ٹیگ کے محفوظات: اجتناب

ذلیل کرتا ہے، بے حد خراب کرتا ہے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 50
کرے تو اور ہی وہ احتساب کرتا ہے
ذلیل کرتا ہے، بے حد خراب کرتا ہے
سنان و تیر و کماں توڑ دے اُسی پر وہ
ستم کشی کو جسے انتخاب کرتا ہے
دمکتا اور جھلکتا ہے برگِ سبز سے کیوں؟
وہ برگِ زرد سے کیوں اجتناب کرتا ہے
بھلے جھلک نہ دکھائے وہ اپنے پیاروں کو
بُلا کے طُور پہ کیوں لاجواب کرتا ہے
گلوں میں عکس وہ ماجد دکھائے خود اپنے
کلی کلی کو وہی بے نقاب کرتا ہے
ماجد صدیقی

سخن کی شاخ پہ رقصاں اِدھر گلاب وہی

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 46
اُدھر کنارِ لب و چشم ہیں عتاب وہی
سخن کی شاخ پہ رقصاں اِدھر گلاب وہی
وہی ہے جبرِ زماں، خود فریبیاں بھی وہی
سفید بال ہمارے وہی، خضاب وہی
ردائے ابر کو جو کشتِ بے گیاہ سے ہے
یہاں سروں سے ہے چھایا کو اجتناب وہی
فرازِ عرش سے نسبت رہی جسے ماجد
دل و نظر پہ اُترنے لگی کتاب وہی
ماجد صدیقی

تمام بستی میں ایک سا اضطراب دیکھا

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 7
ہُوا ہے سچ مچ یہی کہ مَیں نے یہ خواب دیکھا
تمام بستی میں ایک سا اضطراب دیکھا
خُدا سے بھی ہے سلوک میرا معاوضے کا
کِیا ہے میں نے وُہی جو کارِ ثواب دیکھا
بھرا ہے کیا کیا نجانے چھالوں میں اپنے پانی
بہ دشتِ اُمید جانے کیا کیا سراب دیکھا
چھڑا جو قّصہ کبھی غلاموں کی منفعت کا
سخن میں آقاؤں کے نہ کیا اجتناب دیکھا
کسی عمارت پہ لوحِ کم مائیگاں نہ لٹکے
بڑے بڑوں ہی کے نام یہ انتساب دیکھا
پہنچ میں آیا جو بچّۂ میش بھیڑئیے کی
ندی کنارے اُسی کا ہے احتساب دیکھا
نہ بچ سکا تو بھی خود فریبی کی دلکشی سے
ترے بھی بالوں میں اب کے ماجدؔ خضاب دیکھا
ماجد صدیقی

کچھ اس طلب میں خسارے کا بھی حساب کریں

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 1
یونہی نہ ہم بھی تمنّائے لعلِ نابِ کریں
کچھ اس طلب میں خسارے کا بھی حساب کریں
تنے بھی خیر سے زد میں اِسی ہوا کی ہیں
شکست شاخ سے اندازۂ عتاب کریں
لکھے ہیں شعر تو چھپوا کے بیچئے بھی انہیں
یہ کاروبار بھی اب خیر سے جناب کریں
بدل گیا ہے جو مفہوم ہی مروّت کا
تو کیوں نہ ایسی برائی سے اجتناب کریں
ٹھہر سکیں تو ٹھہر جائیں اب کہیں ماجدؔ
ہمِیں نہ پیروئِ جنبشِ حباب کریں
ماجد صدیقی

مرے خدا یہ مجھی پر عتاب سا کیا ہے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 2
یہ روز و شب مرے سر ہی عذاب سا کیا ہے
مرے خدا یہ مجھی پر عتاب سا کیا ہے
یہی متاع‘ یہی آرزو ہے دان ترا
یہ میری سطح پہ پھٹتا حباب سا کیا ہے
کہوں نہ کیوں ترے منہ پر جو مجھ پہ گزرے ہے
مجھے یہ باک سا تجھ سے حجاب سا کیا ہے
ہوئی نہ سیر کہیں بھی مری عمق نظری
مری نظر سے گزرتا یہ خواب سا کیا ہے
ملا ہے جو بھی رُتوں سے، پڑے گا لوٹانا
نمو طلب تھے تو اب سے پیچ و تاب سا کیا ہے
قرارِ جاں ہے تو ماجدؔ اُسے تلاش بھی کر
حصولِ یار سے یہ اجتناب سا کیا ہے
ماجد صدیقی

