ٹیگ کے محفوظات: آسان

جاناں! تیر ا برتاؤ بھی جان لیا

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 24
چہرے پر چہرہ ہم نے پہچان لیا
جاناں! تیر ا برتاؤ بھی جان لیا
اِس بالک کی ہٹ تو ہم کو لے بیٹھی
ہم نے دل کا جانا تھا آسان لیا
جتنے بھی پیغام ہوا نے پہنچائے
ہم نے اُن ساروں کو سچا مان لیا
اور بھلا اِس مشکل کا حل کیا ہوتا
یاد اُجالا چہرۂ شب پر تان لیا
تیرے حسن کا سونا ہاتھ نہیں آیا
ہم نے چاہت کا صحرا بھی چھان لیا
ماجد صدیقی

کم نہیں کسبِ خسارہ میں مگر انسان بھی

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 32
عرش تک سے اِس پہ ارزانی ہیں گو احسان بھی
کم نہیں کسبِ خسارہ میں مگر انسان بھی
ہے ہمیں کیوں اُس بدن پر حکمرانی کا یقیں
جس کے ملنے کا نہیں باقی کوئی امکان بھی
سرو کا تو کیا جو لرزاں بھی ہو شورِ سیل سے
خاک پر دِبکے ملے ہیں سنبل و ریحان بھی
آبجو میں اور ہے پودا سرِ ساحل کچھ اور
سانس لینا دہر میں مشکل بھی ہے آسان بھی
باپ روزی کے لئے نکلا وطن سے دُور تو
مڑ کے بچّوں کی نہ اُس سے ہو سکی پہچان بھی
سحرِ سے فرصت مِلے دل کے تو ماجدؔ دیکھنا
کچھ تقاضے تجھ سے رکھتی ہے بدن میں جان بھی
ماجد صدیقی

میدان کی اِک ہار ہے پہچان ہماری

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 86
اتنی سی سرِ ارض ہے اَب آن ہماری
میدان کی اِک ہار ہے پہچان ہماری
بتلائے کہ سر کون سی دہلیز پہ خم ہو
کر دے کوئی مشکل یہی آسان ہماری
ابجد سے بھی جو پیار کی واقف نظر آئے
سَو جان ہو اُس شخص پہ قربان ہماری
یہ ساغرِ جم بھی ہے اٹا گردِ زماں سے
کیا رہنمائی کرے وجدان ہماری
ہے اِس کی بقا بھی غمِ اولاد کے ناتے
ورنہ ہے کہاں جسم میں اب جان ہماری
نکلے ہی کہاں تخت کی زنجیر سے ماجدؔ
کب آ کے خبر لے کوئی خاقان ہماری
ماجد صدیقی

اور جنّت میں مجھ پر یہ بہتان لگا

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 87
اَن چکّھا، چکّھا تو میں شیطان لگا
اور جنّت میں مجھ پر یہ بہتان لگا
آیا ہے پھر کرب کوئی غُرّانے پر
جنگل جیسا پھر یہ دل سنسان لگا
چھُو کر دیکھا تو جل اُٹھیں پوریں بھی
کام بظاہر جو بھی کوئی آسان لگا
ماند پڑی جُوں جُوں اُمید رہائی کی
کنجِ قفس تُوں تُوں ہے جنم استھان لگا
ڈُوب کے مرنے والوں کی فہرست لئے
تختہ سا اِک جھیل کنارے آن لگا
آنکھ سے اوجھل رنگوں کا سیلاب لئے
غنچہ غنچہ ماجدؔ کا دیوان لگا
ماجد صدیقی

جی سے جانا بھی ہے آسان کہاں

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 11
ہار کھانا مری پہچان کہاں
جی سے جانا بھی ہے آسان کہاں
زیست مرہونِ نتائج ہے فقط
اِس کا اپنا کوئی عنوان کہاں
پہرہ دارانِ الم کے ہوتے
دل سے نکِلے کوئی ارمان کہاں
ہے معنون جو نہتّوں سے یہاں
ختم ہوتا ہے وُہ تاوان کہاں
چاند جوہڑ میں اُترتا کب ہے
ہم کہاں اور وہ ذی شان کہاں
ہے جو محبوس بدن میں ماجدؔ
چین پاتی ہے بھلا جان کہاں
ماجد صدیقی

