ٹیگ کے محفوظات: اجنبی

کہاں جاتی ہے اس رفتار سے، اے روشنی! تھم جا

نہ پورا چاند گھٹ جائے، اسی لمحے! ابھی تھم جا
کہاں جاتی ہے اس رفتار سے، اے روشنی! تھم جا
عذابِ جاں بنی ہے تیری ٹک ٹک اے گھڑی! تھم جا
مرے حلقوم پر چلتی ہوئی میٹھی چھری! تھم جا
مجھے کچھ سانس لینے دے، مجھے کچھ سانس لینے دے
مری آوارگی تھم جا! مری آوارگی تھم جا
کسی دریا سے ہو کر بحر میں مٹ جائے گی آخر
اسی وادی میں بہتی رہ، اری پیاری ندی! تھم جا
امر کرنے کو ہے دیکھو کرن کو بوند پانی کی
یہ لمحہ پھر نہیں آنا، یہیں پر روشنی! تھم جا
اسی امید پر چلتا رہا انجان رستوں پر
کوئی مجھ کو پکارے گا کہ تھم جا۔۔ اجنبی، تھم جا
یہ گردش شش جہت کی تو کبھی تھمتی نہیں یاؔور
تو پھر اے گردشِ دوراں ذرا تو ہی کبھی تھم جا!
یاور ماجد

مُطربہ چھیڑ دے خوشی کے گیت

لے اُڑی ہے صَبا کلی کے گیت
مُطربہ چھیڑ دے خوشی کے گیت
ہم سے پہلے کہاں تھا سوز و گداز
ساز بے سُر تھے اور پھیکے گیت
نیند میں زہر گھول دیتے ہیں
رات کو ایک اجنبی کے گیت
موج رہ رہ کے سر کو دُھنتی ہے
کتنے سندر ہیں جل پری کے گیت
تم تو سرگوشیوں میں کھوئے رہے
کب سُنے تم نے خامُشی کے گیت
موت کے سامنے بھی لہرا کر
ہم نے گائے ہیں زندگی کے گیت
جس کا دُکھ درد تم نہ بانٹ سکے
بُھول بھی جاؤ اُس کوی کے گیت
گونجتے ہیں، شکیبؔ، خوابوں میں
آنے والی کسی صدی کے گیت
شکیب جلالی

میری زِندگی ہے تو

غم ہے یا خوشی ہے تو
میری زِندگی ہے تو
آفتوں کے دَور میں
چَین کی گھڑی ہے تو
میری رات کا چراغ
میری نیند بھی ہے تو
میں خزاں کی شام ہوں
رُت بہار کی ہے تو
دوستوں کے درمیاں
وجہِ دوستی ہے تو
میری ساری عمر میں
ایک ہی کمی ہے تو
میں تو وہ نہیں رہا
ہاں مگر وہی ہے تو
ناصر اِس دیار میں
کتنا اجنبی ہے تو
ناصر کاظمی

رات نیند آ گئی درختوں میں

گا رہا تھا کوئی درختوں میں
رات نیند آ گئی درختوں میں
چاند نکلا اُفق کے غاروں سے
آگ سی لگ گئی درختوں میں
مینہ جو برسا تو برگ ریزوں نے
چھیڑ دی بانسری درختوں میں
یہ ہوا تھی کہ دھیان کا جھونکا
کس نے آواز دی درختوں میں
ہم اِدھر گھر میں ہو گئے بے چین
دُور آندھی چلی درختوں میں
لیے جاتی ہے موسموں کی پکار
اجنبی اجنبی درختوں میں
کتنی آبادیاں ہیں شہر سے دُور
جا کے دیکھو کبھی درختوں میں
نیلے پیلے سفید لال ہرے
رنگ دیکھے سبھی درختوں میں
خوشبوؤں کی اُداس شہزادی
رات مجھ کو ملی درختوں میں
دیر تک اُس کی تیز آنکھوں سے
روشنی سی رہی درختوں میں
چلتے چلتے ڈگر اُجالوں کی
جانے کیوں مڑ گئی درختوں میں
سہمے سہمے تھے رات اہلِ چمن
تھا کوئی آدمی درختوں میں
ناصر کاظمی

