ٹیگ کے محفوظات: اجل

جیسے بلقیس سلیماں کے محل میں آئے

یوں ترے حسن کی تصویر غزل میں آئے
جیسے بلقیس سلیماں کے محل میں آئے
جبر سے ایک ہوا ذائقہِ ہجر و وصال
اب کہاں سے وہ مزا صبر کے پھل میں آئے
ہمسفر تھی جہاں فرہاد کے تیشے کی صدا
وہ مقامات بھی کچھ سیرِ جبل میں آئے
یہ بھی آرائشِ ہستی کا تقاضا تھا کہ ہم
حلقہِ فکر سے میدانِ عمل میں آئے
ہر قدم دست و گریباں ہے یہاں خیر سے شر
ہم بھی کس معرکہِ جنگ و جدل میں آئے
زِندگی جن کے تصوّر سے جلا پاتی تھی
ہائے کیا لوگ تھے جو دامِ اجل میں آئے
ناصر کاظمی

گر مے پہ ہے پابندی کچھ اُس کا بدل آئے

معمول میں رندوں کے ساقی نہ خلل آئے
گر مے پہ ہے پابندی کچھ اُس کا بدل آئے
مایوس نہیں کرتا میں تجھ کو مگر اے دل
جو آج نہیں آیا مشکل ہے وہ کل آئے
چاہا بھی کہ ہو جائیں کچھ اہلِ ہوس جیسے
پر جو اُنہیں آتے ہیں ہم کو نہ وہ چھل آئے
شاید یہی بہتر ہے ہو جائیں ہمیں سیدھے
قبل اِس کے کہ ماتھے پر اُس شوخ کے بَل آئے
تم دیکھ تو لو آ کر بیمار کو اپنے، پھر
چاہے یہ شفا پائے یا اِس کی اجل آئے
باصر کاظمی

نہیں ہے اور کہ میرا نہیں بدل کوئی

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 433
مجھ ایسا غیر پسندیدہ بے محل کوئی
نہیں ہے اور کہ میرا نہیں بدل کوئی
گزار اعمرنہ سنجیدگی کے صحرا میں
ضروری ہے تری محفل میں بیربل کوئی
پھٹی ہوئی کسی چادر سے ڈھانپ دیتے ہیں
تلاش کرتے نہیں مسئلے کا حل کوئی
فنانژاد علاقہ ہے میری مٹی کا
نکال سکتا نہیں خاک سے اجل کوئی
یہ پوچھتا تھا کوئی اور بھی ہے میرے سوا
ملاتھا دشتِ جنوں میں مجھے پنل کوئی
اسی جریدۂ کون و مکاں کی سطروں میں
چھپی ہوئی ہے مرے واسطے غزل کوئی
نجانے کون شہادت سے سرفراز ہوا
کنارِ چشمۂ کوثر بنا محل کوئی
ٹھہر گیا ہے ستم ناک وقت میرے لئے
یا کائنات کی گردش میں ہے خلل کوئی
مری شکست کے اسباب پوچھتے کیا ہو
ہے کھیل ہی کے قواعد گیا بدل کوئی
اجل حیات کا پہلا سرا نہیں منصور
مراجعت کی مسافت کا ہے عمل کوئی
منصور آفاق