ٹیگ کے محفوظات: اتر

جس سمت سے آتا ہے ادھر کیوں نہیں جاتا

خورشید کبھی راہِ دگر کیوں نہیں جاتا
جس سمت سے آتا ہے ادھر کیوں نہیں جاتا
میں سیدھے کسی راستے پر کیوں نہیں جاتا
اب کیسے بتاؤں میں سدھر کیوں نہیں جاتا
آوارگی! آوارگی! آوارگی! بتلا!
میں لوٹ کے آخر کبھی گھر کیوں نہیں جاتا
میں دھوپ میں جھلسا ہی چلا جاؤں گماں کی
اب ابرِ یقیں مجھ پہ ٹھہر کیوں نہیں جاتا
اک عمر جسے یاد کے چہرے سے ہے کھُرچا
آخر وہ مرے دل سے اتر کیوں نہیں جاتا
اے عکس مری یاد کی جھیلوں پہ پڑے عکس
تُو ٹوٹ چکا کب کا، بکھر کیوں نہیں جاتا
جب ہم سفری کا کوئی امکاں ہی نہیں ہے
تُو اپنی تو میں اپنی ڈگر کیوں نہیں جاتا
اے دشمنِ جاں چھوڑ بھی اب! جا بھی کہیں! مر!
تو بیتا ہوا پل ہے گزر کیوں نہیں جاتا
جو دل کے گلستان میں چلتا ہے ہمیشہ
جھونکا وہ سرِ راہگزر کیوں نہیں جاتا
مشکل ہو اگر حد سے زیادہ تو ہو آساں
بکھرا ہوں میں اتنا تو سنور کیوں نہیں جاتا
وہ چاند ہے اور سامنے موجود ہے میرے
پھر بحر تخیل کا بپھر کیوں نہیں جاتا
کہتے ہیں کہ ہر سیپ سے موتی نکل آئے
کیا جانیے آنکھوں سے گہر کیوں نہیں جاتا
یاور ماجد

وہ پاس آ تو رہا تھا مگر ٹھہر بھی گیا

مرے خلوص کی شدّت سے کوئی ڈر بھی گیا
وہ پاس آ تو رہا تھا مگر ٹھہر بھی گیا
یہ دیکھنا تھا: بچانے بھی کوئی آتا ہے!
اگر میں ڈوب رہا تھا تو خود اُبھر بھی گیا
اے راستے کے درختو! سمیٹ لو سایہ
تمھارے جال سے بچ کر کوئی گزر بھی گیا
کسی طرح سے تمھاری جبیں چمک تو گئی
یہ اور بات سیاہی میں ہاتھ بھر بھی گیا
اِسی پہاڑ نے پُھونکے تھے کیا کئی جنگل
جو خاک ہوکے مرے ہاتھ پر بکھر بھی گیا
یہیں کہیں مرے ہونٹوں کے پاس پھرتا ہے
وہ ایک لفظ کہ جو ذہن سے اتر بھی گیا
وہ شاخ جُھول گئی جس پہ پاؤں قائم تھے
شکیبؔ ورنہ مرا ہاتھ تا ثمر بھی گیا
شکیب جلالی

کلیوں کو نہال کر گئے ہم

مانندِ صبا جدھر گئے ہم
کلیوں کو نہال کر گئے ہم
زنجیر بپا اگر گئے ہم
نغموں کی طرح بکھر گئے ہم
سورج کی کرن تھے جانے کیا تھے
ظلمت میں اتر اتر گئے ہم
جب بھی کوئی سنگِ راہ دیکھا
طوفاں کی طرح بپھر گئے ہم
چلنا تھا جہاں محال یارو
اس راہ سے بھی گزر گئے ہم
بن جائیں گی منزلیں وہیں پر
بھولے سے جہاں ٹھہر گئے ہم
ہنس ہنس کے گلے ملے قضا سے
تکمیلِ حیات کر گئے ہم
شکیب جلالی

جو سانحے مرے دل پر گزر گئے ہوں گے

لہو کے ساتھ رگوں میں بکھر گئے ہوں گے
جو سانحے مرے دل پر گزر گئے ہوں گے
یہ دیکھ آج بھی آشفتہ سر وہی ہیں جو تھے
تو کیا سمجھتا تھا ہم تجھ سے ڈر گئے ہوں گے؟
گزشتہ شام نظر آئے تھے جو غم سے نڈھال
وہ آج صبح سبھی کام پر گئے ہوں گے
مکان جن کے جلائے گئے بنام_ خدا
خدا ہی جانے کہ وہ سب کدھر گئے ہوں گے
ثبوت کوئی فراہم نہ ہوسکے گا کبھی
گواہ اپنی نظر سے مکر گئے ہوں گے
کوئی بچا ہی نہیں گھر میں جو ہو چشم براہ
مکیں کو ڈھونڈنے کیا بام و در گئے ہوں گے
ہم اہلِ حرف سے بڑھ کر کہاں ہے کوئی نڈر
جو رن پڑا تو ہمی بے سپر گئے ہوں گے
میں جاگ جاگ کے کس کس کا انتظار کروں
جو لوگ گھر نہیں پہنچے وہ مر گئے ہوں گے
یہ سارا جوش تو تازہ غمی کا ہے عرفان
یہ سارے ولولے کل تک اتر گئے ہوں گے
عرفان ستار

آوارگانِ شہر کہاں جا کے مر گئے

بے رونقی سے کوچہ و بازار بھر گئے
آوارگانِ شہر کہاں جا کے مر گئے
آشوبِ آگہی میں گماں کی بساط کیا
وہ آندھیاں چلیں کہ یقیں تک بکھر گئے
میں خود ہی بد نُمو تھا کہ مٹی میں کھوٹ تھا
کھِل ہی نہیں سکا، مرے موسم گزر گئے
اب آئے جب میں حال سے بے حال ہو چکا
سب چاک میرے سِل گئے، سب زخم بھر گئے
جشنِ بہارِ نو کا ہُوا اہتمام جب
ہم ایسے چند لوگ بہ مژگانِ تر گئے
دل سا مکان چھوڑ کے دنیا کی سمت ہم
اچھا تو تھا یہی کہ نہ جاتے، مگر گئے
تنہا ہی کر گئی یہ بدلتی ہوئی سرشت
سب دل میں رہنے والے ہی دل سے اتر گئے
اب کچھ نہیں کریں گے خلافِ مزاج ہم
اکثر یہ خود سے وعدہ کیا، پھر مُکر گئے
اچھے دنوں کے میرے رفیقانِخوش دلی
اس بے دلی کے دور میں جانے کدھر گئے
اس عہد_ بد لحاظ میں ہم سے گداز قلب
زندہ ہی رہ گئے تو بڑا کام کر گئے
عرفان اب سناؤ گے جا کر کسے غزل
وہ صاحبانِ ذوق، وہ اہلِ نظر گئے
عرفان ستار

