رات نیند آ گئی درختوں میں
منزلوں چھا گئی خامشی سو رہو سو رہو
اے مرے دِل رُبا! عشق کی بات کر
اور اس کی زبان اجنبی تھی
میں تو اس زخم ہی کو بھول گیا
اجنبی
کھوئی کھوئی آنکھیں
بکھرے بال
شکن آلود قبا
لُٹا لُٹا انسان !
سائے کی طرح سے میرے ساتھ رہا کرتا لیکن
کِسی جگہ مل جائے تو
گبھرا کر مُڑ جاتا ہے
اور پھر دور سے جا کر مجھ کو تکنے لگتا ہے
کون ہے یہ
دکھ ہمیں بھی ہوتا ہے آدمی تو ہم بھی ہیں
جی رہا ہوں مگر بے کسی کی طرح
اجنبی
وہ لڑکا شاہزادہ سا
جسے بے نام خوشبوؤں کی آوازیں
تصّور کی زمینوں میں سدا آوارہ رکھتی تھیں
جسے گھر سے گلی سے مدرسے تک
تربیت نے
قاعدے کی تال پر چلنا سکھایا تھا
وہ کنج خواب کا حجلہ نشیں
خواہش کے روزن سے
سمندر کے اُفق پر
دیکھتا تھا خواب اُڑتے بادبانوں کے
تمسخر روشنی کا دن کے چہرے پر
وہ لڑکا شاہزادہ سا
جسے بے رشتہ رہنا تھا ہمیشہ
شہر اشیا کی ثقافت میں
کسے رعنائیاں اپنی دکھاتا
کس پہ کشفِ دلبری کرتا
کسے پہچانتا
کیسے جگاتا انگلیوں کے لمس سے
آواز کی خوشبو سے
اشیا میں
حرارت آشنائی کی
وہ لڑکا شاہزادہ سا
جبیں کی لوح پرکل کی جزائیں
لکھتا رہتا تھا
مقدم زخم کا
خفیہ پتے ممنوعہ رستوں کے
وہی ہر روز کے مضمون میں
لُکنت خالی جگہوں کی
تحّیر لفظ سے ٹوٹے ہوئے معنی کے رشتے کا
وہ لڑکا شاہزادہ تھا
کسی موعود و نامولود دنیا کا