منزلوں چھا گئی خامشی سو رہو سو رہو

دن ڈھلا رات پھر آ گئی سو رہو سو رہو
منزلوں چھا گئی خامشی سو رہو سو رہو
سارا دن تپتے سورج کی گرمی میں جلتے رہے
ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا پھر چلی سو رہو سو رہو
گرم سنسان قریوں کی دھرتی مہکنے لگی
خاک رشکِ ارم بن گئی سو رہو سو رہو
رزم گاہِ جہاں بن گئی جائے امن و اماں
ہے یہی وقت کی راگنی سو رہو سو رہو
کیسے سنسان ہیں آسماں چپ کھڑے ہیں مکاں
ہے فضا اجنبی اجنبی سو رہو سو رہو
تھک گئے ناقہ و سارباں تھم گئے کارواں
گھنٹیوں کی صدا سو گئی سو رہو سو رہو
چاندنی اور دھوئیں کے سوا دور تک کچھ نہیں
سو گئی شہر کی ہر گلی سو رہو سو رہو
گردشِ وقت کی لوریاں رات کی رات میں
پھر کہاں یہ ہوا یہ نمی سو رہو سو رہو
ساری بستی کے لوگ اس مدھر لے میں کھوئے گئے
دُور بجنے لگی بانسری سو رہو سو رہو
دُور شاخوں کے جھرمٹ میں جگنو بھی گم ہو گئے
چاند میں سو گئی چاندنی سو رہو سو رہو
گھر کے دیوار و دَر راہ تک تک کے شل ہو گئے
اب نہ آئے گا شاید کوئی سو رہو سو رہو
سُست رفتار تارے بھی آنکھیں جھپکنے لگے
غم کے مارو گھڑی دو گھڑی سو رہو سو رہو
منہ اندھیرے ہی ناصر کسے ڈھونڈنے چل دیے
دُور ہے صبحِ روشن ابھی سو رہو سو رہو
ناصر کاظمی

اے مرے دِل رُبا! عشق کی بات کر

دِل پریشان ہے چل کوئی بات کر!
اے مرے دِل رُبا! عشق کی بات کر!
آج مجھ میں سما! میری بانہوں میں آ!
میں اکیلا ہوں نیلم پری! بات کر!
بات کرتے ہوئے آج اُس نے کہا
چھوڑ رنجش پُرانی نئی بات کر!
میں چلا جاؤں گا یہ نگر چھوڑ کر
مختصر ہی سہی اجنبی! بات کر!
آخری بار میری طرف دیکھ لے
آخری بار مجھ سے مِری بات کر!
یوں نہ باتیں بنا دُشمنِ جان و دل
تیرے دِل میں ہے جو ، بس وہی بات کر!
میں براے سخن! آگیا ہوں یہاں
سُن مِری ان سُنی! ان کہی بات کر!
افتخار فلک

اور اس کی زبان اجنبی تھی

پروین شاکر ۔ غزل نمبر 86
اک گیت ہوا کے ہونٹ پر تھا
اور اس کی زبان اجنبی تھی
اس رات جبین ماہ پر بھی
تحریر کوئی قدیم سی تھی
یہ عشق نہیں تھا اس زمیں کا
اس میں کوئی بات سرمدی تھی
جوروشنی تھی میرے جہاں کی
وہ خیرہ آنکھوں کو کر رہی تھی
پروین شاکر