کس مشکل سے نیند ٓتی ہے، پھر ہم خواب میں مر جاتے ہیں

کتنی زندہ یادیں لے کر، رات کو بستر پر جاتے ہیں
کس مشکل سے نیند ٓتی ہے، پھر ہم خواب میں مر جاتے ہیں
کوی رنج نہیں ہوتا ہے، کوی آہ نہیں اٹھتی ہے
اب دل سے یادوں کے لشکر یوں چپ چاپ گزر جاتے ہیں
جتنے بھی ہیں کام ضروری، سارے عجلت میں نمٹا لو
اوروں کے دکھ سہنے والے، اکثر جلدی مر جاتے ہیں
بھاگم بھاگ یہ ساری خلقت، جانے کس جانب جاتی ہے
میں بس پوچھتا رہ جاتا ہوں، یہ سب لوگ کدھر جاتے ہیں
ایسے حال میں ناممکن ہے، کوءی چیز ٹھکانے سے ہو
آنکھ میں خون اتر آتا ہے، دل میں آنسو بھر جاتے ہیں
اور بتاو اس کے علاوہ بے گھر ہونا کیا ہوتا ہے
تم بھی اپنے گھر جاتے ہو، ہم بھی اپنے گھر جاتے ہیں
دنیا میں ساری بربادی، اہلِ خرد نے پھیلای ہے
لیکن سب الزام ہمیشہ، اہلِ جنوں کے سر جاتے ہیں
کبھی کبھار جو یاد آجاءے، اپنا یوں بے مصرف ہونا
کچھ دن بے چینی رہتی ہے، پھر کچھ سال گزر جاتے ہیں
تار و پود بکھر جاتے ہیں، ٹکڑے چننے کے چکر میں
ٹکڑے چننے کے چکر میں، تار و پود بکھر جاتے ہیں
ہجر کی ساعت آخری دم تک، عمر کے ساتھ سفر کرتی ہے
وصل کے لمحے آناً فاناً، وقت کے پار اتر جاتے ہیں
تم عرفان کی فکر نہ کرنا، اس کی بات بنی رہتی ہے
آتی آفت ٹل جاتی ہے، بگڑے کام سنور جاتے ہیں
عرفان ستار

خُلوص و مہر و وفا در بَدَر گئے ہَوں گے

ہمارے بعد، نہ جانے کِدَھر گئے ہَوں گے
خُلوص و مہر و وفا در بَدَر گئے ہَوں گے
وہ میرا حلقہِ احباب کیا ہُوا ہو گا
وہ میرے لعل و جواہر بکھر گئے ہَوں گے
جو شوق و عجلتِ منزل میں تھے نہ ڈھونڈ اُن کو
وہ قافلے تو کبھی کے گذر گئے ہَوں گے
نہ معذرت نہ ندامت، تم اپنی فکر کرو
تمہارے ہاتھ مرے خوں میں بھر گئے ہَوں گے
کوئی تَو منزلِ جاناں پہ سرخ رُو پہنچا
نہیں تھے ہم نہ سہی، ہَمسَفَر گئے ہَوں گے
ہر ایک تاج محل میں ہے دفن یہ بھی سوال
نجانے کتنوں کے دستِ ہُنَر گئے ہَوں گے
یونہی تو سر نہ ہوئی ہو گی منزلِ مقصود
ہزاروں راہِ طَلَب ہی میں مر گئے ہَوں گے
ہمارے بعد سکوں سب کو ہو گیا ہو گا
چڑھے ہوئے تھے جو دریا اُتَر گئے ہَوں گے
فرازِ دار سے ضامنؔ! نظر نہ آیا کوئی
سکونِ قلب سے احباب گھر گئے ہَوں گے
ضامن جعفری

یا دِل میں اُتَر جانا یا دِل سے اُتَر جانا

اَے عِشق نہیں ممکن اَب لَوٹ کَے گھر جانا
یا دِل میں اُتَر جانا یا دِل سے اُتَر جانا
ہَنستا گُلِ تَر کوئی جَب دیکھا تَو یاد آیا
تاریخ میں صَدیوں کا لَمحوں میں گُذَر جانا
ہَر ذَرَّہِ خاکی میں اِک عِشق کی دُنیا تھی
تُم نے تَو ہَمیَں جاناں ! بَس خاک بَسَر جانا
ہو جَذب کی جَب مَنزِل ہَستی و عَدَم کیسے؟
کیا پار اُتَرنا اُور کیا ڈُوب کَے مَر جانا
ہے آتشِ اُلفَت سے یہ طُرفہ سُلوک اُن کا
آنکھوں سے ہَوا دینا ہونٹوں سے مُکَر جانا
ہَر سانس کے آنے سے ہَر سانس کے جانے تَک
ہَستی کو سَدا ضامنؔ مُہلَت کا سَفَر جانا
ضامن جعفری

عجیب مانوس اجنبی تھا مجھے تو حیران کر گیا وہ

گئے دِنوں کا سراغ لے کر کدھر سے آیا کدھر گیا وہ
عجیب مانوس اجنبی تھا مجھے تو حیران کر گیا وہ
بس ایک موتی سی چھب دکھا کر بس ایک میٹھی سی دُھن سنا کر
ستارئہ شام بن کے آیا برنگِ خوابِ سحر گیا وہ
خوشی کی رُت ہو کہ غم کا موسم نظر اُسے ڈھونڈتی ہے ہر دم
وہ بوئے گل تھا کہ نغمہِ جاں مرے تو دل میں اُتر گیا وہ
نہ اب وہ یادوں کا چڑھتا دریا نہ فرصتوں کی اداس برکھا
یونہی ذرا سی کسک ہے دل میں جو زخم گہرا تھا بھر گیا وہ
کچھ اب سنبھلنے لگی ہے جاں بھی بدل چلا دَورِ آسماں بھی
جو رات بھاری تھی ٹل گئی ہے جو دن کڑا تھا گزر گیا وہ
بس ایک منزل ہے بوالہوس کی ہزار رستے ہیں اہلِ دل کے
یہی تو ہے فرق مجھ میں اس میں گزر گیا میں ٹھہر گیا وہ
شکستہ پا راہ میں کھڑا ہوں گئے دِنوں کو بلا رہا ہوں
جو قافلہ میرا ہمسفر تھا مثالِ گردِ سفر گیا وہ
مرا تو خوں ہو گیا ہے پانی ستمگروں کی پلک نہ بھیگی
جو نالہ اُٹھا تھا رات دل سے نہ جانے کیوں بے اثر گیا وہ
وہ میکدے کو جگانے والا وہ رات کی نیند اُڑانے والا
یہ آج کیا اس کے جی میں آئی کہ شام ہوتے ہی گھر گیا وہ
وہ ہجر کی رات کا ستارہ وہ ہم نفس ہم سخن ہمارا
سدا رہے اس کا نام پیارا سنا ہے کل رات مر گیا وہ
وہ جس کے شانے پہ ہاتھ رکھ کر سفر کیا تو نے منزلوں کا
تری گلی سے نہ جانے کیوں آج سر جھکائے گزر گیا وہ
وہ رات کا بے نوا مسافر وہ تیرا شاعر وہ تیرا ناصر
تری گلی تک تو ہم نے دیکھا تھا پھر نہ جانے کدھر گیا وہ
ناصر کاظمی

رات کا جادُو بکھر کر رہ گیا

صبح کا تارا اُبھر کر رہ گیا
رات کا جادُو بکھر کر رہ گیا
ہمسفر سب منزلوں سے جا ملے
میں نئی راہوں میں مر کر رہ گیا
کیا کہوں اب تجھ سے اے جوئے کم آب
میں بھی دریا تھا اُتر کر رہ گیا
ناصر کاظمی

خاک ہو کر کہیں بکھر جائیں

شہر سنسان ہے کدھر جائیں
خاک ہو کر کہیں بکھر جائیں
رات کتنی گزر گئی لیکن
اِتنی ہمت نہیں کہ گھر جائیں
یوں ترے دھیان سے لرزتا ہوں
جیسے پتے ہوا سے ڈر جائیں
اُن اُجالوں کی دُھن میں پھرتا ہوں
چھب دکھاتے ہی جو گزر جائیں
رَین اندھیری ہے اور کنارہ دُور
چاند نکلے تو پار اُتر جائیں
ناصر کاظمی

