ٹیگ کے محفوظات: آ

بڑا ہی کرم آپ فرما رہے ہیں

وفا کا صلہ ہم جفا پا رہے ہیں
بڑا ہی کرم آپ فرما رہے ہیں
یہ بحرِ حوادث کے پُرشور دھارے
ڈُبو کر مجھے خود بھی پچھتا رہے ہیں
بہار آئی ہے اور آتی رہے گی
مگر وہ گُلِ تر جو مُرجھا رہے ہیں
ابھی عزمِ صحرا نَوردی کہاں ہے
پیاماتِ منزل چلے آرہے ہیں
نہ دنیا، نہ عُقبٰی، نہ خُلد ان کا مسکن
شہیدِ محبت کہاں جا رہے ہیں
غمِ جاوداں ہے محبت کا حاصل
محبت میں ہم زندگی پا رہے ہیں
شکیبؔ! ان کی ہر بات عینِ یقیں ہے
خدا جانے کیوں وہ قسم کھا رہے ہیں
شکیب جلالی

مجھے بدن سے نکالو، میں تنگ آ گیا ہوں

یہ کیسے ملبے کے نیچے دبا دیا گیا ہوں
مجھے بدن سے نکالو، میں تنگ آ گیا ہوں
کسے دماغ ہے بے فیض صحبتوں کا میاں
خبر اڑا دو کہ میں شہر سے چلا گیا ہوں
مآلِ عشقِ اناگیر ہے یہ مختصراً
میں وہ درندہ ہوں جو خود کو ہی چبا گیا ہوں
کوئی گھڑی ہے کہ ہوتا ہوں آستین میں دفن
میں دل سے بہتا ہوا آنکھ تک تو آ گیا ہوں
مرا تھا مرکزی کردار اس کہانی میں
بڑے سلیقے سے بے ماجرا کیا گیا ہوں
وہ مجھ کو دیکھ رہا ہے عجب تحیّر سے
نجانے جھونک میں کیا کچھ اُسے بتا گیا ہوں
مجھے بھلا نہ سکے گی یہ رہگزارِ جنوں
قدم جما نہ سکا، رنگ تو جما گیا ہوں
سب اہتمام سے پہنچے ہیں اُس کی بزم میں آج
میں اپنے حال میں سرمست و مبتلا گیا ہوں
مرے کہے سے مرے گرد و پیش کچھ بھی نہیں
سو جو دکھایا گیا ہے وہ دیکھتا گیا ہوں
اُسے بتایا نہیں ہجر میں جو حال ہُوا
جو بات سب سے ضروری تھی وہ چھپا گیا ہوں
غزل میں کھینچ کے رکھ دی ہے اپنی جاں عرفان
ہر ایک شعر میں دل کا لہو بہا گیا ہوں
عرفان ستار

تو میں بتاوں گا خود کو کہ کیا بنا میرا

اگر بحال ہوا خود سے رابطہ میرا
تو میں بتاوں گا خود کو کہ کیا بنا میرا
ہر ایک روز کہیں چھت مرے مکاں کی گری
ہر ایک روز کوئی شخص مر گیا میرا
کوئی بھی قبر نہیں جس میں میری لاش نہ ہو
کوئی گلی نہیں جس میں نہ خوں بہا میرا
میں روشنی کے سوا کچھ بھی کر نہیں سکتا
ہے اک چراغ کی نسبت سے سلسلہ میرا
میں حل نکال ہی لوں گا کسی طریقے سے
مری سمجھ میں جو آجائے مسئلہ میرا
میں ایک صبح بکھر جاؤں گا مہک بن کر
سراغ ڈھونڈتی رہ جائے گی صبا میرا
تجھے میں خود سے بھی ملواؤں گا مگر پہلے
کسی سے جا کے پتہ پوچھ کر تو آ میرا
عرفان ستار