میں تو اس زخم ہی کو بھول گیا

جون ایلیا ۔ غزل نمبر 45
ضبط کر کے ہنسی کو بھول گیا
میں تو اس زخم ہی کو بھول گیا
ذات در ذات ہم سفر رہ کر
اجنبی، اجنبی کو بھول گیا
صبح تک وجہِ جانکنی تھی جو بات
میں اسے شام ہی کو بھول گیا
عہدِ وابستگی گزار کے میں
وجہ وابستگی کو بھول گیا
سب دلیلیں تو مجھ کو یاد رہیں
بحث کیا تھی، اسی کو بھول گیا
کیوں نہ ہو ناز اس ذہانت پر
ایک میں، ہر کسی کو بھول گیا
سب سے پر امن واقعہ یہ ہے
آدمی، آدمی کو بھول گیا
قہقہہ مارتے ہی دیوانہ
ہر غمِ زندگی کو بھول گیا
خواب ہا خواب جس کو چاہا تھا
رنگ ہا رنگ اسی کو بھول گیا
کیا قیامت ہوئی اگر اک شخص
اپنی خوش قسمتی کو بھول گیا
سوچ کر اس کی خلوت انجمنی
واں میں اپنی کمی کو بھول گیا
سب برے مجھ کو یاد رہتے ہیں
جو بھلا تھا اسی کو بھول گیا
ان سے وعدہ تو کر لیا لیکن
اپین کم فرصتی کو بھول گیا
بستیو! اب تو راستہ دے دو
اب تو میں اس گلی کو بھول گیا
اس نے گویا مجھی کو یاد رکھا
میں بھی گویا اسی کو بھول گیا
یعنی تم وہ ہو، واقعی؟ حد ہے
میں تو سچ مچ سبھی کو بھول گیا
آخری بت خدا نہ کیوں ٹھہرے
بت شکن، بت گری کو بھول گیا
اب تو ہر بات یاد رہتی ہے
غالباً میں کسی کو بھول گیا
اس کی خوشیوں سے جلنے والا جونؔ
اپنی ایذا دہی کو بھول گیا
جون ایلیا

اجنبی

کھوئی کھوئی آنکھیں

بکھرے بال

شکن آلود قبا

لُٹا لُٹا انسان !

سائے کی طرح سے میرے ساتھ رہا کرتا لیکن

کِسی جگہ مل جائے تو

گبھرا کر مُڑ جاتا ہے

اور پھر دور سے جا کر مجھ کو تکنے لگتا ہے

کون ہے یہ

پروین شاکر

دکھ ہمیں بھی ہوتا ہے آدمی تو ہم بھی ہیں

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 381
دیکھتے لپک تیرے طنز کی تو ہم بھی ہیں
دکھ ہمیں بھی ہوتا ہے آدمی تو ہم بھی ہیں
کھلتے کھلتے کھلتے ہیں اپنی اپنی دنیا میں
تم اگر تجسس ہو سنسنی تو ہم بھی ہیں
تم سہی سیہ بدلی آنسوئوں کے موسم کی
آس پاس مژگاں کے کچھ نمی تو ہم بھی ہیں
عشق کی شریعت میں کیا جو قیس پہلے تھے
ہجر کی طریقت میں آخری تو ہم بھی ہیں
جانتے ہیں دنیا کو درد کا سمندر ہے
اور اس سمندر میں اک گلی تو ہم بھی ہیں
پیڑ سے تعلق تو ٹوٹ کے بھی رہتا ہے
سوختہ سہی لیکن شبنمی تو ہم بھی ہیں
دو گھڑی کا قصہ ہے زندگی محبت میں
دو گھڑی تو تم بھی ہو دو گھڑی تو ہم بھی ہیں
جیل کی عمارت ہے عاشقی کی صحبت بھی
بیڑیاں اگر تم ہو ہتھکڑی تو ہم بھی ہیں
نام وہ ہمارا پھر اک کرن کے ہونٹوں پر
وقت کے ستارے پر۔ ہاں ابھی تو ہم بھی ہیں
کیا ہوا جو ہجراں کی رہ رہے ہیں مشکل میں
یار کے شبستاں میں یاد سی تو ہم بھی ہیں
دیدنی زمانے میں بے خبر بہاروں سے
گلستانِ حیرت کی اک کلی تو ہم بھی ہیں
مانا عشق کرنے کا کچھ پتہ نہیں تم کو
دلبری کی بستی میں اجنبی تو ہم بھی ہیں
یہ الگ گوارا ہم وقت کو نہیں لیکن
جس طرح کے ہوتے ہیں آدمی تو ہم بھی ہیں
کربلا کی وحشت سے، سلسلہ نہیں لیکن
ساحلوں پہ دریا کے تشنگی تو ہم بھی ہیں
ہیر تیرے بیلے میں آنسوئوں کے ریلے میں
خالی خالی بیلے میں بانسری تو ہم بھی ہیں
تم چلو قیامت ہو تم چلو مصیبت ہو
بے بسی تو ہم بھی ہیں ، بے کسی تو ہم بھی ہیں
صبح کے نکلتے ہی بجھ تو جانا ہے ہم کو
رات کی سہی لیکن روشنی تو ہم بھی ہیں
دیکھتے ہیں پھولوں کو، سوچتے ہیں رنگوں کو
خوشبوئوں کے مکتب میں فلسفی تو ہم بھی ہیں
ایک الف لیلیٰ کی داستاں سہی کوئی
دوستو کہانی اک متھ بھری تو ہم بھی ہیں
منصور آفاق