تو بھی دل سے اتر نہ جائے کہیں

نیتِ شوق بھر نہ جائے کہیں
تو بھی دل سے اتر نہ جائے کہیں
آج دیکھا ہے تجھ کو دیر کے بعد
آج کا دن گزر نہ جائے کہیں
نہ ملا کر اُداس لوگوں سے
حسن تیرا بکھر نہ جائے کہیں
آرزو ہے کہ تو یہاں آئے
اور پھر عمر بھر نہ جائے کہیں
جی جلاتا ہوں اور سوچتا ہوں
رائگاں یہ ہنر نہ جائے کہیں
آؤ کچھ دیر رو ہی لیں ناصر
پھر یہ دریا اُتر نہ جائے کہیں
ناصر کاظمی

گزر گئی جرسِ گل اُداس کر کے مجھے

کسی کلی نے بھی دیکھا نہ آنکھ بھر کے مجھے
گزر گئی جرسِ گل اُداس کر کے مجھے
میں سو رہا تھا کسی یاد کے شبستان میں
جگا کے چھوڑ گئے قافلے سحر کے مجھے
میں رو رہا تھا مقدر کی سخت راہوں میں
اُڑا کے لے گئے جادو تری نظر کے مجھے
میں تیرے درد کی طغیانیوں میں ڈوب گیا
پکارتے رہے تارے اُبھر اُبھر کے مجھے
ترے فراق کی راتیں کبھی نہ بھولیں گی
مزے ملے انھیں راتوں میں عمر بھر کے مجھے
ذرا سی دیر ٹھہرنے دے اے غمِ دنیا
بلا رہا ہے کوئی بام سے اُتر کے مجھے
پھر آج آئی تھی اک موجۂ ہوائے طرب
سنا گئی ہے فسانے اِدھر اُدھر کے مجھے
ناصر کاظمی

کچھ وہ بھی ہیں جو کہتے ہیں سَر بھی گئے تو کیا

ہم جیسے تیغِ ظلم سے ڈر بھی گئے تو کیا
کچھ وہ بھی ہیں جو کہتے ہیں سَر بھی گئے تو کیا
اُٹھتی رہیں گی درد کی ٹیسیں تمام عُمر
ہیں زخم تیرے ہاتھ کے بھر بھی گئے تو کیا
ہیں کونسا بہار کے دن اپنے منتظر
یہ دن کسی طرح سے گزر بھی گئے تو کیا
ہم تو اِسی طرح سے پھریں گے خراب حال
یہ شعر تیرے دل میں اُتر بھی گئے تو کیا
باصِرؔ تمہیں یہاں کا ابھی تجربہ نہیں
بیمار ہو پڑے رہو مَر بھی گئے تو کیا
باصر کاظمی

وہ درد پھر سے جگا کر گزر گیا کوئی

جو سو چکا تھا نئے موسموں کی چھاؤں میں
وہ درد پھر سے جگا کر گزر گیا کوئی
خیالِ حُسن بھی گویا کہ نشہء مے تھا
ذرا سی دیر میں دل سے اتر گیا کوئی
تجھے یہ فخر کہ تُو راز ہی رہا لیکن
مجھے یہ رنج کہ کیوں بے خبر گیا کوئی
رہِ حیات میں کتنے سکون سے باصرِؔ
پکار موت کی سن کر ٹھہر گیا کوئی
باصر کاظمی

وہ بڑوں کو جو بڑا کچھ اور کر گیا

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 42
دوسروں کے واسطے جیا تھا مر گیا
وہ بڑوں کو جو بڑا کچھ اور کر گیا
جگنوؤں تلک کی روشنی لگے فریب
رہبروں سے ہُوں کچھ اِس طرح کا ڈر گیا
ناز تھا کہ ہم سفیرِ انقلاب ہیں
پر یہ زعم بھی نشہ سا تھا اُتر گیا
خانۂ خدا سے بُت جہاں جہاں گئے
بار بار میں نجانے کیوں اُدھر گیا
پاؤں کے تلے کی خاک نے نگل لیا
میں تو تھا کنارِ آب باخبر گیا
لعل تھا اٹا تھا گرد سے، پہ جب دھُلا
ماجدِ حزیں کچھ اور بھی نکھر گیا
ماجد صدیقی

دریا میں جتنا زور تھا پل میں اُتر گیا

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 38
زد پر جب اُس کی میں حدِ جاں سے گزر گیا
دریا میں جتنا زور تھا پل میں اُتر گیا
دیکھی جب اپنی ذات پہ آتی ذرا سی آنچ
وہ بدقماش اپنے کہے سے مُکر گیا
آخر کو کھینچ لایا وہ سورج سرِ افق
جو جیش جگنوؤں کا بسوئے سحر گیا
خود اُس کا اَوج اُس کے توازن کو لے اڑا
نکلا ذرا جو حد سے تو سمجھو شجر گیا
جس کو بقا کا راز بتانے گیا تھا میں
سائل سمجھ کے وہ مری دستک سے ڈر گیا
کربِ دروں سے، اشکِ فراواں کے فیض سے
چہرہ کچھ اب کے اور بھی ماجد نکھر گیا
ماجد صدیقی

آ ۔۔۔ اور مری تشنگیٔ جاں میں اُتر جا

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 39
اک بار تو ایسی بھی جسارت کبھی کر جا
آ ۔۔۔ اور مری تشنگیٔ جاں میں اُتر جا
ویرانیٔ دل پر کبھی اتنا تو کرم کر
اِس راہگزر سے نمِ موسم سا گُزر جا
طُرفہ ہیں بُہت میرے دل و جاں کی پھواریں
اس بزم میں آ اور مثالِ گُلِ تر جا
دیکھوں میں طلُوعِ رُخِ انور ترا یُوں بھی
آ ۔۔۔ مثل سحر لمس کی شبنم سے نکھر جا
رہنے دے کسی پل تو یہ اندازِ شہابی
مختار ہے تو ۔۔۔ پھر بھی کوئی دم تو ٹھہر جا
پڑتا ہے رہِ شوق میں کچھ اور بھی سہنا
ماجدؔ نہ فقط خدشۂ رسوائی سے ڈر جا
ماجد صدیقی

چاند سا بدن اُس کا اور بھی نکھر جاتا

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 22
مَیں جو اُس کے قدموں میں ریت سا بکھر جاتا
چاند سا بدن اُس کا اور بھی نکھر جاتا
کیوں نظر میں چُبھتا تھا عکس اِک گریزاں سا
تھا اگر وہ کانٹا ہی پار تو اُتر جاتا
وہ یونہی گھرا رہتا ہجر کے حصاروں میں
اور میں کہ طوفاں تھا اُلجھنوں سے ڈر جاتا
عمر بھر کو دے جاتا نشۂ شباب اپنا
اور بھی جو کچھ لمحے پاس وہ ٹھہر جاتا
دوش پر ہواؤں کے برگِ زرد سا ماجدؔ
ڈھونڈنے اُسے اِک دن میں بھی در بہ در جاتا
ماجد صدیقی

یہ تحفۂ زیست تجھ کو لوٹا کے تجھ پہ احسان دھر نہ جاؤں

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 60
جو مجتمع ہو رہا ہوں پل پل مجھے بتا میں بکھر نہ جاؤں
یہ تحفۂ زیست تجھ کو لوٹا کے تجھ پہ احسان دھر نہ جاؤں
یہ ایک لمحہ کہ جان لُوں تو اِسی میں ایٹم سی قوّتیں ہیں
مجھے ہے جینا اگر تو پہنائیوں میں اِس کی اُتر نہ جاؤں
سیاہ راتیں چٹان بھی ہیں تو میرے قدموں کی خاک ہوں گی
یہ کس طرح ہو کہ جستجو میں تری، سحر تا سحر نہ جاؤں
غمِ زمانہ تری حقیقت سے چشم پوشی بڑی خطا ہے
مگر مجھے وہم ہے کہ ہستی سے ہی تری میں مکر نہ جاؤں
چمن کے گُلہائے ناز پرور! نہ مجھ مسافر کا حال پوچھو
یہ بارشِ گرد ہو نہ درپے تو میں بھی تم سا نکھر نہ جاؤں
دلوں میں یاروں کے وسوسے ہیں تو میں بھی کیوں دل کو دشت کر لوں
گمان تک بھی کروں جو ایسا تو جاں سے ماجدؔ گزر نہ جاؤں
ماجد صدیقی

