ٹیگ کے محفوظات: اترانے

آنچ کِن کِن منظروں کی آنکھ تک آنے لگی

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 9
وحشتِ انسان کیا کیا رنگ دکھلانے لگی
آنچ کِن کِن منظروں کی آنکھ تک آنے لگی
دیکھئے اگلی رُتوں میں سرخروئی کو ہوا
کس طرح بے پیرہن شاخوں کو سہلانے لگی
کتنی چیزوں سے ہٹا کر، جانے ماں کی مامتا
دھیان بچّے کا، اُسے باتوں سے بہلانے لگی
لو بحقِ امن اپنی نغمگی کے زعم میں
فاختہ بھی دشتِ وحشت میں ہے اِترانے لگی
ظلمتِ شب کچھ بتا اُٹھی ہے کیسی چیخ سی
جبر کی ڈائن کِسے کّچا چبا جانے لگی
جھینپنا کیا، سچ اگر نکلی ہے، پّلے باندھ کر
وقت کی مریم، بھلا کاہے کو شرمانے لگی
دم بخود اتنا بھی ہو ماجدؔ نہ جلتی دُھوپ سے
آسماں پر دیکھ وُہ بدلی سی اک چھانے لگی
ماجد صدیقی

بال سا اک شیشے میں آنے لگتا ہے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 116
جب بھی مجھ سے دُور وہ جانے لگتا ہے
بال سا اک شیشے میں آنے لگتا ہے
ابر کے اَوج سے جب بھی خاک پہ اترے تو
پانی کیا کیا زور دکھانے لگتا ہے
وقت فرعون بنائے کسی کو کتنا ہی
ایک نہ اک دن وہ بھی ٹھکانے لگتا ہے
دشت میں بھی یہ معجزہ ہم نے دیکھا ہے
جھونکا سا اک پیاس بجھانے لگتا ہے
دکھلائی دے چھاؤں جہاں بھی پرندے کو
چونچ سے اپنے پَر سہلانے لگتا ہے
مارا ہے کیا تیر سخن میں ماجدؔ نے
ہر ہر بات پہ کیوں اترانے لگتا ہے
ماجد صدیقی