جی رہا ہوں مگر بے کسی کی طرح

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 148
آدمی میں بھی ہوں آدمی کی طرح
جی رہا ہوں مگر بے کسی کی طرح
ہر قدم پر لہو کا تعاقب کرے
موت وحشت زدہ اونٹنی کی طرح
چار اطراف میں زندگی کی تڑپ
جسم کی آخری جھر جھری کی طرح
صرف حیرت تھی آنکھوں میں پھیلی ہوئی
کوئی منظر تھا بے منظری کی طرح
آئینے میں کسی اور کو دیر تک
دیکھتا میں رہا اجنبی کی طرح
ایک تقریبِصبح مسلسل ہے تُو
اور میں محفلِ ملتوی کی طرح
وقت کے کینوس پہ ادھورا سا میں
ایک تصویر بنتی ہوئی کی طرح
سانولی دھوپ آنکھوں میں پھرتی رہے
شام کی ساعتِ سرمئی کی طرح
عمر بھر اک سٹیشن پہ چلتے رہے
تیراساماں اٹھاکر قلی کی طرح
مصرعے اگلی کلاسوں کے بنتا ہوا
خواب کا جامعہ شاعری کی طرح
عمر منصور اس کی گلی میں کٹی
عشق میں نے کیا نوکری کی طرح
منصور آفاق

اجنبی

وہ لڑکا شاہزادہ سا

جسے بے نام خوشبوؤں کی آوازیں

تصّور کی زمینوں میں سدا آوارہ رکھتی تھیں

جسے گھر سے گلی سے مدرسے تک

تربیت نے

قاعدے کی تال پر چلنا سکھایا تھا

وہ کنج خواب کا حجلہ نشیں

خواہش کے روزن سے

سمندر کے اُفق پر

دیکھتا تھا خواب اُڑتے بادبانوں کے

تمسخر روشنی کا دن کے چہرے پر

وہ لڑکا شاہزادہ سا

جسے بے رشتہ رہنا تھا ہمیشہ

شہر اشیا کی ثقافت میں

کسے رعنائیاں اپنی دکھاتا

کس پہ کشفِ دلبری کرتا

کسے پہچانتا

کیسے جگاتا انگلیوں کے لمس سے

آواز کی خوشبو سے

اشیا میں

حرارت آشنائی کی

وہ لڑکا شاہزادہ سا

جبیں کی لوح پرکل کی جزائیں

لکھتا رہتا تھا

مقدم زخم کا

خفیہ پتے ممنوعہ رستوں کے

وہی ہر روز کے مضمون میں

لُکنت خالی جگہوں کی

تحّیر لفظ سے ٹوٹے ہوئے معنی کے رشتے کا

وہ لڑکا شاہزادہ تھا

کسی موعود و نامولود دنیا کا

آفتاب اقبال شمیم

جہاں ہر آشنا بھی اجنبی ہے

باقی صدیقی ۔ غزل نمبر 237
جنون عشق کی منزل وہی ہے
جہاں ہر آشنا بھی اجنبی ہے
انہی مجبوریوں نے مارا ڈالا
کہ تیری ہر خوشی میری خوشی ہے
ابھی ہے ان کے آنے کی توقع
ابھی راہوں میں کچھ کچھ روشنی ہے
مری بربادیوں کا پوچھنا کیا
تری نظروں کی قیمت بڑھ گئی ہے
جہاں ان کا سوال آیا ہے باقیؔ
وہاں اپنی کمی محسوس کی ہے
باقی صدیقی