رنگینیاں بکھیر گئے تم جدھر گئے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 71
پہنچے بہ کوئے دل کہ نظر سے گزر گئے
رنگینیاں بکھیر گئے تم جدھر گئے
حاصل تجھے ہے تیرے قدر و رُخ سے یہ مقام
اور ہم بزورِ نطق دلوں میں اُتر گئے
آیا جہاں کہیں بھی میّسر ترا خیال
نِکلے دیارِ شب سے بہ کوئے سحر گئے
جن کے چمن کو تُو نے بہارِ خیال دی
ماجدؔ ترے وہ دوست کہاں تھے کدھر گئے
ماجد صدیقی

تو اس کے شہر میں‌ کچھ دن ٹھہر کے دیکھتے ہیں

احمد فراز ۔ غزل نمبر 75
سنا ہے لوگ اُسے آنکھ بھر کے دیکھتے ہیں
تو اس کے شہر میں‌ کچھ دن ٹھہر کے دیکھتے ہیں
سنا ہے ربط ہے اس کو خراب حالوں سے
سو اپنے آپ کو برباد کر کے دیکھتے ہیں
سنا ہے درد کی گاہک ہے چشمِ ناز اس کی
سو ہم بھی اس کی گلی سے گزر کے دیکھتے ہیں
سنا ہے اس کو بھی ہے شعر و شاعری سے شغف
تو ہم بھی معجزے اپنے ہنر کے دیکھتے ہیں
سنا ہے بولے تو باتوں سے پھول جھڑتے ہیں
یہ بات ہے تو چلو بات کر کے دیکھتے ہیں
سنا ہے رات اسے چاند تکتا رہتا ہے
ستارے بام فلک سے اتر کے دیکھتے ہیں
سنا ہے دن کو اسے تتلیاں ستاتی ہیں
سنا ہے رات کو جگنو ٹھہر کے دیکھتے ہیں
سنا ہے حشر ہیں‌اس کی غزال سی آنکھیں
سنا ہے اس کو ہرن دشت بھر کے دیکھتے ہیں
سنا ہے رات سے بڑھ کر ہیں‌کاکلیں اس کی
سنا ہے شام کو سائے گزر کے دیکھتے ہیں
سنا ہے اس کی سیہ چشمگی قیامت ہے
سو اس کو سرمہ فروش آہ بھر کے دیکھتے ہیں
سنا ہے جب سے حمائل ہیں اس کی گردن میں
مزاج اور ہی لعل و گوہر کے دیکھتے ہیں
سنا ہے اس کے بدن کی تراش ایسی ہے
کہ پھول اپنی قبائیں کتر کے دیکھتے ہیں
سنا ہے اس کے لبوں سے گلاب جلتے ہیں
سو ہم بہار پہ الزام دھر کے دیکھتے ہیں
سنا ہے آئینہ تمثال ہے جبیں اس کی
جو سادہ دل ہیں‌اسے بن سنور کے دیکھتے ہیں
سنا ہے چشمِ تصور سے دشتِ امکاں میں
پلنگ زاویے اس کی کمر کے دیکھتے ہیں
وہ سرو قد ہے مگر بے گل مراد نہیں
کہ اس شجر پہ شگوفے ثمر کے دیکھتے ہیں
بس اک نگاہ سے لوٹا ہے قافلہ دل کا
سو رہ روان تمنا بھی ڈر کے دیکھتے ہیں
سنا ہے اس کے شبستاں سے متُّصل ہے بہشت
مکیں‌ اُدھر کے بھی جلوے اِدھر کے دیکھتے ہیں
کسے نصیب کہ بے پیرہن اسے دیکھے
کبھی کبھی در و دیوار گھر کے دیکھتے ہیں
رکے تو گردشیں اس کا طواف کرتی ہیں
چلے تو اس کو زمانے ٹھہر کے دیکھتے ہیں
کہانیاں ہی سہی، سب مبالغے ہی سہی
اگر وہ خواب ہے تعبیر کر کے دیکھتے ہیں
اب اس کے شہر میں‌ ٹھہریں کہ کوچ کر جائیں
فراز آؤ ستارے سفر کے دیکھتے ہیں‌‌
احمد فراز

وقت کا کیا ہے، گزرتا ہے گزر جائے گا

احمد فراز ۔ غزل نمبر 19
آنکھ سے دور نہ ہو دل سے اتر جائے گا
وقت کا کیا ہے، گزرتا ہے گزر جائے گا
اتنا مانوس نہ ہو خلوتِ غم سے اپنی
تو کبھی خود کو بھی دیکھے گا تو ڈر جائے گا
تم سرِ راہِ وفا دیکھتے رہ جاؤ گے
اور وہ بامِ رفاقت سے اتر جائے گا
زندگی تیری عطا ہے تو یہ جانے والا
تیری بخشش تری دہلیز پہ دھر جائے گا
ڈوبتے ڈوبتے کشتی کو اچھالا دے دوں
میں نہیں، کوئی تو ساحل پہ اتر جائے گا
ضبط لازم ہے مگر دکھ ہے قیامت کا فراز
ظالم اب کے بھی نہ روۓ گا تو مر جائے گا
احمد فراز

جامِ حیات ایک ہی قطرے میں بھر گیا

قمر جلالوی ۔ غزل نمبر 31
آنسو کسی کا دیکھ کہ بیمار مر گیا
جامِ حیات ایک ہی قطرے میں بھر گیا
چھوڑو وفا کا نام وفادار مر گیا
تم جس ہوا میں ہو وہ زمانہ بدل گیا
صیاد دیکھ لی کششِ موش بہار کی
اڑ اڑ کے باغ میں مرا ایک ایک پر گیا
دیکھا نہ تم نے آنک اٹھا کر بزم میں
آنسو تو میں نے تھا نظر سے اتر گیا
وقت آگیا ہے یار کے وعدے کا اے قمر
دیکھو وہ آسمان ستاروں سے بھر گیا
قمر جلالوی

سب کے دل سے اتر گیا ہوں میں

جون ایلیا ۔ غزل نمبر 112
اک ہنر ہے جو کر گیا ہوں میں
سب کے دل سے اتر گیا ہوں میں
کیسے اپنی ہنسی کو ضبط کروں
سن رہا ہوں کہ گھر گیا ہوں میں
کیا بتاؤں کہ مر نہیں پاتا
جیتے جی جب سے مر گیا ہوں میں
اب ہے اپنا سامنا درپیش
ہر کسی سے گزر گیا ہوں میں
وہی ناز و ادا، وہی غمزے
سر بہ سر آپ پر گیا ہوں میں
جون ایلیا

میداں بزن گہوں کے کشتوں سے بھر رہا ہے

دیوان ششم غزل 1908
کیا عشق بے محابا ستھرائو کر رہا ہے
میداں بزن گہوں کے کشتوں سے بھر رہا ہے
غیرت سے دلبری کی ڈر چاندنی نہ دیکھی
مہتابی ہی رخ اس کا پیش نظر رہا ہے
خوں ریز ناتواں میں اتنا نہ کوئی بولا
کیا مارتا ہے اس کو یہ آپھی مر رہا ہے
پائیز کب کرے ہے افسردہ خستہ اتنا
تو بھی جدا کسو سے اے گل مگر رہا ہے
خجلت سے آج کل کیا ان نے کیا کنارہ
دریا ہمیشہ میرے گریے سے تر رہا ہے
میں اک نگاہ گاہے خوش رو کوئی نہ دیکھا
الفت رہی ہے جس سے اس ہی کا ڈر رہا ہے
رہتا نہیں ہے رکھے تھمتا نہیں تھمائے
دل اب تڑپ تڑپ کر اک ظلم کر رہا ہے
یہ کارواں سرا تو رہنے کی گوں نہ نکلی
ہر صبح یاں سے ہم کو عزم سفر رہا ہے
بعد از نماز سجدہ اس شکر کا کروں ہوں
روزوں کا چاند پیدا سب بے خبر رہا ہے
کیا پھر نظر چڑھا ہے اے میر کوئی خوش رو
یہ زرد زرد چہرہ تیرا اتر رہا ہے
میر تقی میر

