ٹیگ کے محفوظات: آشکارا

ہمارا مرنا بھی جینے کا استعارہ ہوا

عرفان صدیقی ۔ غزل نمبر 26
سنو، کہ بول رہا ہے وہ سر اتارا ہوا
ہمارا مرنا بھی جینے کا استعارہ ہوا
یہ سرخ پھول سا کیا کھل رہا ہے نیزے پر
یہ کیا پرندہ ہے شاخش شجر پہ دارا ہوا
ابھی زمیں پہ نشاں تھے عذاب رفتہ کے
پھر آسمان پہ ظاہر وہی ستارہ ہوا
میں ڈر رہا تھا وہ خنجر نہ ہو چھپائے ہوئے
ردا ہٹی تو وہی زخم آشکارا ہوا
یہ موج موج کا اک ربط درمیاں ہی سہی
تو کیا ہوا میں اگر دوسرا کنارہ ہوا
عرفان صدیقی

تیرا ہی رہ گیا ہے لے دے کے اک سہارا

الطاف حسین حالی ۔ غزل نمبر 7
دیکھ اے امید کہ جو، ہم سے نہ تو کنارا
تیرا ہی رہ گیا ہے لے دے کے اک سہارا
یوں بے سبب زمانہ پھرتا نہیں کسی سے
اے آسماں کچھ اس میں تیرا بھی ہے اشارا
میخانہ کی خرابی جی دیکھ کر بھر آیا
مدت کے بعد کل واں جا نکلے تھے قضا را
اک شخص کو توقع بخشش کی بے عمل ہے
اے زاہدو تمہارا ہے اس میں کیا اجارا
دنیا کے خرخشوں سے چیخ اٹھتے تم ہم اول
آخر کو رفتہ رفتہ سب ہو گئے گوارا
انصاف سے جو دیکھا نکلے وہ عیب سارے
جتنے ہنر تھے اپنے عالم میں آشکارا
افسوس، اہل دیں بھی مانند اہلِ دنیا
خود کام خود نما ہیں خود بیں میں اور خود آرا
الطاف حسین حالی