آنے والے آ نہ سکے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 13
ہم پہ کرم فرما نہ سکے
آنے والے آ نہ سکے
دے گئے رنج بکھرنے کا
پھُول بھی دل بہلا نہ سکے
کر کے مقّید بھی وہ مجھے
بات مری جھٹلا نہ سکے
میری آس کے آنگن کے
چاند کبھی گہنا نہ سکے
ہم نہ ہوئے تسلیم جنہیں
وہ بھی ہمیں ٹھکرا نہ سکے
ماجدؔ کیا کیا رنج تھے جو
لوگ زباں پر لا نہ سکے
ماجد صدیقی

وہ بیگانہ ہے میرا آشنا بھی

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 23
نظر میں ہے نظر سے ہے جُدا بھی
وہ بیگانہ ہے میرا آشنا بھی
ہَوا جن پر بظاہر مہرباں ہے
اُنہی پتّوں سے رہتی ہے خفا بھی
گریزاں ہیں نجانے کیوں ہمِیں سے
زمانہ بھی، مقدر بھی،خدا بھی
ستم باقی رہا اب کون سا ہے
بہت کچھ ہو چکا اب لوٹ آ بھی
ترستی ہے جسے خوں کی روانی
سخن ایسا کوئی ہونٹوں پہ لا بھی
بہت نزدیک سے دیکھا ہے ماجدؔ!
نظر نے عرصۂ کرب و بلا بھی
ماجد صدیقی

میری تشنہ خواہشیں بچّہ مرا دُہرا آ گیا

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 70
جب کبھی اندوہِ رفتہ بھُولنے پر آ گیا
میری تشنہ خواہشیں بچّہ مرا دُہرا آ گیا
لے لیا مٹھی میں تتلی جان کر کیسا شرر
کھیل میں خواہش کے مَیں کیسا یہ دھوکا کھا گیا
تھا تواضح میں تو مہماں کی بڑا ہی سرخرو
میں تقاضائے اعانت پر مگر شرما گیا
زلزلے ماضی کے پنہاں تھے وہ جس کی دِید میں
سرسے لے کر پاؤں تک یکسر مجھے دہلا گیا
گفتگو تو تھی خنک گوئی پہ ساری منحصر
کون سا جھونکا دبی چنگاریاں سلگا گیا
کلبلائیں بھی تو کیا اظہارِ پامالی پہ ہم
اب تو یہ انداز ہے ماجدؔ ہمیں بھی بھا گیا
ماجد صدیقی

صحرا کی تشنگی تھی سو دریا شراب پی

احمد فراز ۔ غزل نمبر 92
کل ہم نے بزمِ یار میں کیا کیا شراب پی
صحرا کی تشنگی تھی سو دریا شراب پی
اپنوں نے تج دیا ہے تو غیروں میں جا کے بیٹھ
اے خانماں خراب! نہ تنہا شراب پی
تو ہم سفر نہیں ہے تو کیا سیرِ گلستاں
تو ہم سبو نہیں ہے تو پھر کیا شراب پی
اے دل گرفتۂ غم جاناں سبو اٹھا
اے کشتۂ جفائے زمانہ شراب پی
دو صورتیں ہیں دوستو دردِ فراق کی
یا اس کے غم میں ٹوٹ کے رو،۔۔ یا شراب پی
اک مہرباں بزرگ نے یہ مشورہ دیا
دکھ کا کوئی علاج نہیں، جا شراب پی
بادل گرج رہا تھا ادھر محتسب ادھر
پھر جب تلک یہ عقدہ نہ سلجھا شراب پی
اے تو کہ تیرے در پہ ہیں رندوں کے جمگھٹے
اک روز اس فقیر کے گھر آ، شراب پی
دو جام ان کے نام بھی اے پیر میکدہ
جن رفتگاں کے ساتھ ہمیشہ شراب پی
کل ہم سے اپنا یار خفا ہو گیا فراز
شاید کہ ہم نے حد سے زیادہ شراب پی
احمد فراز