مَیں بھی گھِرا ہوں جیسے فضائے حباب میں

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 65
حجلے سے واہموں کے نکلتا ہوں خواب میں
مَیں بھی گھِرا ہوں جیسے فضائے حباب میں
کیوں سر پہ آ پڑا ہے یہ خیمہ سکون کا
آیاہے جھول کس کی نظر کی طناب میں
شایدکہیں تو لطف کا دریا رواں ملے
کہسار سر کئے ہیں اِسی اضطراب میں
وہ ابرِ لخت لخت حجابوں کا اور وہ تو
کیا لذّتیں تھیں مجھ سے ترے اجتناب میں
پیاسی زمیں پہ وہ بھی مجھی سا تھا مہرباں
خُو بُو تھی کچھ مجھی سی مزاجِ سحاب میں
ہر حرف چاہتا تھا اُسی پر رکے رہیں
کیا کیا تھے باب اُس کے بدن کی کتاب میں
انساں تھا وہ بھی میری طرح ہی انا شکار
تھوکا ہے، اس نے بھی مرے منہ پر جواب میں
ماجدؔ قلم کو تُو بھی نمِ دل سے آب دے
نکلی ہیں دیکھ کونپلیں شاخِ گلاب میں
ماجد صدیقی

اور پھر بند ہی یہ باب کیا

جون ایلیا ۔ غزل نمبر 40
شکوہ اول تو بے حساب کیا
اور پھر بند ہی یہ باب کیا
جانتے تھے بدی عوام جسے
ہم نے اس سے بھی اجتناب کیا
تھی کسی شخص کی تلاش مجھے
میں نے خود کو ہی انتخاب کیا
اک طرف میں ہوں ، اک طرف تم ہو
جانے کس نے کسے خراب کیا
آخر اب کس کی بات مانوں میں
جو مِلا، اس نے لاجواب کیا
یوں سمجھ تجھ کہ مضطرب پا کر
میں نے اظہارِ اضطراب کیا
جون ایلیا

بے دماغی سے با خطاب رہا

دیوان ششم غزل 1785
اپنے ہوتے تو با عتاب رہا
بے دماغی سے با خطاب رہا
ہو کے بے پردہ ملتفت بھی ہوا
ناکسی سے ہمیں حجاب رہا
نہ اٹھا لطف کچھ جوانی کا
کم بہت موسم شباب رہا
کارواں ہائے صبح ہوتے گیا
میں ستم دیدہ محو خواب رہا
ہجر میں جی ڈھہا گرے ہی رہے
ضعف سے حال دل خراب رہا
گھر سے آئے گلی میں سو باری
یار بن دیر اضطراب رہا
ہم سے سلجھے نہ اس کے الجھے بال
جان کو اپنی پیچ و تاب رہا
پردے میں کام یاں ہوا آخر
واں سدا چہرے پر نقاب رہا
سوزش سینہ اپنے ساتھ گئی
خاک میں بھی ہمیں عذاب رہا
حیف ہے میر کی جناب سے میاں
ہم کو ان سمجھے اجتناب رہا
میر تقی میر

ہو چہرہ اس کے لب سے یاقوت ناب کیونکر

دیوان پنجم غزل 1615
لاوے جھمکتے رخ کی آئینہ تاب کیونکر
ہو چہرہ اس کے لب سے یاقوت ناب کیونکر
ہے شعر و شاعری گو کب سے شعار اپنا
حرف و سخن سے کریے اب اجتناب کیونکر
جوں ابر اگر نہ روویں وادی و کوہ پر ہم
تو شہروں شہروں آوے نہروں میں آب کیونکر
اب بھی نہیں ہے ہم کو اے عشق ناامیدی
دیکھیں خراب ہووے حال خراب کیونکر
اڑ اڑ کے جا لگے ہے وہ تیر مار کاکل
کھاتا رہے نہ افعی پھر پیچ تاب کیونکر
چشمے محیط سے جو ہووے نہ چشم تر کے
تو سیر ہو ہوا پر پھیلے سحاب کیونکر
اب تو طپش نے دل کی اودھم مچا رکھا ہے
تسکین پاوے دیکھوں یہ اضطراب کیونکر
رو چاہیے ہے اس کے در پر بھی بیٹھنے کو
ہم تو ذلیل اس کے ہوں میر باب کیونکر
میر تقی میر

شاید آوے گا خون ناب بہت

دیوان چہارم غزل 1363
چشم رہنے لگی پرآب بہت
شاید آوے گا خون ناب بہت
دیر و کعبے میں اس کے خواہش مند
ہوتے پھرتے ہیں ہم خراب بہت
دل کے دل ہی میں رہ گئے ارمان
کم رہا موسم شباب بہت
مارنا عاشقوں کا گر ہے ثواب
تو ہوا ہے تمھیں ثواب بہت
کہیے بے پردہ کیونکے عاشق ہیں
ہم کو لوگوں سے ہے حجاب بہت
میر بے خود ہیں اس جناب سے اب
چاہیے سب کو اجتناب بہت
میر تقی میر