احسان کا مزا ہے احسان کر کے بھولے

داغ دہلوی ۔ غزل نمبر 44
گر ہو سلوک کرنا انسان کر کے بھولے
احسان کا مزا ہے احسان کر کے بھولے
نشتر سے کم نہیں ہے کچھ چھیڑ آرزو کی
عاشق مزاج کیوں کر ارمان کر کے بھولے
وعدہ کیا پھر اُس پر تم نے قسم بھی کھائی
کیا بھول ہے انساں پیمان کر کے بھولے
وعدے کی شب رہا ہے کیا انتظار مجھ کو
آنے کا وہ یہاں تک سامان کر کے بھولے
اپنے کئے پہ نازاں ہو آدمی نہ ہر گز
طاعت ہو یا اطاعت انسان کر کے بھولے
خود ہی مجھے بلایا پھر بات بھی نہ پوچھی
وہ انجمن میں اپنی مہمان کر کے بھولے
یہ بھول بھی ہماری ہے یادگار دیکھو
دل دے کے مفت اپنا نقصان کر کے بھولے
تم سے وفا جو کی ہے ہم سے خطا ہوئی ہے
ایسا قصور کیوں کر انسان کر کے بھولے
آخر تو آدمی تھے نسیان کیوں نہ ہوتا
میری شناخت شب کو دربان کر کے بھولے
اب یاد ہے اُسی کی فریاد ہے اُسی کی
سارے جہاں کو جس کا ہم دھیان کر کے بھولے
اب عشق کا صحیفہ یوں دل سے مٹ گیا ہے
جس طرح یاد کوئی قرآن کر کے بھولے
اے داغ اپنا احساں رکھے گا یاد قاتل
وہ اور میری مشکل آسان کر کے بھولے
داغ دہلوی

جان حیران ہو گئی ہو گی

جون ایلیا ۔ غزل نمبر 148
جب تری جان ہو گئی ہو گی
جان حیران ہو گئی ہو گی
شب تھا میری نگاہ کا بوجھ اس پر
وہ تو ہلکان ہو گئی ہو گی
اس کی خاطر ہوا میں خار بہت
وہ میری آن ہو گئی ہو گی
ہو کے دشوار زندگی اپنی
اتنی آسان ہو گئی ہو گی
بے گلہ ہوں میں اب بہت دن سے
وہ پریشان ہو گئی ہو گی
اک حویلی تھی دل محلے میں
اب وہ ویران ہو گئی ہو گی
اس کے کوچے میں آئی تھی شیریں
اس کی دربان ہو گئی ہو گی
کمسنی میں بہت شریر تھی وہ
اب تو شیطان ہو گئی ہو گی
جون ایلیا

اس عیش کے لیے سر و سامان چاہیے

عرفان صدیقی ۔ غزل نمبر 354
وحشت کے ساتھ دشت مری جان چاہیے
اس عیش کے لیے سر و سامان چاہیے
کچھ عشق کے نصاب میں کمزور ہم بھی ہیں
کچھ پرچۂ سوال بھی آسان چاہیے
تجھ کو سپردگی میں سمٹنا بھی ہے ضرور
سچا ہے کاروبار تو نقصان چاہیے
اب تک کس انتظار میں بیٹھے ہوئے ہیں لوگ
امید کے لیے کوئی امکان چاہیے
ہو گا یہاں نہ دست و گریباں کا فیصلہ
اس کے لیے تو حشر کا میدان چاہیے
آخر ہے اعتبارِ تماشا بھی کوئی چیز
انسان تھوڑی دیر کو حیران چاہیے
جاری ہیں پائے شوق کی ایذا رسانیاں
اب کچھ نہیں تو سیرِ بیابان چاہیے
سب شاعراں خریدۂ دربار ہو گئے
یہ واقعہ تو داخلِ دیوان چاہیے
ملکِ سخن میں یوں نہیں آنے کا انقلاب
دو چار بار نون کا اعلان چاہیے
اپنا بھی مدتوں سے ہے رقعہ لگا ہوا
بلقیس شاعری کو سلیمان چاہیے
عرفان صدیقی