مسافر گھر کو واپس آ گئے کیا ؟

احمد فراز ۔ غزل نمبر 30
جہاں کے شور سے گھبرا گئے کیا
مسافر گھر کو واپس آ گئے کیا ؟
نہ تھی اتنی کڑی تازہ مسافت
پرانے ہم سفر یاد آ گئے کیا ؟
یہاں‌کچھ آشنا سی بستیاں تھیں
جزیروں کو سمندر کھا گئے کیا؟
مری گردن میں باہیں ڈال دی ہیں
تم اپنے آپ سے اکتا گئے کیا ؟
نہیں آیا مرا جانِ بہاراں
درختوں پر شگوفے آ گئے کیا
جہاں میلہ لگا ہے قاتلوں کا
فراز اس شہر میں تنہا گئے کیا؟
احمد فراز

مجھے بدن سے نکالو، میں تنگ آ گیا ہوں

عرفان ستار ۔ غزل نمبر 29
یہ کیسے ملبے کے نیچے دبا دیا گیا ہوں
مجھے بدن سے نکالو، میں تنگ آ گیا ہوں
کسے دماغ ہے بے فیض صحبتوں کا میاں
خبر اڑا دو کہ میں شہر سے چلا گیا ہوں
مآلِ عشقِ اناگیر ہے یہ مختصراً
میں وہ درندہ ہوں جو خود کو ہی چبا گیا ہوں
کوئی گھڑی ہے کہ ہوتا ہوں آستین میں دفن
میں دل سے بہتا ہوا آنکھ تک تو آ گیا ہوں
مرا تھا مرکزی کردار اس کہانی میں
بڑے سلیقے سے بے ماجرا کیا گیا ہوں
وہ مجھ کو دیکھ رہا ہے عجب تحیّر سے
نجانے جھونک میں کیا کچھ اُسے بتا گیا ہوں
مجھے بھلا نہ سکے گی یہ رہگزارِ جنوں
قدم جما نہ سکا، رنگ تو جما گیا ہوں
سب اہتمام سے پہنچے ہیں اُس کی بزم میں آج
میں اپنے حال میں سرمست و مبتلا گیا ہوں
مرے کہے سے مرے گرد و پیش کچھ بھی نہیں
سو جو دکھایا گیا ہے وہ دیکھتا گیا ہوں
اُسے بتایا نہیں ہجر میں جو حال ہُوا
جو بات سب سے ضروری تھی وہ چھپا گیا ہوں
غزل میں کھینچ کے رکھ دی ہے اپنی جاں عرفان
ہر ایک شعر میں دل کا لہو بہا گیا ہوں
عرفان ستار

یہ وہیں ہیں لوگ شاید جو فریب کھا گئے ہیں

قمر جلالوی ۔ غزل نمبر 74
سرِ شام تجھ سے ملنے ترے در پہ آ گئے ہیں
یہ وہیں ہیں لوگ شاید جو فریب کھا گئے ہیں
میں اگر قفس سے چھوٹا تو چلے گی باغباں سے
جہاں میرا آشیاں تھا وہاں پھول آ گئے ہیں
کوئی ان سے جا کہ کہہ دے سرِ بام پھر تجلی
جنہیں کر چکے ہو بے خود انھیں ہوش آ گئے ہیں
یہ پتہ بتا رہے ہیں رہِ عشق کے بگولے
کہ ہزاروں تم سے پہلے یہاں خاک اڑا گئے ہیں
شبِ ہجرِ شمع گل ہے مجھے اس سے کیا تعلق
قمر آسماں کے تارے کہاں منہ چھپا گئے ہیں
قمر جلالوی