دل کوئی لے گیا ہے تو میر ٹک جگر کر

دیوان ششم غزل 1827
زانو پہ سر ہے اکثر مت فکر اس قدر کر
دل کوئی لے گیا ہے تو میر ٹک جگر کر
خورشید و ماہ دونوں آخر نہ دل سے نکلے
آنکھوں میں پھر نہ آئے جی سے مرے اتر کر
یوسف عزیز دلہا جا مصر میں ہوا تھا
ذلت جو ہو وطن میں تو کوئی دن سفر کر
اے ہمنشیں غشی ہے میں ہوش میں نہیں ہوں
مجھ کو مری زبانی سو بار اب خبر کر
کیا حال زار عاشق کریے بیاں نہ پوچھو
کرتا ہے بات کوئی دل کی تو چشم تر کر
دیتے نہیں ہیں سونے ٹک آہ و نالے اس کے
یارب شب جدائی عاشق کی بھی سحر کر
اتنا ہی منھ چھپایا شوخ اس کے محرموں نے
جو بچھ گئی ہیں زلفیں اس چہرے پر بکھر کر
کیا پھیر پھیر گردن باتیں کرے ہے سب میں
جاتے ہیں غش کیے ہم مشتاق منھ ادھر کر
بن دیکھے تیرے میں تو بیمار ہو گیا ہوں
حال تبہ میں میرے تو بھی تو ٹک نظر کر
رخنے کیے جو تو نے پتھر کی سل میں تو کیا
اے آہ اس صنم کے دل میں بھی ٹک اثر کر
مارے سے غل کیے سے جاتا نہیں ہے ہرگز
نکلے گا اس گلی سے شاید کہ میر مرکر
میر تقی میر

جب سے کلاہ سر پہ رکھی در بہ در رہے

دیوان چہارم غزل 1531
اب ترک کر لباس توکل ہی کر رہے
جب سے کلاہ سر پہ رکھی در بہ در رہے
اس دشت سے غبار ہمارا نہ ٹک اٹھا
ہم خانماں خراب نہ جانا کدھر رہے
آنے سے اس طرف کے ترے میں نے غش کیا
شکوہ بھی اس سے کیجیے جس کو خبر رہے
دونوں طرف سے دیدہ درائی نہیں ہے خوب
اس چاہ کا ہے لطف جو آپس میں ڈر رہے
جب تک ہو خون دل میں جگر میں مژہ ہوں نم
تہ کچھ بھی جو نہ ہووے تو کیا چشم تر رہے
رہنا گلی میں اس کی نہ جیتے جی ہوسکا
ناچار ہوکے واں جو گئے اب سو مر رہے
عاشق خراب حال ترے ہیں گرے پڑے
جوں لشکر شکستہ پریشاں اتر رہے
عیب آدمی کا ہے جو رہے اس دیار میں
مطلق جہاں نہ میر رواج ہنر رہے
میر تقی میر

دیکھ اس کو بے دماغ نشہ سب اتر گیا

دیوان چہارم غزل 1324
ہم مست عشق جس کے تھے وہ روٹھ کر گیا
دیکھ اس کو بے دماغ نشہ سب اتر گیا
جاں بخشی اس کے ہونٹوں کی سن آب زندگی
ایسا چھپا کہیں کہ کہا جائے مر گیا
کہتے ہیں میر کعبے گیا ترک عشق کر
راہ دل شکستہ کدھر وہ کدھر گیا
میر تقی میر

بھیچک کوئی رہ جائے کوئی جی سے گذر جائے

دیوان سوم غزل 1303
کیا چال نکالی ہے کہ جو دیکھے سو مر جائے
بھیچک کوئی رہ جائے کوئی جی سے گذر جائے
تاچند یہ خمیازہ کشی تنگ ہوں یارب
آغوش مری ایک شب اس شوخ سے بھر جائے
بے طاقتی دل سے مری جان ہے لب پر
تم ٹھہرو کوئی دم تو مرا جی بھی ٹھہر جائے
پڑتے نگہ یار مرا حال ہے ویسا
بجلی کے تڑپنے سے کوئی جیسے کہ ڈر جائے
اس آئینہ رو شوخ مفتن سے کہیں کیا
عاشق کو برا کہہ کے منھ ہی منھ میں مکر جائے
ناکس کی تلافی ستم کون کرے ہے
ڈرتا ہوں کہ وہ اور بھی آزردہ نہ کر جائے
جاتا ہے جدھر منزل مقصود نہیں وہ
آوارہ جو ہو عشق کا بے چارہ کدھر جائے
رونے میں مرے سر نہ چڑھو صبر کرو ٹک
یہ سیل جو اک زور سے آتا ہے اتر جائے
کیا ذکر مرا میں تو کہیں اس سے ملوں ہوں
ان خانہ خرابوں کی کہو جن کے وہ گھر جائے
اس زلف کا ہر بال رگ جان ہے اپنی
یاں جی ہی بکھرتا ہے صبا وہ جو بکھر جائے
گردش میں جو وے آنکھ نشے کی بھری دیکھیں
ہشیار سروں کے تئیں سدھ اپنی بسر جائے
آنکھیں ہی لگی جاتی ہیں اس جاذبہ کو میر
آتی ہے بہت دیر جو اس منھ پہ نظر جائے
میر تقی میر

دم کھینچ تہ دل سے کوئی ٹکڑے جگر کر

دیوان سوم غزل 1132
اے مرغ چمن صبح ہوئی زمزمہ سر کر
دم کھینچ تہ دل سے کوئی ٹکڑے جگر کر
وہ آئینہ رو باغ کے پھولوں میں جو دیکھا
ہم رہ گئے حیران اسی منھ پہ نظر کر
ہے بے خبری مجھ کو ترے دیکھے سے ساقی
ہر لحظہ مری جان مجھے میری خبر کر
جس جاے سراپا میں نظر جاتی ہے اس کے
آتا ہے مرے جی میں یہیں عمر بسر کر
فرہاد سے پتھر پہ ہوئیں صنعتیں کیا کیا
دل جا کے جگرکاوی میں کچھ تو بھی ہنر کر
پڑتے نگہ اس شوخ کی ہوتا ہے وہ احوال
رہ جاوے ہے جیسے کہ کوئی بجلی سے ڈر کر
معشوق کا کیا وصل ورے ایسا دھرا ہے
تاشمع پتنگا بھی جو پہنچے ہے تو مر کر
یک شب طرف اس چہرئہ تاباں سے ہوا تھا
پھر چاند نظر ہی نہ چڑھا جی سے اتر کر
کسب اور کیا ہوتا عوض ریختے کے کاش
پچھتائے بہت میر ہم اس کام کو کر کر
میر تقی میر

