ٹیگ کے محفوظات: اجارا

کس کو اس طرح بکھر جانا گوارا تھا مرا؟

نام مڑ مڑ کے بھلا کس نے پکارا تھا مرا؟
کس کو اس طرح بکھر جانا گوارا تھا مرا؟
نقش کس طور سے اور کس نے ابھارا تھا مرا
ہاتھ کب میرے تھے؟ بس چاک پہ گارا تھا مرا
وہ جو بپھرا سا سمندر تھا۔۔۔ کنارہ تھا مرا
جس میں سب ڈوب گئے وہ تو نظارا تھا مرا
دھوپ میں جلتا پرندہ مجھے یوں دیکھتا تھا
بارشوں، سایوں پہ جیسے کہ اجارا تھا مرا
وہ لہو جیسے سمندر میں اترتا سورج
شام نے گویا کوئی عکس اتارا تھا مرا
کسی امید کی امید ہی اک دن ہو گی
اسی امید پہ پوچھو تو گزارا تھا مرا
پہلے ہاتھوں سے لکیریں مٹیں رفتہ رفتہ
کل جو پھر ٹوٹ گرا پل میں، ستارہ تھا مرا
تھا نشہ سارا زیاں میں مرا یاؔور ماجد
فائدہ کوئی بھی ہو، اس میں خسارہ تھا مرا
یاور ماجد

سن لیتے ہیں گو ذکر ہمارا نہیں کرتے

دیوانِ غالب ۔ غزل نمبر 215
تا ہم کو شکایت کی بھی باقی نہ رہے جا
سن لیتے ہیں گو ذکر ہمارا نہیں کرتے
غالب ترا احوال سنا دینگے ہم ان کو
وہ سن کے بلا لیں یہ اجارا نہیں کرتے
مرزا اسد اللہ خان غالب

پھر صبر بن اور کیا ہے چارا

دیوان سوم غزل 1092
ہے عشق میں صبر ناگوارا
پھر صبر بن اور کیا ہے چارا
ان بالوں سے مشک مت خجل ہو
عنبر تو عرق عرق ہے سارا
یوں بات کرے ہے میرے خوں سے
گویا نہیں ان نے مجھ کو مارا
دیکھو ہو تو دور بھاگتے ہو
کچھ پاس نہیں تمھیں ہمارا
تھا کس کو دماغ باغ اس بن
بلبل نے بہت مجھے پکارا
رخسار کے پاس وہ در گوش
ہے پہلوے ماہ میں ستارا
ہوتے ہیں فرشتے صید آکر
آہوے حرم ہیں یاں چکارا
پھولی مجھے دیکھ کر گلوں میں
بلبل کا ہے باغ میں اجارا
جب جی سے گذر گئے ہم اے میر
اس کوچے میں تب ہوا گذارا
میر تقی میر

تیرا ہی رہ گیا ہے لے دے کے اک سہارا

الطاف حسین حالی ۔ غزل نمبر 7
دیکھ اے امید کہ جو، ہم سے نہ تو کنارا
تیرا ہی رہ گیا ہے لے دے کے اک سہارا
یوں بے سبب زمانہ پھرتا نہیں کسی سے
اے آسماں کچھ اس میں تیرا بھی ہے اشارا
میخانہ کی خرابی جی دیکھ کر بھر آیا
مدت کے بعد کل واں جا نکلے تھے قضا را
اک شخص کو توقع بخشش کی بے عمل ہے
اے زاہدو تمہارا ہے اس میں کیا اجارا
دنیا کے خرخشوں سے چیخ اٹھتے تم ہم اول
آخر کو رفتہ رفتہ سب ہو گئے گوارا
انصاف سے جو دیکھا نکلے وہ عیب سارے
جتنے ہنر تھے اپنے عالم میں آشکارا
افسوس، اہل دیں بھی مانند اہلِ دنیا
خود کام خود نما ہیں خود بیں میں اور خود آرا
الطاف حسین حالی