ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 104
جاں نثاری کے شہ دلاتے ہو
کیوں مرا ظرف آزماتے ہو
شاخ کو سر بلند ہوتے ہی
کتنے حیلوں سے تم جھکاتے ہو
جی کو جچتا نہیں ہے کیوں جانے
حرف جو بھی زباں پہ لاتے ہو
شکل احوال کی ہے کیا اور تُم
اُن کی تصویر کیا دکھاتے ہو
تُم بھی کیا سادہ لوح ہو ماجدؔ!
آنسوؤں سے دیے جلاتے ہو
ماجد صدیقی