بے صرفہ کرے صرف نہ کیوں دیدئہ تر آب

دیوان سوم غزل 1109
سب آتش سو زندئہ دل سے ہے جگر آب
بے صرفہ کرے صرف نہ کیوں دیدئہ تر آب
پھرتی ہے اڑی خاک بھی مشتاق کسو کی
سر مار کے کرتا ہے پہاڑوں میں بسر آب
کیا کریے اسے آگ سا بھڑکایا ہے جن نے
نزدیک تر اب اس کو کرے غرق مگر آب
دل میں تو لگی دوں سی بھریں چشمے سی آنکھیں
کیا اپنے تئیں روئوں ادھر آگ ادھر آب
کس طور سے بھر آنکھ کوئی یار کو دیکھے
اس آتشیں رخسار سے ہوتی ہے نظر آب
ہم ڈرتے شکررنجی سے کہتے نہیں یہ بھی
خجلت سے ترے ہونٹوں کی ہیں شہد و شکر آب
کس شکل سے اک رنگ پہ رہنا ہو جہاں کا
رہتی ہیں کوئی صورتیں یہ نقش ہیں بر آب
شعلے جو مرے دل سے اٹھیں ہیں سو نہ بیٹھیں
برسوں تئیں چھڑکا کرو تم ان پہ اگر آب
استادہ ہو دریا تو خطرناکی بہت ہے
آ اپنے کھلے بالوں سے زنجیر نہ کر آب
شب روئوں ہوں ایسا کہ جدھر یار کا گھر ہے
جاتا ہوں گلے چھاتی تک اودھر کو اتر آب
اس دشت سے ہو میر ترا کیونکے گذارا
تا زانو ترے گل ہے تری تا بہ کمر آب
میر تقی میر

ایک سنّاہٹا گذر جا ہے

دیوان دوم غزل 1023
جب نسیم سحر ادھر جا ہے
ایک سنّاہٹا گذر جا ہے
کیا اس آئینہ رو سے کہیے ہائے
وہ زباں کر کے پھر مکر جا ہے
جب سے سمجھا کہ ہم چلائو ہیں
حال پرسی ٹک آ کے کر جا ہے
وہ کھلے بال سووے ہے شاید
رات کو جی مرا بکھر جا ہے
دور اگرچہ گیا ہوں میں جی سے
کب وطن میرے یہ خبر جا ہے
وہ اگر چت چڑھا رہا ایسا
آج کل جی سے مہ اتر جا ہے
جی نہیں میر میں نہ بولو تند
بات کہتے ابھی وہ مر جا ہے
میر تقی میر

آخر کو پھوٹ پھوٹ بہے قہر کر رہے

دیوان دوم غزل 1003
یک عمر دیدہ ہاے ستم دیدہ تر رہے
آخر کو پھوٹ پھوٹ بہے قہر کر رہے
ہم نے بھی نذر کی ہے پھریں گے چمن کے گرد
آنے تئیں بہار کے گر بال و پر رہے
کیا کہیے تیرے واسطے اے مایۂ حیات
کیا کیا عزیز اپنے تئیں مار مر رہے
مرتے بھی اپنے ہائے وہ حاضر نہ ہوسکا
ہم اشتیاق کش تو بہت محتضر رہے
مرغان باغ رہتے ہیں اب گھیرے یوں مجھے
ماتم زدوں کے حلقے میں جوں نوحہ گر رہے
آغوش اس سے خالی رہی شب تو تا سحر
جیب و کنار گریۂ خونیں سے بھر رہے
نقش قدم کے طور ترے ہم ہیں پائمال
غالب ہے یہ کہ دیر ہمارا اثر رہے
اب صبر و ہوش و عقل کی میرے یہ ہے معاش
جوں قافلہ لٹا کہیں آکر اتر رہے
لاکھوں ہمارے دیکھتے گھر بار سے گئے
کس خانماں خراب کے وے جا کے گھر رہے
آتا کبھو تو ناز سے دکھلائی دے بھی جا
دروازے ہی کی اور کہاں تک نظر رہے
رکھنا تمھارے پائوں کا کھوتا ہے سر سے ہوش
یہ چال ہے تو اپنی کسے پھر خبر رہے
کیا بدبلا ہے لاگ بھی دل کی کہ میر جی
دامن سوار لڑکوں کے ہو کر نفر رہے
میر تقی میر

جی چاہتا ہے جا کے کسو اور مر رہیں

دیوان دوم غزل 892
یوں قیدیوں سے کب تئیں ہم تنگ تر رہیں
جی چاہتا ہے جا کے کسو اور مر رہیں
اے کاش ہم کو سکر کی حالت رہے مدام
تا حال کی خرابی سے ہم بے خبر رہیں
رہتے ہیں یوں حواس پریشاں کہ جوں کہیں
دو تین آ کے لوٹے مسافر اتر رہیں
وعدہ تو تب ہو صبح کا جب ہم بھی جاں بلب
جیسے چراغ آخر شب تا سحر رہیں
آوارگی کی سب ہیں یہ خانہ خرابیاں
لوگ آویں دیکھنے کو بہت ہم جو گھر رہیں
ہم نے بھی نذر کی ہے کہ پھریے چمن کے گرد
یارب قفس کے چھوٹنے تک بال و پر رہیں
ان دلبروں کی آنکھ نہیں جاے اعتماد
جب تک رہیں یہ چاہیے پیش نظر رہیں
فردا کی فکر آج نہیں مقتضاے عقل
کل کی بھی دیکھ لیویں گے کل ہم اگر رہیں
تیغ و تبر رکھا نہ کرو پاس میر کے
ایسا نہ ہو کہ آپ کو ضائع وے کر رہیں
میر تقی میر

ہم لوگ تیرے اوپر سو جی سے مر رہے ہیں

دیوان دوم غزل 891
گو جان کر تجھے سب تعبیر کر رہے ہیں
ہم لوگ تیرے اوپر سو جی سے مر رہے ہیں
کھنچتا چلا ہے اب تو تصدیق کو تصور
ہر لحظہ اس کے جلوے پیش نظر رہے ہیں
نکلے ہوس جو اب بھی ہو وارہی قفس سے
شائستۂ پریدن دوچار پر رہے ہیں
کل دیکھتے ہمارے بستے تھے گھر برابر
اب یہ کہیں کہیں جو دیوار و در رہے ہیں
کیا آج ڈبڈبائی دیکھو ہو تم یہ آنکھیں
جوں چشمہ یوں ہی برسوں ہم چشم تر رہے ہیں
نے غم ہے ہم کو یاں کا نے فکر کچھ ہے واں کا
صدقے جنوں کے کیا ہم بے درد سر رہے ہیں
پاس ایک دن بھی اپنا ان نے نہیں کیا ہے
ہم دور اس سے بے دم دو دو پہر رہے ہیں
کیا یہ سراے فانی ہے جاے باش اپنی
ہم یاں مسافرانہ آکر اتر رہے ہیں
ایسا نہ ہو کہ چھیڑے یک بار پھوٹ بہیے
ہم پکے پھوڑے کے اب مانند بھر رہے ہیں
اس میکدے میں جس جا ہشیار چاہیے تھے
رحمت ہے ہم کو ہم بھی کیا بے خبر رہے ہیں
گو راہ عشق میں ہو شمشیر کے دم اوپر
وسواس کیا ہے ہم تو جی سے گذر رہے ہیں
چل ہم نشیں بنے تو ایک آدھ بیت سنیے
کہتے ہیں بعد مدت میر اپنے گھر رہے ہیں
میر تقی میر