کہ اُن کے خط انہیں لوٹا رہے ہیں

جون ایلیا ۔ غزل نمبر 126
بڑا احسان ہم فرما رہے ہیں
کہ اُن کے خط انہیں لوٹا رہے ہیں
نہیں ترکِ محبت پر وہ راضی
قیامت ہے کہ ہم سمجھا رہے ہیں
یقیں کا راستہ طے کرنے والے
بہت تیزی سے واپس آ رہے ہیں
یہ مت بُھولو کہ یہ لمحات ہم کو
بچھڑنے کے لیے ملوا رہے ہیں
تعجب ہے کہ عشق و عاشقی سے
ابھی کچھ لوگ دھوکا کھا رہے ہیں
تمہیں چاہیں گے جب چِھن جاؤ گی تو
ابھی ہم تم کو ارزاں پا رہے ہیں
کسی صورت انہیں نفرت ہو ہم سے
ہم اپنے عیب خود گِنوا رہے ہیں
وہ پاگل مست ہے اپنی وفا میں
مری آنکھوں میں آنسو آ رہے ہیں
دلیلوں سےاسے قائل کیا تھا
دلیلیں دے کے اب پچھتا رہے ہیں
تری بانہوں سے ہجرت کرنے والے
نئے ماحول میں گھبرا رہے ہیں
یہ جزبہ عشق ہے یا جزبہء رحم
ترے آنسو مجھے رُلوا رہے ہیں
عجب کچھ ربط ہے تم سے تم کو
ہم اپنا جان کر ٹھکرا رہے ہیں
وفا کی یادگاریں تک نہ ہوں گی
مری جاں بس کوئی دن جا رہے ہیں
جون ایلیا

جانے یہ کون آ رہا مجھ میں

جون ایلیا ۔ غزل نمبر 114
ہے فصیلیں اٹھا رہا مجھ میں
جانے یہ کون آ رہا مجھ میں
جون مجھ کو جلا وطن کر کے
وہ مرے بن بھلا رہا مجھ میں
مجھ سے اس کو رہی تلاشِ امید
سو بہت دن چھپا رہا مجھ میں
تھا قیامت، سکوت کا آشوب
حشر سا اک بپا رہا مجھ میں
پسِ پردہ کوئی نہ تھا پھر بھی
ایک پردہ کھنچا رہا مجھ میں
مجھ میں آ کر گرا تھا اک زخمی
جانے کب تک پڑا رہا مجھ میں
اتنا خالی تھا اندروں میرا
کچھ دنوں تو خدا رہا مجھ میں
جون ایلیا

دُور ہا دُور آ چُکا ہوں میں

جون ایلیا ۔ غزل نمبر 110
تم سے بھی اب تو جا چُکا ہوں میں
دُور ہا دُور آ چُکا ہوں میں
یہ بہت غم کی بات ہو شاید
اب تو غم بھی گنوا چُکا ہوں میں
اس گمانِ گماں کے عالم میں
آخرش کیا بُھلا چُکا ہوں میں
اب ببر شیر اشتہا ہے میری
شاعروں کو تو کھا چُکا ہوں میں
میں ہوں معمار پر یہ بتلا دوں
شہر کے شہر ڈھا چُکا ہوں میں
حال ہے اک عجب فراغت کا
اپنا ہر غم منا چُکا ہوں میں
لوگ کہتے ہیں میں نے جوگ لیا
اور دھونی رَما چُکا ہوں میں
نہیں اِملا دُرست غالب کا
شیفتہ کو بتا چُکا ہوں میں
جون ایلیا

تعجّب سے وہ بولا یوں بھی ہوتا ہے زمانے میں

دیوانِ غالب ۔ غزل نمبر 171
قیامت ہے کہ سن لیلیٰ کا دشتِ قیس میں آنا
تعجّب سے وہ بولا ’یوں بھی ہوتا ہے زمانے میں؟‘
دلِ نازک پہ اس کے رحم آتا ہے مجھے غالب
نہ کر سرگرم اس کافر کو اُلفت آزمانے میں
مرزا اسد اللہ خان غالب

میں گیا وقت نہیں ہوں کہ پھر آ بھی نہ سکوں

دیوانِ غالب ۔ غزل نمبر 161
مہرباں ہو کے بلالو مجھے، چاہو جس وقت
میں گیا وقت نہیں ہوں کہ پھر آ بھی نہ سکوں
ضعف میں طعنۂ اغیار کا شکوہ کیا ہے
بات کچھ سَر تو نہیں ہے کہ اٹھا بھی نہ سکوں
زہر ملتا ہی نہیں مجھ کو ستمگر، ورنہ
کیا قسم ہے ترے ملنے کی کہ کھا بھی نہ سکوں
مرزا اسد اللہ خان غالب

