ٹیگ کے محفوظات: آتے

بہ بزمِ غیر نہ آتے اگر بُرا کیا تھا

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 27
بھرم مرا نہ گنواتے اگر بُرا کیا تھا
بہ بزمِ غیر نہ آتے اگر بُرا کیا تھا
تمہارے روٹھ کے جانے سے جو ہوا برپا
وہ حشر تم نہ اٹھاتے اگر بُرا کیا تھا
وہی جو تیر سی میرے بدن کو چیر گئی
وہ بات منہ پہ نہ لاتے اگر بُرا کیا تھا
تمہارے ہجرِمسلسل سے جو الاؤ بنی
اس آگ میں نہ جلاتے اگر بُرا کیا تھا
تم ہی تو تھے جو مرا دم تھے، دل کی دھٹرکن تھے
سفر میں ساتھ نبھاتے اگر بُرا کیا تھا
ماجد صدیقی

کیسے کیسے وقت آئے اور گزر جاتے رہے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 89
پھول کچھ لمحے تو کچھ تھے سنگ برساتے رہے
کیسے کیسے وقت آئے اور گزر جاتے رہے
تھپکیوں سے بھی رہے تھے رس اُنہی کا چوستے
مہرباں جھونکے تھے جن پتّوں کو سہلاتے رہے
تھا اُنہی کے جسم میں وقتِ سحر خوں جم گیا
جو فصیلِ شب سے ساری رات ٹکراتے رہے
خوب تھا وہ آتے جاتے موسموں کا سا ملاپ
تم ملا کرتے تو تھے گرچہ بچھڑ جاتے رہے
خاک تھی وہ لذّتِ خواب سکوں جس کے عوض
آنے والے دن بھی گروی رکھ دئیے جاتے رہے
شاخچوں کے پھول پھل پڑنے سے پہلے توڑنا
ایسی رسمیں بھی یہاں کچھ لوگ دُہراتے رہے
یاد سے ہو محو ماجدؔ کیسے اُن چہروں کا عکس
شدّتِ خواہش سے جو دل میں اُتر آتے رہے
ماجد صدیقی

ورنہ اتنے تو مراسم تھے کہ آتے جاتے

احمد فراز ۔ غزل نمبر 110
سلسلے توڑ گیا وہ سبھی جاتے جاتے
ورنہ اتنے تو مراسم تھے کہ آتے جاتے
شکوۂ ظلمت شب سے تو کہیں‌بہتر تھا
اپنے حصے کی کوئی شمع جلاتے جاتے
کتنا آساں تھا ترے ہجر میں مرنا جاناں
پھر بھی اک عمر لگی جان سے جاتے جاتے
جشنِ مقتل ہی نہ برپا ہوا ورنہ ہم بھی
پابجولاں ہی سہی ناچتے گاتے جاتے
اس کی وہ جانے اسے پاسِ وفا تھا کہ نہ تھا
تم فرازؔ اپنی طرف سے تو نبھاتے جاتے
احمد فراز

باعث ترک ملاقات بتاتے بھی نہیں

داغ دہلوی ۔ غزل نمبر 41
عذر آنے میں بھی ہے اور بلاتے بھی نہیں
باعث ترک ملاقات بتاتے بھی نہیں
منتظر ہیں دمِ رخصت کہ یہ مر جائے تو جائیں
پھر یہ احسان کہ ہم چھوڑ کے جاتے بھی نہیں
سر اٹھاؤ تو سہی آنکھ ملاؤ تو سہی
نشۂ مے بھی نہیں نیند کے ماتے بھی نہیں
کیا کہا؟، پھر تو کہو، “ہم نہیں سنتے تیری“
نہیں سنتے تو ہم ایسوں کو سناتے بھی نہیں
خوب پردہ ہے کہ چلمن سے لگے بیٹھے ہیں
صاف چھپتے بھی نہیں سامنے آتے بھی نہیں
مجھ سے لاغر تری آنکھوں میں کھٹکتے تو رہے
تجھ سے نازک مری نظروں میں سماتے بھی نہیں
دیکھتے ہی مجھے محفل میں یہ ارشاد ہوا
کون بیٹھا ہے اسے لوگ اٹھاتے بھی نہیں
ہو چکا قطع تعلق تو جفائیں کیوں ہوں
جن کو مطلب نہیں رہتا وہ ستاتے بھی نہیں
زیست سے تنگ ہو اے داغ تو کیوں جیتے ہو؟
جان پیاری بھی نہیں، جان سے جاتے بھی نہیں
داغ دہلوی