جیسے ماہی ہے مجھے سیر و سفر پانی میں

دیوان دوم غزل 874
اشک کے جوش سے ہوں شام و سحر پانی میں
جیسے ماہی ہے مجھے سیر و سفر پانی میں
شب نہاتا تھا جو وہ رشک قمر پانی میں
گتھی مہتاب سے اٹھتی تھی لہر پانی میں
ساتھ اس حسن کے دیتا تھا دکھائی وہ بدن
جیسے جھمکے ہے پڑا گوہر تر پانی میں
رونے سے بھی نہ ہوا سبز درخت خواہش
گرچہ مرجاں کی طرح تھا یہ شجر پانی میں
موج گریہ کی وہ شمشیر ہے جس کے ڈر سے
جوں کشف خصم چھپا زیر سپر پانی میں
بیٹھنے سے کسو دل صاف کے سر مت تو چڑھے
خوب سا کر لے تامل تو اتر پانی میں
آتش عشق نے راون کو جلا کر مارا
گرچہ لنکا سا تھا اس دیو کا گھر پانی میں
جوشش اشک میں شب دل بھی گیا سینے سے
کچھ نہ معلوم ہوا ہائے اثر پانی میں
بردباری ہی میں کچھ قدر ہے گو جی ہو فنا
عود پھر لکڑی ہے ڈوبے نہ اگر پانی میں
چشم تر ہی میں رہے کاش وہ روے خوش رنگ
پھول رہتا ہے بہت تازہ و تر پانی میں
روئوں تو آتش دل شمع نمط بجھتی نہیں
مجھ کو لے جاکے ڈبو دیویں مگر پانی میں
گریۂ زار میں بیتابی دل طرفہ نہیں
سینکڑوں کرتے ہیں پیراک ہنر پانی میں
برگ گل جوں گذر آب سے آتے ہیں چلے
رونے سے ووہیں مرے لخت جگر پانی میں
محو کر آپ کو یوں ہستی میں اس کی جیسے
بوند پانی کی نہیں آتی نظر پانی میں
وہ گہر آنکھ سے جاوے تو تھمے آنسو میر
اتنا رویا ہوں کہ ہوں تا بہ کمر پانی میں
میر تقی میر

رونا مرا سنوگے کہ طوفان کر رہا

دیوان دوم غزل 695
جوں ابرقبلہ دل ہے نہایت ہی بھر رہا
رونا مرا سنوگے کہ طوفان کر رہا
شب میکدے سے وارد مسجد ہوا تھا میں
پر شکر ہے کہ صبح تئیں بے خبر رہا
مل جس سے ایک بار نہ پھر تو ہوا دوچار
رک رک کے وہ ستم زدہ ناچار مر رہا
تسکین دل ہو تب کہ کبھو آگیا بھی ہو
برسوں سے اس کا آنا یہی صبح پر رہا
اس زلف و رخ کو بھولے مجھے مدتیں ہوئیں
لیکن مرا نہ گریۂ شام و سحر رہا
رہتے تو تھے مکاں پہ ولے آپ میں نہ تھے
اس بن ہمیں ہمیشہ وطن میں سفر رہا
اب چھیڑ یہ رکھی ہے کہ پوچھے ہے بار بار
کچھ وجہ بھی کہ آپ کا منھ ہے اتر رہا
اک دم میں یہ عجب کہ مرے سر پہ پھر گیا
جو آب تیغ برسوں تری تا کمر رہا
کاہے کو میں نے میر کو چھیڑا کہ ان نے آج
یہ درد دل کہا کہ مجھے درد سر رہا
میر تقی میر

یہ رات نہیں وہ جو کہانی میں گذر جائے

دیوان اول غزل 552
غالب کہ یہ دل خستہ شب ہجر میں مرجائے
یہ رات نہیں وہ جو کہانی میں گذر جائے
ہے طرفہ مفتن نگہ اس آئینہ رو کی
اک پل میں کرے سینکڑوں خوں اور مکر جائے
نے بتکدہ ہے منزل مقصود نہ کعبہ
جو کوئی تلاشی ہو ترا آہ کدھر جائے
ہر صبح تو خورشید ترے منھ پہ چڑھے ہے
ایسا نہ ہو یہ سادہ کہیں جی سے اتر جائے
یاقوت کوئی ان کو کہے ہے کوئی گل برگ
ٹک ہونٹ ہلا تو بھی کہ اک بات ٹھہر جائے
ہم تازہ شہیدوں کو نہ آ دیکھنے نازاں
دامن کی تری زہ کہیں لوہو میں نہ بھر جائے
گریے کو مرے دیکھ ٹک اک شہر کے باہر
اک سطح ہے پانی کا جہاں تک کہ نظر جائے
مت بیٹھ بہت عشق کے آزردہ دلوں میں
نالہ کسو مظلوم کا تاثیر نہ کر جائے
اس ورطے سے تختہ جو کوئی پہنچے کنارے
تو میر وطن میرے بھی شاید یہ خبر جائے
میر تقی میر

ساتھ لیے داغ جگر جائیں گے

دیوان اول غزل 486
شمع صفت جب کبھو مر جائیں گے
ساتھ لیے داغ جگر جائیں گے
تند نہ ہو ہم تو موئے پھرتے ہیں
کیا تری ان باتوں سے ڈر جائیں گے
کھل گئے رخسار اگر یار کے
شمس و قمر جی سے اتر جائیں گے
خالی نہ چھوڑیں گے ہم اپنی جگہ
گر یہی رونا ہے تو بھر جائیں گے
راہ دم تیغ پہ ہو کیوں نہ میر
جی پہ رکھیں گے تو گذر جائیں گے
میر تقی میر

پھر اپنی نظر شاید تا حدِّ نظر جائے

فیض احمد فیض ۔ غزل نمبر 20
پھر آئنہِ عالم شاید کہ نکھر جائے
پھر اپنی نظر شاید تا حدِّ نظر جائے
صحرا پہ لگے پہرے اور قفل پڑے بن پر
اب شہر بدر ہو کر دیوانہ کدھر جائے
خاکِ رہِ جاناں پر کچھ خوں تھا گِرو اپنا
اس فصل میں ممکن ہے یہ قرض اتر جائے
دیکھ آئیں چلو ہم بھی جس بزم میں سنتے ہیں
جو خندہ بلب آئے وہ خاک بسر جائے
یا خوف سے در گزریں یا جاں سے گزر جائیں
مرنا ہے کہ جینا ہے اِک بات ٹھہر جائے
فیض احمد فیض

بے نشاں ہو گئے جب شہر تو گھر جائیں گے

فیض احمد فیض ۔ غزل نمبر 12
ہم مسافر یونہی مصروفِ سفر جائیں گے
بے نشاں ہو گئے جب شہر تو گھر جائیں گے
کس قدر ہو گا یہاں مہر و وفا کا ماتم
ہم تری یاد سے جس روز اتر جائیں گے
جوہری بند کیے جاتے ہیں بازارِ سخن
ہم کسے بیچنے الماس و گہر جائیں گے
نعمتِ زیست کا یہ قرض چکے گا کیسے
لاکھ گھبرا کے یہ کہتے رہیں، مر جائیں گے
شاید اپنا بھی کوئی بیت حُدی خواں بن کر
ساتھ جائے گا مرے یار جدھر جائیں گے
فیض آتے ہیں رہِ عشق میں جو سخت مقام
آنے والوں سے کہو ہم تو گزر جائیں گے
فیض احمد فیض

پھر کہیں اور مر رہا ہوں میں

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 336
پھر وہی بھول کر رہا ہوں میں
پھر کہیں اور مر رہا ہوں میں
جانتا ہوں منافقت کے گُر
شہر میں معتبر رہا ہوں میں
رابطے سانپ بنتے جاتے تھے
رخنے مٹی سے بھر رہا ہوں میں
رات کچھ اور انتظار مرا
آسماں پر ابھر رہا ہوں میں
ایک اندھا کنواں ہے چاروں اور
زینہ زینہ اتر رہا ہوں میں
آخری بس بھی جانے والی ہے
اور تاخیر کر رہا ہوں میں
ساتھ چھوڑا تھا جس جگہ تُو نے
بس اسی موڑ پر رہا ہوں میں
جانتا ہے تُو میری وحشت بھی
تیرے زیرِ اثر رہا ہوں میں
تتلیاں ہیں مرے تعاقب میں
کیسا گرمِ سفر رہا ہوں میں
کچھ بدلنے کو ہے کہیں مجھ میں
خود سے منصور ڈر رہا ہوں میں
منصور آفاق

