ٹیگ کے محفوظات: اتوار

آگئے ہیں زندگی میں پھربڑے بے کار دن

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 221
ٹوٹے پھوٹے،بدنما،فالج زدہ ،بیمار دن
آگئے ہیں زندگی میں پھربڑے بے کار دن
ہم ملیں گے شانزے لیزے پہ رومی بارمیں
طے ہوئی بارہ دسمبر۔۔ ٹھیک ہے اتوار دن
یاد ہے وہ یارکے پہلو میں رنگوں کی بہار
جینا کہتے ہیں جسے ویسے جئے تھے چار دن
مصر کے اہرام سے پیرو کی تصویروں تلک
ہرجگہ کتنے گئی صدیوں کے پُراسرار دن
میری وحشت ہی جہاں تھی فیصلہ کن پھر وہاں
کیا اثر انداز ہوتے غیر جانب دار دن
آخرش منصور کیا تھااُس گذشتہ رات میں
گم ہوئی جذبوں بھری رُت، کھوگئے دلدار دن
منصور آفاق

کبھی گھر کے درویوار سے مل کر رویا

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 119
کبھی غم سے کبھی آزار سے مل کر رویا
کبھی گھر کے درویوار سے مل کر رویا
کبھی تصویریں اٹھائیں کبھی رکھ دیں میں نے
کبھی کپڑوں کے میں انبار سے مل کر رویا
کبھی انگن سے اٹھا لایا میں یادیں اس کی
کبھی باغیچے کے اشجار سے مل کر رویا
جسے پاؤں میں بچھایا تھا گذشتہ رت میں
کبھی اُس منزلِ مسمار سے مل کر رویا
کبھی ہم بھیگتے تھے جس کی سروں سے مل کر
اُسی بارش اُسی ملہار سے مل کر رویا
کبھی اشعار کہے اشک گزیدہ دل کے
کبھی اندر کے میں فنکار سے مل کر رویا
کہا کرتا تھا جسے پیار کا دن وہ منصور
اسی روتی ہوئی اتوار سے مل کر رویا
منصور آفاق