ہجر میں کرنا ہے کیا یہ تو بتاتے جائیے

جون ایلیا ۔ غزل نمبر 236
ہجر کی آنکھوں سے آنکھیں ملاتے جائیے
ہجر میں کرنا ہے کیا یہ تو بتاتے جائیے
بن کے خوشبو کی اداسی رہیے دل کے باغ میں
دور ہوتے جائیے نزدیک آتے جائیے
جاتے جاتے آپ اتنا کام تو کیجیے مرا
یاد کا سر و ساماں جلاتے جائیے
رہ گئی امید تو برباد ہو جاؤں گا میں
جائیے تو پھر مجھے سچ مچ بھلاتے جائیے
زندگی کی انجمن کا بس یہی دستور ہے
بڑھ کے ملیے اور مل کر دور جاتے جائیے
آخری رشتہ تو ہم میں اک خوشی اک غم کا تھا
مسکراتے جائیے آنسو بہاتے جائیے
وہ گلی ہے اک شرابی چشم کافر کی گلی
اس گلی میں جائیے تو لرکھڑاتے جائیے
آپ کو جب مجھ سے شکوا ہی نہیں کوئی تو پھر
آگ ہی دل میں لگانی ہے لگاتے جائیے
کوچ ہے خوابوں سے تعبیروں کی سمتوں میں تو پھر
جائیے پر دم بہ دم برباد جاتے جائیے
آپ کا مہمان ہوں میں آپ میرے میزبان
سو مجھے زہرِ مروت تو پلاتے جائیے
ہے سرِ شب اور مرے گھر میں نہیں کوئی چراغ
آگ تو اس گھر میں جانا نہ لگاتے جائیے
جون ایلیا

زخم کھاتے چلے گئے ہوں گے

جون ایلیا ۔ غزل نمبر 190
ہم جو گاتے چلے گئے ہوں گے
زخم کھاتے چلے گئے ہوں گے
تھا ستم بار بار کا ملنا
لوگ بھاتے چلے گئے ہوں گے
دور تک باغ اس کی یادوں کے
لہلہاتے چلے گئے ہوں گے
فکر اپنے شرابیوں کی نہ کر
لڑکھڑاتے چلے گئے ہوں گے
ہم خود آزار تھے سو لوگوں کو
آزماتے چلے گئے ہوں گے
ہم جو دنیا سے تنگ آئے ہیں
تنگ آتے چلے گئے ہوں گے
جون ایلیا

لوگ اب بھولتے جاتے ہیں مجھے

باقی صدیقی ۔ غزل نمبر 232
تیرے افسانے سناتے ہیں مجھے
لوگ اب بھولتے جاتے ہیں مجھے
قمقمے بزم طرب کے جاگے
رنگ کیا کیا نظر آتے ہیں مجھے
میں کسی بات کا پردہ ہوں کہ لوگ
تیری محفل سے اٹھاتے ہیں مجھے
زخم آئنہ بنے جاتے ہیں
حادثے سامنے لاتے ہیں مجھے
نیند بھی ایک ادا ہے تیری
رات بھر خواب جگاتے ہیں مجھے
تیرے کوچے سے گزرنے والے
کتنے اونچے نظر آتے ہیں مجھے
ان کے بگڑے ہوئے تیور باقیؔ
زیست کی یاد دلاتے ہیں مجھے
باقی صدیقی

کوئی دیکھے تو نظر آتے ہیں

باقی صدیقی ۔ غزل نمبر 123
اپنے زخموں میں چھپے جاتے ہیں
کوئی دیکھے تو نظر آتے ہیں
رنگ تصویر میں بھرنے والے
پس تصویر ہوئے جاتے ہیں
تیرے ارماں میں کہ اندوہ جہاں
دل میں کچھ سائے سے لہراتے ہیں
دھیان غربت کی طرف جاتا ہے
یاد ارباب وطن آتے ہیں
یہ غم دل، یہ شب تنہائی
سوچتے سوچتے سو جاتے ہیں
جب قدم رکھتے ہیں گھر میں باقیؔ
سینکڑوں حادثے یاد آتے ہیں
باقی صدیقی

گلشن میں کیوں یاد بگولے آتے ہیں

باقی صدیقی ۔ غزل نمبر 120
کیا ذروں کا جوش صبا نے چھین لیا
گلشن میں کیوں یاد بگولے آتے ہیں
دنیا نے ہر بات میں کیا کیا رنگ بھرے
ہم سادہ اوراق الٹتے جاتے ہیں
دل ناداں ہے شاید راہ پہ آ جائے
تم بھی سمجھاؤ ہم بھی سمجھاتے ہیں
تم بھی الٹی الٹی باتیں پوچھتے ہو
ہم بھی کیسی کیسی قسمیں کھاتے ہیں
بیٹھ کے روئیں کس کو فرصت ہے باقیؔ
بولے بسرے قصے تو یاد آتے ہیں
باقی صدیقی

اپنی دیواروں سے ٹکراتے ہیں ہم

باقی صدیقی ۔ غزل نمبر 82
وہ اندھیرا ہے جدھر جاتے ہیں ہم
اپنی دیواروں سے ٹکراتے ہیں ہم
کاٹتے ہیں رات جانے کس طرح
صبح دم گھر سے نکل آتے ہیں ہم
بند کمرے میں سکوں ملنے لگا
جب ہوا چلتی ہے گھبراتے ہیں ہم
ہائے وہ باتیں جو کہہ سکتے نہیں
اور تنہائی میں دہراتے ہیں ہم
زندگی کی کشمکش باقیؔ نہ پوچھ
نیند جب آتی ہے سو جاتے ہیں ہم
باقی صدیقی