وفا کا صلہ ہم جفا پا رہے ہیں
بڑا ہی کرم آپ فرما رہے ہیں
یہ بحرِ حوادث کے پُرشور دھارے
ڈُبو کر مجھے خود بھی پچھتا رہے ہیں
بہار آئی ہے اور آتی رہے گی
مگر وہ گُلِ تر جو مُرجھا رہے ہیں
ابھی عزمِ صحرا نَوردی کہاں ہے
پیاماتِ منزل چلے آرہے ہیں
نہ دنیا، نہ عُقبٰی، نہ خُلد ان کا مسکن
شہیدِ محبت کہاں جا رہے ہیں
غمِ جاوداں ہے محبت کا حاصل
محبت میں ہم زندگی پا رہے ہیں
شکیبؔ! ان کی ہر بات عینِ یقیں ہے
خدا جانے کیوں وہ قسم کھا رہے ہیں
شکیب جلالی