سامنے ان کے نہ بیٹھا جائے

باقی صدیقی ۔ غزل نمبر 186
ایسے دل پر بھی کوئی کیا جائے
سامنے ان کے نہ بیٹھا جائے
اب ہے وہ زخم نظر کا عالم
تیری جانب بھی نہ دیکھا جائے
کتنی سنسان ہے راہ ہستی
نہ چلا جائے نہ ٹھہرا جائے
ہمر ہو گوش بر آواز رہو
کیا خبر کوئی خبر آ جائے
زندگی اڑتا ہوا سایہ ہے
آگے آگے ہی سرکتا جائے
آرزو دیر سے چپ ہے باقیؔ
در پہ دستک کوئی دیتا جائے
باقی صدیقی

کس سے ہم آس لگا بیٹھے ہیں

باقی صدیقی ۔ غزل نمبر 130
راہ میں شمع جلا بیٹھے ہیں
کس سے ہم آس لگا بیٹھے ہیں
رنگ محفل سے ہمیں کیا مطلب
جانے کیا سوچ کے آ بیٹھے ہیں
ختم ہوتی نہیں دل کی باتیں
اپنا قصہ تو سنا بیٹھے ہیں
کون سنتا ہے کسی کی آواز
ہم ابھی کر کے صدا بیٹھے ہیں
مسکرایا ہے زمانہ کیا کیا
کھا کے جب تیر وفا بیٹھے ہیں
خود کو دیکھا تو نہ پہچان سکے
ہم بھی کیا حال بنا بیٹھے ہیں
ابھی کچھ ملتے ہیں منزل کے سراغ
ابھی کچھ آبلہ پا بیٹھے ہیں
منزلوں رہ گئے پیچھے باقیؔ
وہ گھڑی راہ میں کیا بیٹھے ہیں
باقی صدیقی

سامنے تیرے آ رہا ہوں میں

باقی صدیقی ۔ غزل نمبر 104
اپنا قصہ سنا رہا ہوں میں
سامنے تیرے آ رہا ہوں میں
ایک مدت تری محبت میں
اپنے دل سے جدا رہا ہوں میں
تیری شہرت کے واسطے کیا کیا
خود پہ پردے گردا رہا ہوں میں
اک زمانے کی ہے نظر مجھ پر
اس لئے مسکرا رہا ہوں  میں
زندگی دھن رہی ہے سر باقی
کونسا راگ گا رہا ہوں میں
باقی صدیقی

چنگیاں دِناں دے ہاڑے، سِر تے ہور بھسوڑیاں پا گئے نیں

ماجد صدیقی (پنجابی کلام) ۔ غزل نمبر 34
جذبیاں نُوں بے تھانواں کر گئے، سفنیاں نُوں دہلا گئے نیں
چنگیاں دِناں دے ہاڑے، سِر تے ہور بھسوڑیاں پا گئے نیں
خورے کیہڑیاں رُتاں ہتھوں، مُدّتاں توں زنجیرے نیں
پاندھی پَیر اساڈے، اگّے ودّھن نُوں، سدھرا گئے نیں
صورت کوئی نہ بندی جاپے، سنگ مقصد، کڑمائی دی
وچ اُڈیکاں پھُل گانے دے، وِینیاں تے کُملا گئے نیں
ٹِنڈاں دا کیہ، ایتک تے، ماہلاں وی تَرُٹیاں ہون گیّاں
اچن چیتی کَھوہ تاہنگاں دے، اِنج اُلٹے چکرا گئے نیں
ویہندیاں ویہندیاں ائی راہ لبھ پئی، دل چ رُکیاں ہیکاں نوں
سَد وطنوں کُھنجیاں کُونجاں دے، سُتے درد جگا گئے نیں
ویلے نے کد پرتن دِتا، ودھدے ہوئے پرچھانویں نوں
سجن سانوں، اُنج ائی میل ملاپ دے، لارے لا گئے نیں
ہاں ماجدُ چُنجاں کُنجیاں، کانواں فر نانویں انڈیاں دے
چِڑیاں ہتھوں ککھ جوڑن دے، دن فر پرت کے آ گئے نیں
ماجد صدیقی (پنجابی کلام)