تجھے میں آنکھ کے دربند کر کے دیکھوں گا

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 74
کرشمے تیری گرفتِ نظر کے دیکھوں گا
تجھے میں آنکھ کے دربند کر کے دیکھوں گا
پتہ کروں گا نہ ہونے میں کیسا ہونا ہے
مقامِ صفر پہ کچھ دن ٹھہر کے دیکھوں گا
نکل کے کمرے سے جاؤں گا صحن میں اپنے
مناظر اپنے شکستہ سے گھر کے دیکھوں گا
رکھا درخت کے بالکل ہے سامنے سورج
ابھی میں پھیلتے سائے اُدھر کے دیکھوں گا
جہاں جہاں ترے پہلو میں کھل اٹھا تھا بدن
میں بار بار وہیں سے گزر کے دیکھوں گا
سہار د ستِ دعانے تو لی ہے چھت لیکن
مگر فلک کی طرف روز ڈر کے دیکھوں گا
ہے ہمکلام بھی مائل بھی اور اکیلا بھی
سوہاتھ زانوئے جاناں پہ دھر کے دیکھوں گا
سناہے اسکے لبوں سے جھڑے مسیحائی
سومیں بھی یار کی چوکھٹ پہ مر کے دیکھوں گا
اے چشمِ یار کی تیرہ سواد کاجلی شب
تجھے میں آنکھ میں مہتاب بھر کے دیکھوں گا
بنا ہوا ہوں ازل سے زمین کا قیدی
میں سارے دائرے دا مِ سفر کے دیکھوں گا
ذرا سی اور ٹھہر جائے رات پہلو میں
سبھی چراغ بجھا کر سحر کے دیکھوں گا
ہوا وصال میں مہکے توچاندنی !تجھ سے
میں کھول کھول کے سائے شجر کے دیکھوں گا
مجھے یقیں ہے کہ تیرا سروپ ہے اسمیں
اب آئینہ بھی ہمیشہ سنور کے دیکھوں گا
تم اپنے خول سے باہر نکل کے آ ؤ تو
فرازِ عرش سے میں بھی اتر کے دیکھوں گا
مرے لبوں کو بھی تتلی کی نرمیاں چھو لیں
گلاب کی طرح میں بھی نکھر کے دیکھوں گا
خود اپنی آنکھ سے اپنی سویر کی کرنیں
کسی کے بامِ افق پر ابھر کے دیکھوں گا
یہ اور بات کہ موسم بدل نہیں سکتا
میں برگ برگ ہوا میں بکھر کے دیکھوں گا
ابھی لکھوں گا قصیدہ کسی کے چہرے کا
تماشا اپنے ہی حسنِ نظر کے دیکھوں گا
وہ گنگنائے گی اک دن مری غزل منصور
عجب وصال میں اپنے ہنر کے دیکھوں گا
منصور آفاق

کیا کوئی ان کی خبر آئی ہے

باقی صدیقی ۔ غزل نمبر 254
ڈوب کر نبض ابھر آئی ہے
کیا کوئی ان کی خبر آئی ہے
غمزدہ غمزدہ، لرزاں لرزاں
لو شب غم کی سحر آئی ہے
کیا کوئی اپنا ستم یاد آیا
آنکھ کیوں آپ کی بھر آئی ہے
کیا محبت سے تعلق تجھ کو
یہ بلا بھی مرے سر آئی ہے
آپ کے اٹھتے ہی ساری دنیا
لغزشیں کھاتی نظر آئی ہے
زندگی کتنی کٹھن راہوں سے
باتوں باتوں میں گزر آئی ہے
ٹمٹمانے لگے یادوں کے چراغ
شب غم دل میں اتر آئی ہے
ہر لرزتے ہوئے تارے میں ہمیں
اپنی تصویر نظر آئی ہے
ایک برسا ہوا بادل جیسے
لو شب غم کی سحر آئی ہے
میرے چہرے پہ تبسم کی طرح
اک شکن اور ابھر آئی ہے
میری قسمت میں نہیں کیا باقیؔ
جو خوشی غیر کے گھر آئی ہے
باقی صدیقی

دیکھو ہمیں بام سے اتر کے

باقی صدیقی ۔ غزل نمبر 227
ہم ذرے ہیں خاک رہگزر کے
دیکھو ہمیں بام سے اتر کے
چپ ہو گئے یوں اسیر جیسے
جھگڑے تھے تمام بال و پر کے
اے باد سحر نہ چھیڑ ہم کو
ہم جاگے ہوئے ہیں رات بھر کے
شبنم کی طرح حیات کے خواب
کچھ اور نکھر گئے بکھر کے
جب ان کو خیال وضع آیا
انداز بدل گئے نظر کے
طوفاں کو بھی ہے ملال ان کا
ڈوبی ہیں جو کشتیاں اُبھر کے
حالات بتا رہے ہیں باقیؔ
ممنون نہ ہوں گے چارہ گر کے
باقی صدیقی

رہگزر ہی میں رہے راہگزر کے ساتھی

باقی صدیقی ۔ غزل نمبر 180
چل سکے دل کے نہ ہمراہ نظر کے ساتھی
رہگزر ہی میں رہے راہگزر کے ساتھی
ہر کنارے کی طرف صورت دریا دیکھو
راستہ روک بھی لیتے ہیں سفر کے ساتھی
قافلے شور مچاتے ہوئے گزرے لیکن
اپنی دیوار سے آئے نہ اتر کے ساتھی
خشک شاخوں پہ سر شام جو آ بیٹھتے ہیں
وہی دو چار پرندے ہیں شجر کے ساتھی
چاک دامن کا گلہ کرتے رہے ہم باقیؔ
اور محفل سے اٹھے جھولیاں بھر کے ساتھی
باقی صدیقی

بام افلاک سے اتر ساقی

باقی صدیقی ۔ غزل نمبر 163
پھول بکھرے ہیں خاک پر ساقی
بام افلاک سے اتر ساقی
میکدہ اور مہیب سناٹا
بے رُخی اور اس قدر ساقی
تشنہ کامی سی تشنہ کامی ہے
دل میں پڑنے لگے بھنور ساقی
بجھ رہا ہے چراغ مے خانہ
رگ ساغر میں خون بھر ساقی
بار ہیں اب خزاں کے ہنگامے
فصل گل کی کوئی خبر ساقی
رند بکھرے ہیں ساغروں کی طرح
رنگ محفل پہ اک نظر ساقی
بے ارادہ چھلک چھلک جانا
جام مے ہے کہ چشم تر ساقی
اک کرن اس طرف سے گزری ہے
ہو رہی ہے کہیں سحر ساقی
توڑ کر سب حدود میخانہ
بوئے مے کی طرح بکھر ساقی
جانے کل رنگ زندگی کیا ہو
وقت کی کروٹوں سے ڈر ساقی
رات کے آخری تبسم پر
مئے باقیؔ نثار کر ساقی
باقی صدیقی

کیوں تجھ سے گریز کر گئے ہم

باقی صدیقی ۔ غزل نمبر 85
کیا دور جہاں سے ڈر گئے ہم
کیوں تجھ سے گریز کر گئے ہم
حیرت ہے کہ سامنے سے تیرے
غیروں کی طرح گزر گئے ہم
وہ دور بھی زندگی میں آیا
محسوس ہوا کہ مر گئے ہم
اے دشت حیات کے بگولو
ڈھونڈو تو سہی کدھر گئے ہم
آئی یہ کدھر سے تیری آواز
چلتے چلتے ٹھہر گئے ہم
گزری ہے صبا قفس سے ہو کے
لینا غم بال و پر گئے ہم
ساحل کا مرحلہ ہے باقیؔ
طوفاں سے تو پار اتر گئے ہم
باقی صدیقی